ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

قرآن ہمارا دستورِ حیات – بتول اپریل ۲۰۲۳

القرآن دستورنا

قرآن کریم آسمان والے کی جانب سے زمین والوں کے لیے عظیم تحفہ ہے۔یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے، یہ ذکرِ حکیم اور صراط المستقیم ہے۔اس سے عقل میں ٹیڑھ نہیں آتی اور نہ ہی زبان کسی التباس کا شکار ہوتی ہے۔علماء اس سے سیر نہیں ہوتے اورنہ ہی اس کے عجائب ختم ہوتے ہیں۔ یہ مضبوط ومتین کلام ہے محض ہنسی مذاق نہیں۔
انسان کی دنیا وآخرت کی حقیقی فلاح کا واحد ذریعہ اللہ کے بتائے ہوئے دستور ِ حیات کی پیروی ہے۔قرآن کے سائے میں زندگی بسر کرنا ایک نعمتِ عظمیٰ ہے۔اس کی شان اور لذت وہی جانتا ہے جو اس سے لطف اندوز ہؤا ہو۔ اس سے زندگی کتنی بابرکت ہو جاتی ہے، اس کی شان کس قدر بلند ہو جاتی ہے، اور اسے باطل سوچ اور نظریات اور فاسقانہ اعمال سے کس قدر دور کر دیتی ہے، اور اسے کس قدر پاک اور اور ہر گندگی اور نجاست سے آزاد بنا دیتی ہے، اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جس نے اس کا تجربہ کیا ہو۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے ایک ہی ضابطہء حیات بنایا ہے تاکہ وہ ہر معاشرے میں چلے۔انسانی ترقی کے ہر مرحلے میں اور بنی نوع انسان کے ذہنی ارتقا کے مختلف حالات میں سے ہر حال میں نافذ اور قابلِ عمل ہو۔یہ نظام زندگی اس انسان کے لیے بنایا گیا ہے جو کرہء ارض پر زندگی بسر کر رہا ہے۔اس نظام میں اس کی فطرت اور اس کی قوتوں اور قابلیتوں اور اس کے حالات اور کمزوریوں اور ہر دم بدلنے والے حالات کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔یہ افراد کو بھی مخاطب کرتا ہے اور گروہوں اور قوموں کو بھی! یہ قرآن جو راہ دکھاتا ہے وہ ایک طویل المیعاد چلنے والی راہ ہے۔اور جو اس راہ کو اختیار کرتا ہے وہ اسے سیدھا باری تعالیٰ تک پہنچاتی ہے۔
قرآن ِ کریم کے مطالعے سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اللہ کی جانب جانے کا راستہ صرف ایک ہی ہے۔جس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، اور وہ راستہ ہے کہ ہم اپنی پوری زندگی کو اسلامی نظامِ حیات کے مطابق تبدیل کر دیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہی کتاب میں نازل فرمایا ہے۔اور اسے تمام انسانوں کے لیے اتارا ہے۔اس طرح کہ بندے اس قرآن کو اپنے لیے ’’حکم‘‘ بنائیں۔اور اپنی زندگی کے تمام حالات وقضیات کے لیے اسی سے فیصلے کروائیں۔اگر لوگ قرآن کو اپنا دستورِ حیات نہیں بناتے تو ہر جانب فساد ہی فساد ہو گا۔لوگوں کے لیے بدنصیبی مقدر ہو گی، ہر جانب جاہلیت کا دور دورہ ہو گا۔جو اللہ کے بجائے ہوائے نفس کی بندگی ہو گی۔ارشاد باری ہے:
’’ اگر وہ تمہاری بات نہیں مانتے تو جان لو کہ یہ اصل میں اپنی خواہشات کے پیرو ہیں۔ اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو گا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے۔ اللہ ایسے ظالموں کو ہرگز نہیں بخشتا‘‘۔ (القصص،۵۰)
ہر دور میں الہامی ہدایت ہی دستورِ عمل
آدمؑ کو دنیا میں اتارتے ہوئے جو ہدایات دی تھیں، ان میں بیان کر دیا تھا کہ نسلِ آدم کے لیے اللہ کی ہدایات پر عمل ہی اس کی کامیابی کا ضامن ہے، ارشاد ہؤا:
’’ہم نے کہا کہ ’’تم سب یہاں سے اتر جاؤ۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہو گا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے، اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ (البقرۃ،۳۸۔۳۹)
یہ انسانوں کی اللہ کے ساتھ معاہدہء خلافت کی بنیاد ہے، کہ یہ

معاہدہ ربانی ہدایت پر قائم ہے۔ اس کی اہم شرط یہ ہے کہ انسان اسلامی نظامِ حیات کے مطابق زندگی بسر کرے گا۔ اس معاہدے کے بعد پوزیشن یہ ہو جاتی ہے کہ انسان ایک ذی ارادہ مخلوق کی حیثیت سے ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف اسے خدا پکار رہا ہے اور وہ سن رہا ہے۔ اگر وہ فیصلہ کرتا ہے تو صراطِ مستقیم پر چل پڑتا ہے۔دوسری جانب اسے شیطان پکار رہا ہے اب اس کا اختیار ہے کہ وہ ضلالت اور گمراہی اور باطل کو اختیار کرتا ہے یا حق کو۔(فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے الہامی رہنمائی اسی لیے بھیجی کہ وہ اسے دستورِ حیات بنائے اور اس کے مطابق عمل کرے۔فرمایا:
’’ہم نے تورات اتاری، اس میں ہدایت اور روشنی تھی۔سارے نبی جو مسلم تھے اسی کے مطابق ان یہودی بن جانے والوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے۔ ۔ جو لوگ اللہ کے ازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں‘‘۔ (المائدۃ،۴۴)
اللہ تعالیٰ نے رہنمائی اسی لیے بھیجی وہ نظامِ زندگی بنے اور لوگوں کی عملی زندگی کا وہ نظام ہو۔جو شخص اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ اللہ کے حقِ حاکمیت کا انکار کرتا ہے۔اللہ کی حاکمیت کا براہ ِ تقاضا ہے کہ اس کی شریعت ماخذِ قانون ہو۔(فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
’’پس اے محمدؐ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون (قرآن) کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنے میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرّہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو خدا نے تمہاری طرف نازل کی ہے‘‘۔ (المائدۃ،۴۹)
یہ بہت ہی شدید تنبیہ ہے۔ یہ صورتِ حال کی حقیقی تصویر کشی ہے اس لیے کہ یہ ایک عظیم فتنہ ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اس سے خبردار رہیں اور تمام فیصلے اللہ کی شریعت کے مطابق کریں۔ اگر مکمل شریعت نہ ہو گی تو مکمل خواہش پرستی ہو گی جس سیاللہ تعالیٰ ڈراتے ہیں۔
اللہ کا قانون دائمی ہے
قانون الٰہی کے نظریے پر ایک شبہ یہ پیش ہوتا ہے کہ دنیا کے حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں اس لیے انسانی معاشرت کے خاکے بھی بدلتے رہتے ہیں اور بدلتے رہیں گے اس لیے قانون کو بھی بدلتے رہنا چاہیے، مگر یہ خیال سراسر فریب ہے، کیونکہ شے نہیں بدلتی، اس کے رنگ، شکل اور پہلو بدلتے رہتے ہیں۔ جس طرح مادیات کے اصول ِ طبعی کبھی نہیں بدلتے(الا ما شاء اللہ) گرم چیز ہمیشہ گرم رہتی ہے اور ٹھنڈی ٹھنڈی! آگ برف نہیں بنتی، برف آگ نہیں، روشنی تاریکی نہیں اور تاریکی روشنی نہیں، زمانہ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے، رات اور دن پے در پے آتے جاتے رہتے ہیں، گھنٹے گھڑی پلک اور لمحے دم بدم بدل رہے ہیں، سال پر سال آتے ہیں مگر چاند اور سورج وہی ہیں، ان کی چال اور گردش وہی ہے اور ان کے قاعدے اور قانون وہی ہیں۔ جو طبعی قانون آج سے ہزار برس پہلے آب و گل کی دنیا پر حکمران تھاآج بھی وہی ہے، یعنی خدا کی بات جہاں تھی وہیں رہی۔ ’’تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے‘‘۔ (الفتح،۲۳)(سیرت النبیؐ،ج۷،ص۵)
مکمل دستور
قرآن کے سوا کسی اور صحیفہ نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ مکمل ہے اور اس کے ذریعے سے دینِ الٰہی اپنے تمام اصول و فروع کے لحاظ سے تکمیل کو پہنچ گیا، بلکہ گزشتہ مذاہب میں سے ہر ایک نے اپنے وقت میں یہی کہا کہ اس بعد ایک اور نبوت آئے گی جو اس کے کام کی تکمیل کرے گی۔
اور آخر زمانہء نبوت میں وحیِ الٰہی کی زبان سے یہ اعلان ِ عام کیا گیا:
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے‘‘۔ (المائدۃ،۳)
اس کا مطلب ہے کہ منصوبہ رسالت اپنے آخری مراحل کو پہنچ گیا ہے اور اس طرح لوگوں پر اللہ کا فضل وکرم مکمل ہو گیا ہے۔اوراللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو اس قدر مکمل شریعت عطا کی ہے جس میں زندگی کے ہر پہلو کے مسائل کا حل موجود ہے۔ ہر زمان و مکان میں یہ شریعت یوں نظر

آتی ہے جیسے ابھی نازل ہوئی ہو۔ اس شریعت میں ایسے ضوابط اور احکام صراحت سے مذکور ہیں جو کبھی بدلتے نہیں ہیں۔ یہ آخری رسالت اور دستور قیامت تک کے لیے ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ ہی اعلان فرما دیا کہ تمہارا نظریہء حیات مکمل ہو گیا ہے اور اللہ کے ہاں صرف یہی قابلِ قبول ہے۔(فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
قرآن کے مطابق فیصلہ
قرآن مجید اہلِ ایمان کے لیے معیارِ فیصلہ اور سرچشمہ قانون ہے، ارشاد الٰہی ہے:
’’اے نبیؐ! ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمھاری طرف نازل کی ہے، تاکہ جو راہِ راست اللہ نے دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو‘‘۔ (النساء،۱۰۵)
باہمی اختلاف کا فیصلہ بھی قرآن ہی کرے گا، ارشاد ہے:
’’تمھارے درمیان جس فیصلے میں بھی اختلاف ہو، اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے‘‘۔ (الشوری،۱۰)
جب بادشاہت اور ولایت اللہ کی ہے تو لا محالہ پھر حاکم بھی وہی ہے، اور انسانوں کے باہمی تنازعات کا فیصلہ کرنا بھی اسی کا کام ہے۔ وہ مالک یوم الدین بھی ہے اور اس دنیا کا احکم الحاکمین بھی! انسان کے لیے پاک کیا ہے اور ناپاک کیا، جائز اور حلال کیا ہے اور حرام و مکروہ کیا، اخلاق میں بدی و زشتی کیا ہے اور نیکی و خوبی کیا، معاملات میں کس کا کیا حق ہے اور کیا نہیں ہے، معاشرت اور تمدن اور سیاست اور معیشت میں کیا طریقے درست ہیں اور کون سے غلط۔ اسی بنیاد پر قرآن میں یہ بات اصولِ قانون کے طور پر ثبت کی گئی ہے کہ: ’’اگر تمھارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو‘‘۔ (النساء،۵۹)
یعنی انسانوں کی زندگی پر حاکمیت کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے، چاہے کوئی ظاہری امر ہو یا پوشیدہ، چاہے بڑا معاملہ ہو یا چھوٹا۔ ان معاملات میں اللہ نے شریعت کا حکم مقرر فرمایا ہے۔آپؐ کی سب باتیں بھی وحی پر مبنی ہیں یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے جو قوانین بنائے وہ بھی اللہ کے قوانین ہیں۔
قرآنی دستور کی پابندی کا فائدہ یہ ہے کہ اس نظام کے زیرِ سایہ جن لوگوں کو زندگی بسر کرنے کا موقع ملتا ہے وہ خوش و خرم زندگی بسر کرتے ہیں کیونکہ یہ ایسا نظام ہے جسے اللہ نے بنایا ہے۔ وہ صانع، حکیم، علیم، خبیر اور بصیر ہے۔ اور یہ ایسا نظام ہے جو جہالتوں سے پاک ہے، جو انسان کی خواہشات سے پاک ہے اور انسان کے نقائص سے پاک ہے۔ جس میں کسی فرد کے ساتھ کوئی خصوصی برتاؤ نہیں کیا گیا، نہ کسی طبقے نہ کسی قوم نہ کسی نسل اور نہ کسی خاص قبیلے کی رو رعایت اس میں ملحوظ رکھی گئی ہے، اس لیے کہ اللہ تمام لوگوں کا رب ہے۔
یہ ایک ایسا نظام ہے جس کا بنانے والا پوری کائنات کا بنانے والا ہے، جو انسان کی فطرت کی ماہیت سے واقف ہے۔ وہ انسان کے نفس کے رجحانات ومیلانات سے بھی واقف ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ سے کسی معاملے میں کوئی غلطی نہیں ہو سکتی۔
اس نظام کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ انسانیت کی ہدایت اور حمایت کے ساتھ یہ اس کا اکرام اور احترام بھی کرتا ہے۔ اس میں انسانی عقل کے لیے ایک وسیع دائرہ رکھا گیا ہے۔ اور اس میں قرآن وسنت کی نصوص و ہدایات کے اندر تشریح و اجتہاد کی گنجائش موجود ہے۔(فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن تشریح اور مسائل میں اجتہاد کرتے ہوئے شارح اور مجتہد قرآن کے بتائے ہوئے حلت و حرمت کے معیار کو اساس بنائے، جو اعتدال اور توازن پر مبنی ہے۔پس وہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہ بنائے۔اسلام کا قاعدہ یہ ہے کہ اصلاًاللہ کی پیدا کردہ تمام اشیاء حلال ہیں، حرام صرف وہ ہے جن کی حرمت کے بارے میں صحیح اور صریح نص وارد ہوئی ہو۔
حدیث میں ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جس کو حلال ٹھہرایا ،وہ حلال ہے اور جس کو حرام ٹھہرایا، وہ حرام ہے۔اور جن کے بارے میں سکوت فرمایا وہ معاف ہیں۔ لہٰذا اللہ کی اس فیاضی کو قبول کرو، کیونکہ اللہ سے بھول چوک کا صدور نہیں ہوتا۔پھر آپؐ نے سورہ مریم کی آیت (اللہ سے کبھی بھول سرزد

نہیں ہوتی) تلاوت فرمائی‘‘۔(مریم،۶۴) (مستدرک حاکم،۲۔۳۷۵)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اس نے وہ چیزیں تفصیل سے بیان کر دی ہیں جو تم پر حرام ٹھہرائی ہیں‘‘۔ (الانعام،۱۱۹)
شریعت کے مطابق مسلم معاشرے میں تمام معاملات کی بنیاد حسنِ ظن پر ہوگی۔سوء ظن صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب اس کے لیے کوئی ثبوتی و ایجابی بنیاد ہو۔ اصول یہ ہے کہ ہر شخص بے گناہ ہے جب تک اس کے مجرم ہونے یا اس پر جرم کا شبہ کرنے کے لیے کوئی معقول وجہ موجود نہ ہو۔ اور ہر شخص سچا ہے جب تک اس کے ساقط الاعتبار ہونے کی کوئی دلیل نہ ہو۔ (تفہیم القرآن، ج۳،ص۳۷۰)
حرام کے راستے میں رکاوٹ
قرآن انسانوں کے لیے بہترین شریعت ہے۔ ایسی شریعت جو کسی برائی کو محض حرام کر دینے اور اسے جرم قرار د ے کر اس کی سزا مقرر کر دینے پر اکتفا نہیں کرتی، بلکہ وہ ان اسباب کا بھی خاتمہ کر دینے کی فکر کرتی ہے جو کسی شخص کو برائی میں مبتلا ہونے پر اکساتے ہوں، یا اس کے لیے مواقع بہم پہنچاتے ہوں، یا اس پر مجبور کر دیتے ہوں۔نیز شریعت جرم کے ساتھ اسبابِ جرم، محرکاتِ جرم اور رسائل و ذرائع جرم پر بھی پابندیاں لگاتی ہے، تاکہ آدمی کو اصل جرم کی عین سرحد پر پہنچنے سے پہلے کافی فاصلے ہی پر روک دیا جائے۔ وہ اسے پسند نہیں کرتی کہ لوگ ہر وقت جرم کی سرحدوں پر ٹہلتے رہیں اور روز پکڑے جائیں اور سزا پائیں۔ شریعتِ الٰہی صرف محتسب ہی نہیںہے بلکہ ہمدرد، مصلح اور مددگار بھی ہے۔اس لیے وہ تمام تعلیمی، اخلاقی اور معاشرتی تدابیر اس غرض کے لیے استعمال کرتی ہے کہ لوگوں کو برائیوں سے بچنے میں مدد دی جائے۔ (تفہیم القرآن، ج۳، ص۳۷۵)
قرآن ہمارا دستورِ زندگی
اللہ کی کتاب قیامت تک انسانوں کو راہِ راست پر قائم رکھنے کا ذریعہ ہے، اور اس سے استفادے اور اس کی روح کو جاننے اور اسکے اجمال کی تفصیل سنت(رسول اللہ ﷺ) کے طریقے سے ملتی ہے۔ اعتقادات، اعمال، اخلاق اور جذبات وغیرہ میں انسانوں کو جس مثبت یامنفی ہدایت (امر بالمعروف ونھی عن المنکر) کی ضرورت ہے ، کتاب و سنت اس کی کفایت کرتے ہیں۔قرآن کریم کے بارے ہمیں جان لینا چاہیے:
۔ ہماری زندگیاں بے مقصد رہیں گی اور تباہ ہو جائیں گی اگر انھیں اللہ کے کلام؛ قرآنِ کریم کی رہنمائی میں نہ گزارا۔
۔قرآن اللہ حیی وقیوم کی تا ابد ہدایت کی حیثیت سے آج بھی ہماری زندگی سے اتنا ہی متعلق ہے جتنا چودہ صدیاں قبل تھا ۔ اور ہمیشہ رہے گا۔
۔ قرآن کی برکات کسی نہ کسی مفہوم میں، اور کسی نہ کسی مقدار میں، آج بھی ہمیں حاصل ہونے کا حق ہونا چاہیے، جس طرح اس کے اولین مخاطبین کو حاصل ہوئیں۔ اس شرط کے ساتھ کہ ہم اس کی طرف آئیں اور اس کے اندر سفر کریں کہ اس کی قیمتی فصل میں حصّہ پانے کا ہمیں واقعی استحقاق حاصل ہو۔
۔ہمارا فرض ہے کہ ہم قرآن کریم کی تلاوت، اسے یاد کرنے، اور سمجھنے کے لیے دل کی رغبت اور شوق سے وقت دیں۔
۔قرآن جو کچھ کہہ رہا ہے ہم اپنے قول اور فعل اور ہر لحاظ سے اس کے سامنے سپرانداز ہو جائیں۔ اپنی بڑائی کا احساس، اپنی طبیعت کی خود سری کی کیفیت، کوئی تحفظ یاایسی جدت جس سے اس کا غلط مفہوم نکلے، قرآن کا فہم حاصل کرنے کی کوششوںکے لیے سمِّ قاتل ہے۔ اس طرح اس کی برکات کا دروازہ بند ہو جائے گا۔
۔ قرآن کا راستہ، اپنے آپ کو اس کے آگے ڈال دینے کا، اور جو وہ بتائے اس پر عمل کرنے کا راستہ ہے، خواہ کسی نے ایک آیت ہی سیکھی ہو۔ایک آیت جسے سیکھ کر اس پر عمل کیا جائے، ایسی ہزار آیات سے بہتر ہے جن کی خوبصورتی سے وضاحت کی گئی ہو، لیکن اس نے آپ کی زندگی کو کوئی حسن عطا نہ کیا ہو۔ درحقیقت فہمِ قرآن کی شاہِ کلید، اطاعت و فرماں برداری ہے۔ (قرآن کا راستہ، خرم مراد،ص۱۵۔۱۶)

قرآن سے نصیحت
قرآن سے روگردانی اور اس سے غفلت بہت بڑی کوتاہی ہے، جن لوگوں نے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے اور جنھیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا کیے ہوئے ہے ، ان کے لیے بھی نصیحت اور تنبیہ ضروری ہے، ارشاد ہے:
’’اے محمدؐ! جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری آیات پر نکتہ چینیاں کر رہے ہیں تو ان کے پاس سے ہٹ جاؤ، یہاں تک کہ وہ اس گفتگو کو چھوڑ کر دوسری باتوں میں لگ جائیں۔چھوڑ دو ان لوگوں کو جنھوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور جنھیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ ہاں، مگر یہ قرآن سنا کر نصیحت اور تنبیہ کرتے رہو کہ کہیں کوئی شخص اپنے کیے کرتوتوں کے وبال میں گرفتار نہ ہو جائے، اور گرفتار بھی اس حال میں ہو کہ اللہ سے بچانے والا کوئی حامی و مدد گار اور کوئی سفارشی اس کے لیے نہ ہو، اور اگر وہ ہر ممکن چیز فدیے میں دے کر چھوٹنا چاہے تو وہ بھی اس سے قبول نہ کی جائے ‘‘۔ (الانعام،۶۸۔۷۰)
ان آیات میں دو حکم ہیں ایک تو یہ کہ دین اور اسلامی نظام کے ساتھ ٹھٹھا کرنے والوں سے قطع تعلق کر لیں، اور ہر مسلمان ان لوگوں سے دور رہے ماسوا تبلیغی مقاصد کے۔اور پیغمبر کو بھی ہدایت ہے کہ انہیں نظر انداز کرتے ہوئے بھی انہیں یاد دہانی کرواتے جائیں۔ انہیں ڈراتے رہیں کہ جو برائیاں وہ سمیٹ رہے ہیں ان کا وبال ان کی جان پر ہو گا۔ ایک وقت آنے والا ہے جب وہ اللہ سے ملیں گے اور اللہ کے سوا ان کا کوئی مددگار نہ ہو گا جو کچھ بھی تعاون کر سکے۔
قرآن کا اتمامِ حجت
قرآن بڑے واضح الفاظ میں اتمام ِ حجت کرتا ہے:
’’اور یہ کتاب ہم نے نازل کی ہے، ایک برکت والی کتاب۔ پس تم اس کی پیروی کرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو، بعید نہیں کہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔ (الانعام،۱۵۵)
یہاں لفظ مبارک اسلامی نظریہ حیات اور اس کی شمولیت اور ہمہ گیری کی بحث کے ضمن میں آیا ہے۔ یعنی یہ کتاب ایک شرعی نظام پر مشتمل ہے۔حکم دیا جا رہا ہے کہ تم اس شرعی نظام کی پیروی کرو اور تم پر اللہ کی رحمت صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ تم اس کتاب کا اتباع کرو۔اب تمہارے لیے کوئی وجہِ معذرت باقی نہیں ہے اور نہ کوئی حجت باقی ہے۔ یہ کتاب نازل ہوئی اور اس نے تمام حجتوں اور دلائل کو منسوخ و باطل کر دیا ہے۔ اس کتاب میں زندگی کے تمام امور کی تفصیل موجود ہے، زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس کے بارے میں اس میں ہدایات نہ ہوں کہ تم خود اپنے لیے قانون بنانے کے محتاج ہو۔
قرآن جہان والوں کے لیے
قرآن کی دعوت ابتدا ہی سے عالمی تھی، فرمایا:
’’یہ تو سارے جہان والوں کے لیے ایک نصیحت ہے‘‘۔ (القلم،۵۲)
قرآن کی دعوت پہلے دن ہی سے عالمی تھی۔ یہ تمام جہان والوں کے لیے نصیحت تھا اور ہے اور قیامت تک رہے گا۔ یہ دعوت زمانہء آخر تک اسی طرح رہے گی۔یہ اللہ کا ارادہ ہے۔ یہ اس کی دعوت ہے اور وہی اس کا محافظ ہے۔وہ اس کا حامی وناصر ہے، وہ اس کی جانب سے لڑنے والا ہے۔اس کے حاملین (امتِ مسلمہ) کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اس پر جم جائیں۔وہ سب سے اچھے فیصلے کرنے والا ہے۔ قرآن کی دعوت لے کر اٹھنے والوں کو پوری دنیا پر غالب کرنا اللہ کا کام ہے اور یہ اس کا وعدہ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قرآن سے اپنا تعلق مضبوط بنائیں، اس کا اوامر کی پابندی کریں اور منھیات سے دور رہیں۔ اس عظیم نعمت پر اللہ کا شکر ادا کریں اور اسے دنیا میں غالب کرنے کے لیے کھڑے ہو جائیں۔
٭٭٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x