ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

با مروّت ہیڈ ماسٹر – دانش یار

حریک پاکستان کے ایک کارکن کا تذکرہ جس نے سید مودودیؒ کی تحریروں سے دو قومی نظریہ پھیلانے کا کام کیا

1961ء میں ہمارے ملک میں انگریزی زبان کی تدریس کے لیے نیا نصاب رائج کیا گیا تھا ۔ اس کی تدریس میں اہم جدت Teaching by direct methodتھی۔ سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں انگریزی کی تدریس کے استاد شیخ عبد الحق ؒ ہوتے تھے ۔ انہیں نصابی سفارشات کے مطابق چھٹی جماعت سے دسویں جماعت تک کی درسی کتب لکھنے والی فاضل شخصیات میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا ۔ وہ بعض اسباق لکھتے اور ساتھ ہی ہمیں وہ پڑھا کر دکھاتے۔ یوںپڑھاتے ہوئے استاد کو مستعدی اور پورے تحرک سے طلبہ کو متوجہ رکھنا پڑتا تھا ۔دوران تدریس یہ ممکن نہ تھا کہ استاد کرسی پر بیٹھ سکے ۔ مجھ جیسے طلبہ کو بیداری بخت کے سبب جو تصور ِ تعلیم تحریکی لٹریچر سے ملا تھا اس کے تحت استاد کی شخصیت خود نمونہ بن کر طلبہ کی رہنمائی کرتی تھی۔
میں نے اپنے ٹریننگ کے دورانیہ سے فراغت کے بعد 22اگست 1961ء سے ہائی سکول میں پڑھانا شروع کردیا تھا ۔ ستمبر  1962ء میں گورنمنٹ سروس میں تقرر ہؤا اور میں اگست 1963ء میں بہاول پور کے گورنمنٹ ہائی سکول نور پور نورنگا سے تبدیل ہو کراوکاڑہ کے ملٹری فارم ہیڈ کوارٹرز سکول میں آگیا۔
یہاں اس زمانے میں خان ریاض لیاقت خاں ہیڈ ماسٹر تھے وہ اس سکول کے بانی صدر معلم تھے ۔ وہ وسیع المطالعہ ذات تھے اور سکول کی بہتری کے لیے ہر دم کوشاں ۔ انہوں نے اس سکول کا فرنیچر پکی لکڑی کا بنوایا۔ سائنس لیبارٹری میں میزیں اور الماریاں اور عملی تدریس کے معیاری سامان کے لیے کاوش کی ۔ سب سے بڑھ کر انہوں نے لائبریری میں ایسی کتابیں خرید کر رکھیں جن سے اساتذہ چھے مضامین میں ایم اے تک کے پرائیویٹ امتحان دینے کے لیے بآسانی تیاری کر سکتے تھے ۔ لائبریری کی الماریوں میں کتب کا ذخیرہ میری پسند کا تھا ۔ میں جب ان کے پاس حاضر ہؤاتودیگر مضامین کے علاوہ مجھے چھٹی اور نویں جماعت کی انگریزی پڑھانے کی ذمہ داری ملی اور میں نے کوشش کی کہ اپنی پوری توانائی صرف کر کے ڈائریکٹ میتھڈسے جملوں کی ساخت کو منظم کر کے (Structuresکے تحت)زیادہ سے زیادہ انگریزی بول کر طلبہ تک مہارت کا مفہوم پہنچائوں اور درسی کتاب کے ہر فقرے کا متبادل آسان کرکے قویٰ سے کا م لے کر عمل ، تدریس کی کارروائی مکمل کروں ۔ اس طرح ہر طالب علم چوکنا رہتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ ابھی استاد مجھ سے کوئی سوال پوچھے گا ۔ خان ریاض لیاقت کبھی گھومتے ہوئے گزرتے تو اساتذہ کے طریق تدریس پر نگاہ ڈالتے ۔ مجھے ان کی اس نگرانی کی قدر افزائی کا تب علم ہؤا جب درج ذیل واقعہ پیش آیا۔
یہ زمانہ جنرل ایوب خان کی حکمرانی کا تھا اور ملک بھر میں کنونشن مسلم لیگ کے مقابلے میں صرف جماعت اسلامی واحد منظم قوت تھی جو صدر پاکستان اور ان کی کابینہ کے ارکان کے غیظ و غصب کا ہدف رہتی تھی۔ اُسی زمانے میں مرکزی وزارت داخلہ میںایک خصوصی شعبہ ایک خاتون خالدہ رشید (خدا جانے میں اس محترمہ کا نام درست لکھ رہا ہوں ) کے تحت قائم ہؤا تھا ۔ وہ وہاں 18ویں گریڈ میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدہ پر فائز تھیں ۔ میں اس وقت اس شعبہ سے متعلق اپنی معلومات اور Guess workکو لکھنا موخر کرتا ہوں ۔ میں نے انہیں خط لکھ کر ان کے تحت شائع ہونے والی کتب منگوائی تھیں اور مجھے حیرت ہوئی کہ وہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اور جماعت اسلامی کے خلاف لکھنے والوں کو کہاں کہاں سے دریافت کر کے یہ کام کرواتی تھیں ۔ میں گورنمنٹ ملازمت میں آکر کوئی عملی سیاسی سر گرمی اختیار کرنے سے قطع تعلق کر چکا تھا ، لیکن سید مودودی ؒ کی چھوٹی چھوٹی کتب اساتذہ کو پڑھنے کے لیے دینا تو ہمارا دینی فریضہ ہوتا ہے اسی لیے لوگ مجھے جماعت اسلامی کا کارکن سمجھتے تھے۔ایسے لوگوں کو میں سمجھانے کی کوشش کرتا تھا کہ’’ بھائی ! ارکان اسلام سب مسلمانوں کے لیے ایک سے ہیں ۔ اب اگرمیں خوداور آپ سے انہی تعلیمات کو مزید سمجھنے اور سمجھانے کی بات کرتا ہوں تو یہ ہمارے نبی ؐ کے ہمارے لیے متعین کیے ہوئے فرض کی تکمیل کا راستہ ہے ۔ آپ سب کو ان کا علم حاصل کرنا اور دوسروں کو ادھر متوجہ کرنا صرف جماعت اسلامی کا کام ہے یا آپ کا بھی فرض ہے ؟‘‘وہ لوگ اس کا کبھی نفی میں جواب نہ دیتے تھے ۔
سکول میں تدریس کے علاوہ میں طلبہ کو ادبی پروگرام میں شرکت کے لیے رہنمائی دیتا ، انہیں تقاریر لکھ کر دیتا یوں ہر جماعت کے ذہین طلبہ سے میرا رابطہ رہتا ۔ طلبہ کے اندر اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے ایک مقبولیت پر سر فراز کر رکھا تھا ۔ خان صاحب کے صاحبزادے دسویں جماعت میں پڑھتے تھے اوران کی بیوہ بہن کے تین بیٹے بھی اسی سکول میں داخل تھے۔ خان صاحب نے چھٹی اور نویں جماعت کے بچوں کو سیکشن سے تبدیل کر کے میری کلاسوںمیں جو Bبی سیکشن ہوتی تھی بٹھا دیا ۔Aسیکشن سکول کے سب سے سینئر استاد کو ملتی تھی جو عموماً سکول میں سکینڈ ماسٹر ( یا نائب ہیڈ ماسٹر ) ہوتے تھے ۔1964ء میں جب موسم گرما کی تعطیلات ختم ہوئیں تو بہت سے والدین نے ہیڈ ماسٹر صاحب پر زور دیا کہ ان کے بچوں کومیرے زیر تدریس سیکشنوں میں تبدیل کر دیا جائے وہ وضع داری میں انکار نہ کر پاتے اور یوں چند ہفتوں میں میری نویں جماعت میں پچاس کی بجائے ستر (70)طلبہ ہو گئے اور اے سیکشن میں صرف تیس طلبہ رہ گئے ۔ میری ایک بات اور تھی کہ میںنے نویں اوراپنی چھٹی جماعت کو تعطیلات گرما میں ایک ایک ماہ روزانہ ایک ایک گھنٹہ بلا لیااور انہیں پڑھاکر اس نئے سکول میں ایک نئی رسم ڈالی کہ ڈائریکٹ میتھڈ میں نصابی کتاب جلدی ختم نہیں ہوتی تھی ، میں نے ان کے دروس کی منصوبہ بندی (Lesson planning)اس طرح کی ہوئی تھی کہ کتاب فروری کے وسط میں جا کر ختم ہو ۔ چنانچہ جو طلبہ دوسرے سیکشن سے میرے سیکشن میں آئے انہیں اپنی پہلی جماعت کے برابر لانے کے لیے میں نے سکول اوقات کے بعد بھی ایک گھنٹہ وہ Structure اجزائے زبان پڑھانے شروع کیے تاکہ میری جماعت میں سارے طلبہ امکانی حد تک ایک معیار کے ہو جائیں ۔
ایک روز ایسا ہؤا کہ سکول میں ایک اے ایس آئی اور اس کے ساتھ دو کانسٹیبل آئے ۔ پولیس کا یہ چھوٹا آفیسر بغیر اجازت ہیڈ ماسٹر صاحب کے کمرے میں گیا اور جا کر بغیر اجازت ان کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا ۔ بعد میں مجھے معلوم ہؤا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب نے اسے کہا ۔
’’ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں اس تحصیل کے ایس ڈی ایم سے کم رتبہ کا سرکاری افسر نہیں ہوں ۔ آپ کو اجازت لے کر میرے دفتر میں داخل ہو نا چاہیے تھا اور پھر میں اجازت دیتا تو کرسی پر بیٹھ بھی جاتے اب آپ باہر جائیں دروازے پر کھڑے ہو کر اندر آنے کی اجازت مانگیں ‘‘۔وہ باہر گیا اور پھر اندر آیا تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے اسے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
( روداد کا اگلا حصہ مجھے بعد میں ہیڈ ماسٹر صاحب نے خود سنایا ) اس پولیس ملازم کا تعلق خفیہ والوں (CID)سے تھا اور اس نے چاہا کہ میرا ہیڈ ماسٹر ان کی اطلاع کے مطابق میرا جماعت اسلامی سے تعلق تسلیم کرے اور میرے خلاف ان کی ضرورت کے مطابق کوئی رپورٹ دے لیکن خان صاحب نے یہ کہتے ہوئے اسے ڈانٹ دیا ۔
’’ میں تحریک پاکستان کا وہ کارکن ہوں جو علی گڑھ کے مسلم طلبہ کی ٹیم کے ساتھ شمالی مغربی سرحدی صوبہ میں جا کر پاکستان کا مطلب لا الہٰ الا اللہ ان پڑھ پٹھانوں کو سمجھایا کرتے تھے ۔ خان عبد الغفار خاں جسےوہاں ’’ سرحدی گاندھی‘‘ کا مرتبہ حاصل تھا ، اسے ایک غیبی تائید حاصل تھی ۔ وہ جب کھڑے ہوتے تھے تو ان کے ہاتھ ان کے گھٹنوں تک لمبے دکھائی دیتے تھے ۔ پٹھان انہیں اس بنا پر کسی دیوتا سے کم نہیں سمجھتے تھے ۔ اس شخص کے خدائی خدمت گاروں کے مقابلے میں مسلم لیگ کا نام متعارف کرانا اور قائد اعظم ؒ کی شخصیت میں وہبی خصوصیات کا ذکر کرنا ہمارا کام تھا ۔ مسٹر پولیس مین تمہیں معلوم ہے ہمارا گزارا چنے اور گڑ پر ہوتا تھا ۔ میرے جیسے بندے سے پاکستان کی سالمیت کے خلاف کوئی حرکت برداشت کرنے کا کوئی شخص تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ میں اپنے سکول میںکسی شخص کو کیسے برداشت کر سکتا ہوں جو تحفظ پاکستان کو نقصان پہنچا سکتا ہو ۔ آپ جائیے ۔جس استاد سے متعلق آپ تفتیش کرتے پھر رہے ہیں میں چاہتا ہوں کہ اس جیسا فرض شناس اور جفا کش ہر ٹیچر بن جائے۔ لہٰذا اطمینان سے جائو میں بھی پاکستان کا اتنا ہی خیر خواہ ہوں جتنا کسی مسلمان افسر کو ہونا چاہیے ‘‘۔
یہ سن کر CIDکے یہ ملازمین سکول سے چلے گئے۔ ایک دن بعد میں مجھے ہیڈ ماسٹر صاحب نے بلایا اور کہا :
’’ پولیس والے چاہتے تھے کہ میں انہیں آپ کے خلاف ایسی تحریر لکھ کر دوں جسے بالآخر وہ اپنی خفیہ اطلاعات حاصل کرنے کی کوشش کا حاصل سمجھیں ۔ میں نے انہیں بتایا کہ سکول میں آپ تندہی سے فرض ادا کرنے والے استاد ہیں ۔ یہ بھی کہا کہ قیام پاکستان کی جدوجہد میں طلبہ نے بھی مسلم لیگ کو مقبول جماعت بنانے کی بھرپور کوشش کی ۔ لوگوں کو بالعموم اور قومی تعلیمی اداروں میں طلبہ کو قیام پاکستان کی ضرورت سے آگاہ کرنے کے لیے ہم بھی صرف مولانا مودودیؒ کے مضامین کے مجموعے سے فکری استدلال حاصل کرتے تھے ۔ اس زمانے میں اس سے بہتر کوئی لٹریچر نہ تھا جو دو قومی نظریے کو سمجھانے میں مدد گار ہوتا ۔ قائد اعظم ؒ نے جن علما کو ہمیشہ احترام کی نظر سے دیکھا ان میں مولانا مودودیؒ نہایت معتبر اور جید شخصیت قرار دیے جاتے تھے ۔ ہمیں وقتی سیاسی معاملات سے الگ رکھ کر تعلیم کے میدان میں اعلیٰ معیار کی کار کردگی دکھانے دیں اس سے بہتر قومی خدمت کا اور کوئی کام نہیں ہوتا‘‘۔
دو ہفتے بعد ایک دفعہ پھر خفیہ والوں کے دو تین افراد ہمارے سکول میں آئے انہوں نے ہیڈ ماسٹر صاحب سے کہا :
’’ آپ رفیق صاحب کو کہیں کہ جماعت اسلامی والوں کے اجلاسوں کی رودادہمیں زبانی یا لکھ کر دیا کریں اور اس کا معقول معاوضہ انہیں گورنمنٹ ادا کرتی رہے گی ‘‘۔
ہیڈ ماسٹر صاحب نے ان کو رخصت کیا اور پھر مجھ سے کہا :
’’ مجھے معلوم ہے آپ سارا وقت پڑھانے میں صرف کرتے ہیں اور با معاوضہ صاحب حیثیت لوگوں کے بچوں کو گھروں میں جا کر نہیں پڑھاتے ۔ حالانکہ آپ کے مالی حالات متقاضی ہیں کہ آپ کو اضافی آمدنی حاصل ہو ۔ کیا آپ یہ کام کر سکتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے اندر کی باتیں خفیہ والوں کو مہیا کر دیا کریں ‘‘۔
میںذرا سا ٹھٹکا۔ میں جماعت اسلامی کا رکن نہیں ہوں ۔ اگر رکن ہوتا تو میرا عہد رکنیت مجھے کیسے یہ اجازت دیتا کہ میں جماعت کی کارروائی خفیہ والوں تک پہنچائوں ۔ ایسے مولانا مودودی ؒ کے فلسفہ سیاست میں پوشیدہ سر گرمیوں کی کوئی گنجائش نہیں رہی ہے اس لیے اگر کوئی شخص اس زعم میں گرفتار ہو کر حکومت وقت سے مفادات لینے کے لیے کوئی رپورٹ بنائے گا بھی تو وہ جھوٹ بولے گا کیونکہ جو پالیسی بھی جماعت بناتی ہے اُسے قوم کے سامنے بیان کر دیتی ہے ۔
میں نے خان صاحب سے کہا :
’’ جناب میرے مالی حالات میں بہتری لانے کے لیے آپ کے خیر خواہانہ جذبات کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ میں تو اس ملک کا ایک عام ذمہ دار شہری ہوں ، میں حکومت وقت کو اس ضرورت کے لیے اس قسم کی خدمت کرنے پر تیار ہو جائوں تو اس کا پہلا نقصان آپ کو ہوگا ‘‘۔
خان صاحب کے کان کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے ’’ مجھے کیسے نقصان پہنچے گا ؟‘‘
میں نے عرض کیا ’’ کچھ دنوں پہلے آپ نے خفیہ والے کارکنوں کے ذریعے حکومت کو باور کرایا تھا کہ میں کسی سیاسی سر گرمی میں ملوث نہیں ہوں ۔آج میری ان کے مطالبے پر آمادگی یہ اعتراف ہو گی کہ میں جماعت اسلامی کے اندر رسائی رکھتا ہوں ۔ تو گویا یہ بات میرے بارے میں آپ کے پہلے ارشاد کی نفی کا ثبوت ہو گا اور آپ بھی حکومت کے ناپسندیدہ افسران میں شمار ہو سکتے ہیں‘‘ ۔
خان صاحب یہ سن کر اپنی کرسی پر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے :
’’ بہت خوب! آپ نے دور اندیشی کا ثبوت دیا ہے بلکہ مجھے سی آئی ڈی والوں سے گفتگو کرنے میں محتاط رہنے کا درس دیا ہے ۔ سچ ہے مولانا مودودی ؒ کی کتب پڑھنے والے فراست کا درس بھی حاصل کرتے ہیں‘‘۔
(نوٹ : سی آئی ڈی والے ان اہل کاروں سے دو سال پہلے ہم ایک اور معاملے میں سرخرو ہو چکے تھے ۔ وہ کہانی پھر کبھی لکھی جائے گی) ۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x