ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

تبصرہ کتب – ماہنامہ بتول مدد گار نمبر – پروفیسر امینہ سراج

نام کتاب/رسالہ : چمن بتول مدد گار نمبر
شمارہ : جون2023
قیمت : 200روپے
عملی کاوش : مخلص و باصلاحیت قلم کاروں کی ٹیم
تنظیم، ترتیب : مجلس ادارت
مرہون منت : نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْر
چمن بتول ( مدد گار نمبر) کی خوبصورتی ، جامعیت اور تنوع احساسِ زیاں پیدا کر رہی ہے کہ میں اس شمارے کے مصنفین میں کیوں شامل نہ ہو سکی ۔میں نے سوچا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد مطالعے اور تحریر کو زیادہ ٹائم دے سکوں گی خصوصاً ’’چمن بتول‘‘ کو لیکن ایک دو سال ہی ایسا ہو سکا ۔ بعض اوقات حالات ایسی کروٹ لیتے ہیں کہ آپ کی مصروفیات یکسر بدل جاتی ہیں ۔ گھر ، شریکِ حیات اور خاندان شاید میرا زیادہ ٹائم لینے لگے ہیں بہ نسبت اپنی ذاتی دلچسپیوں کے لیکن میں اس میں بھی مطمئن رہتی ہوں کہ یہ بھی فرائض زندگی کا حصہ ہے۔ کئی لوگ ( بشمول صائمہ اسما) مجھ سے سوا ل کرتے ہیں کہ ’’ آپ بہت کم لکھتی ہیں ؟‘‘ میری کمزوری یہ ہے کہ میں تیزی سے نہ تو پڑھ سکتی ہوں اور نہ لکھ سکتی ہوں ۔کئی لوگ ایک ہی نشست میں کتاب یا رسالہ ختم کر لیتے ہیں لیکن میری تسلی نہیں ہوتی محض ورق گردانی سے جب تک ایک ایک لفظ ، ایک ایک جملہ ذہن میں جذب نہ ہوجائے ، دل میں اتر نہ جائے اور میں لکھ نہیں سکتی جب تک یکسوئی نہ ہو ۔ مختصر تحریر تخلیق کرنا میرے لیے نا ممکن ہے ۔جب تک کسی موضوع سے متعلق ذہن اور دل میں آنے والی تمام باتیں ایک خاص ترتیب کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر نہ آجائیں ، میری تشنگی دور نہیں ہوتی۔
بہر حال یہ طویل مضمون لکھ کر اُس احساسِ زیاں کی تلافی کی کوشش کر رہی ہوں جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے ۔ یہ تو میرے نہاں خانۂ دل کی باتیں تھیں جو میں نے لکھ دی ہیں بغیر یہ سوچے کہ بتول کے صفحات میں ان کی گنجائش ہے یا نہیں جانتی ۔ یا تو صائمہ اسما ء اس میں سے چند شذرات ’’ محشر خیال ‘‘ کے لیے چن کر باقی ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیں گی(تو بھی کوئی گلہ نہیں ) یا شاید کسی اور عنوان مثلاً’’ نہاں خانۂ دل ‘‘ یا ’’ تبصرہ کتب‘‘ کے تحت ایک یا دو قسطوں میں شائع کردیں۔
میرے خیال میں تو چمن بتول کا ’’ مدد گار نمبر ‘‘ ایک کتاب ہی ہے جسے ایک مکمل کتاب کے طور پر بھی شائع ہونا چاہیے ۔ ابھی تو میں ایک دن میں چند ہی مضامین پڑھ کر ان پر تبصرہ لکھ سکی ہوں ۔ دل تو چاہ رہا ہے کہ تمام افسانے اور شاعری بھی جلد از جلد پڑھ کر اظہارِ رائے کروں ۔ ہر تحریری کاوش سے پہلے مدتوں قبل پی ٹی وی کے کسی مشاعرے میں سنا ہؤا ایک مصرعہ بے اختیار ’’ دعا ‘‘ بن کر میرے لبوں پر آجاتا ہے ۔’’ لکھنے کی توفیق ہو یا رب اور میں لکھتا جائوں ‘‘۔
’’ مدد گار ‘‘ میں ڈاکٹر بشریٰ تسنیم کا ’’ گوشہِ تسنیم ‘‘ پڑھتے ہی بے اختیار دل چاہا کہ اپنی اس تحریر کا نام رکھوں ’’نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْر‘‘ واقعی اللہ بہترین آقا اور بہترین ’’ مدد گار ‘‘ ہے جس نے مجھے اور تمام قلم کاروں کو لکھنے کی توفیق دی۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ ہی ہوتی ہے ہمیشہ اے مرے مولا! اور کبھی تو ہم ’’ گوشۂ تسنیم ‘‘ میں جا کر ہی دم لیتے ہیں اور کبھی نا گزیر وجوہات و مصروفیات ایسی آڑے آتی ہیں کہ ’’ چمن بتول‘‘ کی سیر کا کئی کئی روز موقع ہی نہیں ملتا ۔ اور ہر سٹیشن پر پسنجر ٹرین کی طرح بریک لگ جاتی ہے ۔ اس مرتبہ بھی کچھ ایسا ہی ہؤا۔
خلافِ توقع’’مدد گار ‘‘ نے 5جون ہی کو دروازے پر دستک دے دی بلکہ گھنٹی بجا دی تھی لیکن ہم صرف اداریہ پڑھ کر اور مندرجات دیکھ کردل ہی دل میں مصنفین و مصنفات ، شعرا اور شاعرات کی کاوشوں اور ادارتی بورڈ کی محنت کو سراہتے ہوئے ’’ چمن بتول‘‘ کی سیر کو ہر روز آنے والے دن پر موخر کرتے رہے ۔ مہمان داری ، کچھ مریضوں کی خدمت ، یونیورسٹی میں پڑھنے والے بچوں کے امتحانات ، سب سے چھوٹی پوتی کے نخرے اٹھانا ۔اس کے ہوم ورک اور ٹسٹوں کی تیاری کی ذمہ داری ۔ چھٹیوں کے کام کا آغاز کروانا اور پھر سب سے بڑھ کر ’’ مدد گار ماسی‘‘ کا چھٹی پر چلے جانا ۔یہ سب مصروفیات بتول کے مطالعے کی راہ میں رکاوٹ بنتی رہیں ۔ اور پھر15جون کو اچانک باجی (بھابی) محترمہ ثریا اسما کی کال نے چونکا دیا۔’’ بتول پڑھ لیا ؟‘‘ وہ تبصرے کی منتظر تھیں اور ادھر یہ حال تھا کہ ہم ابھی اداریہ پڑھ کر ’’ انوارِ ربانی ‘‘ ہی کے سٹیشن پر تھے ۔ بہر حال اُن سے وعدہ کیا کہ اپنی مصروفیات کو بریک لگا کر کچھ توجہ ادھر بھی دوں گی۔ انشاء اللہ !
’’ مدد گار ‘‘ کا تجزیہ تو ڈاکٹر صائمہ اسما نے اداریے میں ہی کر دیا ہے اور خوب لکھا ہے ۔ ماسیوں کی اکثریت کاخط غربت کے نیچے زندگی گزارنا ، تعلیم و تربیت اور بعض اوقات شرف انسانی سے بھی محروم ہونا ۔ یہ سب واقعی ہمارے معاشرے کا المیہ اور ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے جس کی طرف ’’ مدد گار ‘‘ نے توجہ دلائی ہے ۔ویسے تو میں نے کئی گھرانوں ( بشمول ڈاکٹر مقبول احمد شاہد و ثریا اسما صاحبہ )دیکھا ہے کہ نسل در نسل گھر میں کام کرنے والیوں کو قرآن مجید ضرور پڑھایا جاتا ہے اور اخلاق و آداب سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ایسے گھروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہو گی ۔’’ مدد گار ‘‘کے توسط سے ممکن ہے کہ اور لوگ بھی اس کاوش میں اپنا حصہ ڈالنے لگیں ۔ ڈاکٹر صائمہ اسما نے اداریے میں ایک مسنون دعا کا بھی ذکر کیا ہے کہ ملازم رکھتے وقت یہ دعا پڑھی جائے ۔ الحمد للہ ! چمن بتول کی یہی خصوصیت اسے عام جرائد سے ممتاز کرتی ہے کہ قرآ ن و سنت کی تعلیمات کی ’’ تذکیر ‘‘ ( یاد دہانی ) اس کی ہر تحریر کا خاصہ ہوتی ہے ۔
ڈاکٹر میمونہ حمزہ کافی عرصہ سے ’’ انوارِ ربانی ‘‘ میں اپنے قلم کی روشنیاں بکھیر رہی ہیں ۔ آجر اور اجیر کے حقوق و فرائض ، ان کی خصوصیات اور باہمی تعلقات ، ان کے بارے میں قرآن و حدیث کی تعلیمات پر مشتمل جامع اور علمیت سے بھرپور مضمون لکھ کر انہوں نے متعلقہ موضوع کا حق ادا کر دیا ہے ۔ حضرت موسیٰؑ اور حضرت شعیبؑ کی مثال نے تحریر میں مزید خوبصورتی اور تاثیر پیدا کر دی ہے ۔
’’ قول نبیؐ ‘‘ میں ندا اسلام نے ’’ مساوات‘‘ کو موضوعِ سخن بناتے ہوئے سیرت النبیؐ سے بہترین مثالیں پیش کی ہیں ۔ سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت کی کوششوں کے مقابلے میں اسلام کی برتری ثابت کی ہے۔ یہ پڑھ کر مجھے اپنا زمانۂ طالب علمی یاد آگیا جب بھٹو صاحب نے نعرہ لگایا تھا۔’’ اسلام ہمارا دین ، جمہوریت ہماری سیاست ، سوشلزم (اشتراکیت) ہماری معیشت ‘‘۔ اس کے جواب میں جماعت اسلامی کی طرف سے نعرہ لگایا گیا تھا۔
’’ اسلام ہمارا دین ، اسلام ہماری سیاست ، اسلام ہماری معیشت‘‘
’’خاص مضمون ‘‘ لکھنے کا شرف اس مرتبہ محترمہ ڈاکٹر کوثر فردوس کے حصے میں آیا ۔ گھر یلو ملازمین کے حقوق کا قانون کی روشنی میں عمیق جائزہ پیش کیا گیا ہے بلکہ قانون بنانے کے ساتھ ساتھ اس کی آگاہی اور عمل کی طرف بھی ترغیب دلائی گئی ہے ۔ ان کا مضمون معلومات سے بھرپور ہے اور افراد اور حکومت کے باہمی تعاون کی طرف بھی توجہ دلا رہا ہے ۔( ماشاء اللہ )
’’ انسانوں میں طاقت کا توازن ‘‘ آسیہ عمران نے اچھا ’’اجتھاد‘‘ پیش کیا کہ ’’ غلام ‘‘ کے معنی سمجھاتے ہوئے اس کی تطبیق ہر قسم کے ملازمین ، ماتحتوں اور زیر کفالت لوگوں پر کردی ۔ زیر نظر مضمون میں ہر قسم کے مدد گار اور مدد حاصل کرنے والوں کے لیے بہترین رہنما اصول مرتب کر دیے گئے ہیں ۔لبِ لباب یہ ہے کہ احترامِ آدمیت تقویٰ اور امانت کے بغیر ممکن نہیں ۔
’’جبر سہہ لیتا ہوں … کہ مزدور ہوں میں ‘‘ کیا خوب عنون لگایا ہے محترمہ افشاں نوید نے ’’ حسن معاشرت‘‘ کے تحت اور پھر اپنے مخصوص انداز میں ذاتی اور معاشرتی زندگی کے واقعات لکھ کر نہ صرف ’’مدد گار نمبر ‘‘ کی مدد کی ہے بلکہ قارئین کے لیے ایک پر کشش تحریر بھی پیش کی ہے ۔ مدد گاروں کی عزت ِ نفس کا خیال رکھنا واقعی ہماری اہم ذمہ داری ہے جواللہ کے ہاں ہمیں سرخ رو کر سکتی ہے ۔ ان کا پر تاثیر مضمون پڑھ کر مجھے اشفاق احمد صاحب کی پروگرام ’’ زاویہ‘‘میں کی ہوئی کچھ باتیں یاد آگئیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا :’’ ہمیں ان لوگوں ( مدد گاروں ) کی قدر کرنا چاہیے ۔ مثلاً میری گاڑی کے دروازے کا ایک ہینڈل ٹوٹ جاتا ہے تو میں ، جو اتنا پڑھا لکھا ہوں، اتنا بڑا پروفیسر ہوں یہ چھوٹا سا کام خود نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے میں مکینک کا محتاج ہوں لہٰذا جب بھی میں کسی مکینک وغیرہ کے پاس جاتا ہوں تو واپسی پر’’ شکریہ ‘‘ کا لفظ ضروربولتا ہوں ‘‘۔
افشاں نوید صاحبہ مزید لکھتی ہیں :’’ جب آپ دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں جاتے ہیں محنت اور مزدور کی قدردیکھتے ہیں تو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے ملک میں جو تعیش حاصل ہیں ہمیں ان کا ادراک ہے نہ شکر گزاری ‘‘۔
محترمہ نے امریکہ اور پاکستان کے ’’ مدد گاروں ‘‘ اور ’’ مدد حاصل کرنے والوں کا خوب موازنہ کیا ہے ۔ یہ باتیں پڑھ کر مجھے محترم سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ صاحب کی ایک تحریر یاد آگئی جو ان کی کتاب ’’ خطبات‘‘ میں صفحہ نمبر 250پر ’’ ہماری قدر نا شناسی ‘‘کے عنوان کے تحت موجود ہے ۔ مولانا ؒ لکھتے ہیں :
’’ تم نسلی مسلمانوں کاحال اس بچے کا سا ہے جو ہیرے کی کان میں پیدا ہؤا ہے ایسا بچہ جب ہر طرف ہیرے ہی ہیرے دیکھتا ہے اور پتھروں کی طرح ہیروں سے کھیلتا ہے تو ہیرے اس کی نگاہ میں ایسے ہی بے قدر ہو جاتے ہیں جیسے پتھر … تمہیں یہ نعمتیں ( ارکانِ اسلام کے تحفے ) مفت میں بغیر کسی تلاش و جستجو کے صرف اس وجہ سے مل گئیں کہ تم مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے ہو۔ اور تم اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے اس دولت ، طاقت اور نعمت کو ضائع کر رہے ہو ‘‘۔
بالکل اسی طرح ہم ’’ مدد گاروں ‘‘ کی قدر نہیں کرتے جو ہمیں آسانی سے اور کم اجرت پر دستیاب ہیں۔
محترمہ افشاں نوید مزید لکھتی ہیں :’’ وہ آپ ہی ہیں جو اپنے وطن میں معمولی کاموں کے لیے مزدوروں کی خدمت حاصل کرتے ہیں اور جب بیرون ملک جاتے ہیں تو اپنا ہر کام خود کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ یہاں مزدور کا معاوضہ اتنا زیادہ ہے کہ ہرفرد خود مزدوری کرنا پسندکرتا ہے‘‘۔
مذکورہ چند جملوں سے اہل وطن کے لیے بہت سے پیغامات نکلتے ہیں جو پیغام میں نسلِ نو کے جوانوں کو دینا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ آج نوجوانوں کی اکثریت ملک سے باہر جانے کے لیے اپنا تن من دھن لٹانے کوتیار ہے اور یہ شوق ’’ جنون‘‘ کی حد اختیار کر گیا ہے ۔ لیکن پیارے بچو ! یاد رکھیے ’’ اپنے وطن کی ایک روٹی بیرون ملک کی دس روٹیوں سے بہتر ہے ‘‘۔ محض دولت کمانے کا مقصد لے کر بیرون ملک جانا اورمزدوری ، بیرا گری کرنا ، پھل فروش بننا ، دیواریں پینٹ کرنا ، یہ سب کام کرنا اگرچہ ’’محنت کی عظمت‘‘ کو تسلیم کرنا ہے لیکن محض دولت کے حصول کی خاطرآجر (مدد حاصل کرنے والے ) سے اجیر( مزدور ) بن جانا اور اپنی سولہ سالہ اور اٹھارہ سالہ تعلیم کو محض زیادہ کمائی کی خاطرضائع کر دینا میرے نزدیک دانشمندی نہیں ۔ البتہ اگر آپ اپنے منتخب کردہ تعلیمی میدان میں مزید تعلیم و تربیت کے لیے بیرون ملک جانا چاہیں تو ضرور جائیں لیکن خدارا ! واپس آکر اپنے وطن کے لیے اپنی صلاحیتیں خرچ کیجیے ۔ اپنے بوڑھے والدین اور بیوی بچوں کو محض چند ڈالروں کی خاطر تنہا نہ چھوڑیے۔ ایثار و قربانی اور قناعت کو اپنا شعار بنائیے۔دولت کے پیچھے بھاگنے والوں کی دوڑ میں شامل نہ ہوئیے۔
یقین کیجیے کہ بچپن کی پڑھی ہوئی حدیث ’’ الغنیٰ غنیٰ النفس‘‘ اصل امیری تو دل کی امیری ہے ، کا مفہوم اب میری سمجھ میں آیا ہے کہ آپ کے پاس دولت موجود ہو پھر بھی آپ کا دل چاہے کہ میں اپنا معیار ِ زندگی بلند سے بلند کر نے کی بجائے اس دولت کو مدد گاروں مریضوں ، ضرورت مندوں پر خرچ کروں ۔ اہل خاندان پر خرچ کر کے صلہ رحمی کو تقویت دوں اور ارتکازِ دولت کی بجائے گردشِ دولت کا سبب بنوں ۔ یہ سوچ ہی ایک مومن کو ہر دو عالم سے غنی( بے نیاز) کر سکتی ہے جو اگر ہمارے اندر پیدا ہو جائے تو ہمارے ’’ مدد گار ‘‘ بھی اپنی ضروریات کسی حد تک پوری کر سکتے ہیں ۔
’’ حسن معاشرت‘‘ کے تحت دوسرا مضمون غزالہ عزیز کاہے ۔ ’’ماسی نامہ ‘‘اور ’’ باجی نامہ ‘‘ کی اصطلاحات مزے کی لگیں ۔ اس کو پڑھ کر احساس ہؤا کہ ’’ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی‘‘لیکن ہم اپنی ذرا سی کوشش سے اس آگ میں بھی پھول کھلا سکتے ہیں۔
’’ گوشۂ تسنیم ‘‘ چمن بتول کا آخری پھول ہوتاہے ۔ اس میں شک نہیں کہ ’’ ابتدائیہ ‘‘ اور اختتامیہ ‘‘ دونوں ہی خوبصورت ہوں تو درمیانی حصہ انہی کی زینت سے خود بخود مزین ہوجاتا ہے ۔ اس مرتبہ ’’ گوشہ ِ تسنیم ‘‘ نے دینی و دنیوی دونوں لحاظ سے ’’ مددگار ‘‘ کے موضوع کو خوبصورتی سے سمیٹا ہے ۔ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم نے آیاتِ قرآنی کا انتخاب خوب کیا ہے ۔ جسمانی اعضاء کے درمیان ہم آہنگی کو سائنسی بنیادوں پر ثابت کیا ہے اور اس کی تطبیق معاشرے کے افراد پر کر کے اس حدیث کی صداقت کی بھی گواہی دی ہے جس میں نبی کریم ؐ نے مسلمانوں کو ’’ جسدِ واحد ‘‘ قرار دیا ہے ۔ تری المومنین فی تراحمھم…بالتسھر والحمی۔
’’ تم مومنوں کو باہمی رحم ، محبت اور شفقت میں ایک جسم کی مانند دیکھو گے کہ جب اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بیداری اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم لکھتی ہیں کہ جسم کے اعضاء کی طرح معاشرے کے افراد کو بھی ایک دوسرے کا ’’ مدد گار ‘‘ بن کر رہنا چاہیے۔
اللہ کو بہترین مدد گار کہہ کر ’’ مدد گاروں ‘‘ کی تکریم اور عزتِ نفس میں اضافہ کر دیا اور رسالے کے خاص نام کی بھی بالواسطہ تعریف کردی۔
بہت سے لوگوں کے دل میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو مالی لحاظ سے برابر کیوں نہیں بنایا ۔ جب میں نے ’’ سوشلزم کے تعارفی دنوں میں ’’ مساوات‘‘ کا نعرہ سنا تو میرے بھی ذہن میں یہ سوال آیا تھا ۔ جس کا سادہ سا جواب تو اُس وقت مجھے بزرگوں کی طرف سے یہ ملا تھا کہ اگر سب انسان مالی لحاظ سے برابر ہوجائیں تونہ کوئی زکوٰۃ کافریضہ ادا کر سکے گا اور نہ حج کا ۔ڈاکٹربشریٰ تسنیم نے سورۃزخرف کی آیت نمبر 32 کا جوحوالہ پیش کیا ہے اس میں بھی مذکورہ سوال کا جواب موجود ہے۔’’ ہم نے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر فوقیت دی تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں ‘‘۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایمان و استقامت کی دولت عطافرمائے تاکہ ہم نعم العبد یعنی بہترین بندہ ( غلام ) اور اللہ کے مدد گار ، دین کے مدد گار بن کر نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْر( بہترین مولیٰ اور بہترین مدد گار )اپنے مالک حقیقی کی عنایات اور رحمتوں کا وافر حصہ حاصل کرسکیں آمین ۔
’’ مددگارنمبر‘ ‘جو یاد گار رہے گا، کی ٹیم کو ایک مرتبہ پھر مبارکباد۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x