ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

سفر سعادت( ۲) – اور سامنے منزل آجائے – آمنہ راحت،برطانیہ

باہر نکل کر میںنے بھائی سے رابطہ کیا جو طواف مکمل کر چکے تھے ۔ میں بھائی کا انتظار کرنے کے لیے مطاف ہی میںجائے نماز بچھا کر بیٹھ گئی۔ جب بھائی آئے تو انہوں نے خانہ کعبہ کے سامنے میری تصویر اتاری۔ ہم اس کے بعد اپنی بہن کا انتظار کرنے کے لیے پہلی منزل کی سیڑھیوںپر جا بیٹھے ۔ وہاں سے خانہ کعبہ سامنے نظر آ رہا تھا ۔ میں نے اوربھائی نے ابھی اپنے ہاتھ دعا کے لیے بلند کیے ہی تھے کہ شرطوں نے ہمیں وہاںبیٹھا دیکھ لیا اور ’’یلہ حجہ‘‘ کرکے وہاں سے اٹھا دیا ۔ ہم وہاں پاس ہی زمین پر بیٹھ گئے ۔ بہن کے واپس آتے ہی واپس جانے کا ارادہ کیا ۔ میں باربار اپنے ہاتھ اور بازو کو دیکھ رہی تھی سبحان اللہ ! اللہ جی کیسے نا ممکن کو ممکن بنا دیتے ہیں۔
قیام اللیل کے بعد ایک بار پھر میں طواف کے لیے چکروں کا قصد کر کے ہجوم میں شامل ہو گئی ۔ لا تعداد لوگ تھے ، بے انتہا رش تھا اور سب انتہائی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہے تھے ۔ کہیں فرش پر کسی کا جوتا گرا تھا تو کسی کی جراب ۔ لگتا تھا کہ دھکم پیل میں اتر گیا ہو۔ اگر یہاں کوئی چیز نیچے گر جائے تو اٹھانے کی بجائے چلتے چلے جانا ہی مناسب تھا کیونکہ انسانوں کے اس جم غفیر میں ایک شخص کاجھکنا سارے لوگوں کے لیے خطرناک ہو سکتا تھا ۔
اللہ کے گھر کے پاس اتنا سکون تھا کہ لوگ دنیا سے بے پروا دعائیں کرتے ہوئے چلتے چلے جا رہے تھے ۔ آسمان پرپرندے خانہ کعبہ کا چکر کاٹ رہے تھے ۔ لوگ ہلکی اوربلند آواز سے آیتوںکا ورد کررہے تھے۔ green lightکے آتے ہی رفتار حددرجہ کم ہوجاتی اورلوگ اپنے ہاتھ خانہ کعبہ کے سامنے بلند کر کے ’’ بسم اللہ واللہ اکبر ‘‘ پڑھتے اور آگے بڑھ جاتے نورہی نور تھا ۔ سکون ہی سکون تھا ۔ خانہ کعبہ پر نظر پڑتے ہی آنکھیںچھلک پڑتیں ۔ ہر رنگ و نسل ہر عمر اور تمام امیر و غریب اپنے رب کے گھر کے گرد عاجزی کے ساتھ چکر کاٹ رہا تھا ۔ سب مسلمان اپنے آقا کے در پر سوالی بن کر آئے تھے ۔ کچھ خواتین کو روتے اورمرد حضرات کودعائیں مانگتے دیکھا۔ کچھ لوگ چھوٹے بچوںکو اپنے کندھوں پر بٹھا کر طواف کرا رہے تھے ۔ کچھ خواتین نے ہاتھوںکی مدد سے زنجیر بنائی ہوئی تھی تاکہ وہ ساتھ طواف کر سکیں۔ اللہ سب کی دعائوںاور حاجتوںکو قبول کرے ۔ جب وہاں سے فارغ ہوئی تو دو نوافل ادا کیے اوربہن کو کال ملائی ۔ وہ کنگ فہد گیٹ کےescalatorسے پہلی منزل پر چلی گئی تھیں اور وہاں میرا انتظار کررہی تھیں۔
دوران طواف ہی قیام الیل کاآغاز ہو گیا تھا ۔ بھائی سے رابطہ ہؤا تو انہوںنے بتایا کہ وہ چھت پر جاچکے ہیں اور بعد از فجر لوٹیں گے ۔ انتظامیہ نے مطاف کی جانب سے سبزروشنی پر رش کے باعث رکاوٹیں کھڑی کردی تھیں جس کی وجہ سے میںراہداری میںایک افریقی بہن کے جائے نماز کی جانب جا کھڑی ہوئی اس نے چند قدم بائیں جانب ہو کر مجھے اپنے جائے نماز پر جگہ دے دی ۔ قیام اللیل کے دونوافل وہاں پڑھنے کے بعد مطاف تک جانے کے لیے طویل راستہ طے کیا اورجب وہاں پہنچی تو امام کعبہ نے دعا شروع کروا دی ۔ میںوہاںموجود خواتین کے پاس جا کھڑی ہوئی ۔
وہ ایک خوبصورت اوربے مثل منظر تھا ۔ امام کعبہ رقت آمیزانداز میںدعا کروا رہے تھے ۔ خانہ کعبہ میری نظروں کے سامنے کچھ ہی فاصلے پر تھا ۔ ہاتھ دعا کے لیے اٹھے ہوئے تھے ۔ دل میںموجود دعائیں لبوں پرآنے کی کوشش کر رہی تھیں اور آنکھیںزار و قطار آنسو بہا رہی تھیں ۔ اس کیفیت کو میں اس صفحے پر لکھنے کی لاکھ کوشش کروں، میرے الفاظ انصاف نہیں کر پائیں گے۔
ایک بچے کے رونے کی آواز سنائی دی ۔ شرطے اورخواتین پولیس کا عملہ اس کی جانب پانی لے کر بھاگا ۔ وہ اس کو خاموش کروانے کی کوشش کررہے تھے ۔ ایسے معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ escalatorسے پھسل گیا ہو کیونکہ اوندھے منہ کے پاس زمین پر گرا ہؤا تھا ۔ اللہ اس بچے کی خیر کرے ۔
ایک بچی کو پیاس لگی تو وہاں موجود شرطے نے اس کو آب زم زم ڈال کر دیا ۔ ایک خاتون جودعا میںشریک تھیں ، پاس کھڑا شرطہ ان کے بچے سے کھیل رہا تھا تاکہ وہ اپنی ماں کو دوران دعا distrubنہ کرے ۔ دعا سے فارغ ہو کر میں نے بہن کے پاس جانے کا ارادہ کیا ۔ ایک دم سے escalatorپر بے تحاشہ رش ہو گیا ۔ میں سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی ۔ چند ہی زینے چڑھے ہوں گے کہ چیخوں کی آواز سنائی دی ۔ ایک خاتون کاتوازن escalator پرخراب ہو گیا تودیگر بھی گرنے لگیں ۔ عملے کے افرادescalator کی جانب بھاگے ۔ اللہ سب کی خیر کرے ۔ اوپر پہنچی تو بہن وہاںپہلے سے موجود تھیں۔ان کو سارے واقعات سنائے اور بہن کے ساتھ ہوٹل کی جانب روانہ ہوئی ۔میں نے پچھلے روز بہن کے ساتھ ’’مریم محل‘‘سے کچھ تحائف خریدے تھے ۔ اب بھائی کے ساتھ بھی قریبی دکانوں کا چکر لگایا ۔ میری بھانجی نے مجھ سے مکہ کے پتھروں کی فرمائش کی تھی ۔ میں جمعہ کی نماز سے گھنٹہ ڈیڑھ پہلے مکہ کی گلیوں میں جا نکلی اور اس کے لیے پتھر جمع کیے۔ میں جب کمرے میں واپس آئی تو پتہ چلا کہ بھائی جمعہ کی نماز کے لیے جا چکے ہیں ۔
میںبھی جائے نماز لے کر باہر نکلی ۔ رش کے باعث جا بجا سڑک پر بھی نمازیوںکی قطار یںبن چکی تھیں۔ حرم تک جانا تو نا ممکن تھا لگتا تھا کہ وہاںکے راستے بھی بند تھے ، جمعہ کی نماز میںنے ہوٹل کے استقبالیہ میں مصلیٰ بچھا کر ادا کی ۔ وہاں بھی ہر جانب جائے نماز بچھے ہوئے تھے ۔ خطبہ بھی سنا اور الحمد للہ جماعت سے جمعہ بھی ادا ہو گیا ۔
افطاری اور کھانا کھانے کے بعد میں اور بھائی حرم روانہ ہوئے ۔ میرا بہت دل تھا کہ ہم پہلے یا دوسرے فلور پر طواف کرتے مگر مختلف راستوں کو اختیار کرنے کے باوجود چھت پر جا پہنچے ۔ ہر جگہ رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں ۔ لاکھوں لوگ حرم کے اندر اور اطراف میں موجود تھے بھائی نے طواف شروع کیا تو میںنے بھی طواف کا قصد کرلیا ۔ ابھی ایک ہی چکر مکمل کیا تھا کہ تھکاوٹ محسوس ہونے لگی ۔ بھائی کو میسج کیا کہ میں واپس کمرے میں جا رہی ہوں پھر وہاں خواتین کوقیام اللیل ادا کرتے دیکھ کر ارادہ بدل گیا ۔ چھت پر موجود سبز روشنی کے پاس خواتین کے لیے جگہ بنائی گئی تھی ۔ یہ جگہ چھت والی تھی اور چھت پر پنکھے لگے تھے میںنے جائے نماز بچھایا اورنمازمیںشامل ہوگئی ۔ گرمی کی وجہ سے پسینے آئے ہوئے تھے اور پنکھے کی ٹھنڈی ہوا پڑنے سے جسم میں سردی کی لہریںاٹھنے لگیں ۔ سلام پھیرا توبھائی کا میسج آیا ہؤا تھا کہ کیا میں اکیلے manageکر لوں گی ؟ میں نے بھائی کو دوسرا میسج کیا کہ میں سبز روشنی کے پاس قیام اللیل میں شامل ہو گئی ہوں، اور پھر اگلی رکعت کے لیے کھڑی ہوگئی ۔ اگلا سلام پھیرا تو بھائی کی کال آئی ہوئی تھی ۔ میںنے واپس فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ کمرے میں پہنچ گئے ہیں کیونکہ میں نے بھائی کو کہا تھا کہ میںواپس جا رہی ہوں لگتا تھا بھائی کو میرا دوسرامسیج نہیں ملا تھا ۔ اب جب ان کو پتہ چلا کہ میںاکیلی چھت پر ہوںتو فکر مند ہوگئے اوررش کے نکلنے سے پہلے پہلے مجھے واپس لوٹنے کو کہا ۔
میں فون بند کر کے ، جائے نماز اٹھائے چھت کے کنارے تک گئی ۔ نم نظروں سے خانہ کعبہ کی جانب دیکھا اور ہاتھ ہلایا ۔ اس سفر میں آخری بار خانہ کعبہ کو دیکھ رہی تھی ۔ بے اختیار آنسو جاری ہوگئے ۔ دل نے کہا ’’اللہ جی میں پھر آئوں گی ۔ پھر واپس مڑی اور Exitکی جانب تیز تیز قدم بڑھانے لگی ۔ سیڑھیاں اتر کر کلاک ٹاور کے سامنے جا نکلی ۔ رات کے تین بج رہے تھے مگر سڑک پر اتنی رونق تھی جیسے صبح کا وقت ہو ۔ میںتیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اپنے ہوٹل جا پہنچی ۔ بھائی نے دروازہ کھولا ۔ وہ جاگ رہے تھے اورمیرے منتظر تھے ۔
اگلے روزہم سفر مدینہ کا ارادہ رکھتے تھے جس کے لیے تقریباً2بجے دوپہر بذریعہ ٹیکسی روانہ ہوئے یہ تقریباً 3سے4گھنٹے کا سفر ہے ۔ راستے میں ہم نے کچھ پہاڑ دیکھے جوسیاہ رنگ کے تھے ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میںیہاں آتش فشاںپہاڑ تھے ، راستے میں ایک مسجدگزری جہاں لوگ احرام میںنظر آئے ۔ بھائی اور ٹیکسی ڈرائیور کی باتوں سے اندازہؤا کہ یہ مسجد عائشہؓہے۔ میںاوربہن مکہ سے مدینہ تک آنحضرتؐ کی ہجرت کے بارے میںبات چیت کرتی رہیں ۔ بنا گاڑیوں کے اتنا طویل سفر کتنی دیر میں طے ہؤا ہوگا ؟ یہ واقعی ایک تاریخی ہجرت تھی جس کے بعد پہلی اسلامی ریاست قائم ہوئی ۔ سبحان اللہ !
ہمارا مدینہ کا ہوٹل مسجد نبویؐ سے صرف پانچ سات منٹ کی دوری پر تھا ۔ ہم نے افطار کرنے کے بعد مسجد نبوی ؐ جانے کارادہ کیا ۔ خانہ کعبہ میں جہاں اللہ کا رعب محسوس کیا وہیں مسجد نبوی ؐ میں سکون کا احساس ہؤا ہمیںبھائی نے باب السلام دکھایا ۔ وہاں پر موجود شرطوں سے پتہ چلا کہ خواتین کاگیٹ مسجد کی پچھلی جانب ہے لہٰذا بھائی تو قریبی گیٹ کی جانب مڑ گئے اور میں اور بہن خواتین کے گیٹ کی جانب داخل ہوئے تو ہر طرف پاکستانی چہرے نظر آئے ۔ کچھ خواتین کے ساتھ بہن کی کافی اچھی سلام دعا ہو گئی اور وہ مختلف موضوعات پر بہن سے گفتگو کر تی رہیں ۔ ہم نے پانی اور جوس پی کر روزہ بند کرلیا اورنماز فجر ادا کی ۔ بہن نے مجھے فانوس پر بیٹھا ایک خوبصورت پرندہ دکھایا ۔ میںنے اس کی ویڈیو اپنے کیمرے میں محفوظ کرلی۔دل کے کسی گوشے میں یہ خیال گزرا کہ کیا خبر یہ کوئی فرشتہ ہو۔
نماز پڑھنے کے بعد ہم خواتین انتظامیہ سے پوچھ کر اس گیٹ کی جانب آگئے جہاں سے خواتین ریاض الجنہ کی جانب جا رہی تھیں ۔ سعودی انتظامیہ نے نسوک ایپ کے ذریعے وقت لینا لازمی قرار دے دیا ہے جب عمرے پر جانے کا علم ہؤا تو میرے بھانجے نے میرے اور بہن کے فون پر یہ ایپ انسٹال کردی ۔ سفر پر اور جانے سے پہلے کئی لوگوںنے اپنے تجربات شیئر کیے ۔ اسی حساب سے ہم ہر گھنٹے دو مرتبہ مثلاً2بج کر ایک منٹ اور دو بج کر اکتیس منٹ پر ایپ کو چیک کرتے ، ہر روز اگلے دن کی اپائنٹ منٹ کھل جاتی ۔ ریاض الجنہ جانے والے راستے پر خواتین کے ساتھ مرد عملہ بھی تعینات کیا گیا تھا تاکہ اس جم غفیر کو احسن طریقے سے نمٹایا جا سکے ۔ چلتے چلتے ایک خاتون کی وہیل چیئر بڑی شدت سے میری بائیںٹانگ پر ٹکرائی ۔ مجھے چوٹ لگتا دیکھ کرایک خاتون جو قریب سے گزر رہی تھی کہنے لگیں کہ ان کو وہیل چیئر چلانی نہیں آتی ۔ لگتاہے وہیل چیئر چلانے والی خاتون برامنا گئیں یاکچھ اور مگر ان آنٹی کو بھی وہیل چیئر دے ماری ۔ خیر ہم ایک لائن سے دوسری لائن میں منتقل ہورہے تھے ۔ ایک خاتون نے مجھ سے کہا کہ انہوں نے اپائنٹ منٹ بنوائی تھی مگر نجانے کدھر گئی میںنے ان کو ایپ میںسے کھول دی جس پرانہوں نے بہت دعائیں دیں۔
سامنے گنبد خضریٰ نظر آیا تو درود شریف پڑھنے لگی ۔ کچھ خواتین جلدی اندر جانے کے چکر میں ایک قطار سے دوسری قطار میں جا رہی تھیں۔ بالآخر عملے نے نے راستہ کھولا اور ہم مسجد کے اندر داخل ہوئے اور صفوں پر بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگے ۔ اجازت ملی تو سب ریاض الجنہ کی جانب چلے یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے مجھ نا چیز کے قدم جنت کے ٹکڑے پر ہیں میںاسی احساس کے ساتھ چل رہی تھی خواتین وہاں پہنچتے ہی نماز پڑھنے لگیں۔ بہن نے کہا کہ آمنہ جلدی نفل پڑھو میںنے نوافل ادا کیے تو دیکھا کہ کچھ خواتین ایک جالی کے پاس جمع ہیںجس کو کپڑے سے ڈھکا گیاہے۔ میںبھی قریب گئی اوردرود شریف پڑھ کر باہر نکل آئی ۔ یہ نبی آخر الزماںؐ کی آرام گاہ ہے وہ ہستی جنہوں نے ہمیںاسلام سکھایا ۔ جن کی سیرت اور حیات طیبہ ہمارے لیے مشعل راہ ہیںیہ وہ نبیؐ ہیں جن کی امامت میںدوران معراج جلیل القدر انبیا نے مسجد اقصیٰ میںنماز ادا کی ۔
کمرے میںآئے تو مجھے بخار محسوس ہونے لگا کبھی سردی لگتی اور کبھی گرمی میں کمبل لپیٹ کر سو گئی اور مغرب کے وقت مسجد نہ جا سکی ۔ عشا کے وقت گئی اگرچہ بدستور بخار تھا ۔صبح فجر کی نماز مسجد نبوی میں ادا کرنے کے بعد دل چاہا کہ جنت البقیع دیکھوں وہاں موجود عملے سے راستہ معلوم کیا ۔ ایک شرطے نے بتایا کہ جنت البقیع گیٹ نمبر 340سے آگے تقریباً شاہ عبد العزیز دروازے کے پاس ہے۔ میںتب گیٹ نمبر 322کے پاس تھی ۔ لہٰذا چلتی رہی یہاں تک کہ میں نے مسجد نبوی کا مکمل چکر کاٹ لیا ۔ اس دوران بھائی کا فون آیا جو معلوم کررہے تھے کہ میں کدھر ہوں وہ گیٹ نمبر 318 کے پاس میرا انتظار کر رہے ہیں ۔ میںجب شاہ عبد العزیز گیٹ کے قریب پہنچی تو ایک لمبی سی دیوار دیکھی مردحضرات اس دیوار کے پاس بنی سیڑھیوںسے اوپر چڑھ رہے تھے جبکہ خواتین سامنے کھڑے فاتحہ پڑھ رہی تھیں ۔ میںنے قریب کھڑے ایک شرطے سے تصدیق چاہی تو اس نے بتایا کہ یہی جنت البقیع ہے ۔ میںنے فاتحہ پڑھی او واپسی کا راستہ ڈھونڈنے لگی ۔
شرطے نے گیٹ نمبر 37جو خواتین کے لیے ریاض الجنہ جانے کاراستہ ہے بند کر رکھا تھا ۔ آگے گئے تو اس سے متصل کئی گیٹ رکاوٹیں لگا کربند کیے گئے تھے ۔ میں گھومتے ہوئے مدینہ کی گلیوںمیں جا نکلی جسم بخارکی شدت سے تپ رہا تھا اور ٹوٹ رہا تھا اسی اثنا میںبھائی نے پھر کال کی کہ میں کدھر ہوں۔ میں نے بھائی کو ساری روداد سنائی کہ کیسے میں مدینہ میں گلیوں میںچکر لگا رہی ہوں۔ وہ کافی فکرمند ہوئے اورکسی بھی قریبی دروازے سے مسجد کے احاطے میںداخل ہونے کوکہا ۔ میںگیٹ نمبر 31سے اندر داخل ہو گئی ۔ بھائی مستقل میرے ساتھ فون پر رابطے میں تھے۔ اسی دوران بہن کابھی فون آیا جو میرے بارے میںپوچھ رہی تھیں میں نے ان کو آگاہ کیا کہ 318نمبر گیٹ پر مجھے بھائی مل گئے ہیں اور میں ان کے ساتھ ہوں۔
بھائی وہاں سے لے کر مجھے مسجد الغمامہ دکھانے لے گئے ۔ اس کے بعد بازار گئے ، جب ہم واپس کمرے میں لوٹے تو میری ہمت جواب دے چکی تھی ۔ تھکاوٹ اورحرارت کے باعث میں بستر پر جا گری ۔ بہن نے میری حالت دیکھتے ہوئے مجھے سمجھایا کہ میںروزہ نہ رکھوں اوربعد میںقضا کرلوں ان کی بات مانتے ہوئے میں نے زم زم کے ساتھ بخار کی دوائی کھا لی ۔ جتنی دیر میں سوئی ،بھائی اور بہن نے سامان کی پیکنگ کرلی ۔ ہم اسی دوپہر مدینہ ائیر پورٹ کے لیے روانہ ہوئے ۔ ٹیکسی ڈرائیور نے ہمیں جبل احد اورجبل اومہ دکھائے جہاں غزوہ احد ہوئی اور تیر انداز تعینات کیے گئے ۔ میں سمجھتی تھی کہ جبل احد ایک پہاڑ ہے مگر یہ تو ایک طویل پہاڑی سلسلہ ہے ۔
مدینہ ائیر پورٹ پر ہمیں آب زم زم کے کنٹینر ملے جوڈبوں میںپیک تھے ائیر پورٹ پر شدید ٹھنڈ تھی یا شاید میری طبیعت کچھ نازک تھی۔بعد ازاںافطاری ہمارا جہازمدینہ سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہؤا دوران سفر مجھے بچوں کی بے حد یاد آئی وہیںدل مکہ مدینہ سے دور جانے پر اداسی محسوس کرنے لگا ۔ لگتا تھا میںنے کوئی حسین خواب دیکھا ہے اور اب میںاس سے جاگ گئی ہوں ۔ واپس خواب میں جانے کے لیے دل مضطرب تھا ۔ کئی بار دل بھر آیا کہ سفر اتنی جلد ی مکمل ہوگیا ۔ اب نہ جانے کب جائوں گی ، یہ جگہ تو مجھے بہت یاد آئے گی۔
اسلام آبادائیر پورٹ ہمارے بھانجے منتظر تھے اور گھر میں میری بیٹی نے خوبصورت تصویر بنا رکھی تھی جس پر لکھا تھا ۔ ’’ ویلکم بیک امی ! ‘ ‘ میںنے بچوں کو وہاں سے لائے ہوئے تحائف دیے ۔ میری بھانجی نے میرے لیے مزیدار قہوہ بنایا تاکہ میںبہترمحسوس کروں۔ اس روز ہماری واپسی کی خوشی میں بہن کے سسرال میںافطاری تھی ۔ اگلے روزہمارے گھر مہمانوں کا تانتا بندھ گیا ، جو ہمیںعمرے کی مبارک باد دے رہے تھے اس روز میری بیٹی کے قرآن ختم کرنے کی خوشی میںاوربھتیجے کے حفظ مکمل کرنے کی خوشی میں ہمارے گھرتقریب بھی تھی۔میںابھی تک حیرت کے سمندر میں غوطے لگا رہی تھی ۔ اللہ نے میری برسوں پرانی دعاسن لی تھی ۔ خانہ کعبہ ، مکہ کی گلیاں ، گنبد خضریٰ اور مدینہ کے وہ راستے میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے ۔ یہ دعا اور امید ہے کہ دوبارہ اللہ کے گھر حاضری دینے کا موقع مل جائے اور زندگی کی سانسوںمیں اتنا اضافہ ہوجائے کہ وہاں مزید پل بتانے کا موقع میسر آجائے ۔ اللہ یہ حسین موقع ہر کسی کو دے اور بار بار دے ،آمین ۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x