ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اے طائرِ لاہُوتی! – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

اللہ الخالق سے بڑھ کر اور کس کو علم ہو سکتا ہے کہ انسان کی بنیادی ضروریات کیا ہیں!
سیدنا آدم اور سیدہ حوا علیہما السلام کو اللہ رب العزت نے جنت میں داخل ہونے کا اذن فرمایا تو وہاں ان دونوں کے لیے جو نعمتیں تیار تھیں وہ بفراغت کھانا (روٹی) عمدہ لباس (کپڑا) اور رہنے کو جنت (مکان) تھی۔فرمایا سورہ طٰہٰ کی آیت ۱۱۸ میں:
’’یہاں (جنت میں) تو تمہیں یہ (نعمتیں) حاصل ہیں کہ نہ بھوکے رہتے ہو نہ ننگے‘‘۔
جب آدم و حوا دنیا میں اتارے گئے تو زمین ان کے لیے بطور مکان پہلے سے موجود تھی اور ہر نئے آنے والے انسان کی ضرورت اسی ترتیب سے منسلک ہے۔ہر بچے کے لیے ماں کا پیٹ اگر مکان تھا تو اس کی خوراک کا انتظام اسی مکان میں مہیا تھا البتہ ماں کے پیٹ سے جدا ہونے کے لیے کوئی جگہ بھی ضروری تھی جہاں وہ جنم لے سکے اور پھر فوری ضرورت کسی کپڑے کی تھی جس میں اس کا احساسِ تحفظ برقرار رہے اور انسانی فطرت کا پہلا استعارہ اس کے نام ہو جائے کیونکہ لباس ہی انسان اور جانور میں امتیازی نشان ہے۔
اس کے بعد دنیا میں آتے ہی اولادِ آدم پہ بھوک کا احساس غالب رہتا ہے۔ کھلے آسمان تلے رہا جا سکتا ہے اور ایک سادہ لباس سے گزارا بھی ممکن ہے لیکن خالی پیٹ کی طلب سب سے بڑی، ظالم اور سچی طلب ہے جو بے سروسامانی و بے لباسی بھُلا دیتی ہے اور کوڑے کے ڈھیر سے اپنی ضرورت پوری کرنے پہ مجبور کر دیتی ہے اس لیے کہ انسانی ضروریات میں مقدم پیٹ کی آگ بجھانا ہے۔ اس میں ایمان اور کفر کی تمیز نہیں ہے۔ حتیٰ کہ بھوک سے جان ختم ہونے کا خدشہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے حرام کھانے کی بھی گنجائش رکھ دی ہے۔ اسی مناسبت سے فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم ہے کہ بھوکے کو کھانا کھلانا سب سے بڑی عبادت ہے۔ کافر، مشرک، ملحد، مومن سب کے خالی پیٹ سے ایک ہی صدا آتی ہے اور اس صدا کو سننا اور اس کی طلب پوری کرنا پسندیدہ عمل ہے۔
قرآن و سنّت کی تعلیمات کے مطابق دنیاوی مال و متاع اور ضروریاتِ زندگی کے لیے بھاگ دوڑ اور کسبِ حلال کے لیے محنت ایک باعثِ اجر و ثواب عمل اور دینی و معاشرتی فریضہ ہے۔ چونکہ دنیا میں زندگی گزارنے کے حوالے سے دنیوی چیزوں کی ضرورت ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان چیزوں کو پیدا فرمایا بلکہ انہیں خوش نما بنا کر انسان کے دل میں ان کی محبت ڈال دی لہٰذا انسان کے دل میں ان چیزوں کی محبت کا ہونا ایک قدرتی بات اور فطری امر ہے، ان کا معین حدود کے مطابق پورا کرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔
اس لحاظ سے سورہ آل عمران کی آیت نمبر۱۴بہت اہمیت کی حامل ہے:
’’لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس، عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں، حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے، وہ تو اللہ کے پاس ہے‘‘۔
رسول صلی اللہ عليہ وسلم اللہ کا ارشاد پاک ہے:
’’اولادِ آدم کے لیے اس سے بہتر حق کوئی نہیں ہو سکتا کہ اس کے پاس رہنے کے لیے ایک مکان ہو اور کچھ کپڑا جس سے وہ اپنی ستر کو چھپا سکے اور کچھ روٹی اور کچھ پانی‘‘ (ترمذی باب الزھد، حدیث نمبر: 2341)
اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے انسان کی چار بنیادی ضروریات کا ذکر کیا ہے جو ان کو ملنی چاہئیں، پہلا مکان، دوسرا کپڑا تیسرا روٹی اور چوتھا پانی۔

کارل مارکس نے صرف پانی نکال کر روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر اشتراکیت کی بنیاد رکھی۔ اور اپنی دانست میں امن و امان اور بہتر معیشت کو اپنا منشور قرار دیا۔ یہ دراصل انبیاء کرام علیھم السلام کا منشور ہے جو کسی مسلک اور مذہب کی بھلائی کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانیت کے لیے ہے۔ قرآن کریم میں جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آزمائشوں سے کامیابی کےبعد جب منصب امامت پیش کرنے کا ذکر کیا گیا تو اس موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دو خواہشات کا اظہار کیا۔ ایک خواہش امن کی اور دوسری خواہش بہتر معیشت کی تھی جبکہ اس سے قبل وہ کفر وشرک کے خلاف برسر بیکار رہے تاہم امامت کا اعلان ہوتے ہی ترجیحات بدل گئیں۔ گویا کسی قوم کی ذمہ داری جس کے سر پہ آجائے وہ عوام کو ان کی ضروریات مہیا کرنے کا ذمہ دار بن جاتا ہے۔
اسلامی اصطلاح میں حکومت کو ولایت کہا جاتا ہے۔ اس نظام میں حاکم کا عوام سے محبت آمیز، جذباتی و فکری اور عقیدت کا رشتہ ہوتا ہے۔اور حکومت کے سربراہ کو والی، ولی اور مولا کہا جاتا ہے اور اس کے ذمے خدمتِ انسانیت اور کفالتِ رعایا ہوتی ہے۔ اس ریاست میں کوئی گداگر نہیں ہوتا۔ اس کے سربراہ کا دستور ہوتا ہے کہ جو مقروض فوت ہوجائے اس کا قرض ریاست کے ذمے ہے اور جو وراثت چھوڑ جائے وہ اس کے وارثوں کی ہے۔ روزگار کی ضمانت اور معاشی کفالت کا اہتمام ریاست کے والی کے ذمے ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جا بجا انسانیت کی آزمائش و ابتلاء کو خوف اور معاشی تنگی کی صورت میں بیان فرمایا ہے۔ اس بنیاد پر امن اور معیشت کو قوموں اور ملکوں کی ترقی اور تنزلی کا معیار قرار دیا جا سکتا ہے۔ بطور قوم ہمیں امن اور بہتر معیشت کی تلاش اور ایک فطری معاشرے کی داغ بیل ڈالنے کے لیے جد وجہد کرنے کی ضرورت ہے۔امن و امان اور معیشت قوم، ملک، مذہب اور مسلکی تفریق سے بالا تر ہو کر ہر انسان کی ضرورت ہے، اسی لیے اللہ کریم نے یہ دو انعامات ساری انسانیت کے لیے مقرر کیے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ بہتر معیشت کس نظام سے حاصل کی جاسکتی ہے؟ سرمایہ دارانہ نظام سے، سوشلزم سے یا اسلامی نظام معیشت سے؟ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ظاہر ہے اسلامی نظام معیشت کو ہی بہتر قرار دیا جاسکتا ہے کہ مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم دو الگ الگ انتہائیں ہیں، اور دونوں ہی ناکام ہیں۔
ہم اپنے ملک کو فلاحی مملکت بنانے کا خواب پون صدی سے دیکھ رہے ہیں جس سے ہر انسان کی فلاح وابستہ ہو۔ فلاح کی بنیاد کو تلاش کریں تو وہ انبیاء کرام کا ہی مشن ہے اور ہم بحیثیت خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے فلاح دارین کے داعی اور متمنی ہیں۔ اسلامی مملکت ہی دراصل فلاحی مملکت ہو سکتی ہے یعنی جہاں روٹی (خوراک)، کپڑا اور مکان کی آسانی ہر کسی کو میسر ہو۔ہمارے ملک میں یہ نعرہ جب ایک سیاسی پارٹی نے لگایا توعوام نے اس کو سر آنکھوں پہ بٹھایا کیونکہ یہ فطرت کی پکار تھی۔
اب کسبِ معاش کے حالات پہلے سے زیادہ دگرگوں ہیں لیکن تعجب اس بات پہ ہے کہ زندگی میں آسائشات کا عمل دخل کئی گنا بڑھ گیا ہے۔چالیس پچاس سال پہلے کا پاکستان ایک سادہ طرز زندگی کا نمونہ تھا۔ غریب اور متوسط طبقہ میں بہت زیادہ فرق نہ تھا۔ آج کے پاکستان میں گھر میں کام کرنے والی بھی پہلے کے متوسط گھرانوں سے زیادہ آرام و آسائش کے وسائل اور اسباب رکھتی ہے۔ معیارِ زندگی میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ مہنگائی میں اضافہ ہؤا ہے تو تنخواہوں میں بھی ہوا ہے لیکن ہر بار مہنگائی میں اضافے سے آبادی کا ایک بڑا حصہ خطِ غربت سے نیچے چلا جاتا ہے۔امیر اور غریب میں تفاوت بڑھ جاتا ہے۔ قدم قدم پہ مانگنے والے پھرتے ہیں۔ چور اچکوں سے باہر ڈر لگتا ہے تو گھروں میں ڈاکوؤں کا خوف ہے۔ایک طرف بے روز گاری دوسری طرف بازاروں میں خریداروں کا ہجوم ایسا ہے جیسے کہ ہرشے مفت میں بٹ رہی ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ معیارِ زندگی بہتر نظر آنے کے باوجود ذہنی پراگندگی، انتشار اور بے برکتی کیوں نظر آتی ہے؟کیا یہ انتشار سربراہان کی کسی کوتاہی، کمزوری یا بد نیتی کا نتیجہ ہے؟ کیا سیاسی جماعتوں کے منشور میں جھول ہے؟ یا نام نہاد اشرافیہ اور قائدین کے کردار میں

منافقت ہے؟ کیا عوام کی جیب پہ حکومت کے کارندے عیاشی کر رہے ہیں اور عوام الناس کے دلوں میں بے چینی ہے؟
یہ سب کچھ ممکن ہے اور اس بارے میں آپ میڈیا پہ روازنہ بے نتیجہ بحث مباحثہ سنتے ہیں۔ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ان بے کار بے نتیجہ بحث کو دیکھنے سننے سے بہتر ہے کہ صاحب بصیرت کوئی لائحہ عمل مرتب کریں۔ہر انتخاب سے پہلے سیاسی پارٹیاں اپنا منشور لے کر آتی ہیں جس پہ عمل کرنا حکومت کی کرسی پہ بیٹھ کر سب بھول جاتے ہیں۔ کیا کسی منشور میں بنیادی نکتہ، نعرہ یا وعدہ ’’حلال رزق کی فراہمی‘‘ یا رزقِ حلال کا آسان حصول بھی ہوتا ہے؟
کیااگر یہ وعدہ کوئی کرے بھی تو لوگ اسے منتخب کریں گے؟ عوام کو مخلص ہونے کا سبق نہیں پڑھایا جاتا۔ اگرچہ بہت سے ایسے بھی ہیں جو حرام کمانے کے اس نظام سے تنگ ہیں اور اسے ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی معیشت گزشتہ پون صدی سے سود پہ پل رہی ہے اور ہر آنے والی حکومت قرضوں پہ قرض لے کر قوم کے بچے بچے کو مقروض بناتی جاتی ہے۔ حکومتیں مالِ حرام پہ ہیں، لالچ کی خاطر ملکی مفادات کے سودے کرتی ہیں تو یہی کلچر نیچے اترتا جاتا ہے اور رزقِ حرام سے ضروریاتِ زندگی پوری کرنا ہر شخص کی مجبوری یاپسند بن جاتا ہے۔جبکہ ہمیں یاد رہنا چاہیے کہ مالِ حرام سے روٹی کپڑا اور مکان میسر ہو جانا مادی جسم کی ضرورت تو پوری کر سکتا ہے لیکن وہ امن اور معیشت کی بحالی ممکن نہیں جس کی دعا سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی۔ رزق کی فراوانی میں حرام کی آمیزش ہوگی تو ایمان پہ ضرب تو پڑے گی اور تھوڑے رزق میں برکت تو ایمان ہی عطا کرتا ہے۔افراد اور اقوام دونوں کے لیے اس شعر میں رہنمائی ہے:
اے طائرِ لاہُوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
٭٭٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x