ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ابتدا تیرے نام سے – بتول جون ۲۰۲۳

قارئینِ کرام سلام مسنون!
حسبِ وعدہ جون میں مددگار نمبر حاضر ہے۔ اس موضوع پر ایک نمبر کی شکل میں توجہ دینے کا مقصد یہ تھا کہ ہماری زندگیوں کے اس اہم پہلو سے جڑے مسائل و معاملات پر بات کی جائے، اس کوہم قدرےمختلف زاویہ نظر سے دیکھنے کے قابل ہوسکیں، روزمرہ سے ہٹ کرمعاشرتی اور قانونی تناظر کی بڑی تصویرمیں رکھ کر دیکھیں، اور سب سے بڑھ کران معاملات میں دینی رہنمائی سے مستفید ہوں۔شمارے کے مندرجات پہ نظر ڈالیں تو کم وبیش یہ مقاصد پورے ہوتے نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر لکھنے والوں نے حقیقی کرداروں اور تجربوں پر لکھنے کو ترجیح دی ہے، اگرچہ افسانے کا کینوس بہت وسیع ہوتا ہے اور مہارت سے لکھاجائے تو حقیقت سے بڑھ کر متاثر کرنے کی صلاحیت اس صنفِ سخن میں موجود ہے۔تجربات زیادہ تر مثبت ہیں۔ یہ اچھی بات ہے،البتہ اجرت پر کام کرنے والوں کے ہاتھوں جو تلخ تجربات ہوتے ہیں ان سے سیکھ کر دوسروں کی رہنمائی کرنے کا پہلو تشنہ محسوس ہورہا ہے۔ینز مددگار یا خدمت گار کے ضمن میں گھریلو ماسیوں کے بارے میں تجربات کا پلّہ بھاری رہا ہے،شاید اکثریت خاتون لکھاریوں کی وجہ سے۔اس سے نظر آتا ہے کہ خاتون کی زندگی میں ان گھریلو مددگاروں کی اہمیت اور ان کا عمل دخل سب سے زیادہ ہےلہٰذا اس پہ کچھ مزیدبات یہاں ضروری ہے۔
ماسیوں میں سب نہیں تو اکثریت اس طبقے سے تعلق رکھتی ہےجو معاشی اعتبار سے خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے اور معاشرتی لحاظ سے پسا ہؤا،تعلیم وتربیت سے محروم بلکہ اکثر اوقات غربت اور جہالت کے ہاتھوں شرفِ انسانی سے بھی محروم ہے۔ جرائم اور نشے میں ڈوبی ہوئی ان کی زندگی کو ہم اپنی حساسیت کی سطح سے ڈیل کرتے ہیں تو کئی پریشان کن تجربات کا سامنا کرتے ہیں۔ پھر ہمارے طرزِ زندگی میں اس طبقے پر انحصار ایک ناگزیر معاملہ بن گیا ہے۔چونکہ یہ انتہائی پسا ہؤا طبقہ ہے لہٰذا ان کے ساتھ معاملات کسی معاہدے اور قانون کے تحت نہیں ہوتے حالانکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں گھریلو ملازمین کےلیے ایسے معاہدے موجود ہیں جو فریقین کودوطرفہ حقوق و فرائض کا پابند بناتے ہیں۔اگر ملازم رکھنے والے اپنی خوش حالی کے باعث طاقت ور اور بااختیار ہیں تو وہیں ان کا اس طبقے پر انحصار ملازمین کے ہاتھوں ان کے استحصالکا سبب بھی بنتا ہے۔ اسی لیے ملازم رکھتےہوئے حدیث میں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ ’’اے اللہ! تجھ سے اس کی خیر کا سوال ہے اور اس کی جبلت کی خیر کا اور تجھ سے اس کے شر سے پناہ کا سوال ہے اور اس کی جبلت کے شرسے پناہ کا ‘‘آمین (ابی داؤد)۔ دونوں طرف سے حق تلفی کا امکان موجود ہوتا ہے البتہ صاحبِ نعمت اورتعلیم یافتہ طبقے سے کھلے دل اور وسیع ظرف کی توقع زیادہ ہوتی ہے۔
امید ہے کہ یہ نمبر ان مشکل معاملات میں ہماری سوچ کے نئے در کھولنے میں مدد دے گااور عمل کے بہترین نکات بھی حاصل ہوں گےان شاء اللہ۔
ملکی حالات پہ کیا بات کریں جو اس قدر مایوس کن ہیں کہ وطن عزیز پر گزرے ہوئے سانحوں کی یاد، کسی انہونی کے تمام تر خدشات کے ساتھ زندہ ہو گئی ہے۔
9مئی کو جو کچھ ہؤا وہ ایک عظیم سانحہ تھا جو اس قوم پر گزرا ۔ پر امن احتجاج ہر شہری کا حق ہے لیکن سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا ، فوجی مراکز پر حملہ کرنا ،توڑ پھوڑ جلائو گھیرائو،قانون شکنی کسی بھی مہذب معاشرے میں قابل برداشت نہیں ہے۔ ان سارے واقعات میں کروڑوں روپے کی سرکاری املاک تلف ہوئیں اور قومی خزانے کو نقصا ن ہؤا ۔ایک اسلامی ملک کا قومی خزانہ بیت المال کی حیثیت رکھتا ہے اس میں خیانت کرنا یا اسے نقصان پہنچانا

کسی طرح بھی قابل معافی نہیں ہے ۔ یہ ملک کے ٹیکس دہندگان کا مال تھا جو تلف ہؤا ۔اور ٹیکس دہندگان صرف امیر لوگ ہی نہیں بلکہ با لواسطہ ٹیکسوں اور جی ایس ٹی کے ذریعے ملک کاغریب ترین شخص بھی ٹیکس ادا کرتا ہے۔
پھر ایک بات خاص طور پر محسوس کی گئی ہے کہ جب یہ سب کچھ ہورہا تھاتو اس وقت سرکار کی پولیس اور ایجنسیاں کہاں تھیں۔ حملہ آوروں کو بروقت کیوں نا روکا گیا۔اس سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ ان بلوائیو ں کو جان بوجھ کر موقع دیا گیا تاکہ اس کی آڑ میں مخالف سیاسی قوتوں کو کچلنے کا موقع مل جائے۔ پھر اس سانحہ کے دوران جس طرح عورتوں کی بے حرمتی کی گئی ان کو بازئووں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا لوگوں کو گھروں سے گرفتار کرتے ہوئے گھر کی عورتوں اور بزرگوں پر تشدد کرکے معافیاں منگوانا سیاسی رہنماؤں سے جبراًسیاست چھوڑنے کے بیانات دلوانا، حیرت ہے کہ ان واقعات پرمقامی یا بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں، عورت حقوق کے علمبرداروںیا جمہوریت کے فروغ کے فورمزیہاں تک کہ دینی جماعتوں نے بھی کوئی آواز نہیں اٹھائی۔
عدلیہ با اختیار نہ ہو اوردباؤکے ذریعے سیاسی کارکنوں پر دہشت گردی اور غدّاری کے لیبل لگائے جائیں ، پاکستان کی تاریخ میں جب بھی ایسا ہؤا اس کے نتائج بے حد خوفناک نکلے۔جبر کی یہ صورتحال تمام حقیقی سیاسی قوتوں کے لیے انتہائی بدقسمتی ہے۔دیکھا جائے تو یہ ان کی اپنی بقا کی جنگ ہے کیونکہ جمہوری تسلسل کے بغیر کسی سیاسی جماعت کے وجود کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اگر سیاسی جماعتیں آئین کی بالادستی، عدلیہ کے وقار، پارلیمان کے اعتباراور عوامی رائے کے احترام کے بنیادی ایجنڈے پر متفق ہوکر ایک پرامن تحریک نہیں چلاتیں تو خاکم بدہن پاکستان کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوں گے۔ عوام کا اعتماد اداروں سے اٹھ چکا ہے۔ ایسے میں سیاسی قوتیں ہی ہیں جو ان کی آواز بن سکتی ہیں۔اس کڑے وقت میںجو آگے بڑھ کر عوام کو ایک جمہوری مستقبل کی امید دے گا وہی آنے والے منظر نامے میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگاورنہ حالات بتارہے ہیں کہ جمہوریت سمیت پاکستان میں کسی کا کوئی مستقبل نہیں۔گوادر کے حالات اس بات کو مزید تقویت دے رہے ہیں جہاں گوادر کے عوام کی آواز مولانا ہدایت الرحمان کو رہا کردیا گیا مگر ساتھ ہی امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب کو ایک ناکام خودکش حملے میں ’’بچا‘‘ کر اہم پیغام دینے کی کوشش بھی کی گئی۔کراچی میں واضح عوامی رائے کے باوجود زورزبردستی کا راج ہے۔امن کی ضمانت صرف بے اصولی،حق تلفی،جھوٹ، فریب،ترغیب اور خوف کی اس فضا سے سمجھوتہ کرنے والوں کے لیے ہے۔ ایسے میں وہ حدیث ہمیں رہنمائی دیتی ہے جس میں حق کی گواہی دینے کی بجائے اپنے نماز روزے سے غرض رکھنے والے فرد سے عذاب کا آغاز کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔فیضؔ کے یہ اشعار بدقسمتی سے ایک بار پھر حسبِ حال ہیں:

 

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے

نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے

ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد

کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد

بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

 

اگلے ماہ تک اجازت دیجیے بشرطِ زندگی، دعاگو، طالبہ دعا

 

صائمہ اسما

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x