ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ابتدا تیرے نام سے – بتول اپریل ۲۰۲۳

قارئینِ کرام سلام مسنون
آپ سب کو عید الفطر مبارک۔خدا سب اہل وطن اور اہلِ امت کو عافیت اورخوشیوں کی عید دکھائے، رمضان المبارک میں کی گئی محنتیں اور دعائیں قبول و منظور فرمائے آمین۔ مارچ میں پہلے غیر متوقع گرمی کی لہر نے ڈرا کر رکھ دیااور پھر خوشگوار موسم کی واپسی ہوئی تو شدید بارش اور ژالہ باری کے ساتھ۔ کھڑی فصلوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ روزہ داروں کی خوشی کے لیےآغاز کے روزے ٹھنڈے رہے۔ رمضان کا مہینہ تقویم پر گردش کرتا موسم سرما کی سرحد تک آن پہنچا ہے، روزوں کی طوالت اور حدت دم توڑ گئی ہےاورآنے والے سالوں میں خوشگوار روزے منتظر ہیں۔البتہ حج کے دن ابھی کچھ سال شدید گرمی دیکھیں گے۔
ملک کا منظر نامہ حسبِ سابق امکانات، اندیشوں اور بحرانوں سے عبارت ہے۔ آئینی بحران اب عدلیہ کے بحران تک آپہنچا ہے۔ ہر ادارہ اخلاقی زوال کی انتہا پہ ہے۔امانت و دیانت، سچ اور اصول پرستی، ثابت قدمی اور کردار کی مضبوطی، باضمیر ہونا، نہ جانے یہ مثالیں کہیں ہیں بھی کہ نہیں، نجانے کوئی باکردار بچا بھی ہے کہ نہیں۔شہر جاناں میں اب باصفا کون ہے! دل گہری مایوسی کی دلدل میں گرنا چاہتا ہے مگر پھرایک خیال حوصلہ دیتا ہے کہ ۲۷ رمضان المبارک کو وجود میں آنے والا یہ خطہِ زمیں اللہ نے ایسے ہی نہیں دیا۔خدا کو اس کا قائم رہنا مقصود ہے، بس یہ ہم میں سے ہر ایک کا امتحان ہے کہ اچھے برے بدتر اور بدترین حالات میں میرا کیا کردار رہا۔ ابھی جبکہ ہم اہلِ ترکیہ کی غم خواری میں مصروف تھے ، زلزلہ ہمارے ہاں بھی بڑی شدت کاآیا مگر یہ اللہ کا بے حد کرم ہے کہ اس نے ہمیں بچا لیاورنہ سیلاب کے بعد ایک اور قدرتی آفت کیا حال کرتی۔ خلوص اور بےغرضی ارباب اختیار میں نہ سہی معاشرے میں وافر پائی جاتی ہے۔ سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے ان گنت تنظیمیں بے لوث کام کررہی ہیں۔ سوشل اور ڈیویلپ منٹ سیکٹر میں ہمارے ہاں اللہ کے فضل سے بے انتہا خیر موجود ہے۔یہ خیر یکجا ہوکر ایک قوت بننے کی دیر ہے کہ حالات بدلتے دیر نہیں لگے گی ان شا ء اللہ۔آٹا لینے کے لیے قطاروں میں لگنے والے کئی افرادانتظار اوردھکم پیل کے باعث جاں بحق ہوئے ہیں۔ووٹ لینے کے لیےعوام کو کسی نے سستی روٹی تو کسی نے سستے آٹے کے پیچھے لگایا مگر یہی عوام با شعور ہوجائیں تو کوئی ان کے اپنے ملک میں انہیں یوں مانگنے پر مجبور نہ کرسکے،نہ ہی جمہوریت کے نام پر ان کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرسکے۔ اس وقت ہر ذی ہوش کا مطالبہ ہے کہ جلد از جلد ملک میں عام انتخابات کروائے جائیں ۔کہیں نگران سیٹ اپ تو کہیں آدھے ادھورے ایوان، ایسے کیسے ملک چل سکتاہے۔ یہی وجہ ہے معیشت زوال کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔بجلی پٹرول گیس کے نرخ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ مگر افسوس کہ ضد اور اناؤں کی جنگ میں عوام کا پرسانِ حال کوئی نہیں۔آئی ایم ایف کے ضمن میں نیوکلیئر پروگرام کا لفظ ہمارے کرم فرما خود ہی زبان پر لے آئے ہیں۔
اب صورت حال یہ ہے کہ حالات کو بند گلی میں پہنچانے کے امکانات نظر آرہے ہیں۔انصاف کی بساط پہلے ہی لپیٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ عدلیہ کے اختیارات کو محدود کردیا گیا ہے۔جبر، زور زبردستی کا راج ہے۔انتخابات نہ ہوئے توآگے کیا ہو سکتا ہے، اس کے لیے اختیارات اور قوت کی رسہ کشی میں ہمارے سامنے ترکیہ کا ماڈل بھی ہے اور مصر کا بھی۔ جبر، ظلم وتشدداور زباں بندی کی مثال مصر ہے جہاں بالآخر جمہوری بساط لپیٹ دی گئی، گلی کوچوں

میں بھرے ہوئے عوام کے جم غفیر طاقت کے سامنے کچھ بھی نہ کرسکے۔جبکہ ترکیہ میں شاید یورپ کا حصہ ہونے کی وجہ سے طاقت کا استعمال اتنا آسان نہ تھا لہٰذا وہاں عوام کا احتجاج حاوی ہؤا اور طاقت کو پسپا ہونا پڑا۔پاکستان میں عالمی طاقتوں کی منصوبہ بندی کیا ہے، اس سے قطع نظر عوامی شعور کی بیداری حالات کے سلجھاؤ میں نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہے۔
انشاء اللہ جون میں بتول کا خاص شمارہ خدمت گار/مددگار نمبر کے عنوان سےشائع ہو گا۔بتول کے مستقل قلمی معاونین کے علاوہ جو لو گ کبھی کبھار لکھتے ہیں یا جنہوں نے کبھی نہیں لکھا، سب کو اس موضوع پر لکھنے کی دعوت ہے۔اس میں وہ تمام مددگاراور ملازمین شامل ہیں جو گھروں، اداروں اور دفتروں میں ہماری زندگی میں آسانیاں پیدا کرتے ہیں، ان سے معاملہ کرنے میں جو مسائل پیش آتے ہیں، نت نئے تجربے ہوتے ہیں، جو سبق ہم سیکھتے ہیں، دلچسپ کردار جن سے سابقہ پیش آیا، حادثات و واقعات، سبھی کچھ اس ذیل میں لکھا جا سکتا ہے البتہ زبان و بیان ادبی ،دلچسپ اور رواں ہو۔ افسانہ، کہانی، خاکہ، مزاحیہ کالم،نقطہِ نظر، کوئی بھی شکل دی جا سکتی ہے۔ انتخاب بھی بھیج سکتے ہیں بشرطیکہ مکمل حوالے کے ساتھ ہو۔ آپ کی تحریریں یکم مئی تک ضرور ہمیں مل جانی چاہئیں۔ادارتی ای میل ایڈریس رسالے پر موجود ہے، رموز اوقاف کے ساتھ کمپوز کر کے اچھی طرح پڑھ لیں،غلطیاں درست کریں اور ای میل کردیں۔ ڈاک سے بھیجنا چاہیں تو فل سکیپ کاغذ کے ایک طرف گہرے قلم سے کھلا کھلا ایک سطر چھوڑ کر لکھیں اور مدیرہ کے پتے پر رجسٹرڈ ڈاک یا کوریئر سے بھیج دیں۔اشاعت کے لیےقلمی نام لکھ سکتے ہیں مگر ہمارے علم کے لیے اپنا مکمل نام اور شہرساتھ ضرور لکھیں۔ جون ایلیا کے ان اشعار کے ساتھ اجازت دیجیے بشرطِ زندگی اگلے ماہ تک۔

 

تیرے وصال کے لیے اپنے کمال کے لیے
حالت دل کہ تھی خراب اور خراب کی گئی
اس کی امیدِ ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجیے عمر گزار دی گئی
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
کہنی ہے مجھ کو ایک بات آپ سے یعنی آپ سے
آپ کے شہر وصل میں لذت ِہجر بھی گئی
اس کی گلی سے اٹھ کے میں آن پڑا تھا اپنے گھر
ایک گلی کی بات تھی اور گلی گلی گئی

 

دعاگو، طالبہ دعا
صائمہ اسما

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x