ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

موبائلی سیاپے – نبیلہ شہزاد

مسکین مائوں کی جرأ ت ہی نہیں ہوتی کہ فون پکڑ کر کسی کو فون کر لیں …پہلے وہ اس لڑاکا مخلوق کے سو جانے کی دعائیں مانگتی ہیں … ایک حسبِ حال تصویرکشی

سمارٹ فون ابھی نئے نئے آئے تھے کہ کسی اللہ والے، دانا، سائیں لوک آدمی نے ایک خیالی تصویر بنا کر پیشین گوئی کی تھی کہ جب ہاتھ میں موبائل ہوگا تو انسان کو اپنے اردگرد کی کسی چیز کا ہوش نہیں رہے گا۔
تصویر کچھ اس طرح تھی کہ عورت اپنی گود میں پڑے بچے کو ایک ہاتھ سے فیڈر پلا رہی ہوتی ہے اور دوسرے ہاتھ سے موبائل پکڑ کر دیکھ رہی ہوتی ہے۔ پھر مصور اس کے ساتھ ہی ایک اور تصویر بنا کر تھوڑی دیر بعد کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس منظر میں دکھایا جاتا ہے کہ فیڈر بلی پی رہی ہوتی ہے، بچہ گود سے گر کر قریب ہی فرش پر پڑا رو رہا ہوتا ہے اور خاتون خانہ موبائل میں مگن مسکرا رہی ہوتی ہے۔ اسے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ دودھ بلی پی رہی ہے اور بچہ رو رہا ہے۔
موبائل نے ہمیں اتنا زیادہ بے خبر کیا ہے یا نہیں اس کا تو مجھے علم نہیں لیکن اتنا ضرور سنتے اور دیکھتے ہیں کہ وہ خواتین خانہ بھی جو کل تک سگھڑاپے کی علامت اور مثال کے طور پر معاشرے میں نمایاں تھیں آج وہ بھی اگر موبائل ہاتھ میں لے کر بیٹھ جائیں تو ان کے ہاں بھی دودھ ابل کر گر جاتا ہے، چولھے پر رکھا سالن جل جاتا ہے، گندے برتنوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے، واشنگ مشین کی بیل بجنے کے گھنٹہ بعد بھی کپڑے مشین میں ہی پڑے رہتے ہیں۔ موبائلی نشے نے نوجوان نسل میں کچھ زیادہ ہی سرایت اختیار کی ہے چاہے یہ نوجوان شہروں کے ہیں یا دیہاتوں کے۔ جیسے ماجد عرف ماجو کے ابا جی نے اس کے ہاتھ میں درانتی پکڑائی اور کہا ’’میں ساتھ والے گاؤں میں کچھ کام کے لیے جا رہا ہوں تم ذرا چارہ کاٹ کر جانوروں کے سامنے ڈال دو، جانور بھوکے ہیں ذرا جلدی کرنا‘‘۔
ابا حکم دے کر چلا گیا اور فرمابردار ماجو نے’’اچھا ابا جی‘‘ کہہ کر صرف دو منٹ دیکھنے کی نیت سے موبائل پکڑ کر بیٹھ گیا۔ موبائل ابھی کھولا ہی تھا کہ فیس بک پر ترکی کا ڈرامہ کورلوش عثمان کی نئی قسط اپ لوڈ ہونے کا نوٹیفیکیشن مل گیا جو اس نے کھولا اور دیکھنا شروع کر دیا۔ اباجی کا حکم، گائے بھینسوں کی بھوک، سب کچھ بھول گیا۔ سوا دو گھنٹے کی قسط کے ابھی پونے دو گھنٹے ہی ہوئے تھے کہ عثمان کے حمایتی قبیلے پر نائمان منگول کا حملہ ہوگیا۔ ہر طرف چیخ و پکار کا سماں تھا۔ ماجو بھی منگول…. منگول…. منگول چلانے لگا۔ کچھ دیر بعد اندازہ ہؤا کہ اس کے سر اور جسم پر برسنے والی منگول کی تلوار نہیں تھی بلکہ اباجی کا جوتا تھا!
لڑکیاں بالیاں بھی گھر گرہستی میں چاہے پھوہڑ ہی رہیں لیکن موبائل کی انجینئر ضرور بن جاتی ہیں۔ ٹائپنگ پر انگلیاں اتنی تیز رفتار میں چلتی ہیں کہ تیز رفتار گھوڑے کو مات دے جائیں۔ ہاتھوں کے انگوٹھے سکرین پر پھیر پھیر کر گھس کر ٹیڑھے ہو جاتے ہیں پر مجال ہے کہ یہ لڑکیاں اس مشقت میں کوئی تھکاوٹ محسوس کر جائیں۔ حالانکہ دوسری طرف اگر انہیں ایک گلاس پانی لانے کا بھی کہہ دیا جائے تو معصوم معصوم منہ ایسے بسوریں گی جیسے انہیں کوہ قاف فتح کرنے کا کہہ دیا ہو۔
جب ذکر یہاں نوجوان نسل کا ہو رہا ہے تو ان کے متعلق ایک اور پہلو کا ذکر بھی ہو جائے۔ یعنی اگر یہ کسی سیر و تفریح کے مقام پر چلے جائیں یا کھانے پینے کے لیے ریستوران میں۔ تصاویر بنا کر جب تک اسٹیٹس نہ لگا لیا جائے شاید تب تک ان کا کھایا پیا ہضم ہی نہ ہو پائے یا پھر نوالہ حلق میں ہی پھنس جائے جب تک کوئی پچاس لوگوں کو علم نہ ہو کہ یہ فلاں ہوٹل کا کھانا کھا چکے ہیں۔
یا پھر اسی طرح پوسٹوں اور اسٹیٹس کے ذریعے ایک دوسرے کو جلانے سڑانے کا کام بھی بخوبی کر لیتے ہیں۔ ایک نند نے شکوہ کیا کہ میری بھابی مجھے جلانے کے لیے کھانے پینے کی تصاویر، ویڈیوز فیس بک پر اپلوڈ کرتی ہے اور واٹس ایپ پر اسٹیٹس لگاتی ہے۔ میں نے جب اسے مشورہ دیا کہ اگر وہ تجھے تکلیف دیتی ہے تو اسے ان فرینڈ کردواور کنٹیکٹ لسٹ سے اس کا نمبر مٹا دو تو اس نے ترنت جواب دیا نہیں! میں پھر اس کمینی کے حالات سے باخبر کیسے رہوں گی کہ آج اس نے کیا کیا ؟
اس طرح جس نے کسی دوسرے کو یہ محسوس کروانا ہو کہ ہم تمہیں نظر انداز کر رہے ہیں تو وہ یہ تین کام ضرور کرتے ہیں:
نمبر1 اس کا واٹس ایپ اسٹیٹس نہیں دیکھتے،
نمبر 2 اس کے میسیج کو نہ جلدی دیکھتے ہیں اور نہ جلدی جواب دیتے ہیں،
نمبر 3 فیس بک پر ایسے ظاہر کرتے ہیں جیسے کبھی ان کی پوسٹ ہی نہیں دیکھی لیکن حقیقت میں پرائیویسی کوڈ لگا کر سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ایک ایک پوسٹ بخوبی اور توجہ سے پڑھ رہے ہوتے ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر یہ ان کو ایسے ٹریک کر رہے ہوتے ہیں جیسے ایجنسیوں والے پاکستانی سیاستدانوں کو کرتے ہیں۔
چھوٹے بچوں کے لیے تویہ فون شاید سب سے زیادہ ضروری ڈیوائس ہے۔ جب ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو مائیں بھی صرف حسرت سے انہیں دیکھتی ہی رہتی ہیں۔ ان کی چیخنے چلانے اور رونے پیٹنے والی بدمعاشی کے سامنے مسکین سی ماؤں کے یہ جرأت ہی نہیں ہوتی کہ ان کے ہاتھ سے فون پکڑ کر کسی کو کوئی ضروری فون ہی کر لیں۔ پہلے وہ بےچاریاں اس لڑاکا مخلوق کے سونے کی دعائیں مانگتی ہیں اور انتظار کرتی ہیں پھر موقع ملتے ہی باقی سارے کام کاج چھوڑ کر اپنی پسند کے لوگوں کے ساتھ اپنے دکھ سکھ کا دفتر کھول کر بیٹھ جاتی ہیں۔ فون پر زیادہ بات کرنے میں خواتین ہی مشہور ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ خواتین اگر ایک گھنٹہ باتیں کرتی ہیں تو حضرات کی دو گھنٹہ کی گپ شپ بھی ہوسکتی ہے۔
کچھ خواتین اور حضرات کے نزدیک اسٹیٹس دیکھنے یا پوسٹ لائک کرنے کے مسئلہ کو پاک بھارت تنازع سمجھ کر ذکر کیا جاتا ہے اور باقاعدہ طور پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس نے میرا اسٹیٹس نہیں دیکھا یا پھر تعریف کی جاتی ہے کہ فلاں فلاں شخص روز ہمارا سٹیٹس دیکھتا ہے، ہماری پوسٹ لائک کرتا ہے اور کمنٹ بھی کرتا ہے۔ کیونکہ یہ لوگ سوشل میڈیا پر کچھ اپڈیٹ کر کے بار بار چیک بھی کر رہے ہوتے ہیں کہ کس کس کی نظر تک ہمارا فرمان یا انتخاب گیا۔ بہرحال حقیقت تو یہ ہے کہ ہم جتنی اہمیت، وقت، حیثیت، محبت، توجہ، اس 8 انچ کی ڈیوائس کو دیتے ہیں اگر اس سے آدھا حصہ بھی اپنی آخرت کی تیاری کو دیں پھر جب اللہ تعالیٰ میدان حشر میں پکاریں گے کہ آج کے روز ایمان والے اور مجرم الگ الگ ہوجائیں تو اس وقت ان شاءاللہ ہم ایمان والوں کے گروہ کی طرف دوڑے جائیں گے۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x