ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

منتخب کہانی – مگر ایک شاخِ نہالِ غم – الطاف فاطمہ

ایک وفا دار ملازم کی انوکھی کہانی جو تقسیمِ ہند کے نشیب و فراز سے ہوتی ہوئی کشمیریوں کی جدوجہد ِ آزادی پر ختم ہو جاتی ہے مگر بہت اہم سوالات اٹھا دیتی ہے ۔

آج کا خبرنامہ ابھی ابھی اختتام کو پہنچا ہے ۔ خارجہ سیکرٹری کی سطح پر ایک بار پھر بات چیت کا آغاز ہؤاہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دور تو مکمل بھی ہو لیا ، اب دوسرے کی تیاری ہے ۔
آج کی یہ اہم خبر جو قطعی تازہ نہیں اور بے پرت ہے ، اس کا گہرا تعلق ایسے تسلسل سے ہے جس میں نقطۂ آغاز ہی جاری و ساری ہے ، سارے اعداد و شمار پر حاوی ہے ۔اور مجھے تو آج بھی وہ اس گھر کی بالائی منزل کی چھت پر کھڑا نظر آتا ہے ….اَنتھک ، مستقل اور سنگی ستون ، ایک مخصوص سمت کی جانب گھورتا ہؤا۔ یہ قصہ ہے نصف صدی کا مگر کہاں ، کیسے ؟ اور میں کس طرح یقین کر لوں کہ ابھی ٹی وی پر کشمیر فائل دیکھی ہے….فلیش بجلی کے کوندے کے مانند لپک کر سامنے آتا ہے اور معدوم ہو جاتا ہے ۔
خبر نامے اور موسم کی غیر یقینی کیفیت کے بعد کشمیر فائل کی سرسری سی ایک جھلک دیکھنے کی خاطر میں رکی رہتی ہوں ، اپنے ارادے سے نہیں بلکہ ایک انجانی سی قوتِ ارادی کے دبائو میں ، اسے مجبوراً دیکھتی ہوں کہ جلتے ہوئے گھروں سے اٹھتے شعلوں کی لپٹوں ، سٹریچر وں پر پڑے نیم مردہ زخمیوں اورمردوں کو جنازوں اور تابوتوں کی شکل میں اپنے کندھوں پراٹھائے جوانوں اور آہ وبکاہ کرتی خواتین کے ہجوم میں ’’ آزادی ! آزادی!‘‘ کے نعروں کے ساتھ لہراتے پرچموں اور پھر یروں کے درمیان ، جس طرف بھی نظر پڑتی ہے وہی دبلا پتلا چہرہ ، چھوٹی سی کڑبڑی ڈاڑھی اور آنکھوں میں نوحہ گر اداسیاں لیے نظرآتا ہے ۔
اور پھر جو نظر ہٹتی ہے تو پل کے پل میں پھر وہی 12 نمبر کی بالائی منزل کی چھت پر ایک سنگی ستون کے مانند سیدھا، استوار اور مستقبل ، وہ کھڑا نظر آتا ہے …. اسی ایک مخصوص سمت کو ٹکٹکی باندھ کر بڑی یاس بھری نگاہوں سے تکتا ہؤا…. نمازِ فجر اور تلاوت سے فارغ ہو کر اور پھر شام ڈھلے عشاء کی نماز کے بعد غلام محمد بڈھا ہر روز اسی طرح چھت کے اس ایک زاویے پر کھڑا تکتا تھا اور مجھے اس وقت قطعی خبر نہ تھی کہ جغرافیائی اعتبار سے چھت کے اسی رخ پر کہیں پونچھ کی بستی ہے جس کو وہ ’’ پنچ‘‘ کہتا تھا۔
غلام محمد بڈھا کہ اپنے لیے بڈھا نام کی تجویز اورفرمائش اسی کی طرف سے آئی تھی ، نومبر 47ءمیں آکر ہمارے ہاں بطور خانساماں ملازم ہؤا۔ اس کے آنے اور ملازمت کا بھی ایک پس منظر بنتا ہے جس کی تفصیل یوں ہے :
شملہ کی کارٹ روڈ پر ایک وسیع علاقہ احاطہ مولوی صاحب کے نام سے مشہور تھا ۔ اسی خطے کے سید احمد صاحب سے ہماری پھوپھی مکرم جہاں بیگم بیاہی ہوئی تھیں جن کے بیٹے سید عبد اللہ ابن احمد صاحب سے میری ہمشیرہ بیاہی گئیں ۔ یوں تو مولوی صاحب کا احاطہ ایک اچھی خاصی بڑی املاک تھی اور تمام کاٹیج کرائے پر چڑھے ہوئے تھے ، البتہ پرم روز کاٹیج میں یہ لوگ خود مقیم تھے جو ایک وسیع کشادہ اور بہت خوبصورت رہائش گاہ تھی ۔ یہ لوگ چوں کہ سردیوں میں بھی شملے ہی میں مقیم رہتے تھے ، اس لیے پرم روز کاٹیج میدانی علاقوں کے اعزہ اور احباب کی آماجگاہ بنی رہتی تھی ۔ پورے احاطے کے رکھ رکھائو اور کرائے پر چڑھے ہوئے کاٹیجوں کے جملہ امور اور متعلقہ باغ کے کاموں پر مامور کشمیری اور بلتی ملازمین کی ایک کھیپ بر سر کار رہتی تھی۔پرم روڈ کاٹیج میں مہمانداری بلکہ مستقل مہمان داری کے دبائو اور ضرورت کے تحت دیگر ملازمین کے علاوہ تین باورچی اور دومزید لڑکے باورچی خانے میں مصروف رہتے تھے ۔ باورچیوں میں سے ایک کشمیری ، ایک پنجابی اور ایک سہارنپوری تھا۔ دونوں مشعلچی لڑکے گلگت اور بلتستان سے تعلق رکھتے تھے ۔ غلام محمد کو صرف ہنڈیا تیار کرنی ہوتی تھی ، کشمیری ہونے کے سبب کہ کشمیری کھانوں کی لذت کا شہرہ تھا ۔ دوسرا پنجابی قدرت اللہ جو دہلی میں پلا بڑھاتھا ، صرف صبح کا ناشتہ تیار کرتا تھا ۔ اس کے ہاتھ کی کچوریاں اور آلو کی بھجیا کی شہرت تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ دیسی کچوریاں اور بھجیا پھر کبھی نہ کھائی۔ ننھے خاں نہایت پستہ قد، فقط ایک آنکھ (دوسری بہہ گئی تھی ) ، موٹے موٹے شیشوں کا چشمہ جس کی دونوں کمانیوں پرگندا میلا ڈورا ، بے حد پھیلی ہوئی ناک ، چوڑے چھوڑے کھر پا سے دانتوں کا بالائی چو کا نچلے ہونٹ پر بڑی بے تکلفی سے بیٹھا رہتا تھا ۔ مستزاداس پر سیاہ فام رنگت اور توتلا پند ۔ ہر وقت پان چباتے رہتے ۔ ہاتھوں کو انگلیاں اتنی ٹیڑھی کہ دیکھنے والے کو ہرگزیقین نہ آئے کہ ان ٹیڑھی انگلیوں سے اتنی نفیس اور ملائم چپاتیاں پکا سکتے ہوں گے۔بہر حال ننھے خاں کا کام صرف چپاتیاں پکانا تھا …. نفیس اور بے حد ملائم ۔ انہیں ایک وہم تھا ۔ وہم کیا پختہ یقین تھا کہ ان پر چار چڑیلیں عاشق ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک کا تعلق بنگال سے ہے ، دوسری کا مدارس سے اور باقی دو کا تعلق آسام اور احمد آباد سے بتایا کرتے تھے ۔
شملے کی مسلم آباد کا ایک بڑا حصہ تو وائسرائے کے دفاتر میں چھوٹے بڑے عہدوں پر فائز برصغیر کے ہر علاقے سے متعلق مسلمانوں کا تھا ۔ اس کے علاوہ آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ اور ریلوے یعنی کالکا ریلوے سے متعلق اہل کار اور مقامی آبادی کے مسلمان تھے جن میں کشمیر، گلگت اور خصوصاً بلتستان میں کام آنے والے محنت کش مزدور ، گھروں ، بنگلوں میں کام کرنے والے ملازمین اور ہوٹلوں اور بیکریوں میں کام کرنے والے بیرے اور ماہر بیکرز تھے ۔ان میں سے بعض ترقی کرتے کرتے اپنے ہوٹلوں اور بیکریوں کے مالک بن چکے تھے اور اب شملے کے معزز شہریوں میں شمار ہوتے تھے ۔ بلتستان سےشملے میں آکرکاروبار کرنے والوں میں ایک معزز نام ماجے علی شاہ کا تھا ۔ ان کا اصل نام کیا تھا مجھے علم نہیں ، ان کے اہل وطن بلتی ان کے نام کو اسی تلفظ سے ادا کرتے تھے ۔ ان محنت کش بلتیوں کا روز گار بیکریوں اور ہوٹلوں کے علاوہ باغات اور لکڑی کا کاروبار کرنے والوں کی ملازمتیں تھیں ۔لکڑی اور کوئلے کی ٹالوں پر ان کے غول کے غول کام کرتے اور اپنے دور افتادہ ، ہمالیائی سلسلوں کی بلند ترین وادیوں میں پڑے اہل و عیال کے لیے رزق کی باہم رسانی میں کوشاں رہتے تھے ۔
ان کے علاوہ محنت کش کشمیری ہاتو ، اور کشمیری شالو ں ، دوشالوں ، غالیچوں اور نمدوں کے ماہرین ، اخروٹ کی لکڑی کو ایک نیا روپ اور نیا جمال عطا کرنے والے نقاظ اور ماہر فرنیچر ساز تھے ۔ اور کشمیریوں کا ایک فن پرانے خستہ غالیچوں کو نئی زندگی دینا تھا ۔ رفو کرنے او ررقعہ بٹھانے یعنی پیوند کاری کو انہوں نے پیشے سے ہنر اور ہنر سے فن بنا دیا تھا ۔ ان کا کمال یہ تھا کہ دنیا بھر کے کسی بھی مشینی اُونی کپڑے کی مرمت ڈیزائن اور وضع سے ایسی ہو بہو ملا دیتے تھے کہ یہ پتا چلانا نا ممکن ہوتا کہ رقعہ کہاں بٹھایا ، اصل کہاں سے خستہ تھا اور رفو گری کا کام کہاں سے کہاں گیا۔
پھر ان ہی کشمیریوں کا افک اور فن اُونی پارچات کی رنگائی اوردھلائی کا تھا جو اب قدامت سے گزر کر جدت اور مشینی ہنر میں ڈھل چکا تھا ۔ دھلائی اور رنگوں کی لانڈری سے اکثر کشمیری ہی متعلق تھے ۔
شملہ، حکومت ہند کا گرمائی دارالحکومت ہونے کی حیثیت سے ایک کاسمو پولٹین کوہستانی شہر اور قدرت کی بے پناہ فیاضیوں سے مالا مال امن و چین کی بستی ہونے کے سبب پورے برطانوی ہند کا گلیمر اپنے کوہ و دمن کے گوشے گوشے میں لیے ہوئے تھا۔دور و نزدیک سے مختلف شہروں کی آبادی کا جو حصہ ایلیٹ (Elite)کے نام سے یاد کیا جاتا ، گرما کی تعطیلات گزارنے اور بے فکری کے چند لمحات کی خوشہ چینی کے لیے یہاں پہنچتا ۔ تاہم نظریں پنجاب سے آنے والے گلیمر کی منتظر ہؤ ا کرتیں ۔ ہر طرف گہما گہمی اور خوشیوں کا سیلاب ہوتا ، یعنی خاص و عام ، امیر غریب غم دنیا اور غم دوراں سے کسی حد تک نجات حاصل کرتا ۔ بہر حال یہی وہ دن تھے کہ عین بہار کے اس عالم میں ؎
چلی سمت غیب سے جو ہوا تو چمن سرود کا جل گیا
شعر کے علامتی انداز میں نہیں بلکہ قطعی عملی اور حقیقی انداز میں ، ایک طرف ایک جوئے خون کی لالہ رنگی اور دوسری طرف آگ کا ایک دریا ، جلتے مکانوں اور دکانوں کی بھڑکتی آگ کے شعلے ، کوچہ و بازار کی رونقوں کو چاٹتے چلے گئے اور فطری طور پر سہل پسند ، رجائیت پسند مسلم آبادی اب بھی یہ سوچتی رہی کہ ؎
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
ابھی تو تاجِ برطانیہ کا پرچم سرنگوں ہؤا ہے اور ابھی تو جشن آزادی کی خوشیوں میں چراغاں کرنا تھا ۔ اور اب جو یہ چراغاں ہؤا تو کس طور …چمکتی کر پانوں اور لپکے شعلوں کے درمیان شملے کی بیشتر مسلم آبادی کا ہنوز ردِ عمل یہی تھا کہ عارضی جذبہ اور جوش ِ جنوں ہے ۔ جلتے مکانوں اور دکانوں کی لکڑی راکھ بن کر رفتہ رفتہ ٹھنڈی ہو جائے گی ۔ خون آشام برچھے اور کرپانیں اپنی میانوں میں تھک کر سو جائیں گی ۔ یہ رد عمل یا طرز عمل عمومی تھا تو اس سے احاطہ مولوی صاحب واقع کا رٹ روڈ کے پر م روز کاٹیج کے مکین میر سید احمد صاحب کیوں کر مستثنیٰ قرار پاتے کہ وہ یہاں اپنی املاک کی مستقل مالک و مختار تین پشتوں سے چلے آتے تھے ۔ ان کے دادا سید عبد اللہ نے شہردہلی سے آکر یہاں قیام کیا ۔ چھوٹے چھوٹے ٹیلوں کو خرید کر اپنی املاک کی طرح ڈالی ۔ سید عبد اللہ صاحب کے باقی تین بیٹے تو اپنی ملازمتوں کی بنا پر مختلف علاقوں میں رہتے ، تاہم میر سید احمد کے والد مولوی عبد الغفور اس مشترکہ املاک اور باغات کی دیکھ بھال اور انتظام کرتے رہے اور شملے میں مستقل مقیم رہے ۔ سیزن پر سب بھائیوں کی اولادیں وہاں پہنچتیں اور ان کے علاوہ دوسرے احباب اور اعزہ و اقارب بھی مہمان ہوتے ۔
یہی وہ سیزن تھا جب عام پہاڑی کاٹیج کے برعکس بے حد وسیع اور کشادہ پرم روز کی رونقیں اپنے عروج پر تھیں اور شملہ ہمیشہ کی طرح گرمی کے ستائے ہوئے نیچے سے آنے والے مہمانوں سے معمور تھا ۔ نیچے سے آنے والے اپنے ساتھ بری بری خبریں لا ہی رہے تھے ، لیکن یہاں والے بھی اب وقت کے بدلتے تیوروں کا اندازہ کر رہے تھے ، مگر ان کا خیال تھا ، یہ وقتی اور ہنگامی جوش و جذبہ ہے جوچند دنوں شملے کی خنکی ، رونقوں اور گلیمر میں تحلیل ہو جائے گا۔ اور یہ بات تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ چند روزجاتے ہیں کہ احاطہ مولوی صاحب شملے کی بیشتر آبادی کا کیمپ بن جائے گا ۔ البتہ نیچے برپا ہونے والے واقعات کی تواتر سے خبریں ملنے کے بعد اکثر مہمان جوہمیشہ کی طرح سیزن یا مہینہ بیس دن گزارنے آئے ہوئے تھے ، اپنے اپنے گھروں کی فکر میں بوریا بستر باندھنے اور کھسکنے لگے ۔ اس کے باوجود پرم روز جو سیزن کے علاوہ شدید برفوں اور سردی کے موسم میں کبھی مہمانوں سے خالی نہ ہوتا تھا ، اب بھی معمور تھا اور مہمان داری اپنے روایتی انداز میں جاری تھی ۔ پرم روز کاباورچی خانہ حسب معمول آباد تھااور اس میں کام کرنے والے ہر تبدیلی اور خبر سے بے نیاز تھے ۔ صبح سے آدھی رات تک چولہے دھڑا دھڑ جلتے اور روشن رہتے ۔ قدرت اسی طرح علی الصبح کچن کی بتیاں جلا کر ناشتے کی تیاریوں میں مصروف کچوریاں ، آلو کی بھاجی ، چنے ، پراٹھے اور انڈوں کی آملیٹ تیار کرنے کھڑا ہوتا تو صبح سے دوپہر سر پر آکھڑی ہوتی ۔ ساتھ ہی اپنے چولہوں پر کھڑا غلام محمد بڈھا جو اس وقت بڈھا نہیں کہلاتا تھا ، صبح سے رات تک دیگچے پر دیگچے چڑھاتا اور اتارتا رہتا ۔ ساتھ ساتھ پریشر ککر سنسنانے رہتے ۔ ننھے خاں کی چپاتیاں اور گرم گرم پھلکے دستر خواں پر پہنچتے رہتے۔
اسی گہما گہمی میں وہ دن بھی چڑھا ، جب انتظامیہ اور ڈپٹی کمشنر کی طرف سے سید احمد صاحب کو بلاواآ گیا اور وہاں ان کو مطلع کیا گیا کہ شملے کی بیشتر مسلم آبادی کا تقاضا اور اصرار ہے کہ مولوی صاحب کا احاطہ ہی ہماری بہترین پناہ گاہ ہو سکتا ہے اور ہم وہاں محفوظ رہیں گے ، اس لیے آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ کے احاطہ کو کیمپ بنایا جا رہا ہے ۔ وہ جانتے تھے کہ مقامی آبادی کے علاوہ محنت کش بلتی اور کشمیری بھی ان پر بڑا اعتماد اور ما ن رکھتے ہیں ۔ ان کے احاطے کے جملہ امور جس منشی کے ہاتھ میں تھے ، وہ بھی بلتی سرداروں کے خاندان کا فرد تھا ۔ اس شہر کے با اثر اور معزز شہری ہونے کے سبب وہ تیزی سے بدلتے ہوئے واقعات کے رخ کااندازہ رکھتے تھے ۔ تاہم ایک رجائی جذبے کے تحت انہیں پورا یقین تھا کہ یہ وقتی اور ہنگامی بات ہے ، رفتہ رفتہ چڑھی آندھی اتر جائے گی، جیسے برف باری کے موسم میں برف کا ایک جھال اور اس کے ساتھ بے شمار جھالے آتے ہیں ۔دھنکی ہوئی روئی جیسی برف جم کر یخ بنتی ہے اور آمد بہار کی پہلی چاپ اور نئی کرن آکر برفوں کو پگھلا کر ہر شے کو اس کے اصل روپ میں لے آتی ہے ۔ اور اگر اس شہر کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے احاطے میں وہ زیادہ محفوظ رہیں گے تو یہ ان کے لیے شکر کامقام ہے کہ خدا نے انہیں معتبر کیا۔
اسی دن سے احاطہ مولوی صاحب کیمپ قرار پایا اور اس حد تک محفوظ سمجھا گیا کہ جہاں جہاں پہلے کیمپ بنے تھے ، وہاں سے بھی اکثر لوگ ادھر ہی آ پہنچے ، کیمپوں کی زحمتوں کا ذکر کرتے ہوئے احاطے میں کاٹیجز کے کرائے داروں میں عیسائی ، ہندو ، مسلمان سبھی شامل تھے ۔وہ اپنے گھروں میں اسی طرح مقیم رہے ، ساتھ پناہ گزین بھی پرم روز کے علاوہ پورے احاطے میں آگئے ۔
پرم روز میں سیزن کا راشن ہر قسم کی کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ باغات سے ٹوٹ کر آئے ہوئے پھلوں ، خصوصاً کلو کے سیبوں کا وافر ذخیرہ موجود رہتا تھا جو گاہ گاہ منڈیوں میں فروخت ہونے کو بھیجا جاتا ۔ کیمپ بن جانے کے فوراً بعد ہی سید احمد صاحب نے کہہ دیا کہ یہ بھی ہمارے مہمان ہیں ، گھر میں جو کچھ ہے سب اس میں شریک رہیں گے ۔ چنانچہ ان کا باورچی خانہ اور زیادہ روشن اور مصروف نظر آنے لگا ۔ تینوں خانسا مے اب صرف دال کے دیگچے بلکہ دیگیں اتارتے چڑھاتے رہے۔ تندو رتیار ہوئے اور روٹیاں پکنے لگیں ۔
مختصر یہ کہ پناہ گزینوں کے اندازے درست تھے ۔ یہ احاطہ ان کی محفوظ ترین پناہ گاہ بنا رہا ۔ تمام رات گھر کے اکلوتے بیٹے کے ہمراہ یہ تینوں باورچی بندوقیں لیے پہرہ دیتے رہے۔ پناہ گزینوں کی ٹکڑیاں بھی اپنی اپنی باری اور ڈیوٹی دے رہی تھیں لیکن سید احمد صاحب کے بیٹے اور غلام محمد بڈھے کی ڈیوٹی اور باری ہر شفٹ میں برقرار رہی۔
ظاہر ہے کہ آشوب کا بیان آشوب سے بھی مشکل تر ہے ۔ شملے کی سڑکوں ، گلیوں اور بستیوں پر کیا گزر رہی تھی ، اس کا ذکر اور بیان اذیت ناک اور خون آشام ہے ۔ تاہم احاطہ مولوی صاحب اس موج بلا سے محفوظ رہا اور سید صاحب اس وقت تک احاطہ چھوڑنے کا خیال نہ کر سکتے تھے،جب تک کہ تمام پناہ گزین اپنی اپنی منزل کو روانہ ہو جائیں ۔ بہرحال اس مختصر قافلے نے اس وقت کو چ کیا جب باہر سے یہ پیغام آیا کہ آپ کوجو کچھ لینا اور اٹھانا ہے ، لے کر آج شام تک نکل جائیں ۔ شام کو ہم اندر داخل ہو جائیں گے ۔ آخری کھیپ احاطہ چھوٹنے والوں کی ،خاص ان کے اپنے گھرانے کی ، یوں نکلی کہ ان کی نو عمر بہو ( میری ہمشیرہ)اور ان کی تین بھانجیوں کے علاوہ چند رشتے دار بیبیاں اور لڑکیاں ، توے کی سیاہی میں تیل ملا کر اپنے چہروں کو سیاہ کیے ، ساتھ بہو کو گود میں آٹھ نو ماہ کا بچہ اور اس کی بوڑھی آیا۔ تینوں باورچی ایک طرف سر جھکائے ملول کھڑے تھے ۔ ان کے ہاتھ میں آج کفگیر نہ تھے ، سبزی کاٹنے والی چھریاں نہ تھیں اور گلوں میں ایپرن نہ تھے ۔ سید صاحب نے ان کو گلے لگایا ، سروں پر ہاتھ پھیرا ، ہاتھوں میں ان کے واجبات سے بھی کچھ زیادہ رقم تھمائی اور کہا، تم لوگ جلدی سے نکلوا اور جدھر جدھر منہ اٹھے ،چلے جائو۔
اس کے ساتھ ہی ایک دروازے سے ایک غول بیابانی داخل ہو رہا تھا اور دوسرے دروازے سے صاحب خانہ ، بہو بیٹیوں کے مختصر سے قافلے کے آگے اور ان کے بیٹے سید عبد اللہ ابن احمد پیچھے پیچھے چلے ۔ اسلحہ ان سے اسی صبح گن گن کر لے لیا گیا تھا ۔ اب ان کے ہاتھوں میں پھل کاٹنے والی چھری بھی نہ تھی ۔ احاطے سے باہر کو چلے تو ان کے ایک عیسائی کرائے دار نے چپکے سے باچشم نم استفسار کیا ’’میر صاحب ! کچھ بستر اور بچے کی ضرورت کا سامان بھی لے لیا ہے ؟‘‘ انہوں نے ایک نظر احاطے پر ڈالی اور کہا ، ’’ بھائی ! بہت بڑی دولت ساتھ لے جا رہا ہوں ، اپنی بہو بیٹیوں کی عزت بچا کر ساتھ لے جا رہا ہوں ۔ اب اور کچھ نہیں لے جانا ‘‘۔
’’ امن چین ہوگا تو واپس آجائیں گے نا ؟‘‘
’’ ہاں بھئی کیوں نہیں ؟ آئیں گے نہیں تو کہاں جائیں گے ؟‘‘
’’ آپ بے فکر رہیں مجھ سے جہاں تک ہو سکے گا ، آپ کے گھر کی حفاظت کروں گا ‘‘۔
’’ ارے بھائی اپنے آپ کو خطرےمیں نہ ڈالنا ۔ بس تم دعا کرنا کہ آبرو کی جو دولت یہاں سے لے جا رہا ہوں ، آگے بھی اللہ محفوظ رکھے ‘‘۔
آوازیں … جھگڑنے اور تو تو میں میں کی آوازیں ، پرم روز کا وکٹورین فرنیچر کھڑ کھڑ گھسیٹا جانے کی آوازیں … قالین کھینچے جا رہے ہیں، لپیٹے جا رہے ہیں ۔ ڈرائنگ روم کے سائیڈ بورڈوں سے برتن نکالنے کی آوازیں ، گویا کسی بڑی ضیافت کا اہتمام کیا جا رہا ہو ۔ روسی اور چینی کراکری ، بیلجیم کے کٹ گلاس کے ہر طرح کے سیٹ اور شیفرز کی کٹلری … سب کے گڈ مڈ ہونے اور چھینا جھپٹی کا شور اور آوازیں ۔
بہو ، لڑکیاں اور بیبیاں ، بے چین سی نگاہیں اٹھا کر اس جانب دیکھتی ہیں تو میر کاررواں ان کے سروں پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے ،’’ میری بچیو! اُدھر کو نہ دیکھو ۔ یہ سب تو تمہاری جانو ں اور عزتوں کا صدقہ ہے ‘‘۔
جیسے کوئی صدا دیتا ہو … بڑھیا اپنے ارتن برتن سنبھال۔
جیسے کوئی اور کہتا ہو …اب کوئی بڑھیا اپنے ارتن برتن سنبھالنے نہ آئے گی۔
زندگی کا ایک فیز پرم روز کاٹیج کی خانہ ویرانی پر تمام ہؤا جس کے ڈریسنگ روموں کی الماریوں میں فرانس اور انگلستان کے خیاطوں کے ہاتھوں کے سلے تھری پیس سوٹ درجنوں کی تعداد میں اب بھی ہینگروں میں جھولتے ہوں گے ۔ ان سب ہی نے انقلاب فرانس ، انقلا ب روس اور ڈاکٹر ژواگو کا مطالعہ کیاتھا اور سب پر مستز اد بڑی بوڑھیوں کی زبانوں پر جاری 1857ء کا انقلاب کہ جسے کسی نے غدر کہا اور کسی نے جنگ آزادی کا نام دیا ، پر غالب نے اس کو قلزم خوں کے نام سے یاد کیا۔
اور میری بہن یعنی سید احمد صاحب کی بہو، سید عبد اللہ ابن احمد صاحب کی بیگم تھیں ، انہوں نے کیا غضب کیا کہ کالکا کے کیمپ میں اس عالم میں بیٹھے بیٹھے کہ شیر خوار بچے کا سر گھٹنے پر تھا اور دودھ کے لیے رو رو کر اس کی ابھی آنکھ لگی تھی ، اپنے بیگ میں سے ایک سادہ کاغذ پر چار کول کا وہ ٹکڑا نکالا جو وہ ہمہ وقت اپنے دستی بیگ میں ساتھ رکھتی تھیں کہ نہ جانے کب اور کس وقت کوئی لمحہ تخلیق ان پروار د ہو جائے ۔ کالکا کی اس شام کے جھٹ پٹے میں جب سورج کی الوداعی کرنیں خون رنگ شفق کی ندی میں اترتی تھیں تو ان کی انگلیوں میں پکڑا ہؤا چار کول سادے کاغذ پر تیزی سے چل رہا تھا ۔در اصل انہوں نے اس لمحہ کو مصور کر لیا تھا ۔ نیچے مرزا غالبؔ کا مصرع لکھا تھا ؎
جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شام فراق
کاغذ کو تہہ کیا اور پھوپا ابا کی نظروں سے بچا کر بیگ میں رکھ لیا کہ وہ اس صورت گری کو کچھ اچھی نظر سے نہ دیکھتے تھے ۔
ایسی باتوں کی تفصیلات اور جزئیات بیان کی جائیں تو ان کا نہ کوئی اور ہوتا ہے نہ چھور، لہٰذا کالکا کے کیمپ سے نکل کر نمبر 12لارنس روڈ تک پہنچنے کی تفصیل مختصر کرتے ہوئے اس شخص کی طرف آتا ہے جو گزشتہ صدی سے 12 نمبر کی بالائی منزل کی چھت پر کھڑا ایک مخصوص سمت کی جانب ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہے ، اور یہ بتاتا ہے ۔
یہ وہی میر سید احمد ہیں جن کے احاطے کو شملے کے مسلمانوں نے اپنا محفوظ ترین کیمپ قرار دیا اور جس کو آخری دن باہر سے یہ پیغام دیا گیا تھا کہ ہمیں آپ کی خاطر ملحوظ ہے اور ہم یہ نہیں چاہتے کہ آپ کی موجودگی میں گھر میں گھسیں اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو ۔ اور اب اس میر سید احمد کا یہ حال دیکھیں کہ وہ جو اپنا گھر بار اس پیغام کے ملنے پر اسی طرح چھوڑ کر ان کے دیے ہوئے وقت پر نکل پڑا تھا ، اب کرنل بادشاہ اور کپور چند کے اس گھر میں ان کا تنکا تنکا چن چن کر کمروں میں بند کروا رہا تھا اور کسٹوڈین کو بلا کر ان کی فہرستیں تیار کروا رہا تھا جن کی ایک ایک نقل خود اپنے پاس اس خیال سے رکھوا رہا تھا کہ جب مالکان آئیں گے تو انہیں فہرستوں کے حوالے سے ان کا سامان ان کے سپرد کردیں گے ۔ خود اپنے دل میں اتنا کچھ دیکھنے کے بعد ایک موہم سی امید تھی واپسی کی اور خیال تھا کہ واپس جائیں گے ، کچھ بھی نہ ملا تو اپنا گھر تو ملے گا ہی ۔ اور ہؤا بھی ایسا کہ جب کپور چند ایک کانوائے کے ساتھ لاہور آئے تو دو تین دن اسی گھرانے کے ساتھ اپنے ہی گھر میں مہمان رہے ۔ چلنے لگے تو کسٹوڈین بلوائے گئے ، سیلیں توڑی گئیں اور دونوں فہرستوں کے حساب سے ان کا سامان ان کے حوالے کیا گیا ۔ ٹرکوں میں سامان لد رہا تھا تو کپور چند نے اصرار سے کہا کہ آپ کو اس میں سے جس چیز کی ضرورت ہو رکھیں مگر انہوں نے ان کو بڑے تپاک سے رخصت کیا ۔ کسی بھی چیز کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کا سوال ہی نہ تھا ۔ البتہ جب ان کی جیپ سٹارٹ ہو رہی تھی تو انہوں نے ان کو کچھ دیر رکنے کو کہا ۔ اندر گئے او ایک کاغذ میں لپٹی ہوئی کوئی چیز لا کر دیتے ہوئے کہا ، ’’ آپ کو یہ امانت تو میرے پاس ہی رہی جا رہی تھی ‘‘۔
اس پیکٹ میں انلار جڈسائز کی ایک بڑی سی تصویر تھی ۔ دو خوب صورت لڑکیوں کی جن کی پشت کی تحریر بتاتی تھی کہ یہ ساتھ پیدا ہوئیں اور اتفاقاً ساتھ ہی وفات پا گئی تھیں ۔ تصویر حوالے کرتے وقت انہوںنے دھیرے سے کہا ، ’’ میں بھی شملے میں اپنی دو جواں مرگ بیٹیوں کی تصویروں کی البم چھوڑ آیا ہوں ۔ اسی لیے میں نے آپ کی یہ امانت سنبھال کر رکھ لی تھی کہ آپ نہ بھی آتے تو کسی نہ کسی طرح آپ کو پہنچا دوں گا ‘‘۔
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز …ہوایوں کہ کپور چند اور ان کے ساز و سامان کو رخصت کر کے خالی کروں اور جھڑی زمین پر بیٹھے ہی تھے کہ اگلا دن جو چڑھتا ہے تو کیا دیکھتے ہیں کہ صبح صبح 12 نمبر کے گیٹ سے ایک مختصر قافلہ چالیس پینتالیس آدمیوں کی نفری کا چلا آ رہا ہے ۔ بھاری بھاری فرغلوں اور پٹو کے کوٹوں میں ملبوس ، سرخ و سفید ، سیاہ و سنہری بالوں اور ترچھی آنکھوں والے بلتیوں کے ہمراہ دراز سیدھے قدوں اور اکبر بدن ، تیکھے اور نازک خدو خال والے کشمیریوں پر مشتمل قافلہ ، چہروں پر وحشت اور خستگی آنکھوں میں سوال ۔ اندر گھستے ہی احاطے میں کھڑے املی کے چھتنا ر درخت تلے چبوترے پر آ بیٹھے ۔ کون ہیں ؟ کیا ہیں ؟ ہر بات کے جواب میں گول گول زبانوں اور کچی کچی سی اردو میں وہ بار بار کہتے :  ’’ میاں جی۔ میاں صاحب ۔ بڑا صاحب ، چھوٹا صاحب شملہ والا ‘‘۔ پھوپا ابا تک یہ آوازیں پہنچیں ۔ دونوں باپ بیٹے ان کے استقبال کو باہر نکلے ۔ بیٹے یعنی سید عبد اللہ ابن احمد اور ان کے چھوٹے جناب تو کالکا ہی سے نمونیا اور بخار میں مبتلا تھے ۔ نحیف و لاغر … خاموش … دونوں ان کے درمیان جا بیٹھے ۔
ایک دوسرے کی صورتوں کو تکتے تھے ۔ جذبات سے عاری چہرے اور گنگ زبانیں ۔ زبان بے زبانی میںپر سش احوال کرتے تھے۔ تو مختصر یہ ہے کہ یہ احاطہ مولوی کے مختلف کاموں اور ذمہ داریوں پر مامور ملازمین اور پرم روز کے تینوں خانساموں اور مشعلچیوں کے علاوہ ان کے باغات میں جو کلو ، مشوبرے ، ٹوٹی کنڈی اور نجولی میں واقع تھے ، کام کرنے والا عملہ تھا ۔ اب آپ یہ دیکھیے کس کی ہمت تھی ، کسل اورنج راہِ سفر کے بارے میں ان سے سوال کرتا ۔ کسی کو یارا تھا کہ بیان کرتا۔ وہ تو آگے ہی بے زبانوں میں شمار تھے کہ بلتی محض غل غل ، اش اور ہش جیسی آوازیں نکال کر ہی ادائے مطلب پر قدرت رکھتے تھے ۔ آگے کشمیری اور پٹھان جو تھے ، وہ بھی ایک تو سب کے سب پریشان کم اور حیران زیادہ تھے کہ حصول رزق کے کولہوں میں جتے اپنے ہی محور میں محصور ۔ اخبار ، ریڈیو اول تو سہل الحصول نہ تھے ، دوم ، اتنی مہلت اور سمجھ کس کو تھی ۔ پھر خبر بھی ایک طرح کی نہ تھی ۔ جنگ عظیم ، جرمنی ، برطانیہ ، روس ، پورا یورپ مشرق اوسط ، چین جاپان اور سب پر مستزاد امریکہ ، ہیرو شیما ، ایٹم بم ، ناگا ساکی ، ان کے سیدھے سادے ناخوادہ ذہن اور محنت کش اجسام ۔ ایک ایسے موڑ پر آ کھڑے ہوئے تھے کہ سوال ہی سوال اور حیرت ہی حیرت ۔ یہ دنیا … یہ زیست اور خود اپنا آپ … اب ان کے لیے ایک بہت بڑے آئینہ حیرت کے سوا کچھ نہ تھا ۔
ادھر ان کا یہ حال کہ ان سے مصافحہ کیا ، باری باری سب کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر سمجھایا ۔’’ اب میرے پاس کیا رکھا ہے ؟ مجھے تو اپنے آج اور کل کی خبر نہیں ۔ تم کو میرا پتہ کیسے ملا ؟‘‘
’’ کیمپ والوں سے ‘‘۔
’’تو وہاں کیمپ میں رہے ہوتے ‘‘۔
’’ میاں جی ہمارا کیمپ تو تم ہو ۔ ہمارا پاکستان بھی تم ہو ۔ ہم یاں کس کو جانتا؟ جدھر آپ اِدرام رہے گا ‘‘۔
’’ ارے احمقو! میرے پاس رہو گے تو کھائو گے کیا ؟ دیکھو اب تم کو سیٹلمنٹ والوں کے پاس جانا پڑے گا ‘‘۔
’’ وہ کون ہوتا ، کدر ہوتا ۔ ام اس کو نہیں جانتا ۔ ہم صرف میاں جی کو مانتا جانتا ‘‘۔
میاں جی خاموش نہ ہوتے تو اور کیا کرتے ۔ کوٹھی کے سرونٹ کوارٹر خالی پڑے تھے ۔ انہوں نے اس طرف دیکھا اور اچھا ، اب فی الحال تو تم ان کوارٹروں میں بیٹھو ۔ آگے اللہ مالک ہے ، میرا بھی تمہارا بھی ، تینوں باورچی بغیرصلاح مشورے یا اگلے حکم احکام کے اٹھ کر سیدھے باورچی خانے میں جا گھسے ۔ کسی نوکر ملازم کا کوئی خیال بھی نہ تھا ۔ میری بہن بچے کی کھلائی کی مدد سے جو کچھ چائے پانی دال دلیہ پکنا ہوتا ، کر رہی تھیں۔ آٹا انہوں نے گوندھنا تو الگ بات ہے ، گندھتے بھی نہ دیکھا تھا۔یہ کام ان کی اماں کو بھی نہ آتا تھا ۔ روٹی بازار سے آجاتی ۔ وہی دیہاتی چنگیروں پر روٹی اور دیسی چینی کے پیالوں رکابیوں ہی میں ڈنر لنچ سب کچھ ہو رہا تھا ۔ گھر میں سونے کے لیے چٹائیاں آگئی تھیں ۔ سارا کنبہ ان پر بڑے آرام اور سکھ چین سے سو رہا ۔صبح آزادی اسی انداز میں طلوع ہوتی ہے …. سب مگن تھے ۔ گھر میں جو فالتو چٹائیاں موجود تھیں ، وہ اور دو تین اور ہنگامی طور پر منگوائی گئیں اور اس طرح ان کے لیٹنے بیٹھنے کا بندو بست ہو گیا۔
بہر حال باورچی خانے پر چھاپا پڑا تو میاں صاحب کی بہو پیڑھی پر چڑھی بیٹھی سبزی بنا رہی تھیں ۔ بڈھا غلام محمد کچھ دیر اس منظر کو دیکھ کر آستین میں منہ چھپا کر ہنستا رہا ۔ اس کے ہنسنے کا یہی انداز تھا ۔ پھر آگے بڑھا ۔’’ ہن بیگماں تسی چھٹی کرو ‘‘۔ چھری ہاتھ سے لے لی اور سبزی کی ٹرے اپنے آگے سر کالی ۔
کئی دن پوری کی پوری نفری اپنے فرغلوں ، کوٹوں ، کمبلوں اور پنڈلیوں تک اونچے فل بوٹوں میں ملبوس صبح کے ناشتے کے بعد نکل کر ملکہ کے بت پر جا بیٹھتے کہ وہ اس وقت لاہور کا اہم تریا ایمپلائمنٹ ایکسچینج یا مرکز خود کفالت ہؤا کرتا تھا اور شام کو گردنیں لٹکائے واپس آجاتے ۔ لیکن جیسا کہ وہ ایک یقین محکم لے کر آئے تھے کہ یہ کام ان کے بڑے صاحب کے ہاتھوں انجام پائے گا جن کو وہ میاں جی بھی کہتے تھے ۔ ان کی واقفیت اور اثر و رسوخ پر انہیں بڑا مان تھا ، اور ٹھیک ہی تھا ۔ آٹھ دن کے اندر اندر وہ ساری فوج ظفر موج منظر سے غائب ہوئی ۔ ان کی بحالی کا مسئلہ ان کے میاں صاحب کی ضمانت اور سفارش سے بحالیات کے محکمے کے ذریعے جلدی اور تسلی بخش انداز میں طے ہو گیا۔
ان کے گھریلو عملے میں غلام محمد بٹلر اور محمد علی اور تین عدد خانسامے ہی شملے کی باقیات کے طور پر رہ گئے ۔ پھوپا ابا ہنسا کرتے تھے ۔ اب بتائو کہ یہ تین عدد …. ان کا ہم کیا کریں گے اور انہیں کس طر ح رکھیں گے ۔ ان میں سے جس سے کہیں اور جانے کو کہا جاتا ، رونا شروع کر دیتا ۔ آخر ایک دن پھوپا ابا ہماری اماں سے مخاطب ہوئے ، ’’ بھئی دلہن !( بڑے نندوئی کے ناتے وہ ان سے اسی طرح مخاطب ہوتے ) یہ جو کشمیری غلام محمد ہے ، تم اگر اس کو رکھ لو تو مسئلہ حل ہو جائے گا ‘‘۔اور ہماری اماں کب سے صرف اسی اشارے کی منتظر تھیں ۔ سو غلام محمد ہماری ملازمت میں آگئے ۔ اب قصہ یہ تھا کہ ابتدا میں وہ ہرگز بازار جانے اور سبزی گوشت وغیرہ خریدنے پر راضی نہ تھے ۔’’ یارا ، شملے میں تو مجھے سارا سامان مل جاتا تھا اور میں ہانڈیا پکا چھوڑتا تھا ۔ میں بازار کدی نہیں جاواں گا ‘‘۔
بدقت تمام ، ہفتوں کی برین واشنگ کے بعد یہ نکتہ ان کے دماغ میں آیا کہ اب وقت بدل گیا ہے ، حالات بدل گئے ہیں ۔ بہر حال اس یقین کے بعد کہ وہ ویلا ٹر گیا ہے ، وہ راہ پر آنے لگے ۔ اب ایک وقت اور پیدا ہوگئی کہ ان کو آوازیں دیے جائو ، سن کر ہی نہ دیتے تھے اور ایک دن بولے تو یہ بولے ،’’یارا اس گھر میں ایک غلام محمد ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اس کو آواز دی ہے ۔ مجھے آواز دو تو میں بولوں ‘‘۔
ایک دن میری والدہ نے کہا کہ ’’ اگر تمہارا کوئی اور نام ہو تو بتا دو ہم اسی سے بلائیں گے ‘‘۔فرمانے لگے ،’’ اور نام تو نہیں ہے مگر میں بولا آں، ٹونا سننا آں ۔ تسی مجھے بہرا کہا کروں ‘‘۔ہم سب نے ہنسنا شروع کیا تو پھر یہ تجویز کی ، ’’ دیکھو غلا م محمد جوان لڑکا ہے ، میں بڈھا ہوں ۔ تسی مجھے بڈھا پکارا کرو ‘‘۔ شروع میں سب کا خیال تھا کہ اتنا بھی بڈھا نہیں ، وہ اس وقت کوئی چالیس سے اوپر ہوگا ۔ قدقامت اور ہمت اور محنت کے اعتبار سے بھی وہ جوان ہی تھا ۔ تاہم اس کا اصرار تھا ، ’’ یارا میں بڈھا آں ۔ میری آدھی داڑھی چٹی ہو چلی ہے ، سر پر سفیدی آگئی ہے ۔ میں بڈھا ہوں ، تم مجھے اسی نام سے پکارو‘‘۔
جب اس سے سوال کیا گیا کہ آخر شملے میں تمہیں اپنے آپ کو بڈھا کہلوانے کی ضرورت کیوں نہیں محسوس ہوئی تو جواب دیتا ، ’’ یارا ، وہاں تو میں باورچی خانے ہی میں صبح سے شام کر دیتا تھا تو مجھے کون آواز دیتا … اور یہ غلما تو زیادہ وقت سنجولی میںرہتا تھا ۔ اسے کوئی بلاتا بھی تو مجھے خبر نہ ہوتی ‘‘۔سو اب وہ اپنے مجوزہ نام سے یعنی ’’ بڈھا‘‘ ہی سے بلایا جاتا جس کا جواب فوراً اور بڑی خوشی سے دیتا ۔

کھانا وہ بڑا لذیذ پکاتا تھا ،مگر کبھی کبھی ہنڈیا جلا دیتا ۔ اماں اس پر ناراض ہوتیں کہ آئے دن تم ہانڈی ساڑ دیتے ہو ۔ تو شرمندہ سا ہو کر بڑی حلیمی سے جواب دیتا ،’’ میں کیا کروں ، مجھے بڑے بڑے دیگچوں میں بہت سا پکانے کی عادت ہے ۔ یہاں تین چار بندوں کے لیے پکاتا ہوں ، اسی لیے جل جاتا ہے‘‘۔ خیر رفتہ رفتہ اس نے اپنے آپ کو اس کا بھی عادی بنالیا۔
بہت صاف ستھرا اور پاک صاف ، نماز اور تلاوت کا سختی سے پابند تھا ۔ سرونٹ کوارٹروں میں رہنے والوں کی عادتیں اس سے مختلف تھیں۔ زبان کابھی مسئلہ تھا ، یہ کشمیری اردو اور پنجابی ملا کر بولتا تھا ۔ اور بلتی زبان بولتے تو غل کی آوازیں اس کے پلے نہ پڑتیں ۔ اوپر سب سے بالائی منزل پر ایک چھوٹا سا کمرا خالی پڑا رہتا تھا ، وہ اسے رہنے کے لیے دے دیا گیا ۔ بہت سویرے اٹھ کر غسل کرتا ، نماز اور تلاوت کے بعد نیچے آکر ناشتہ تیارکرتا ۔ میں اور میرے بھائی فضل قدیر رات کو دیر تک پڑھتے رہنے کی وجہ سے صبح دیر تک سوئے رہتے ۔ بڈھا ہمارے سرہانے کھڑے ہو کربالکل سٹیشنوں پر چائے بیچنے والوں کے انداز میں آواز لگاتا ، ’’ ہندو چائے ‘‘۔ ہنستا جاتا ۔ ’’’ ہندو چائے ‘‘۔
ایک دن اماں نے پوچھا ، یہ ہندو چائے کی آوازیں لگانے سے کیا مطلب ہے ؟ تو کہنے لگا ، ’’ تو اور کیا ، یہ تو ہندو ہی ہیں ۔ صبح سوئے پڑے رہتے ہیں ۔ اٹھ کر نماز نہیں پڑھتے ‘‘۔ اگر وہ کہتیں کہ یہ رات کو دیر تک پڑھتے رہتے ہیں، اس لیے دیر سے اٹھتے ہیں تو پھر وہ اپنا لیکچر شروع کر دیتا ، ’’ نماز تو پھر بھی ضروری ہے ۔ بیگم صاحب! آپ تو ان کی عادت خراب کر رہی ہیں ‘‘۔
تقریباً چھے ماہ تک کام کرنے کے بعد ایک صبح وہ اپنا مختصر سا بندھا ہؤا بستر لیے نیچے اترا اور اس نے کہا کہ میں اپنے بال بچوں کی خبر لینے جا رہا ہوں ۔ میں پہلے بھی بہت دن سے گھر نہیں جا سکا تھا اور اب پاکستان بن گیا تو ان کو یہ بھی خبر نہ ہو گی کہ میں ہوں کہاں…شملے میں یا پاکستان میں ؟
اپنی تنخواہ وہ اماں کے پاس ہی جمع ہی کرواتا رہا تھا ۔ چنانچہ انہوں نے اس کو حساب کر کے اس کی تنخواہ دے دی اور دیتے وقت یہ بھی کہا کہ احتیاط سے جانا ، دیکھو راستوں میں بڑی گڑ بڑ اور خطرہ ہے ۔ جانا تو تم کو چاہیے مگر ہوشیاری اور احتیاط سے جانا … اور وہ چونک کر ان کی شکل دیکھنے لگا ۔ کشمیر پر فوجوں کی نقل و حرکت کا آغاز تو اکتوبر 1947ء سے ہو چکا تھا ۔ اب وہ اتنا بے خبر بھی نہ تھا ، مگر یہ بھی ایک بات تھی کہ اس کا گھر پونچھ میں تھا اور اس نے یہ چھے ماہ اسی خیال میں گزارے تھے کہ بال بچوں کے پاس خالی ہاتھ نہ جائے ۔
’’ واپس آنے کا خیال ہے ؟‘‘
’’ دیکھو بیگم صاحب، کیا بنتا ہے ۔ اللہ خیر کرے تو میں وہیں رک جائوں گا ‘‘۔
اس مسافرت اور مہجوریت کے عالم میں بھی وہ ریشماں کے لیے پراندہ اور جوتی لے جانا نہ بھولا تھا ۔ اپنے بھائی علی مردان اور بچیوں کے لیے بھی جو اُسے یاد تھے ۔ اپنے کنبے کے لیے تحائف سے بھرا تھیلا کندھے سے لٹکایا ، دری اور کمبل کا مختصر سا بستر کندھے پر اٹھایا اور ہنس کر ایک فوجی سلیوٹ مارا ۔
’’ بیگم جی تسی سید ہو، میرے بچوں کے لیے دعا کرنا ‘‘۔
پھر وہ پھوپا ابا کے پاس گیا ، سیدھا کھڑا ہؤا اور بھیگی آنکھوں سے اس نے کہا ،’’ بڑے صاحب! برسوں تمہارا نمک کھایا ۔ مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو بخش دینا۔‘‘
انہوں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔ ’’ ارے اللہ کے بندے ! تو توفرشتوں جیسا معصوم ہے ، بالکل دور ویش۔ ہاں بھئی، اگر مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو تم معاف کر دینا ‘‘۔
اس کی واپسی کی امید اٹھ گئی تھی ۔ سو اس کی جگہ ایک نیا لڑکا ملازم رکھ لیا تھا ۔ اپنی پڑھائی کی مصروفیتوں میں اس کی غیر حاضری کا حساب کون رکھتا ۔
ایک صبح سویرے یوں ہؤاکہ ہماری والدہ بہت صبح سویرے نماز کے بعد چائے پیتی تھیں ۔ ابھی انہوں نے دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ نیچے بھی نہ کیے تھے کہ کسی نے دھیرے سے چائے کی ٹرے قریب سرکا دی ۔ نظر اٹھائی ۔’’ ارے بڈھے ! تم ۔ ارے کب آیا ؟‘‘
حسب عادت وہ کھڑا ہنس رہا تھا ، مگر اس کی آنکھوں میں بھوبل سی بھری محسوس ہوتی تھی ۔ رنگ جھلسا ہؤا، چہرہ اترا ہؤا اور اس کی ہنسی میں بڑی خستگی تھی۔
چائے دے کر وہ اپنا بستر اوپر رکھنے گیا ۔ تو ملازم لڑکا اپنا ٹین کا بکسا اور لپٹا ہؤا بسترلیے ہوئے نیچے آیا ۔’’ بیگم صاحب ! میرا حساب کردیں ۔ میں گھر جا رہا ہوں ‘‘۔
’’ ارے کیا بات ہو گئی ؟ ایک دم ، اچانک ؟ ‘‘
وہ چپ خاموش کھڑا رہا ۔ بڑے اصرار پر اس نے زبان کھولی :’’ بیگم صاحب ! میں کسی کے پیٹ پر لات نہیں مار سکتا ۔ آپ کا پرانا ملازم آگیا ہے ۔ وہ کہتا ہے مجھے ان ہی لوگوں میں رہ کر کام کرنے کی عادت ہے ۔ تیرا کیا ہے تو کہیں بھی جائے گا ، کھپ جائے گا ‘‘۔
پتہ چلا کہ صبح آتے ہی باورچی خانے میں چائے بناتے دیکھ کر اس سے گفتگو ہو گئی تھی کہ ’’ یار میں اناں کولوں رہنا ۔ میرا اور کسی نال گزارا نہیں ہونا ‘‘۔ وغیرہ وغیرہ۔
اب جب بڈھے کو سامنے بٹھا کر پورے گھر نے پریس کانفرنس کے انداز میں سوالوں کی بھر مار کی تو اس نے چند لفظوں میں جو بیان دیا ، وہ بڑا دل خراش تھا ۔ وہ چند الفاظ ہی اس کے اندر کے کرب کے ترجمان تھے۔
’’ یارا….میں وہاں پہنچا تو میرا گھر جل رہا تھا ‘‘۔ یہ کہتے وقت اس کی آنکھ نم نہ تھی بلکہ عجیب گرم گرم بھوبھل اڑتی تھی ۔
پھر سوالوںکی بھر مار ہوئی تو یہ پتا چلا کہ ریشماں اوربال بچوں کو لے کر اس کا چھوٹا بھائی علی مردان چند گھنٹے پہلے نکل گیا تھا ۔ پونچھ میں جلتے گھروں کے چراغاںکو خیر باد کہتا ہوا بڈھا سیدھا مظفر آباد گیا ۔ وہاں سے تحصیل باغ آیا ۔ قادر آباد کے نالے کے پار ڈھل قاضیاں میں اس نے علی مردان اور بال بچوں کو ٹھکانے پر بٹھایا ۔ ریشماں کو طلاق دے کر علی مردان سے اس کا نکاح پڑھوا دیا ۔ پہلی بیوی کی ایک بیٹی اور ریشماں کی دونوں بیٹیوں کوعلی مردان کی سپرداری میں دے دیا ۔ یہ کہہ کر وہ ہنسا ، ’’ہن میں ویلا ہو گیا ، فارغ ‘‘۔
اس وقت تو سننے والے اس کو خبطی ہی کہہ رہے تھے لیکن ہمارے بڑے خاموش رہے ۔ شاید وہ اس کے اندر صدف دل کی تہوں میں اس گوہر تابدار کو لودیتی ہوئی لپک کر دیکھ رہے تھے ، جو آگے چل کر اس کے اندر گوہر شب چراغ بن گیا ۔
’’اچھا تو اب سب کو چھوڑ چھاڑ کیوں آگئے ؟‘‘ سوال ہؤا۔
اور اس نے جواب دیا :’’ پیسہ کمانے ، بال بچوں کے لیے ‘‘۔
’’ ارے اب تو بیوی کو چھوڑ دیا ، اب ویلے ہو ‘‘۔
’’ تو …بال بچے تو میرے ہیں ۔ علی مردان ابھی بچہ ہے ، بیس بائیس سال کا ۔ اتنی ذمے داری کیسے اٹھائے گا ؟‘‘
چنانچہ وہ اس طرح اپنے کام پر کھڑا ہو گیا ہے جیسے کبھی گیا ہی نہ ہو ۔ پکاتے پکاتے رو آجاتی ہے تو باورچی خانے سے اس کے لپک لپک کر گانے گنگنانے کی آوازیں آنے لگتی ہیں ۔ وہ بہت ڈوب کر کوئی کشمیری نغمہ گانے لگتا ہے ۔ کچھ دن کی افسردگی اور کرب کے بعد اب اس کے اندر ایک تازہ ولولہ انگڑائی لے رہا ہے اور لگتا ہے خوشی اور مسرت کی ایک لہر اس کے وجود میں کرنٹ کی طرح دوڑ رہی ہے ۔ اور آج صبح صبح اس نے اپنی تنخواہ پکڑتے ہی ہمیشہ کی طرح اپنا مخصوص رقص ’’ ہٹ کے بدھو ، بچ کے بدھو ‘‘ کیا ہے ۔ اس رقص کی ادائیگی کرتے ہوئے وہ اس شخص سے کتنا مختلف نظر آتا ہے جس نے خود اپنا نام بڈھا تجویز کیا اور اسی نام سے پکارے جانے پر مصر ہؤا تھا۔
ہنستا ہنستا وہ اوپر چلا گیا ۔ آدھ گھنٹہ گزر گیا ہے اور وہ اب نہایا دھویا ، اجلے صاف کپڑے پہنچے ، اپنے کھوئے ہوئے پونچھ کی نشانی وہ سیاہ کمبل اس کے کندھے پر ہے ۔ دری میں لپٹے ہوئے بندق کے مختلف حصے رسی سے باندھ کر کندھے پر رکھے ہوئے کہتا ہے ،’’ یارا ۔ میں محاذ پر جا رہا ہوں‘‘۔
کتنے لوگ اس کی بات پر ہنس پڑے ہیں ۔’’ ارے کشمیری اور محاذ ِجنگ ! کشمیریوںکی بزدلی سے متعلق لطیفے چل پڑے ہیں …خصوصاً وہ لطیفہ …جموں و کشمیر کی اس پہلی یونٹ کی حفاظت کے لیے حفاظتی دستہ ساتھ کیا جائے ۔ سب ہی اس کی اس حماقت پر خیال آرائی کر رہے ہیں کہ یہ محاذ کا رخ کر کے ادھر اُدھر ٹہل کر واپس آجائے گا اور انگلی میں خون لگا کر شہیدوں میں نام لکھوائے گا ۔ ہمارے بہنوئی سید عبد اللہ ابن احمد اس کے برابر آکر کھڑے ہوئے ہیں۔
جی…جی، میں سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں اور اپنے کانوں سے سن رہی ہوں … اور ٹی وی سکرین پر خبر نامے کے بعد کشمیر فائل چل رہی ہے ۔
انبوہ کثیر ۔ ہجوم ، جنازے، تابوت، درماندہ بلکتی عورتیں ۔ انتہا سے زیادہ پُر عزم اور ڈٹے ہوئے نونو دس برس کے بچے ، اذیت دے کر مسخ کیے جسموں کی نمائش …اور سفید پرچم کے ایک بے قراربوڑھے کی شکل ۔ آزادی ، آزادی … کا خود کار انداز میں نکلتا ہؤا نعرہ۔
مجھے لگ رہا ہے کہ یہ وہی تو ہے ، عین وہی شریف ونجیب شکل کہ جس کے قریب کھڑے ہوئے ہمارے بہنوئی صاحب کہہ رہے ہیں ، ’’ یہ ان لوگوں پر الزام ہے ، بہتان ہے ۔ مجھ سے پوچھو ، ان کشمیریوں کے متعلق لگایا ہؤا ہر اندازہ اور مقولہ بالکل جھوٹ ، محض تعصب اور حقارت پر مبنی باتیں ہیں ۔ مجھ سے پوچھو تو میں احاطے کے کیمپ بن جانے کے بعد جس تجربے سے گزرا ہوں تو مجھے اندازہ یہ ہؤا کہ محنت کش ، یہ باذوق اور صاحب کمال اور ہنر ور لوگ انتہائی جی دار اور دلیر لوگ ہیں ۔ یہ اتنے با وفا اور ایک ضابطہ اخلاق کے پابند لوگ ہیں جو کسی کے دیے اور فرمائش کے بغیر فرائض کو خود قبول کرنے والے ہیں ۔ اس شخص نے خوف و ہراس کے اس ماحول میں کیمپ کی حفاظتی ڈیوٹی اپنی اصل ذمے داری یعنی صبح سے رات گئے تک چولہا جھونکنے کے علاوہ دی ہے او ہر ہر لمحہ میرے دوش بدوش رہا ہے ۔ برستی گولیوںاور بار بار پھٹنے والے بموں کے دھماکوں میں…میں اس کی جرأت اور وفا کو سلام کرتا ہوں ۔ یہی وہ واحد شخص ہے کہ جب وہ مجھے تھانے پر تشدد کرنے اور میری قیمت وصول کرنے لے گئے تو یہ میرے ساتھ ساتھ گیا تھا ‘‘۔
انہوں نے اسے گلے سے لگایا ، اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اورکہا ،’’ میں اس کو اور اس کے ساتھیوں کو سلام کرتا ہوں ‘‘۔ انہوں نے اس کو بڑے احترام سے رخصت کیا ۔
اور اب میں اس وقت اکیسویں صدی کے کنارے پر سکرین پر نظریں جمائے سوچ رہی ہوں ، کیا تھا وہ جو ہم پڑھاتے رہے تھے کہ نہ جنوں رہا نہ پری رہی …جنوں بھی وہی ہے اور پری بھی وہی۔
اور اس کے بعد سے اس کا یہی دستور بن گیا کہ وہ آتا اور جاتا ۔ ہر معرکے اور محاذ پر پہنچتا ۔ راجوری ، اوری ، پونچھ ۔ جب لوٹ کر آتا تو پھر اپنے کسی معرکے یا کارنامے کی بات کرتا نہ کسی محاذ کا کوئی قصہ سناتا ۔ بس ایک صبح صبح آکر گھر میںموجود ملازم سے کچھ دیر گفتگو کرتا ، ’’ یارا ، یہ تیرے بس کا کام نہیں ۔ ایناں نوں میں ای سنبھال سکناں۔ ہن تو چھٹی کر‘‘۔ اور وہ چھٹی کرلیتا۔
اس وقت جب اقوام متحدہ کی قرار داد کا وقت آگیا ، وہ ملول تھا کہ ہم خود ہی آپ اپنا فیصلہ کر سکتے تھے مگر یہ امریکہ ، اقوامِ متحدہ ( اس کے نزدیک امریکہ کا دوسرا نام تھا ) بیچ میںکود پڑا ۔ مگر وہ نا امید نہ تھا۔
اس کی آمد و رفت اور بغیر کسی نوٹس کے اٹھ کر چل دینے پر میں بڑی جزبز ہوتی کہ نئے ملازم کے ملنے تک اور بعد میں بھی میرے سر ڈھیروں کام آ پڑتا ، مگر میری اماں اس کی اس حرکت پر ہنس کر کہا کرتیں، ’’ارےبھئی، آزادی اور حریت کے پروانے ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ یہ اپنے وطن کی آزادی کا متوالا ہے ‘‘۔
’’مگر ہمیں تو اپ سیٹ کرتا رہتا ‘‘۔
’’ ارے بھئی، یہ اس کے جہاد میں ہمارا حصہ ہے جو وہ ہم سے ڈلواتا ہے زبردستی ۔ اچھا تو یہ دیکھو کہ کتنے باضابطہ انداز میں یہ اپنا فرض ادا کرتا ہے ۔ ہر محاذ پر جانے سے پہلے اپنے گھر والوں کو اتنا پیسہ دے جاتا ہے کہ وہ اس کی غیر حاضری محسوس نہ کریں ۔ اور ہاں دیکھو ، یہ بھی اس کا حسن انتظام ہی تو ہے کہ محاذ میں شرکت کا ارادہ کرتے ہی اس نے ریشماں کو طلاق دے کر اس کا نکاح بھائی سے کردیا کہ ان کی ذمے داری اب اس پر ہے ‘‘۔
تھیلمانے کئی بار تقاضا کیا تھا کہ مجھے ایک ملازم دلوا دو ۔ تھیلماآثارِ قدیمہ کی کھدائی کے سلسلے میں تحقیق کا کام کرنے آئی ہوئی تھیں ، بڑی گرہستن ٹائپ اور رکھ رکھائو والی ۔ ہمارے ساتھ ٹھہری ہوئی تھیں ۔ تاہم وہ ضروری خیال کرتی تھیں کہ ان کا کوئی ذاتی ملازم بھی ہو جو ان کے چھوٹے موٹے ذاتی کام انجام دے ، خصوصاً ان کا کمرا ٹھیک ٹھاک رکھا کرے۔ میں ہر باران کو تسلی دلادیا کرتی تھی ، ’’ اچھا کوئی بھروسے کا آدمی مل گیا تو دلوادوں گی ‘‘۔
بڈھا حسب معمول کئی ماہ سے غائب تھا ۔ ان دنوں میرے پاس کوئی ملازم نہ تھا ۔ مجھے ضرورت بھی نہ تھی ۔ اس لیے کہ بھائی تو 1966ء کے آخر میں کراچی جا چکے تھے ، اپنے بچوں کے ساتھ ۔ اور جھاڑو صفائی کرنے والی ہی کافی تھی ۔ آج بھی صبح صبح تھیلما نے بہت زور دار تقاضا کیا۔ میںنے کہا بھی کہ تھیلما ! ذاتی ملازم کی کیا ضرورت ہے ؟ تم زیادہ تر تو ڈِ گ( کھدائی) پر رہتی ہو۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ ان کو ذاتی ملازم کی سہولت کا بڑا شوق و اشتیاق تھا۔
ابھی میں برآمدے میںجا کرکھڑی ہوئی ہی تھی کہ کیا دیکھتی ہوں کندھے پر وہی کھڈی پر بنا ہؤا سیاہ کمبل، دوسرے شانے پر دری میں لپٹا ہؤا مختصر سا بستر ، چلے آرہے ہیں بڈھے صاحب۔اسی پرانی شان سے ہنستے ہوئے ، مگر اب عرصے سے اس کی ہنسی میں وہ بشاشت نہ ہوتی تھی ۔ حادثے اور پھر شملہ معاہدے نے اس کوبجھا کررکھ دیا تھا اور یہ تو 1977ء تھا اور اب تو رفتہ رفتہ کشمیر کے مسئلہ کے سلسلے میں ’’ مردہ گھوڑے ‘‘ جیسے جملے بھی سننے میں آنے لگتے تھے ۔ اور بات یہ ہے کہ کسی گھوڑے کے مردہ یا زندہ ہونے اور اس کی ترک تازی کا فیصلہ وہی کر سکتا ہے جو اس پر سوار ہونہ کہ اس بارے میں میز پر بیٹھ کر کاغذ پر چند لفظی گھوڑے دوڑانے والے ۔ گھوڑا اوراس گھوڑے پر سوار تو وہی تھا جس نے اپنی تمام کشتیاں جلانے کے بعد اس پر سواری کی تھی اور وہ اس کی پشت پر جم کر بیٹھا تھا ۔
’’ ارے زندہ باد…یارا بڈھے ، تم بالکل بر وقت پہنچے ہو ‘‘۔ میں نے حسب عادت اس کا استقبال کیا۔
’’ اچھا تو کوئی نوکر نہیںہے ؟‘‘ اس کی باچھیںکھل گئیں۔
’’ ارے بات تو سن ۔ میں نے تیرے لیے وڈی چنگی نوکری لبھی اے‘‘۔
’’ کیہڑی نوکری ؟ اچھا تو ، تو مینوں نہیں رکھنا ‘‘۔
’’ رکھنا کیوں نہیں ؟ تجھے نہیں رکھوں گی تو اور کسے رکھوں گی ۔ یہ تو میں تیرے فائدے کے لیے دو تین مہینے کے لیے کام دلوا رہی ہوں۔ مجھ سے زیادہ تنخواہ ملے گی ۔ یہ ایک میم صاحب ہے ، ابھی نیچے آئے گی تو تجھ سے ملوا دوں گی‘‘۔
اس کو میم کی کیا پروا تھی ، انگریز سے اسے یہ شکایت تھی ، ’’سارے فیصلے کر دیے اور کشمیر میں لکڑ ڈال گیا … کیا لگتا تھا جو ساڈا بھی صاف ستھرا فیصلہ کر دیتا ‘‘۔
’’ ارے صاف ستھرا فیصلہ کیا ہی کب …؟ میں تو یہ کہہ رہی ہوں کہ دو تین مہینے کا کام کر لو ۔ گھر پیسے بھیج دینا… بچے کی کتابیں ہی آجائیں گی ‘‘۔
’’ ٹھیک ہے ‘‘۔ وہ واقعی پیسے سے تنگ تھا ۔ اتنے دن کہاں رہا… کمزوراور ویران ویران سا نظر آتا تھا ۔ اب تواس کی داڑھی میں ایک بھی کالا بال باقی نہ رہا تھا ۔ بالکل چٹی بگی ہو رہی تھی ۔ میں نے اسے یقین دلایا ، یہ انگریز نہیں ۔
دو ہفتے گزرے تھے کہ تھیلما نے اس میں کیڑے ڈالنے شروع کردیے ۔ سر کش ہے ، عاجزی نہیں ہے ، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے ۔ اس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکلتی ہیں ۔ نماز کا وقت آجائے تو کام پورا کیے بغیر چھوڑ کر کھڑا ہوجاتا ہے ۔ کہتا ہے ، میں تیرے لیے نماز تو قضا نہیں کر سکتا ۔ذرا بھی دب کر بات نہیں کرتا۔
’’ دب کے بات تو وہ کر نہیں سکتا ‘‘۔ میںنے سمجھایا۔
’’ کیوں ؟ کس لیے ؟‘‘
’’ اس لیے کہ وہ مغل ہے ، بالکل خالص اور کھرا‘‘۔
’’ مغل ؟ تمہارا مطلب ہے شاہی خاندان سے ہے مغل اعظم ؟‘‘
’’ اب یہ تو مجھے نہیں معلوم کہ شاہی خاندان ہے یا نہیں مگر نسلاً مغل ہے ۔ میرے بھائی نے اس کو قراقلی ٹوپی پہنا کر اس کی بے شمار تصویریں کھینچی ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ، دیکھو کوئی فرق ہے ظہیر الدین بابر کی اور اس کی شکل میں ؟‘‘
’’ ہاں واقعی‘‘۔ وہ غور سے اسے دیکھتی ہوئی بولی ، ’’ ہاں وہی اکہرا ، ستا ہؤا جسم ، وہی ناک ، ویسی آنکھیں ، ویسا ہی چہرہ مگر خیر پھر بھی He should behave‘‘۔
’’ٹھیک ہے ، میں سمجھا دوں گی ‘‘۔
میں خاک سمجھاتی ، وہ تو الٹا ہر وقت مجھے الاہنے دیتا تھا ۔ ’’ یارا مجھے کیا خبر تھی ، یہ بڈھی امریکن ہے ۔ مجھے مالوم ہو جاتا تو میں کدی اس کے کام پر نہ کھڑا ہوتا … اناں امریکناں نے تو پھڈا ڈال کر ساڈا بیڑا غرق کیتا۔ یارا میں پھنس گیا ‘‘۔اس کا کہنا تھا کہ اس میم کے پیسے لینے کو اس کی روح نہیں کرتی۔’’ تو نے میرے نال دھوکا کیتا ‘‘۔
وہ مہینہ پورا کر لیا تو اس کی وحشت اور بڑھ گئی ۔ میں نے اسے کتنا سمجھایا تھا کہ بس دو مہینے اور صبر کر لو ۔ میں اس کو زبان دے چکی ہوں ۔ اب میں اس کا کام چھڑا کر کیسے تمہیں رکھ لوں !وہ چپ ہو گیا ۔ اوپر چڑھ گیا ۔ پھر وہی پرانا مقام تھا ، پھر وہی وہ تھا کہ اس طرح ٹکٹکی لگائے کھڑا کھورتا تھا ۔ اب اس کی آنکھوں میں امید نہ تھی ۔ کوئی دیپ ، کوئی چراغ نہ جلتا تھا ۔ اب اس میں اتھاہ دکھ تھا، شکایت تھی اور رنج تھا۔
اگلی صبح پتہ چلا بڈھا اپنا کمبل اوربستر اٹھا کر چپکے سے نکل گیا ۔اس مہینے جتنے دن کام کیا ، وہ پیسے بھی چھوڑ گیا ۔ کیوں ؟ کس واسطے ؟ اب تواس کی تھیلما سے کوئی دھر پٹخ بھی نہ ہوئی تھی ۔جب اسے پتا چلا تھا کہ وہ مغل ہے ، وہ اس سے لحاظ سے بات کرتی تھی ۔ اسے اس کی پاکیزگی ، صفائی اور باضابطہ زندگی پسند تھی ۔
اب میں کیا بتاتی کہ اس کے برتن دھونے سے اسے کراہت آتی تھی ۔’’ یارا یہ ضرور خنزیر کھاتی ہوگی‘‘ ۔ وہ چلا گیا تو مجھے بڑا قلق ہؤا ۔ میںنے یقیناً اسے مایوس کیا تھا ۔ کاش! میںاس کو یہ تھوڑا سا فائدہ دلوانے کی کوشش نہ کرتی اور اس کو پیسے کی پروا ہی کب تھی ۔ اس نے کسی سے بجز اپنے معاوضے کے کبھی کوئی امداد طلب نہ کی تھی ۔ عید ،بقر عید جب اماں اس کے کپڑے سلوا تیں تو وہ کتنا کچا ہوتا ، خفا ہونے لگتا ۔’’ میں محتاج نہیں ۔ میں تو محنت کر سکتا ہوں ‘‘۔
پھر اماں اسے سمجھاتیں ، ’’ دیکھ میں اپنے بچوں کے کپڑے بنواتی ہوں کہ نہیں ۔ قدیر تو مجھ سے نہیں لڑتا کہ میرے کپڑے کیوں بنائے ۔ پھر تو کیوں ناراض ہوتا ہے ؟‘‘ وہ ہنسنے لگتا ۔ پھر جب نہا دھو کر تیار ہو کراترتا تو ہنستا ہؤا ، ’’ بچ کے بدھو ، ہٹ کے بدھو … کرتا ۔ بڑا معصوم تھا ۔ کئی لوگوں نے کہا کہ غریب مہاجر وظیفے لگوا رہے ہیں تو وہ بگڑ گیا ، ’’ ہم نے پاکستان کو کیا دے دیا جو وظیفے لیتے پھریں ۔ پاکستان نے ہم بے وطنوں کو پناہ دی یہ کم ہے ‘‘۔
ایک مرتبہ وہ آیا تو اس کا ایک ہاتھ ٹوٹا ہؤا تھا اور غلط طور پر جوڑے جانے کے باعث کہنی کے پاس سے ٹیڑھا ہو گیا تھا ۔ اماںنے کہا ، ’’ اب کیسے کام کرو گے ؟ ایسا کرو ، کوئی چھوٹا موٹا کھوکھا کر لو ۔ ہم پیسے دیتے ہیں ، بعد میں ادا کر دینا ‘‘۔
وہ خفا ہوگیا ۔ ’’ کھوکھا لے کر بیٹھا تو محاذ پر کیسے جائوں گا ‘‘۔
’’ اچھا پھر ایسا کرتے ہیں ، تمہاری مدد کے لیے کوئی لڑکا رکھ لیتے ہیں ‘‘۔
’’ لو اور ہوئی یا تو تم پر جرمانہ ڈالوں یا تم میرے پیسے کم کر کے منڈارکھو ۔ بیگم جی … میں اپنا کام آپ کر لوں گا ۔ تم کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ‘‘۔
شروع شروع میںاماں مجھ سے کہتیں ، جائو اس کی مدد کر دو ۔ مگر وہ مجھے باورچی خانے سے نکال دیتا۔’’ جاتو اپنا پڑھ جا کر ۔ میں جانا میرا کم (کام)جانے ‘‘۔ لو بھئی وہ تو مسالا پیسنا ، برتن دھونا ، آٹا گوندھنا ، سب ایک سیدھے ہاتھ سے فٹا فٹ کرتا اور حدیہ ہے کہ چپاتی ڈال لیتا ۔ چپاتی زیادہ گول نہ ہوتی توپہلے ہی بڑے رعب سے کہہ دیتا ،’’ کیا پیٹ میں پوری گول روٹی رکھنا ہے ۔ جیسی بنتی ہے ، ویسی چپ چاپ کھائے جائو‘‘۔
یہ قلق میرے ساتھ تا حیات رہے گا کہ میں نے اس کو انڈر ایسٹیمیٹ کر کے اس کے فائدے کا خیال کر کے اس کا دل توڑ دیا ؎
توڑا جو تو نے آئینہ تمثال دار تھا
اپنے احساس جرم کو کم کرنے کی خاطر میں اسے گاہ گاہ اس کے ایک عزیز کےہاتھ کوئی خط اور کچھ رقم بھجوا دیا کرتی ۔ اس کا عزیز لاہور میں کہیں ڈرائیور تھا ۔ ایک بار جب میں پیسے لے کر اس کے پاس گئی تو وہ کہنے لگا ، ’’ بی بی ! اب اس کی ضرورت نہیں رہی ۔ میں سوچتا ہی رہا کہ آپ کو بتائوںکہ وہ کچھ ہی دن بعد چلا گیا تھا اور پھر واپس نہ آیا ‘‘۔
’’ کب سے لاپتہ ہے ؟‘‘
’’ لاپتہ کیا ہونا تھا جی ۔ جو اس کے ساتھ گئے تھے ،وہ بہت دنوں بعد واپس آئے توانہوں نے بتایا کہ وہ شہید ہو گیا‘‘۔
1987ء کی وہ شام بڑی اداس ہو گئی تھی۔
’’ شہید ہو گیا ۔ اچھا ! شہید ہو گیا ‘‘۔ میرے منہ سے دھیرے دھیرے نکلتا رہا ۔
تو پھر … پھر وہ بالائی منزل کی چھت پر کھڑا ٹکٹکی باندھے… بالکل اسی جگہ اور اسی سمت کو تکتا نظر آتا… اور اب اس وقت جب کشمیر فائل کے منظر سکرین پر آہستہ آہستہ معدوم ہو رہے ہیں … تو اس وقت یہاں میں ہی اس بات کی گواہی دے سکوں گی کہ یہ تصویریں ، یہ نظارے اور یہ بیانات ، فرضی اور من گھڑت تو نہیں ۔ ارے یہ تو وہی شاخ نہال غم ہے جو ہری رہی ؎
ویران ہے میکدہ ، خم و ساغر اداس ہیں
مسجدشہداء کے پاس کھڑی میں ایک ذرا اُس طرف کو نظر اٹھائوں تو سینٹ انتھونی کی پہلو میں کھڑا وہ سارا میکدہ وہ 12 نمبر ویران نظر آئے گا ۔ اسی خوف سے مسجد شہدا کے پاس راستہ کاٹ کر نکلتی ہوں ۔ ایک بساطِ روز و شب تھی کہ اس پر سیاہ و سفید مہرے ایک خانے سے دوسرے میں سرکتے تھے کہ بساط ہی لپیٹی گئی … نہ وہ جنوں رہا نہ وہ پری … کچھ بھی تو نہ تھا ۔ محض ایک سیمیا کے بنتے بگڑتے ہیولے اور نقش ابھرتے ہیں اور معدوم ہوتے ہیں ۔ ہاں مگر اک نقش کہ جس کو ہے ثبات و دوام …
اور اب تو وہ چھتنار املی کا پیڑ بھی کٹ چکا ہے جس کے تلے ، شملے میں احاطہ مولوی صاحب اور پرم روز کاٹیج اور سنجولی اور مشوبرہ اور کلو میں کام کرنے والوں کے غول کے ساتھ وہ آکر بیٹھا ۔ رفتہ رفتہ ہر شے اوجھل ہوئی ۔ منظر سے غائب ہوئی … مگر وہ اک شاخِ نہال غم …
اب میرے اندر کوئی سوال کرتا ہے کہ یہ جو بی بی سی ، سی این این ، پینٹا گون اور زی ٹی وی کے شعبہ خبر سے بار بار اصطلاحیں سننے میں آتی ہیں ۔ مسلم ملی ٹینٹ،Islamic Militant،اگر وادی … ٹیررسٹ اور فناٹک (Fanatic)… کیا ان میں سے ایک لفظ بھی اس پر صادق آتا ہے ؟
اس نے جو اپنی ہری بھری وادی اور بھرے پرے گھر سے نکلا اور رزق کی تلاش میںمنزلیں طے کرتا شملے پہنچا اور پرم روز کے اس بڑے نیم تاریک اور نم باورچی خانے میں چولہوں کے آگے صبح سے رات گئے کام کرتے برسوں بتا دیے تھے ، جسے کسی کے مذہب سے سرو کار تھا نہ رنگ و نسل سے … اور اس کا حشر یہ ہو&ٔا کہ ؎
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
کن کن کٹھنائیوں سے وہ لاہور پہنچا ۔ اور پھر کتنے مہینے بڑے صبر سے کام کر کے جب اپنے گھر پہنچا تو جس گھر پر بجلی گری ، وہ اس کا ہی آشیاں تو تھا ۔ اپنے اور اپنے جیسے بہت سوں کے گھر جلیں گے ، ان کی مائوں ، بہنوںاور بیٹیوں کو بے آبرو کرو گے تو وہ ملی ٹینٹ اور اگر وادی نہیں تو اور کیا بنیں گے ؎
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
یہ لکھتے ہوئے میں اس لیے حق بجانب ہوں کہ اس نے میری ماں کے بعد ماں ہی کی طرح میرا خیال رکھا ۔ کہا کرتا تھا ، ’’ یارا یہ یتیم بچی ہے ‘‘۔
٭٭٭

 

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x