ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

محشر خیال

قانتہ رابعہ۔ گوجرہ
آج بتول (جولائی) ملا ہے، ماشاءاللہ مددگار سپلیمنٹ بھی خاصے کی چیز ہے۔
تمہاری تحریر اس مرتبہ شائع ہوجانی چاہیے تھی۔ گزشتہ شمارے میں میری روک کر اپنی دے دیتیں، میں تو لکھنے کی بک بک کرتی رہتی ہوں البتہ تمہاری خوبصورت تحریر پڑھے مدتیں بیت گئیں۔
میمونہ حمزہ کا ماسی نامہ اس مرتبہ بھی ٹاپ پر رہا۔آسیہ راشد کا مردم گزیدہ افسانوی رنگ میں شروع ہؤا لیکن وعظ و نصیحت لیےختم ہؤا۔پڑھ کر دل بہت افسردہ ہؤا۔ جن حالات میں والدین مددگار بچیوں کو کام کے لیے بھیجتے ہیں تربیت نام کی چیز تو دور رہ جاتی ہے ۔غریب بھی چاہتے ہیں ان کی بیٹیوں کو عزت سے بلایا جائے مگر جہالت کی انتہا ہے کہ بچی کو چار چوٹ کی مار ماں باپ سے اس لیے کھانا پڑی کہ وہ پکڑی کیوں گئی۔اگر چوری کا سراغ نہ چھوڑتی تو یہی والدین شاباشی دیتے۔دل بہت دکھا ۔ آخرت ان کی بھی ہوگی اور آخرت کام لینے والوں پر بھی برپا ہوگی۔ اللہ ہی جانے روز قیامت کن کا پلڑا نیکیوں میں اور کن کا زیادتیوں میں بھاری نکلے گا۔ لازم نہیں کہ ہمیشہ اور ہر جگہ کام لینے والے ہی ظالم ہوں، بسااوقات کام کرنے والیوں کی زیادتیاں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ بندہ یقین کرتے ہوئے بھی نہیں کر پاتا۔
آمنہ راحت کا ’جب سامنے منزل آ جائے ‘منزل خانہ خدا ہو تو کیا کہنے! اچھی روداد ہے۔
رمانہ عمر نے تیرے بن پر تبصرے میں پروڈیوسر کا نام سراج الحق لکھا۔تصحیح فرما لیں تیرے بن کے پروڈیوسر عبداللہ کادوانی اور رائٹر نوراں مخدوم ہیں۔مجھے لگتا ہے سہوا ًلکھ دیا ،یہ شکر کریں نام سے پہلے امیر محترم نہیں لکھا۔رمانہ کا تبصرہ مجموعی طور پر درست ہے ظاہر ہے ہر دیکھنے والے کااپنا نقطہ نظر ہوتا ہے اور بلا شک و شبہ کامیاب مبصر وہ ہے جو یوں تبصرہ کرے کہ پڑھنے والا سمجھےگویا یہ بھی میرے دل میں تھا۔آج کل ڈراموں کے نام پر سوائے رشتوں کی بے حرمتی کے کچھ نہیں سکھایا جارہا۔یادش بخیر بہت عرصہ پہلے نشرواشاعت کی صوبائی تربیت گاہ میں مشورہ دیا تھا کہ جتنے زرخیز دماغ،رواں قلم اور بامقصد لکھنے والے ہمارے پاس ہیں ان کو جمع کیجیے، ڈرامے، اینیمیشن کارٹون ، بچوں کی سیریز خود پیش کریں۔ یہ کہنا کہ فلاں ڈرامہ اچھا نہیں اس وقت تک آپ کے حق میں حجت نہیں بن سکتا جب تک آپ اپنے متبادل پروگرام پیش نہیں کرتے۔فرعون کے جادو کے مقابلہ میں عصائے موسٰی تھا تو بات بنی تھی۔اچھی سوچ والے دماغوں کی یکجہتی عصائے موسٰی کی مانند ہو سکتی ہے۔میں نے اس سلسلے میں تحریری تجاویز بھی دی تھیں مگر!
*جیتی رہیں قانتہ اس محبت سمیت!(ص۔ا)
٭٭٭
روبینہ قریشی۔واہ کینٹ
ابھی ابھی بتول (مئی 2023)موصول ہو&ٔا اور اسی وقت اس کا مطالعہ شروع کر دیا۔یقین کریں ایک ایک لفظ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔محترمہ صائمہ اسما نے’’ابتدا تیرے نام سے ‘‘میں جس غیر جانبداری اور وسیع النظری کے ساتھ پاکستان کے حالات کا تجزیہ کیا ہے وہ قابل داد ہے۔کراچی کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔اللہ ہمارے لوگوں کو عقل دیں اور صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق دیں۔ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کی تحریر ’’ اعجاز قرآن‘‘ نے دل کو چھو لیا ،ان کی لکھی ہوئی ایک لائن ’’قرآن کریم کی لذت سے جو آشنا ہو جائے تو اس کے سامنے دنیا کی لذتیں ہیچ ہوجاتی ہیں‘‘سے مکمل اتفاق کرتی ہوں اور دعا ہے کہ اللہ ہمارے سینوں کو قرآن کے نور سے بھر دیں،قرآن کو ہمارے دل کا سکون اور ہماری آنکھوں کے لیے راحت بنادیں آمین۔
قانتہ رابعہ کا افسانہ بہت ، بہت اچھا لگا ہے اور بہت اہم موضوع ہے کہ ہمارے انڈین فلمیں اور ڈرامے دیکھنے والے بچے کس طرف جارہے ہیں۔ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی کی تحریر ’’ میرا چھپر ، میری چھاؤں ‘‘ دل کے بہت قریب اور بہت اپنی اپنی سی کہانی لگی شاید اس لیے کہ اب ہم دونوں بھی زندگی کے اسی دور سے گزررہے ہیں۔
عینی عرفان کی تحریر’’ میرے اپنے‘‘ بے ساختگی میں پڑھتی گئی اور جب مکمل کر کے دیکھا تو رخساروں سے آنسو بہہ رہے تھے۔بہت پیاری تحریر ہے پیاری عینی!شاہین کمال صاحبہ بہت پیاری دوست اور کمال کی مصنفہ ہیں اور ان کا افسانہ بہت شاندار ماشااللہ۔
مجھے بہت اچھا لگتا ہے بتول کو پڑھنا…ایسے جیسے نرم نرم مثبت انرجی میرے اندر اترتی جارہی ہو…اللہ آپ کو ڈھیروں ڈھیر جزائے خیر سے نوازیں اور بتول کو دن دگنی رات چگنی ترقی عطا فرمائیں آمین۔
٭ ٭ ٭
پروفیسر خواجہ مسعود۔راولپنڈی
ماہنامہ ’ ’چمن بتول‘‘ شمارہ جولائی 2023ء سامنے ہے ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ مدیرہ ڈاکٹر صائمہ اسما صاحبہ کا حالات حاضرہ پر بے لاگ اور بہترین تجزیہ و تبصرہ ۔ سانحہ 9مئی پر آپ نے غیر جانبدارانہ رائے کا اظہار کیا ہے ۔ کاش یہ سانحہ ہماری تاریخ میں رونما نہ ہؤا ہوتا۔
’’ مساکین کے حقوق ‘‘ ( بنت الاسلام) اس فکر انگیز مضمون میں بتایا گیا ہے کہ اسلام میںمساکین ، غربا اللہ کے ہاں زیادہ مقبول ہیں ۔ ان کی مدد کرنا ہم سب کا فرض ہے ۔
’’ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کا احوال‘‘ ( سینیٹر مشتاق احمد/ترتیب حمیرا طیبہ) پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی پر امریکہ کی جیلوں میں جو ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں، ان کی ایک واضح تصویر سینیٹر صاحب نے پیش کی ہے ۔ آپ کے دل میں مظلوم عافیہ صدیقی کے لیے ایک درد پنہاں ہے اور وہ ان کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا چاہتے ہیں ۔ اللہ کامیابی عطا کرے ۔
’’قبر اور عالم برزخ‘‘ ( ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی) موت کے بعد احوال قبر ، عالم برزخ اور اس کے بعد روزقیامت کے برپا ہونے کا مختصر لیکن جامع ذکر ہے ۔
’’ حمد رب جلیل ( اسما صدیقہ) خوبصورت اشعار ہیں
مانا کہ زندگی کے ستم بے شمار ہیں
اور بندگی میں راہ کے پتھر ہزار ہیں
لیکن تیری عطا کے ہی امیدوار ہیں
آنکھوں سے آنسوؤں کے ہیں موتی لٹائے ہم
اجمل سراج کی غزل سے منتخب شعر:
اس حبس کے عالم میں ہے یوں شاداں وفرحاں
تو کون سے ساحل کی ہوا اوڑھے ہوئے ہے
حبیب الرحمن صاحب کی غزل سے منتخب شعر:
تیرو تیغ و تیر کی چھاؤں کہاں
ہم درختوں تلے پلے ہوئے ہیں
’’ انوکھا البم‘‘( شاہدہ اکرام ) آپ نے اپنے خاندان کے وفا دار اور خدمت گار وں کا احوال بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے جیسے بھائی ماکھا( مبارک علی ) ماسی دانو ، کاکا ، بالا، بھولا ، اللہ ولی ، کرماںاور بصّو ایک پیارا مضمون ہے ۔
’’ مردم گزیدہ ‘‘ ( آسیہ راشد صاحبہ ) مختلف گھریلو خدمت گاروں کے ساتھ گزرے ہوئے تلخ و شیریں تجربات پر مبنی ایک خوبصورت مضمون ۔ انداز بیان بڑا دلکش ہے اس طبقہ سے پناہ کرنا واقعی بڑا مشکل ہے ۔
’’ ککا جی‘‘( روحی امتیاز) ایک ایسے مخلص دیانتدار خدمت گار کی کہانی جو ان کے گھر کے ایک فرد کی مانند بن گیا تھا ۔ تھا تو ہندو لیکن مسلمان ہوگیا اور آخری دم تک اس خاندان کی خدمت کرتا رہا ۔
’’ ماسی نامہ‘‘ (دوسرا حصہ ) ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کا تحریر کردہ مضمون گھریلو خادماؤں کے بارے میں ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے متنوع تجربات شیئر کیے ہیں ۔ یہ تجربات تلخ بھی ہیں اور شیریں بھی ۔ دلچسپ مضمون ہے ۔
’’سویرا‘‘ (فاطمہ طیبہ) ایک گھریلو کام کرنے والی پیاری سی ’’سویرا‘‘ کی کہانی جو خوبصورت ہونے کے ساتھ کام میںبھی مستعد تھی اور دیانتدار تھی افسوس کہ وہ جل کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئی۔
’’ بے بس ‘‘ ( قانتہ رابعہ کی تحریر ) آپ نے بڑی خوبصورتی سے واضح کیا ہے کہ بڑے آدمیوں کے بچوں کی شادی میں سب کچھ جائز ہے آتش بازی، فائرنگ بے شمار کھانے ۔ لیکن اگر عام آدمی شادی پہ یہ کچھ کردے تو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے ۔
’’ سات نسلیں ‘‘( روبینہ قریشی ) ایک پیاری کہانی ہے کہ کس طرح ایک سلیقہ شعار اور تابع فرمان لڑکی والدین کی مرضی کے آگے سرتسلیم خم کرتی ہے ، قربانی دیتی ہے ۔ یہی مشرقی لڑکیوں کا حسن ہے ، جوہرہے۔
’’خراج‘‘(شہلا خضر) ماں کی محبت کی تڑپ میں ڈوبی ایک دل پہ گہرا اثر چھوڑنے والی کہانی ۔ ماں باپ بچوں پر بہت کچھ قربان کرتے ہیں ۔
’’ اک ستارہ تھی میں ‘‘ ( اسما اشرف منہاس ) اس قسط میں بھی پون کو اپنا بچپن اور لڑکپن یاد آ رہا ہے ، کس طرح اسے خوابوں میں اسلام کے اشارے ملتے تھے اور بالآخر وہ مسلمان ہو گئی ۔ اب دیکھیے آگے کیا ہوتا ہے ۔
’’ اور سامنے منزل آجائے ‘‘ ( آمنہ راحت ۔ برطانیہ ) اس خانہ کعبہ کی زیارت کا رقت انگیز احوال ۔ واقعی پہلی دفعہ زیارت کعبہ پہ دل کی عجب کیفیت ہوتی ہے ۔
’’ پاکستانی حجاج کرام‘‘چند غور طلب امور ( حکیم سید صابر علی) دوران حج پاکستانی حجاج کرام کو پیش آنے والے مختلف مسائل کا تذکرہ ہے بزرگ زائرین اور خواتین کے لیے بڑی مشکل ہوتی ہے ان کی رہنمائی کا مناسب بندو بست ہونا چاہیے ۔
’’ مجھے تو حیران کر گیا وہ ‘‘ شہناز رؤف)اس مضمون میں آپ نے اپنے بچپن اور جوانی کی خوشگوار یادیں شیئر کی ہیں ۔ خاص طور پہ اپنی مہر بان پھوپھو اور پھوپھو زاد بہن آپا زبیدہ کا تذکرہ جوبہت پیاری شخصیت کی مالک تھیں ، کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر دنیا سے رخصت ہو گئیں ۔
سیریل’’ تیرے بن ‘‘ ( رمانہ عمر ۔ ریاض) آپ نے صحیح نشاندہی کی ہے کہ آج کل ہمارے ٹی وی ڈراموں میں تشدد اور ساز شوں کو اجاگرکیا جا رہا ہے ۔ ایسے مناظر دکھائے جاتے ہیں جو بالکل ہمارے کلچراور روایات کے خلاف ہوتے ہیں اس شمارہ میں ’’ گوشہِ تسنیم ‘‘ کی کمی محسوس کی گئی۔
٭ جولائی میں صفحات کی گنجائش کے باعث آپ کا تبصرہ مکمل نہ دیا جا سکا ۔ اب دیا جا رہا ہے ۔(مدیرہ )
٭…٭…٭
خوشگوار حیرت بھی ہوئی کہ ا س بار ’’چمن بتول‘‘( شمارہ جون 2023،تین تاریخ کو ہی مل گیا اور لطف یہ کہ ایک اچھوتے موضوع پر ’’خاص نمبر ‘‘ہے۔مجلس ادارت اور سٹاف’’ چمن بتول‘‘ مبارک باد کا مستحق ہے کہ اتنا شاندار نمبر نکالا ہے جو کہ نامور خواتین لکھاریوں کے اس موضوع پر تخلیقات سے مزین ہے ( ’’ خدمتگار نمبر‘‘ ) یہ بلا شبہ ایک زبردست متنوع مضامین کا مرقع اورگلدستہ ہے ۔ سب لکھاریوں نے اپنے اپنے تجربات شیئر کیے ہیں ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کا حالات حاضرہ پر جامع تبصرہ و تجزیہ ۔ملکی نازک حالات پر آپ کے یہ جملے نہایت قابل توجہ ہیں ’’ ملکی حالات کی کیا بات کریں جو اس قدر مایوس کن ہیں کہ وطن عزیز پر گزرے ہوئے سانحوں کی یاد کیسی انہونی…. تمام تر خدشات کے ساتھ زندہ ہو گئی ہے ۔ 9مئی کو جو کچھ ہؤا وہ ایک عظیم سانحہ تھا ‘‘۔اور یہ جملے بھی دعوت غور و فکر دے رہے ہیں ’’ اگر سیاسی جماعتیں آئین کی بالا دستی ، عدلیہ کے وقار ، پارلیمان کے اعتباراور عوامی رائے کے احترام کے بنیادی ایجنڈے پر متفق ہو کر ایک پر امن تحریک نہیں چلا تیں تو خاکم بدہن پاکستان کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ، عوام کا اعتماد اداروں سے اٹھ چکا ہے ‘‘۔
’’اجرت پر کام ‘‘ (ڈاکٹر میمونہ حمزہ) ڈاکٹر صاحبہ نے واضح کیا ہے کہ جو لوگ محنت ، مشقت کر کے اپنی روزی حاصل کرتے ہیں اسلام ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ، خود ہمارے رسول پاک ؐ نے بھی تجارت کا پیشہ اختیار کیا اور بکریاں بھی چرائی ہیں ۔ رسول پاک ؐ نے فرمایا ’’ اگر ان میں سے ہر ایک ( مالک اور ملازم) اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقہ سے ادا کرے تو ان کے درمیان الفت کا تعلق پیدا ہوتا ہے اور حقیقی خوشی نصیب ہوتی ہے ۔ماتحتوں سے بد خلقی اور بد معاملگی کرنے والے جنت میں نہیں جائیں گے ۔
’’ اپنے ہاتھ سے کمانے والے ‘‘ (ندا اسلام) اس مضمون میں محنت کی عظمت واضح کی گئی ہے کہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کوئی چیز نہیں بے شک محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے ۔ ہمیں گھریلو ملازموں ، ملازمائوں ، مزدوروں اور ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے۔
’’ گھریلو ملازمین اور قوانین ‘‘( ڈاکٹر کوثر فردوس)اس مضمون میں ڈاکٹر نے تحقیق کر کے گھریلو ملازمین کے لیے بنائے گئے قوانین کا احاطہ کیا ہے لیکن افسوس مالکان ان قوانین کا لحاظ نہیں رکھتے اور نہ ہی ملازمین ۔ اکثر گھریلو ملازم خواتین کام چوری ، چوری چکاری میں ملوث پائی جاتی ہیں ۔ ڈاکٹر صاحبہ نے خوب یاد دلایا ہے کہ آج سے پچاس ساٹھ برس پیشتر گھریلو ملازم کو گھر کا ایک فرد سمجھا جاتا تھا لیکن اب تو حالات یکسر بدل چکے ہیں۔
’’ انسانوں میں طاقت کاتوازن‘‘ (آسیہ عمران) اس مضمون میں بتایا گیا ہے کہ اسلام نے ہر مقام پر کمزوروں اور ملازموں کے حقوق کو نمایاں کر کے ان کے دفاع کا باقاعدہ نظام بتایا ہے ملازموں اور ماتحتوں سے اچھا سلوک روا رکھنے کے بہترین اصول رسول پاکؐکی احادیث کی روشنی میں بتائے گئے ہیں ۔ ملازم یا ماتحت کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھانا ظلم ہے ۔
’’انہیں اس آخری خطے کا وہ پیغام پیارا دو‘‘( شاہدہ اکرام ) آپ نے مقطع میں اپنا تخلص خوب استعمال کیا ہے ۔
سحر کا عکس ان ویران آنکھوں سے جھلکتا ہے
شب تاریک کو رخصت کرو روشن ستارا دو
حبیب الرحمٰن صاحب کا کمال ہے کہ طویل اور مشکل بحر میں غزل کہتے ہیں ان کی غزل سے ایک منتخب شعر۔
ظلمتِ شب سے شکوہ بجا آپ کا پھر بھی لازم ہے یہ روشنی کے لیے
ہو سکے اپنے خون جگر سے کوئی اک دیا راستے میں جلا دیجیے
محمود شام صاحب کی نظم ’’ ماسی ‘‘ اس موضوع پر بلا شبہ ایک شاہکار نظم ہے شاعری کا خوبصورت نمونہ کچھ منتخب سطریں۔
محل سجے ہیں ہمارے ہاتھوں
ان انگلیوں سے ہی خواہشوں کو کھنک ملی ہے
ہماری نسلیں تو کتنی صدیوں سے یوں ہی جیتی ہیں
زخم سیتی ہیں خون پیتی ہیں
’’ اُف یہ ماسیاں ‘‘ ڈاکٹر حافظ فصیح احمد صاحب کی ماسیوں کے بارے دلچسپ نظم ۔
ڈیوٹی پہ آئے دن نہیں آتی ہیں ماسیاں
سو سو طرح کے حیلے بناتی ہیں ماسیاں
افسانہ و کہانی ’’ صابن کی پرچ ‘‘ ( حمیدہ بیگم ) ایک مختصر لیکن بے حد سبق آموز کہانی ۔ آخری جملہ تاثر سے بھرپور ہے ۔’’ مائی کو اپنے ایک ادنیٰ سے قصور پر اتنی ندامت ہو رہی ہے میرے سامنے آنے سے گھبرا رہی ہے ، ہم دن میں کئی کئی مرتبہ اللہ کے بڑے بڑے قصور کرتے ہیں اور نادم نہیں ہوتے ‘‘۔
’’ لینڈنگ ‘‘( عقیلہ اظہر )یہ کہانی گھریلو ملازمائوں کو ضرورت سے زیادہ مواقع دینے کے نتائج بیان کر رہی ہے ۔
’’ چند سکوں کے عوض‘‘( سلمیٰ اعوان) ایک تلخ و ترش کہانی یہ سکھاتی ہے کہ پیارے رسول ؐ کے فرمان کے مطابق جو خود کھائو وہی خادم کو بھی کھلائو۔ یہ دو خوبصورت جملے لکھے ہیں ’’ مائیں تو پالنے سے ہی اولاد کی خوشیوں کے خواب دیکھنے لگتی ہیں ‘‘ اور اسے خط میں لکھے گئے لفظوں سے میری محبت کی خوشبو محسوس ہوتی ہے ۔
’’صدقہ ‘‘(قانتہ رابعہ ) صاحبہ کے قلم سے ان لوگوں کی کہانی جو غریب اور بے بس ملازموں پر بے جا ظلم کرتے ہیں ان کی محنت کا معاوضہ بھی ادا نہیں کرتے ۔ یہ ایک سخت نا پسندیدہ فعل ہے ۔
’’ روشنی اور سایہ ‘‘ ( نصرت یوسف ) غریب لاچار گھروں میں کام کرنے والی لڑکیوں کا قصہ بعض بد کردار مردان پر نگاہ غلط ڈالتےہیں یہ ایک گھٹیا او ر گری ہوئی حرکت ہے ۔
’’ کوڑے کے ڈھیرپر ‘‘ (ثمرین محسود) اس کہانی میں ان غریب بچوں ، بوڑھوں مرد و عورت کے تلخ حالات زندگی بیان کیے گئے ہیں جو معاشرے کا انتہائی پسا ہؤا طبقہ ہے ۔
’’ اک ستارہ تھی میں ‘‘ ( اسما اشرف منہاس کا سلسلے وار ناول) اس قسط میں کہانی کا کچھ فلیش بیک نظر آتا ہے ۔ پون یاد کر رہی ہے جب وہ سٹوڈنٹ تھی اور سکول کے ٹرپ کے ساتھ لاہور کی سیر کو گئی ۔ دیکھیں آگے کیا حالات پیش آتے ہیں ۔
’’ کوڈو‘‘( سعیدہ احسن ) ایک ایسے گھریلو ملازم لڑکے کی کہانی جو آرام سے زیادہ تکلیف کا باعث بنا ۔ کہانی بے حد شگفتہ پیرائے میں لکھی گئی ہے ۔
’’ جاوید کی واپسی ‘‘ (سعدیٰ مقصود)ایک بچے کو ملازم رکھنے کی داستان جو گھروالوں کے ساتھ مخلص رہا ۔ طرز تحریر خاصا دلچسپ ہے ۔
’’ امین شاہ‘‘ (نجمہ سہیل احمد خاں) امین شاہ ایک دیانتدار ، وفادار اور نہایت مستعد گھریلو ملازم جو اپنی اچھی یادیں سب کے دلوں میں چھوڑ گیا ۔ واقعی ایسے ملازم آج کل کم ہی ملتے ہیں ۔
’’گودڑی میں لعل‘‘(شاہدہ اکرام ) مصنفہ کا مصم ارادہ تھا کہ اس ذہین و فطین لڑکی کو سدھار کر اور تراش کر ایک لعل بنا دیں لیکن افسوس وہ اور ہی دنیا کی خواہش مند تھی ۔ یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ فجو اورایسے بہت سے کردار گودڑی کے لعل ہیں ۔ جوہری کے ہاتھ لگ گئے تو نایاب ورنہ گمنامی وگردِ راہ سے زیادہ بے وقعت ہو جاتے ہیں ۔ بے پناہ صلاحیتوں کی مالک فجو بھی زمانہ کے گردا ب میں گم ہو گئی ‘‘۔
’’ چوڑھا ہی اوئے ‘‘ ( آسیہ راشد) ایک خوبصورت مضمون جس میں آسیہ راشد صاحبہ نے اپنے بچپن کی پیاری یادیں شیئر کی ہیں اور مسیحی کام کرنے والوں کے بارے میں احساس دلایا ہے کہ وہ بھی عزت و وقار کے مستحق ہیں ان کو کمی کمین نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ جملے زبردست ہیں ’’ وہ تو صاف ستھرے لوگ تھے ، ان کے لباس بھی اجلے تھے اور دل بھی مگر ہمارے دلوں کی صفائی ہونے والی تھی ‘‘۔
’’انمول تھی وہ‘‘ (رباب عائشہ ) آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو اتنے سال ایک اچھی اور ایماندار عورت خدمت کے لیے ملی رہی ۔ واقعی ایسے لوگ ہیرا ہوتے ہیں ۔
’’ اے کاش‘‘ ( عزیزہ انجم) یہ کہانی سکھاتی ہے کہ غریب اور نادار لوگ جب دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں تو پھر عزت کھو دیتے ہیں ۔ یہ جملہ دعوت فکر دیتا ہے ’’ اللہ تعالیٰ پناہ میں رکھے پیسے کی ہوس نہ غریب کو چھوڑتی ہے نہ امیر کو ‘‘
’’مجھے تلاش ہے ‘‘( عالیہ شمیم) ایک ایماندار اور دل لگا کر کام کرنے والی ماسی زلیخا کی کہانی آخر میں یہ جملے خوبصورت ہیں ’ ’ اپنے گھر کے صحن کی گھنیری چھائوں میں مجھے سکھ سے بیٹھنے کے لیے ماسی زلیخا جیسی مدد گار کی ضرورت ہے جو سکون اور پھوار بن کر میرے گھر پر برسے ‘‘۔
’’ فیروزہ ‘‘ ( عینی عرفان) آپ کے لکھنے کا انداز اچھوتا اور بے ساختہ پن لیے ہوئے ہے مضمون پڑھ کے مزہ آگیا چند جملے اچھی حس مزاح لیے ہوئے ہیں ’’ ہم جیسی مغرور حسینہ کو مباحثہ کے لیے کوئی میسر آیا تو وہ تھی فیروزہ ‘‘۔
’’ میکے کا آنگن بے فکر عمر یا حسن کے چرچے ، ذہانت کے ڈنکے…اترانے کے لیے اور کتنے لوازم کی ضرورت ہو گی ؟‘‘
’’ سر پٹ باورچی خانے کو دوڑے، دل جل کے خاک ہوتا تو چھپا لیتے پر یہ آلو اور گوبھی کے کوئلے کیسے دنیا سے اوجھل کریں ‘‘۔
’’ ملاقات ‘‘ ( ام ایمان) گھروںمیں کام کرنے والی ایک ایماندار اور محنت کش ماسی کی کہانی جو کام کو عبادت سمجھ کر آخری دن تک کام کرتی رہی پھر ایک دن خالق حقیقی سے جا ملی ۔
’’اوکھی‘‘( فرحی نعیم ) ان لاچار ، بے بس کام کرنے والیوں کی کہانی جن کے خاوند نکھٹو ہوتے ہیں ، بیویاں کماتی ہیں اور وہ نشہ میں پیسے اڑا دیتے ہیں ۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے ۔
’’ میری مارگریٹ‘‘ ( شہلا خضر) ایک اچھی تحریر ، واقعی اچھا کام کرنے والی ماسیاں ہمیں مدتوں یاد رہتی ہیں ۔
’’ وہ کامنی سی چھوکری ‘‘ ( سعدیہ نعمان ) ایک غریب خاتون کی رلا دینے والی کہانی ، غم تو ان غریبوں کے بھی ہوتے ہیں لیکن انہیں سمجھنے والے کم ہوتے ہیں۔
’’ہمارے ملازم‘‘ ( صبیحہ نبوت) آپ نے خادموں اور خادمائوں کے ساتھ گزرے ہوئے اپنے خوشگوار تجربات شیئر کیے ہیں اللہ سب کو اچھے مد د گار نصیب کرے ( آمین )۔
’’مہر بان مدد گار کی تلاش ‘‘( مہوش خولہ رائو ) آپ نے اس مضمون میں اچھے طریقے سے واضح کیا ہے کہ ہمارے رسول پاک ؐ نے کس طرح غلامی کی لعنت کو ختم کیا او اپنے خادموں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تلقین کی ۔
’’ جبر سہہ لیتا ہوں کہ مزدور ہوں میں ‘‘ ( افشاں نوید) ایک سنجیدہ کالم جو بتاتا ہے کہ ہمیں ان گھروںمیں کام کرنے والیوں کی قدر کرنی چاہیے وگرنہ امریکہ اور یورپ میں تو ان کا معاوضہ فی گھنٹہ ہزاروں روپے کے حساب سے ہوتا ہے ۔ ہمارا مذہب بھی ان سے حسن سلوک روا رکھنا سکھاتا ہے ۔
’’ماسی اور باجی کے باہمی تعلقات‘‘ (غزالہ عزیز ) اچھے رہنما اصول دیے ہیں کہ ان کام کرنے والوں اور والیوں کی عزت نفس کو کبھی مجروح نہ ہونے دیں ، ان کا معاوضہ بروقت ادا کریں ، کبھی وقت پڑنے پر ان کی مدد بھی کردیا کریں ۔
’’ اماں حشمت‘‘ (طیبہ یاسمین ) ایک محنتی اور ایماندار گھر کا کام کرنے والی خاتون کی کہانی جو ایک خاص شخصیت کی مالک تھی ۔ یہ جملے خوب ہیں ’’ تو جناب یوں تو اماں مدد گار کی حیثیت سے ہمارے گھر میں آئی تھی مگر پھر گھر بھر پر یوں چھا گئی کہ ہم سب پس منظر میں چلے گئے ۔ ’’جدھر دیکھتا ہوں اودھر تو ہی تو ہے ‘‘۔
’’ زمانے بھر کے غم اور اک تیرا غم ‘‘ ( آمنہ رمیصا) ماسیوں کے بارے میں ایک دلچسپ مضمون پڑھ کے مزہ آگیا اور چالاک ماسیوں کے کارناموں سے بھی آگاہی ہوئی۔
’’ قصہ مصری ماسی کا ‘‘ (ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ ) ماسیوں کی کارستانیوں سے تنگ آنے کا احوال ۔ خاص طور پر مصری ماسی جو فیشن کی دلدادہ تھی اور ہر وقت بخششیں کی طالب۔ یہ جملے خوب ہیں ’’ ایک بات ہر جگہ مشترکہ دریافت کی کہ یہ گھروں میں کام کرنے والی ماسیاں ایک لحاظ سے دور اندیشی اور چھٹی حس میں کمال درجہ رکھتی ہیں ‘‘۔
’’ ماسی نامہ ‘‘ ( ڈاکٹر میمونہ حمزہ ) ڈاکٹر صاحبہ کو بھی حسب معمول قسم قسم کی ملازمائوں سے واسطہ پڑا کئی تلخ تجربات ہوئے لیکن مجبوری کا نام شکریہ گھر کے کام صفائی وغیرہ کے لیے مدد گار رکھنی ہی پڑتی ہے ۔
’’ یہ سب کہاں تھے ؟‘‘ ( فریدہ عظیم ) آپ نے صحیح لکھا ہے ملازموں سے کام لینا بڑا مشکل ہوتا ہے مگر کیا کریں صبر اور حوصلے سے کام لینا پڑتا ہے ۔ انداز تحریر میں بے ساختہ پن ہے ۔
’’مجھے ان ماسیوں سے بچائو ‘‘یہ میرا تحریر کردہ ہلکاپھلکا مضمون ہے ۔ اس پر رائے دینا قارئین کا حق ہے ۔
’’ بتول میگزین ‘‘ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں ( سعدیہ نعمان )  ایک فرض شناس رکشہ والے کی کہانی ، ’’ حفیظہ ‘‘( ڈاکٹر فلزہ آفاق) ایک غریب لیکن فرض شناس، با کردار خاتون کی کہانی ’’ راحت ‘‘ ( رخسانہ اقبال رائو ) ایک نیک سیرت غریب خاتون راحت کی کہانی جو محنت مشقت کر کے اپنے بچوں کوتعلیم دلاتی رہی ۔ ایسے کردار دل میں گھر کر لیتے ہیں ۔ ’’ ہماری ارجمند خالہ ‘‘ ( قدسیہ ملک ) ایک دیانتدار اور فرض شناس ملازمہ ارجمند کی کہانی جسے ان کے سب بچے خالہ کہتے تھے اور آج تک یاد کرتے ہیں ’’ہماری کام والی آنٹی‘‘( انعم کریم ) ایک مذہباًعیسائی خاتون لیکن اس کے خیالات نہایت اسلامی تھے ’’صغراں ‘‘( ماہ ناز ناظم) خوش بختی کہ انہیں صغراں جیسی دیانتدار فرض شناس کام والی مل گئ تھی ’’زمینداروں کا سلوک‘‘( زوبیہ رفیق) ہمارے زمیندار اور جاگیر دار بعض اوقات اپنے ملازموں کے ساتھ نہایت تحقیر آمیز سلوک کرتے ہیں یہ امرباعث افسوس ہے آخر ملازم بھی انسان ہوتے ہیں ۔
’’گوشہِ تسنیم ‘‘( ڈاکٹر بشریٰ تسنیم ) آپ نے بجا فرمایا کہ مدد کا اصل سر چشمہ و منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ اللہ انسانوں کا بہترین خیر خواہ ہے جسم کے مختلف اعضاء ایک دوسرے کے مدد گار ہیں اسی طرح معاشرے کے افراد کو بھی ایک دوسرے کا مدد گار ہونا چاہیے ۔ معاشرے کا کوئی فرد کسی دوسرے فرد کو نقصان نہ پہنچائے بہترین غلامی اللہ کی غلامی ہے اس کے لیے ایمان اور استقامت کی ضرورت ہے ۔
٭٭٭
’’ چمن بتول‘‘ شمارہ مئی 2023ء کے بارے چند باتیں ۔ اسلامی طرز کے آرٹ سے مزین ٹائٹل تسکین نگاہ ہے ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ آپ نے حالات حاضرہ پر زبردست تبصرہ و تجزیہ پیش کیا ہے ۔ آپ کے یہ جملے بہت خوب ہیں ’’ بے خوفی کے ساتھ کیا گیا ایک جرأ ت مندانہ اقدام یکا یک روشن مستقبل کی نوید بن جایا کرتا ہے جبکہ ایک بزدل فیصلہ قوم پر لا متناہی بد قسمتی مسلط کر دیتا ہے … تیس کروڑ عوام کا ایک بڑااور آزاد ملک ، نیو کلیئر طاقت … مگر اپنی قسمت کے فیصلوں کے لیے آج بھی مجبور ، بے بس اور پابہ زنجیر…‘‘
’’اعجاز قرآن ( ڈاکٹر میمونہ حمزہ) ڈاکٹر صاحبہ نے اس مضمون میں وضاحت کی ہے کہ قرآن صرف فصاحت و بلاغت ہی نہیں بلکہ تمام حیثیتوں سے ایک معجزہ ہے ۔
’’سیرت نبیؐ کے حیرت انگیز واقعات‘‘ ( ڈاکٹر مقبول احمد شاہد ) دلوں پہ گہرااثر کرنے والے سیرت رسولؐ کے واقعات تحریر کیے گئے ہیں۔ خاص طور پر کھجور کے تنے کا رسول پاکؐ سے علیحدہ ہونے پرآہ و بکا کرنا دل کو رلا دیتا ہے ۔ پھر آپ کی دعا سے یکدم زبردست بادلوں کا آسمان پر نمو دار ہو جانا … بارش ہونا… دودھ میںاتنی برکت کہ تمام اہلیان صفہ نے پی لیا پھر بھی پیالہ بھرا رہا ۔ گوشت میںاتنی برکت کہ سارے لشکرنے کھا لیا پھربھی بچا رہا۔کنکریوں کا آپ کی مٹھی میں کلمہ پڑھنا … سیرت نبوی ؐ کے تمام واقعات ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں اور تسکین قلب کا ذریعہ۔
’’ اسلام میں امانت کاتصور ‘‘( ڈاکٹرعبدالعزیز) امانت کے موضوع پر ایک اچھامضمون ۔ یہ جملے قابل غور ہیں ’’ امانت داری ایسی صفت ہے جس سے اعلیٰ اخلاق کی صفات خود بخودپیدا ہوتی ہیں اور خیانت وہ برائی ہے جس سے کئی برائیاںوابستہ … امانت داری ایک کامیاب مومن کی نشانی ہے‘‘۔ عہد کو پوراکرنا بھی امانت داری میںشامل ہے ۔ کسی کاراز بھی ہمارے پاس امانت ہے ۔ عہدہ یا منصب بھی ایک امانت ہے ۔
’’ نظم وغزل‘‘ حبیب الرحمٰن صاحب کی غزل سے ایک منتخب شعر
جھک جائے گا ظالم جوتیرے جبر سے ڈر کر
شانوں پہ میرے ایسا تجھے سر نہ ملے گا
ایک عرصہ بعدنجمہ یاسمین یوسف صاحبہ اس محفل میںجلوہ گر ہوئی ہیں آپ کی خوبصورت نظم سے انتخاب۔
سو اچھا ہے کہ نائو اور چپو
اس کنارے پر ہی رہنے دوں
اداسی اور ویرانی کی لہروںکو
ادھروالے کنارے پرہی بہنے دوں
’’ حکم عدولی‘‘قانتہ رابعہ صاحبہ فارن پلٹ آنٹی کے بارے میں یہ کہانی کچھ عرصے پہلے بھی ’’ چمن بتول ‘‘ میں پڑھ چکے ہیں ۔یہ جملہ مزیدار ہے ’’ آنٹی ثریانہ ہوئیں گویا سربراہ مملکت ہوگئیں‘‘۔
’’میرا چھپر میری چھائوں‘‘(ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی) ایک دل گداز تحریرہے ’’ ہر آن ایک دوسرے کی پسند نا پسند کا خیال رکھتے وقت اتنی تیزی سے گزر گیا کہ احساس ہی نہ ہؤا کہ کب بالوںمیںچاندی اتری ‘‘ ’’ محبت تو اندھیری راتوں کے بعد ٹھنڈی روشنی میںنہاتا چاند ہے ‘‘۔ یہ جملے دل پہ گہراتاثر چھوڑتے ہیں۔’’ کاش ہم وہاں بھی ساتھ ہوں۔ جہاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنا ہے‘‘۔ میاں بیوی کی گہری محبت کی ایک کہانی جودلوںکو چھو لیتی ہے۔
’’ میرے اپنے ‘‘( عینی عرفان) اپنوں کی محبت اورچاہت میںڈوبی ایک کہانی ایک بچے نے اس کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا ۔
’’شدتیں جدائی کی‘‘( نگہت فرمان) خاوند شادی کے کچھ سال بعد بعض اوقات اپنی بیوی سے کچھ بیزاری محسوس کرنے لگتے ہیں ۔ لیکن ایک سمجھدار بیوی ذرا سی توجہ سے پھر خاوند کی نگاہوں کا مرکز بنی سکتی ہے ۔ یہی سبق اس نفسیاتی کہانی میںسمجھایا گیا ہے۔
’’عدت‘‘( عائشہ ناصر) ایک مجبور، لاچار ، بے بس عورت کی کہانی جس کواپنے چھوڑ جاتے ہیں غربت ستاتی ہے تو وہ بچوں کی خاطر عدت کے دوران مجبور ہو کر سڑک پر آجاتی ہے کہ کچھ بھیک مانگ کر بچوں کا پیٹ پال سکے ۔یہ ہمارے ہی معاشرے کی ایک کہانی ہے ۔
یہ دنیا غم تو دیتی ہے ، شریک غم نہیں ہوتی
’’ تمام شہرنے پہنے ہوئے ہیںدستانے ‘‘ (شاہین کمال ) انسان کی عزت ایک نازک تار سی ہوتی ہے ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتی ہے۔ بعض اوقات انسان نا کردہ گناہوں کی سزا جھیلتا ہے ، اس کی زندگی برباد ہوجاتی ہے ۔
’’ اک ستارہ تھی میں ‘‘( اسماء اشرف منہاس) کہانی آگے بڑھی ہے اب پون کے بارے میں معلومات ملتی ہیں کہ پون ایک معصوم اوربچوں سے محبت کرنے والی لڑکی ہے ۔ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے ۔
’’ میری نایاب وکمیاب باجی رافت(ربیعہ ندرت) ایک صابر و شاکر خاتون کاتذکرہ جن کی زندگی انتہائی سادہ تھی ، دنیاوی خواہشات سے مبرا،نیکی اورخلوص کا مجسمہ۔ واقعی آج کل ایسی ہستیاں کہاںملتی ہیں۔
’’ کیا کیا دان کیا مٹی کو ؟‘‘ سیف اللہ خان امام التمش)اپنوں کی یاد کے گرد بُنی ہوئی کہانی جو زندگی کی بے ثباتی کی داستان کہہ رہی ہے ۔’’ یہاں وہ لو گ بھی آرام فرما رہے ہیں جو سوچتے تھے دنیا ہمارے بناادھوری ہوگی ، آج وہ دنیا کے لیے ایک کتبے کی حیثیت رکھتے ہیں ، ہوا چلتی ہے خاک اڑاتی چلی جاتی ہے ‘‘۔
’’وہ دن ( آسیہ راشد ) اس مضمون میںنہایت پیارے انداز میںسمجھایا گیا ہے کہ صبح خیزی کی کیا کیا برکات ہوتی ہیں ۔ سارادن خوشی خوشی بخیر گزرتا ہے سستی دور بھاگ جاتی ہے اور یہ جملے بھی دعوت فکر دے رہے ہیں ’’ آج کل نفسا نفسی کا دور ہے ، سوشل میڈیا نے ہماری زندگی کا سکون ہمارے پیارے رشتے اورایک دوسرے کواپنا حال احوال سنانے کے تمام مواقع چھین لیے ہیں … ہمارے وقت کونگل لیا ہے … انسان کی خواہشات کی تکمیل کاجادوسحر خیزی میں پنہاں ہے ‘‘
’’ چہل قدمی کے فوائد ‘‘(ترجمہ عمارہ بلوچ) زندگی میں بہت سے جسمانی ونفسیاتی امراض کاعلاج پیدل چلنے میں ہے
گوشہ ِ تسنیم ’’ امت مسلمہ کی خیر خواہی‘‘( ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ) اس بصیرت افروز کالم میںڈاکٹر صاحبہ نے واضح کیا ہے کہ دعااللہ تعالیٰ سے مانگنے اوررابطے کا بہترین ذریعہ ہے ۔ ہم جب دعاکریں تو نہ صرف اپنے لیے ، اپنے خاندان عزیز و اقارب کے لیے بلکہ ساری امت کے لیے دعا کریں ، ساری امت کی خیر خواہی چاہیں میں یہ جملہ خوبصورت ہے ’’ دعا اورنصیحت وہ خیر خواہی ہے جن کا نعم البدل ساری دنیا کی دولت بھی نہیں ہو سکتی ‘‘
٭٭٭
رخسانہ شکیل۔ کراچی
جب سے بتول کے مددگار نمبر کا اعلان ہؤا تھا اس وقت سے ہی اس کی آمد کا انتظار شروع ہو گیا تھا آ خر 14 تاریخ کو بتول موصول ہؤا دیکھ کر دل خوش ہوگیا اور پڑھ کر تو دل باغ باغ ہو گیا ،ہر تحریر ایک سے بڑھ کر ایک۔ڈاکٹر حافظ کی اف یہ ماسیاں بہت زبردست رہی خاص طور پر یہ شعر:
رو روکے اپنےدکھڑے سناتی ہیں ماسیاں
اس ایکٹ سے بھی پیسے کماتی ہیں ماسیاں
صابن کی پرچ (حمیدہ بیگم) یہ تحریر بچپن میں پڑھی تھی جواب تک ذہن پر نقش تھی ایک لا جواب تحریر ہے۔مددگارو ں کی نت نئی قسموں اور ان کے بارے میں ان کی باجیوں کے احساسات کی ترجمانی بہت خوب رہی۔اپنے سارے پسندیدہ مصنفین کے شہ پاروں سے رسالہ جگ مگ کررہا تھا سمجھ نہیں آرہا تھا پہلے کسے پڑھا جائے۔ سب نے بہت خوب لکھا اس بہترین گلدستے کو سجانے کےلیے ادارہ کے تمام افراد مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اب ایک نمبر ان کی زبانی بھی ہو جائے جو ہمارے مدد گار ہیں یعنی ماسی کی کہانی ماسی کی زبانی۔
٭ ٭ ٭
سلمیٰ نظامی
چمن بتول کا ’’ مدد گار نمبر‘‘ کی اشاعت وقت کی اہم ضرورت تھی ۔شاہدہ اکرام صاحبہ نے بجا فرمایا کہ ’’اللہ بھلا کرے مدیرہ بتول کا جنہوں نے اس موضوع پر برسوں سے ابلتے دماغی لاوے کو قلم و قرطاس کے حوالے کرنے کے لیے اچھوتا عنوان دیا کہ دل باغ باغ ہو گیا ‘‘۔
ہمارے معاشرے کا اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر معاشرتی معاملات کے حوالے سے قرآن و سنت کی تعلیم سے آگاہی کم لوگوں کو حاصل ہے ۔ایسے میں کمزوروں کے حقوق کا تحفظ یا ان کے ساتھ معاملات میں خدا خوفی کو مدنظر رکھنا ، ایسے عنوانات کو موضوع سخن بنانا لازم ہے ۔
میمونہ حمزہ صاحبہ کے قلم کی جنبش ہمیشہ قارئین کے لیے خوبصورت پیغام کا سبب بنتی ہے ، آجر اور اجیر کے حقوق پر ان کی تحریر نہایت جامع ہونے کے ساتھ ساتھ مؤثر محسوس ہوئی۔
محترمہ آسیہ عمران کامضمون ’’ انسانوں میںطاقت کا توازن‘‘ امراء طبقہ کے لیے نہایت اہم اصول کا حامل ہے ۔ بلا شبہ مالک طاقتور کو فریق ثانی کے جذبات و احساسات کا خیال نہیں رہتا ۔ ایسے میں ان اصولوں کاراسخ ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ عنداللہ حساب و کتاب کے وقت ندامت نہ ہو ۔ سعدیٰ مقصود صاحبہ کی تحریر ’’ جاوید کی واپسی ‘‘ میں نہایت دلچسپ انداز سے ایک پھوہڑ شخص کا کامیاب ملازم بننے تک کی کہانی کو انتہائی عمدگی سے بیان کیا گیا ہے ۔ سعدیٰ صاحبہ کی یہ خوبی قابل ستائش ہے کہ مصنفہ شگفتگی اور شائستگی کے ساتھ جیتے جاگتے کرداروں کے حوالے سے اس انداز میں تحریر کرتی ہیں کہ قاری کی دلچسپی آغاز سے اختتام تک برقرار رہتی ہے ۔
ملازمین کے حوالے سے ہمارے رویوں پر نظر ثانی کس قدر ضروری ہے ۔ یہ گہرا احساس افشاں نوید صاحبہ کا مضمون ’’ جبر سہہ لیتا ہوں کہ مزدور ہوں میں ‘‘ اجاگر کرتا ہے ۔کیوں کہ معاشرتی مسئلہ ہونا اپنی جگہ اہم ہے لیکن آخرت کا اس سے جتنا تعلق ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
معاشرتی موضوعات پر سلسلہ کلام کا جاری رہنا ، معاشرتی رویوں کی اصلاح کے لیے جہاں ضروری ہے وہاں ادب کی چاشنی بکھیرنے والوں کی تحاریر کی زینت بھی ہے۔
چمن بتول سے وابستہ تمام لوگوں کی صحت و سلامتی کے لیے دعائیں۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x