ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بتول میگزین

یوں ہی تو نہیں!
ثروت اقبال
امی میں شاہد بھائی کی شادی میں لہنگا پہنوں گی۔ آپ مجھے لہنگا بنا دیں نا! میں نے امی سے بڑی لجاجت سے کہا۔
امی نے کہا ،دیکھو بیٹا آج کل ہاتھ بہت تنگ ہے اور پھریہ میرے بھانجے کی شادی ہے تو شادی کے اخراجات بہت زیادہ ہیں، تحائف دینا شادی کی تقریبات میں آنا جانا تمام اخراجات مشکل سے پورے ہو رہے ہیں۔
میں نے کہا، امی کل سب کزنز نے یہی طے کیا ہے کہ سب شادی میں لہنگا پہنیں گی، اگر میں نہیں پہنوں گی تو کتنا عجیب لگے گا نا! مجھے بھی اچھا نہیں لگے گا،اور ہاں بڑی پھپھو ،چھوٹی پھپھو، چچی اور تائی امی سب ساڑھی پہنیں گی اور امی آپ بھی ساڑھی پہنیں گی۔
ساڑھی کا نام سن کر امی کی آنکھیں کچھ چمک اٹھیں ۔میں سمجھ گئی، امّی تو اپنی وہی پسندیدہ ساڑھی پہنیں گی جسے انہوں نے بہت سنبھال کر دوہرے شاپر میں بند کرکے الماری میں رکھا ہؤا ہے۔ مجھے امّی کی اس ساڑھی کو دیکھے ہوئے بھی کئی سال ہوگئے تھے کیونکہ امی نے وہ ساڑھی ایک یا دو مرتبہ ہی خاص موقعوں پر پہنی تھی۔
یہ سوچتے سوچتے میں سو گئی۔ رات خواب میں بھی میں لہنگا پہنے سارے گھر میں گھوم رہی تھی ۔ صبح اسکول جانے کی جلدی میں امی کو خواب بتانا بھول گئی۔
اسکول سے واپس آئی تو گھر میں داخل ہوتے ہی امی کی سلائی مشین کی آواز آ رہی تھی۔ میں امی کے پاس جانے کی بجائے صحن میں سے گزرتے ہوئے سیدھا باورچی خانے میں چلی گئی اور وہیں سے امی کو آواز دی۔ امی! بھوک لگی ہے کھانا دے دیں۔
امی میری آواز سن کر کمرے سے باہر آئیں۔ ان کے لبوں پر مسکراہٹ چہرے پر خوشی اور آنکھوں میں چمک تھی اور ان کے ہاتھوں میں کوئی کپڑا تھا جو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ہاتھ اوپر کرتے ہوئے میرے سامنے لٹکادیا۔
لہنگا !!! اتنا خوبصورت۔ میں نے نعرہ لگایا، میری امی نے میرا لہنگا بنا دیا ہے…اتنی خوبصورت بیلیں لگائی ہیں۔ لپک کر امی کے ہاتھوں سے میں نےوہ لیا،اب میں وہ لہنگا اپنے جسم سے لگا کر پورے صحن میں گھوم رہی تھی۔
شادی والے دن ہم سب کزنز نے لہنگا پہنا ہؤا تھا اور ان کی ماؤں نے ساڑھی پہنی ہوئی تھی مگر میری امی نے اپنی پسندیدہ ساڑھی نہیں پہنی تھی قمیض شلوار کا سوٹ پہنا تھا ۔ سب کے پوچھنے پر امی نے بتایا ۔ ’’میری کمر اور گھٹنوں میں تکلیف ہے میں ہیل والی سینڈل نہیں پہن سکتی اور اس کے بغیر ساڑھی خوبصورت نہیں لگتی ہے ‘‘۔
اس وقت میری عمر 14 سال کی تھی ۔ اٹھارہ سال کی عمر میں میری شادی ہوگئی ۔ میری شادی کے دو سال بعد امّی ابّا عمرہ کرنے گئے تو فرصت سے میکے میں رہنے کا موقع ملا ۔ گھر میں چھوٹا بھائی تھا۔
آج میں نے سوچا اسٹور کی صفائی کر دیتی ہوں۔ اسٹور میں ایک کونے میں رکھا ہؤا امی کا بکس کھولا تو کچھ جانا پہچانا سا کپڑا دکھائی دیا ۔ کپڑے کے اس ٹکڑے کے ساتھ بلاؤز اور پیٹی کوٹ لپٹے ہوئے رکھے تھے۔ارے یہ تو میرے لہنگے میں سے بچا ہؤا ٹکڑا تھا جوکبھی امی کی خوبصورت ساڑھی ہؤا کرتا تھا! یادوں کے دریچے کھولے تو لمحے بھر میں بات سمجھ میں آگئی کہ شاہد بھائی کی شادی پر امی ساڑھی نہ پہننے کی وجہ کمر اور گھٹنوں میں تکلیف کیوں بتا رہی تھیں ۔
بچپن سے بڑے ہونے تک اسکول کی کتابوں میں ماں کے بارے میں جو کچھ بھی پڑھا تھا ایک جھلک میں نظروں سے یوں گزر گیا کہ یوں ہی تو …. جنت ماں کے قدموں تلے نہیں رکھ دی گئی۔
یوں ہی تو نہیں…. فرما دیا گیا ماں باپ کو’’اُف‘‘ تک نہ کہو ۔
یوں ہی تو نہیں…. قرآنی دعا نازل ہوگئی۔ رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا ۔
یوں ہی تو نہیں…. ایک ماں نے بیاباں میں اپنے پیاس سے بلکتے ہوئے بچے کے لیے سعی کی اور زم زم کا چشمہ پھوٹ پڑا۔
یوں ہی تو نہیں…. طور پر حضرت موسٰی علیہ السلام کو فرما دیا گیا کہ اے موسٰی ذرا سنبھل کر چلنا تمہارے لیے دعا مانگنے والے ہاتھ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
یونہی تو نہیں حضرت اویسؓ قرنی کو اتنا بڑا رتبہ دے دیا گیا کہ حضرت عمر ؓ اور حضرت علیؓ نے ان سے اپنے لیے دعائیں منگوائیں ۔
یوں ہی تو نہیں دوران حمل انتقال فرما جانے والی ماؤں کے لیے جنت لکھ دی گئی ہے ۔
مصیبتوں اور پریشانیوں کو ماں اپنے آنچل میں چھپا لیتی ہے۔ یہ کوئی رسم و رواج یا ثقافت نہیں ہے بلکہ ساری دنیا میں ماں اور اولاد کے رشتے کی گہرائی ہے جسے کبھی ناپا نہیں جا سکتا۔ میں اپنی خوش قسمتی پر نازاں تھی اور اپنی ماں کو عظیم ماؤں کی فہرست میں دیکھ رہی تھی۔ میں اپنی ماں کی لازوال محبت کو کسی بھی شے کے ساتھ تول نہیں سکتی۔ اگر انھیں محبت بھری نظروں سے صرف دیکھوں بھی تو میرے رب کی طرف سے میرے لیے حج مبرور کے ثواب کا تحفہ ہے۔ یا رب مجھے اپنے ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا، آمین۔
٭٭٭
نفس مطمٔنہ کی واپسی
روزینہ خورشید
’’امی تمہارا انتظار کر رہی ہیں آپی!‘‘
یہ الفاظ میرے بھائی کے تھے جس کا فون سننے کے بعد حواس قابو میں نہ رہے۔ میں دو دن سے بیمار تھی اور امی کو دیکھنے ہاسپٹل نہ جا سکی تھی۔ فوراً اپنے شوہر کے ساتھ ہاسپٹل پہنچی جہاں میری جنت، میری امی اپنے رب سے ملنے کی تیاری میں تھیں۔ میں نے جاکر ان کو پکارا، وہ کومے میں تھیں ،پھر ان کے سرہانے سورہ یاسین کی تلاوت کی، امی کے ہاتھوں کا لمس محسوس کیا کہ اب یہ مہربان ہاتھ ہمیشہ کے لیے مجھ سے جدا ہونے والے تھے۔ امی کو اللہ حافظ کہہ کر ہاسپٹل سے گھر آنے کے لیے نکلی تو راستے میں ہی فون آگیا کہ امی کی مطمئن روح رب کے بلاوے پر لبیک کہتے ہوئے سفر آخرت پر گامزن ہو گئی۔
یہ 22 جولائی 2004جمعرات،رات 8 بجے کا وقت تھا۔ امی کی شدید خواہش تھی کہ ان کی نماز جنازہ جمعہ کی نماز میں ادا کی جائے اور الحمدللّٰہ ان کی یہ خواہش اللّہ نے پوری کی ۔
آج اس مہربان ہستی کو اس دنیا سے رخصت ہوئے اٹھارہ سال ہوگئے ہیں لیکن مجھے ہمیشہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ میری امی میرے ساتھ ہیں، خاص کر جب میں کسی پریشانی میں ہوتی ہوں یا مجھے کوئی تکلیف ہوتی ہے تو وہ خواب میں مجھے تسلیاں دیتی ہیں۔
میری امی جان اپنے نام کی طرح احسان کرنے والی تھیں۔ انتہائی خوبصورت، خوب سیرت اور تہجد گزار ۔ ہر ایک سے عزت سے ملنے والی،بہت سخی ، خاموشی سے لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرتی تھیں ، انتہائی مہمان نواز، بزرگوں کی خدمت کرنے والی،صابرین اور شاکرین کی عملی تفسیر تھیں ۔
جب ان کی شادی ہوئی تو دونوں خاندانوں کے اسٹیٹس میں بہت فرق تھا۔ میری والدہ کا تعلق متمول گھرانے سے تھا جبکہ والد صاحب ایک سرکاری ملازم کے پڑھے لکھے بیٹے تھے۔ دونوں گھرانوں کے طرزِ زندگی میں زمین آسمان کا فرق تھا لیکن امی نے کبھی بھی ابو سے کسی قسم کی کی شکایت نہیں کی اور فوراً ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیا ۔ والد صاحب سے ان کا تعلق صرف شوہر اور بیوی کا نہیں تھا بلکہ وہ ان کی بہترین دوست، بہترین مشیر اور بہترین معاون بھی تھیں۔
وہ کہتے ہیں نا کہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہے، اس میں نشیب و فراز بھی آتے رہتے ہیں تو والد صاحب کی زندگی میں بھی کافی اتار چڑھاؤ آئے مگر امی نے اپنی 31 سالہ ازدواجی زندگی میں قدم قدم پر ان کا ساتھ دیا۔ ان دونوں کے درمیان بے پناہ محبت اور عزت و احترام کے رشتے کے ساتھ ساتھ ایک ظریفانہ سی بےتکلفی بھی تھی جس کی وجہ سے گھر کا ماحول خوش گوار رہتا تھا اور اگر کبھی کوئی نوک جھونک ہوجاتی جو کہ شادی شدہ زندگی کا حسن ہوتی ہے تو ہمیشہ منانے میں پہل ابو کیا کرتے تھے کیونکہ وہ ہمیشہ امی کی فہم و فراست اور خوبیوں کے معترف رہتے تھے۔ انھوں نے گھر کے ہر طرح کے اختیارات امی کو دیے ہوئے تھے۔ رشتہ داروں سے ملنا ملانا ہو یا شاپنگ کرنا، عید بقر عید پر دعوتوں کا اہتمام کرنا ہو یا شادی بیاہ میں دینا دلانا یعنی گھر کے سارے اندرونی اور بیرونی معاملات امی کے حوالے تھے اور یہ تمام ذمہ داریاں وہ بڑی خوش اسلوبی سے نبھاتی تھیں ،ابو اسی لیے پیار سے انہیں ہوم منسٹر کہا کرتے تھے ۔
کہتے ہیں اچھی بہو بننا دنیا کا مشکل ترین کام ہے لیکن میری امی وہ خوش نصیب خاتون تھیں جو کہ سسرال میں بھی ہر دل عزیز تھیں۔ حالانکہ ان کو ہم سے رخصت ہوئے اٹھارہ سال ہو گئے ہیں لیکن آج بھی جب میں ددھیال کی کسی محفل میں جاتی ہوں تو وہاں ہر ایک کی زبان سے امی کی تعریف سن کر سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے ۔
کہتے ہیں جو اللہ سے محبت کرتا ہے اللہ اس سے محبت کرتا ہے اور پھراللہ لوگوں کے دلوں میں اس شخص کی محبت ڈال دیتا ہے۔میری امی کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا ۔اپنے اور غیرسب ہی ان سے بہت محبت کرتے تھے انہوں نے ہم دونوں بہن بھائی کی تعلیم و تربیت بہت صبر و شکر کے ساتھ کی۔ اپنی دونوں اولاد سے انہیں محبت نہیں بلکہ عشق تھا ۔ مجھے یاد ہے جب میں شادی کے بعد ان سے ملنے جاتی تھی تو وہ کہتی تھیں’’میری چڑیا گھر سے چلی گئی تو چڑیوں نے بھی یہاں آنا چھوڑ دیا‘‘ ۔میری شادی کے بعد وہ صرف چار سال حیات رہیں۔ ان کے انتقال کے وقت ان کی عمر صرف 45 برس تھی۔ اپنی امی کے ساتھ گزرے ہوئے شب و روز میری زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ ہیں ۔ اگر میں لکھنا چاہوں تو ان پر پوری کتاب لکھ ڈالوں ۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ میری امی جان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے ،ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما دے اور مجھے ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دے آمین۔
٭ ٭ ٭
ایک ملاقات کا احوال
حنا سہیل۔ جدہ
ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ جدہ آئی ہوئی ہیں، یہ معلوم ہونا تھا کہ فوراً جدہ کی ساتھیوں نے ان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا ۔ ہمیں معلوم ہوا ہم تو جیسے کب سے ملاقات کے خواہاں تھے ،انھیں دیکھنے اور ملنے کا ان سے کچھ سیکھنے کا بہت شوق تھا سو پہنچ گئے شبنم باجی کے گھر ۔
4 مارچ بروز ہفتہ ایک نشست شبنم باجی کے گھر گوشہ تسنیم والی بشریٰ تسنیم کے ساتھ رکھی گئی۔ بشریٰ تسنیم جدہ کی پہلی ناظمہ رہیں اور یہاں کام کی بنیاد رکھی۔ یہ 1977 کی بات ہے ۔ اس دور کی باتوں سے بات ہوتی ہوئی دیگرساتھیوں کے تعلق تک پہنچی تو کہنے لگیں کہ یہی تو خالص رشتہ ہے، آپ کہیں چلے جائیں لوگ آپ سے والہانہ محبت سے ملیں گے صرف دینی رشتہ کی وجہ سے ۔ اس رشتے میں کسی مال و دولت کا جھگڑا نہیں لین دین کا جھگڑا نہیں۔ یہ محبت خالص اسلام اور اللہ کےلیے ہے ۔ جب ہم اللہ کے گھر ملیں گے تو ایک دوسرے کو ایسے پہچانیں گے جیسے یہاں دنیا میں ۔وہاں ہمیں کوئی ملے گا جن کی کتابیں ہم نے پڑھی ہوئی ہیں تو خوشی ہوگی ۔ اس کے بعد رمضان کے موضوع پر کہنے لگیں کہ رمضان المبارک کا وہ مقصد ہم نے سمجھا ہی نہیں جو اللہ نے دیا تھا یعنی تقویٰ کا حصول ۔ ایک حدیث ہم بڑے شد و مد سے سناتے ہیں کہ رمضان المبارک کا مقصد برکتیں سمیٹنا ہے ، برکت کا مہینہ ہے۔ اور پھر کہتے ہیں کہ دیکھیں جی ہم سارا مہینہ پکوڑے کھاتے ہیں اتنے کبھی سال میں کھاتے ہیں؟ فروٹ چاٹ کھاتے ہیں اتنا کبھی سال بھر نہیں ملتا، یہ برکت ہے۔
یہ سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی روح کا رزق قرآن پاک کو قرار دیا ہے اور اس رزق کی برکت رمضان المبارک میں بڑھ جاتی ہے ۔ تراویح میں ، دورہ قرآن میں ، تو جس کو جو طلب ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس کی برکت اسکی طلب میں بڑھا دیتا ہے ۔ انواع و اقسام کی چیزیں افطار میں کھانے کے بعد روح کی غذا کا انتظام کرنے کیسے اُٹھیں گے ؟نماز پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ جو نیت کی ہے اس کے مطابق آپ کا عمل ہوجاتا ہے، مثلاً ہم نے ٹرین کا ٹکٹ لیا ہے لاہور کا تو وہ ہمیں وہیں لے کرجائے گی کسی اور جگہ نہیں ۔ تو نیت بھی ہمیں وہیں لے کر جاتی ہے جہاں تک سوچا ہے ۔ رمضان المبارک کا اصل مقصد تقویٰ کا حصول ہے جتنی بھی فرض عبادتیں ہیں ان سب کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کسی صحابی نے پوچھا کہ تقویٰ کہاں ہے توآپؐ نے دل کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ تقویٰ ھا ھنا یعنی دل میں ہے تقویٰ ۔ دل اور تقویٰ کا تعلق کیا ہے اس کو بشری باجی نے بلب کی مثال دیکر سمجھایا کہ جیسے بلب کے اندر چھوٹی تاریں جو جڑی ہوئی ہوتی ہیں ،وہ جب جڑتی ہیں تو روشنی دیتی ہیں۔ اسی طرح ہمارے دل کے اندر بھی اللہ کی محبت کی تاریں ہیں ۔ اب اس بلب کے اوپر ہم جس رنگ کا شیڈ لگائیں گے اسی رنگ کی روشنی چاروں طرف پھیلے گی ۔ ہمیں چاہیے کہ دل پر صبغت اللہ یعنی اللہ کا رنگ چڑھائیں۔
آگے چل کر اگر ہمارے دل کا بلب فیوز ہوجاتا ہے تو ہم اس بٹن کو دیکھتے ہیں کہ پاور آرہی ہے یا نہیں جبکہ بٹن بھی آن ہے اللہ تعالیٰ کا پاور ہاؤس بھی تقویٰ کی بجلی دے رہا ہے۔جب کہ ہمیں بلب کو دیکھنا چاہیے کہ وہ تو فیوز نہیں۔ اس بلب کا بٹن وہ توجہ اور ارادہ ہے جو ہم اللہ سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ علاقہ کا ٹرانسفارمرمسجد کا امام ہے، وہ بھی اگر صحیح چل رہا ہے تو سب جگہ روشنی ہوگی۔ ان ساری چیزوں کا آپس میں جوڑ مومن کے دل پر اللہ کا رنگ چڑھا دیتا ہے اور اس رنگ کی روشنی چاروں طرف پھیل جاتی ہے ۔ اس سے چاند کے ہالہ کی سی روشنی نکلتی ہے جو اپنے آس پاس رہنے والوں کو فائدہ پہنچاتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ رمضان ہمارے لیے روح کی غذا بڑھانے کا ذریعہ ہوآمین۔
یوں یہ ایک بہترین نشست ختم ہوئی ،چائے اور لوازمات سے مہمانداری کی گئی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بہترین لوگوں سے ملا کر رکھے اور ہمیں جنت میں دین کے ساتھیوں کا ساتھ نصیب فرمائے آمین۔
٭٭٭
کیا ہم آزاد ہیں ؟
تنجینہ احمد ۔ لاہور
سوچ رہی تھی کہ کیا لکھوں کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ میرے ضمیر نے کہا کیسی آزادی؟ہاں آزادی وہ تھی جس میںلاکھوں عورتوں کی عصمت لٹی تھی ، بیٹے شہید ہوئے تھے ، مائوں کے سر سے چادر چھینی تھی ، عورتیں بیوہ ، بیچے یتیم ، مائوں کے لخت جگر ان کے سامنے نیزوں پرپرو دیے گئے تھے۔ وہ آزادی جس کی خاطر لاکھوں انسانوںنے خون کادریا عبورکیا تھا اور گھر بار لٹا کر خالی ہاتھ اس پاک سر زمین پر قدم رکھا تھا ۔
ان جواںمردوں کی جدوجہد والی آزادی اقبال ؒ کے خوابوں کی تعبیر والی آزادی ۔ مولانا جوہر اور لیاقت علی خان کے جذبوں اور لگن والی آزادی اوراس مرد مجاہد محمد علی جناح کی انتھک محنت والی آزادی جنہوںنے اس خدا داد مملکت کے لیے اپنا چین و سکون تج دیا تھا۔
پھر کیا ہؤا کہ سکھ کا سانس بھی چند برس نہ لے پائے کہ لٹیرے اس ملک کے حکمران بن گئے اور پھر ایک کے بعد ایک اپنا کردار ادا کرنے اسٹیج پر آتے رہے ۔ ذاتی مفاد ، اقراء با پروری اور لو ٹ مارنے اس پیارے وطن کو لہو لہو کر دیا ۔نہ عصمتیں محفوظ رہیں نہ جانیں ۔ بے غیرتی اور بے حیائی کاطوفان اٹھا اور اپنے ساتھ دو قومی نظریے کو بہا لے گیا ۔ ہم جو دعوے سے آئے تھے کہ ہم ایک الگ قوم ہیں ،ہماری ملت اور شناخت الگ ہے ہم کسی سیکولر نظام کاحصہ نہیںبن سکتے ، ہمیں آزاد ملک کی ضرورت ہے جہاں ہم اپنے اسلامی نظام کے ساتھ زندگی گزار سکیں ۔ مگر عبد اللہ بن ابی ، میر جعفر اورمیر صادق تو ہر دور میں رہے ہیںنا جو غدار ملت ، ننگ وطن ہوئے اوراپنوں کی پیٹھوں میں خنجر گھونپنے کا سبب بنے ۔ چند ٹکوں کی عوض بکنے والے آج بھی موجود ہیں جنہوں نے اس درخت کو ہمیشہ کاٹنے کی کوشش کی جس پر کہ خود ان کا پہرہ تھا ۔ ایک بڑی شاخ کاٹ کر الگ کردی اورمزید چار شاخوںکوالگ الگ کرنے کی مذموم کوشش جاری ہے ۔
مگر کیاواقعی وہ ایسا کر پائیں گے اللہ نہ کرے وہ دن آئے ۔اگر غدار وطن ہیں تو خیر خواہ بھی بہت ہیں جو اس وطن کو ٹوٹنے نہیںدیں گے ، اس کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کردیںگے ۔ کیونکہ آزادی کا مطلب سمجھتے ہیں۔
اپنی مرضی کی زندگی ، سکون و چین کی نیند ، پیٹ بھر کھانا ، اچھا پہننا ، روز گار، ہر طرح کی سہولت ، نہ کسی کی غلامی نہ لا چاری امن وامان ، کھلی فضا جہاںبارود کی بو نہیں آتی ۔ جہاںگولیاں اوربم باری دلوں کو نہیں ہلاتی، جہاںبچے زخمی اورجوان شہیدنہیں ہوتے ، جہاں مائیں آہو زاری نہیں کرتیں ۔
کیسے دل دہلا دینے والے مناظر ہیں غلام قوموں کے ۔ وہ فلسطین ہو یا کشمیر ، چیچنیا ہو یا سر بیا جہاں دشمنوںکا قبضہ ہؤا اورہر وقت موت کا خوف ۔ آزادی کی جدوجہد میں اپنا سب کچھ قربان کر چکے اورکر رہے ہیں ۔ ہاں ان سے پوچھیں غلامی کیا ہوتی ہے اور آزادی کیا۔ ہمیں جان پہ کھیل کر اس آزادی کی حفاظت کرنی ہے پورے ملک کے اندر کہیں غلط ہو رہا ہے تو صحیح کرنے والے بھی تو بہت ہیں ۔ سدھار اور بنائو کا کام بھی تو ہو رہا ہے میری سوچوں نے پلٹا کھایا اورنا شکری پر ندامت ہوئی کہ جواچھا ہے اس کا ذکر نہیں جو غلط ہے اس پر وا ویلا اورنا شکرا پن ۔
میری تو قیامت تک آنے والی نسلیں بھی اس آزادی پر شکر کے سجدے کریںتو کم ہے یہ اللہ کا احسان ہے کہ ہم ایک آزاد فضا میںسانس لے رہے ہیںاور انشاء اللہ تاحشر آزاد رہیںگے ۔
٭…٭…٭
کون سی قوم ہیں ہم !
شہناز یونس
اللہ تعالیٰ نے بے شمار قومیں اس کرہ ارض میںبنائی ہیں جو اپنی اپنی خصوصیات رکھتی ہیںلیکن جو پاکستانی قوم ہے وہ ایک اپنی ہی قسم کی قوم ہے جس کی کوئی نظیر نہیںملتی میںاکثرسوچتی ہوںکہ آخر ہم ایسے کیوں ہیں؟ دماغ تاریخ کے تانے بانے ملانے لگ جاتا ہے کہ اس خطے پرکیونکہ بیرونی قوموںکی یلغار ہوتی رہی کبھی آریہ خاندان یہاںآباد ہوئے کبھی منگولوں نے حملہ کیا کبھی سکندر اعظم نے اس زمین پرحملہ کیا کبھی محمود غزنوی نے، کتنی پانی پت کی جنگیں ہوئیں پھر مغل آگئے ۔
جب بھی حملہ آورآئے تو پیچھے کچھ لوگ چھوڑ گئے جن کے خاندان یہاں پھلتے پھولتے رہے۔ تو آج جو ہم ہیں ہمارے اندر اُن تمام نسلوں کی خصوصیات موجود ہیں کچھ اچھی کچھ بری ۔ جب آپ پاکستان سے باہر جاتے ہیں اورباہرکی قوموں کودیکھتے ہیں تولامحالہ دل میں خیال آتا ہے کہ ہم لوگ ویسے کیوں نہیں ؟ ہم ان ملکوں میںان کے اصولوںپر عمل کرتے ہیں اوراپنا بہت اچھا تاثر چھوڑتے ہیں لیکن جیسے ہی جہاز پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوتا ہے نجانے ہمیں کیا ہوجاتا ہے ۔
شگاگو سے بہت لمبی فلائٹ کے بعد دوحہ ائیر پورٹ پر 3گھنٹے کا وقفہ تھا۔ہر اگلا جہاز دوحہ سے لاہور کے لیے روانہ ہؤا ۔ 3گھنٹے کی فلائٹ تھی انسان تھکا ہؤا ہوتا ہے کہ کونسی گھڑی ہو اور ہم گھر پہنچ کر سکھ کا سانس لیں ۔ لیکن اس کایہ مطلب توہر گز نہیں کہ آپ جہاز کے پہیے زمین پر لگتے ہی بے صبرے ہوجائیں ۔ بار بار اعلان ہو رہا ہوتا ہے کہ جب تک جہاز پوری طرح رک نہ جائے آپ اپنی سیٹ پربیٹھے رہیں ، لیکن کون سنتا ہے ! خدا کے بندوتھوڑا حوصلہ کر لو آگے جا کربھی تو سامان کاانتظار کرنا ہے ۔ لیکن نہیں۔ جہاز کے رکتے ہی اپنا اپنا بیگ اٹھا کر ایسے بھاگتے ہیںجیسے قیدخانے میں سے نکلے ہوں ۔ کوئی بوڑھا شخص ہے ، کسی کے ساتھ چھوٹے بچے ہیں،لیکن نہیں جی، ہم نے تو باہر جا کرآگ بجھانی ہے۔ یہ سب دیکھنا بہت تکلیف دہ لگتا ہے ۔ یقین نہیں آتا کہ یہی قوم ہے جو امریکہ، لندن اورمڈل ایسٹ میں صحیح طور پر ان کے قوانین پر چلتی ہے ۔
آج میں نے سوچاہے کہ ان چھوٹے چھوٹے معاملات پرکچھ لکھوں گی جوبہت دنوں سے دماغ میںآ رہے تھے ۔ ہم نے بحیثیت قوم ’’امر بالمعروف نہی عن المنکر‘‘ کا فریضہ کیوںچھوڑ دیاجب کہ قرآن میںبار بار اس کا ذکر آیا ہے ۔ آج جو ماحول خراب ہے اس میں ہم سب قصو روار ہیں ۔ ہرشہر میں جہاںجہاںعورتوں کے لباس بنائے جاتے ہیں وہاں انہوںنے ڈمیز رکھی ہوئی ہیں جن پر لباس پہنا کر لباس کی نمائش کی جاتی ہے ۔ پورا جسم تونہیں ہوتا آدھا اوپروالا دھڑ ہوتا ہے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ساٹھ ستر کی دہائی میں ایک لکڑی کاسٹینڈ ہوتا تھااس پر کپڑے لٹکا کراوپرکسی فلم ایکٹریس کاچہرہ کسی میگزین سے تراش کر اس لکڑی پر چپکا دیاجاتا تھا ۔ جسم کے خدو خال ہرگزنہ ہوتے تھے ۔ یہ اس وقت کی بہت اونچی دکانیں ہوتی تھیں جیسے انار کلی کا بومبے کلاتھ ہائوس ، صوبہ خان کی مال روڈ کی دکان ، کریم بخش کی مال روڈ والی دکان ، شریفانہ دکانیں اورشریفانہ کپڑوںکاڈسپلے جب یہ پلاسٹک کے جسم بنا کر کپڑوں کی نمائش شروع کی گئی تو کیوں ہم نے مزاحمت نہیںکی ۔مجھے یادہے 1989ء میں ایک انگلش اخبارمیںماڈلز کی بہت غیر مناسب تصا ویر تھیں ۔ میںنے ایک بہت بڑا کالم لکھ کر اُس اخبار کوبھیجا تھا جو انہوں نے شائع نہیںکیا ۔ پھر نوائے وقت میںبھیجا ان کی مہربانی انہوںنے اس کو چھاپ دیا۔ اب شاید ہم نے برائی کو برائی سمجھنا چھوڑ دیا ہے ۔
میراپنڈی اسلام آباد اکثر آنا جانا رہتاہے ۔ ڈائیوو بس میںکافی سفرکیا ہے ۔ ایک دفعہ پنڈی جا رہی تھی مغرب کا وقت تھا اوربس میں گانا چل رہاتھاآواز آئی تو سر اٹھا کردیکھا توفلم چل رہی تھی اس کاگانا تھا ( میں اکثر سفر کے دوران کچھ نہ کچھ پڑھ رہی ہوتی ہوں اس لیے اس طرف دھیان پہلے نہیںگیا ) ہوسٹیس کو بلایا اور سمجھا کرکہا کہ بیٹا اس وقت یہ گانا اورفلم ٹھیک نہیںدو وقت مل رہے ہیں ۔ اچھی بچی تھی اس نے ٹی وی بند کردیا کسی نے کوئی احتجاج نہیں کیا ۔ آپ ٹوکیں تو سہی ۔ آنکھیں کان بند کرکے اپنے معاشرے کاحال ہم نے خود بگاڑا ہے ۔
راولپنڈی میں ہی ایک دفعہ گوشت لینے گئی ۔ دکان پرذرا رش تھا میں باہر کھڑی ہو کر انتظار کرنے لگ گئی ۔ دو نوجوان پڑھے لکھے لڑکے ذرافاصلے پر کھڑے کرکٹ میچ پر تبصرہ کر رہے تھے ۔ شاید ان دنوں میں کوئی میچ ہو رہا تھا ۔ وہ اپنی گفتگو میںانتہائی بے ہودہ گالیوں کا فراخدلانہ استعمال کر رہے تھے ۔ میں نے ان کو بلا کر بہت نرمی اورپیار سے سمجھایا کہ میچ کے تبصرے میں گالیوں کی آمیزیش کی کیا ضرورت ہے کیوں اپنی زبان کوآلودہ کر کے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہو ۔ آپ یقین کریںکہ وہ دونوں لڑکے انتہائی شرمسار ہوئے اووعدہ کرکے گئے کہ آنٹی ہم آئندہ گالیاں نہیںدیںگے ۔ انہوںنے اس پر کتنا عمل کیایا نہ کیااللہ جانتا ہے ۔ آپ کہیں تو سہی ، ہم نے تو کہنا ہی چھوڑ دیا ہے ۔
بڑی بڑی ہائوسنگ سکیمز بن گئی ہیںجن میں بہت اچھے پارک اور جوگنگ ٹریک بنے ہوئے ہیں۔ جگہ جگہ کوڑے دان رکھے ہوئے ہیںاوران پر اردو میںلکھا ہؤا ہے ’’ کوڑااس میں ڈالیں‘‘ لیکن جو بھی بوتلیں اورپلاسٹک کے چپس کے لفافے آپ کوباہر گرے ہوئے نظر آتے ہیں خاص طورپر اتوار کی صبح کولیکن اگر آپ شام کو وہاںہیں،آپ ان لوگوںکو ذراساکہہ دیں تویقین مانیں لوگ آپ کی بات سنتے ہیں اور پھر اٹھا کر لفافے کوڑے دان میںڈال دیتے ہیں ۔
نجانے میونسپل کارپوریشن کا وجودہے یانہیںجگہ جگہ بورڈلگے ہیں’’مال روڈ کوصاف رکھیں‘‘ ڈیفنس کو صاف رکھیں، کینٹ کوصاف رکھیں، ہربچے کو کتاب دیں ۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x