ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

قسط11 – اک ستارہ تھی میں – اسما اشرف منہاس

ایک جملہ ہے جس نے پون کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔وہ اسے کسی خزانے کی چابی سمجھ رہی ہے مگر اس کی سہیلی خدیجہ بتاتی ہے کہ یہ کلمہ شہادت ہے۔خدیجہ سے مل کر ماضی کی یادوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ایک خواب اسے اکثر بے چین رکھتا ہے۔وہ ہر طرف آگ لگی دیکھتی ہے۔اس کی زندگی عجیب کش مکش کا شکار ہے۔وہ آگ سے شدید خوف زدہ بھی ہے مگر اس سے بچنے کے لیے جو اسے کرنا چاہیے وہ سب کرنے کی ہمت نہیں ہے اس میں۔اور پھر ایک دن وہ فیصلہ کر لیتی ہے۔اسلام قبول کرنے کا فیصلہ۔

عائشہ کو اس کی حالت پر تشویش ہو رہی تھی ۔
’’ خوش ہوں ….اب تو بہت خوش ہوں ‘‘ وہ بڑے یقین کے ساتھ بولی تھی ’’ آج تو میرا ذہن بہت سکون میں ہے ، ورنہ آج سے پہلے تک سوتے میں وہ سب کچھ پریشان کرتا تھا جو لا شعور میں تھا اور جاگتے میں وہ جوشعور میں تھا ۔ ایک وقت پر تو مجھے لگتا تھا کہ مجھے پاگل ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔ میری بھوک باقاعدہ طور پر مر گئی تھی ۔مگر آج تو میرا دل بہت مطمئن ہے ۔ اس سے بھی لگتا ہے کہ میں نے درست فیصلہ کیا ہے‘‘وہ ہلکا سا مسکرائی تھی ۔
’’ بس ایک ہی بات بہت اُداس کر رہی ہے کہ میرے اس قدم سے میرے گھر والوں کو بہت تکلیف پہنچے گی ۔ شاید عنقریب میں انہیں کھودوں ۔ اگر ایسا ہؤا تو اس سے بڑھ کر تکلیف دہ چیز کوئی نہیں ہو گی میرے لیے …. اور مجھے اپنے پاپا کی سب سے زیادہ فکر ہے‘‘۔
اسے یاد تھا اس کا سکینڈ ائیر کا رزلٹ دیکھ کر وہ بہت افسردہ ہوئے تھے یہاں تک کہ انہوں نے اس سے پوچھ لیا تھا ۔
’’ بیٹا کیا بات ہے ؟ تم بیمار ہو ؟‘‘
وہ اس کے چہرے کو غور سے دیکھ رہے تھے اس کی رنگت پیلی تھی اور آنکھوں کے نیچے حلقے تھے ۔
’’ نہیں تو ‘‘ اس نے زبردستی مسکرانے کی کوشش کی تھی ۔
’’ پھر تمہارا رزلٹ اتنا اچھا کیوںنہیں آیا ؟‘‘
’’ امتحان کے دوران میری طبیعت خراب تھی ‘‘ وہ غلط نہیں کہہ رہی تھی اتنا تو وہ دیکھ سکتے تھے کہ وہ بہت کمزور ہو چکی تھی ۔
’’ پاپا یہ سورگ کیا ہوتی ہے یعنی کہ ہماری جنت ‘‘ نجانے کہاں سے اچانک اس کے ذہن میں سوال آیا تھا اور اس نے پوچھ بھی لیا ۔
’’ تو کیا تم یہ سب سوچتی رہتی ہو ؟ انہیں جیسے اصل مسئلہ سمجھ آگیا تھا،بیٹا یہ سب کچھ نہیں ہے بس لوگوں کی گھڑی ہوئی کہانیاں ہیں ان میں وقت ضائع نہ کرو انسان کے لیے بس یہی دنیا ہے اس میں وہ جتنی کوشش کرے گا اپنے حصے کی جنت پا لے گا ‘‘۔
وہ اُسے اپنا فلسفہ سمجھا رہے تھے ۔ وہ خود بھی ان باتوں پر کم ہی یقین رکھتے تھے اوراپنے بچوں سے بھی یہی توقع رکھتے تھے ۔ اُن کی زندگی کا بس ایک ہی مقصد تھا کہ اُن کے بچے پڑھ لکھ کر قابل انسان بنیں اور اس کے لیے وہ انہیں ہر سہولت مہیا کرنے کو تیار تھے ۔
’’ لیکن پاپا ہمارے اچھے بُرے عمل کا حساب پھر کیسے ہوگا ؟‘‘ وہ مطمئن نہیں تھی ان کے جواب سے ۔
’’ بیٹا آگ میں جلنے کے بعد سورگ یا نرگ کے لیے بچے گا کیا ! ہم جب کسی کی چتا کو آگ لگا دیتے ہیں یا دفنا دیتے ہیں تو ہمیں اچھی طرح پتہ ہوتا ہے کہ یہ خاک ہو گیا ۔ پھر دوسری زندگی اوردوسری دنیا کی باتیںبالکل بے تکی ہیں ہمیں جنت جہنم یا گناہ ثواب کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے ۔ یہ نہ ہو کہ اس چکر میں پڑ کر ہم اپنی دنیا دائو پر لگا دیں اور آگے جا کر پتہ چلے کہ سب لوگوں کی بنا ئی ہوئی کہانیاں تھیں ۔ اسی لیے میں تم سے یہی کہوں گا کہ اپنے آج پر دھیان دو اپنی دنیا بنائو اور اپنی مرضی کی زندگی جی لو ‘‘۔
وہ اپنی بات ختم کر کے اُس کے پاس سے اٹھ گئے تھے مگر اس کی سوچوں کا سلسلہ اسی طرح جاری و ساری تھا ۔ وہ اس معاملے کو محض اندازوں پر نہیں چھوڑ سکتی تھی ۔ اُسے اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکالنا تھا ۔ مگر یہاں جہاں اس کے گھر کا ماحول بڑی حد تک سیکولر تھا ، کسی مسئلے کا حل ملتا نظر نہیں آ رہا تھا ۔ بچپن میں وہ دو تین دفعہ ماما کے ساتھ مندر گئی تھی ۔ اُسے یاد تھا سارے دیوی دیوتا جن کے سامنے لوگ لیٹے ہوئے تھے کسی نہ کسی انسان کے ہاتھ کے بنے ہوئےتھے ، اس کے اپنے ذہن اور فن کی پیداوار…. بالکل ایسے ہی جیسے باقی تصویر یں اور بت دوسرے فنکار بناتے ہیں ۔ پھر عجائب گھروں میں پڑی مورتیوں ، گیلریوں میں لگی تصویروں میں اور مندروں میں پڑی انہی چیزوں میں کیا فرق تھا ؟ اگر وہ محض فن پارے تھے تو پھر یہ خدا کیسے ہوگئے تھے ؟
اُسے ابھی اس سوال کا جواب ڈھونڈنا تھا ۔ اُسے اپنا آج اور کل ہر حال میں محفوظ بنایا تھا ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس دنیا میں بھی اور دوسری دنیا میں بھی اس کا انجام آگ ہو۔وہ آگ جس کی ہولناکی سے وہ اچھی طرح سے واقف ہو چکی تھی ۔
اور آج مہینوں بعد وہ آخر کار ایک فیصلے پر پہنچ چکی تھی ۔ اُسے معلوم نہیں تھا کہ دوسری دنیا میں اس کا کیا انجام ہو گا لیکن اس نے اس دنیا میں اپنے آپ کو آگ سے بچا لیا تھا ۔ اب وہ اچھی طرح سے جانتی تھی کہ وہ جلائی نہیں جائے گی دفنائی جائے گی ۔
’’ پون !‘‘ عائشہ کی آواز اُسے اپنے خیالوں سے واپس لے آئی تھی ۔
’’ آنے والے دنوں میں ہو سکتا ہے تم بالکل تنہا ہو جائو لیکن تم فکر مت کرنا میں ہر حال میں تمہارا ساتھ دوں گی ‘‘ وہ اس کا ہاتھ پکڑے بہت محبت سے کہہ رہی تھی ۔
’’ ہاں مجھے معلوم ہے ایسا ہی ہو گا ‘‘ وہ اس کی طرف دیکھ کر بڑی اپنائیت سے مسکرائی تھی ۔
’’ بد قسمتی سے ہمارے ہاں ایسا کوئی ادارہ نہیں جو نو مسلموں کو خوش آمدید کہے ، انہیں پناہ دے ، ان کی دینی تربیت کا انتظام کرے ، ان کے لیے لڑے، ان کے مستقبل کا سوچے ‘‘عائشہ بڑے افسوس سے کہہ رہی تھی ’’اور ہمارا میڈیا …. یہ تو نو مسلموں کو خاص طور پر لڑکیوں کو تو سینگوں پر اٹھا لیتا ہے ۔ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کو دوبارہ اندھیروں میں دھکیل دے۔ اس لیے جب تک تمہارا کوئی مناسب بندو بست نہیں ہو جاتا اس بات کو راز میں رکھنا ضروری ہے ‘‘۔
عائشہ نے کہتے کہتے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا تھا ۔ جہاں ہلکا سا کھٹکا ہؤا تھا ۔ ’’ لگتا ہے یہاں کوئی تھا ‘‘ وہ تیزی سے کلاس روم کے دروازے کی طرف گئی تھی مگر وہاں کوئی نہیں تھا ۔
ادھر پون کی رنگت خوف سے زرد ہوچکی تھی اگر وہاں واقعی کوئی تھا پھر تو سمجھو خیریت نہیں ۔وہ سخت خوفزدہ تھی معلوم نہیں کون تھا جس نے ان کی ساری باتیں سن لی تھیں ۔ وہ گھر آکر بھی اسی بات پر پریشان رہی تھی ۔
اور پھر کچھ دن بعد یہ معمہ حل ہی ہو گیا ۔ وہ لائبریری میں بیٹھی نوٹس بنا رہی تھی جب ا ظفر اس کے پاس آ بیٹھا تھا ۔ ایک ہی گروپ میں ہونے کے باوجود دونوں میں کبھی کبھار کی ہی سلام دعا تھی۔
’’ پون مجھے تم سے کچھ کہنا تھا ‘‘ وہ کہتے ہوئے بہت جھجک رہا تھا ۔
’’ ہاں کہو کیا بات ہے ‘‘ اس نے لکھتے لکھتے سر اٹھایا تھا ۔
’’ وہ اس دن میں نے تمہاری اور عائشہ کی باتیں سن لی تھیں ‘‘۔
’’ کیا ؟ تو وہ تم تھے؟‘‘ پون کا دل جیسے اچھل کر حلق میں آگیا تھا ۔ اب نجانے یہ اس بات کو چھپاتا ہے یا اچھالتا ہے وہ نہیں جانتی تھی ۔
’’ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ …. کہ میں بھی تمہارے ساتھ ہوں …. میرا مطلب ہے ….‘‘ وہ رک گیا تھا ۔ شاید جو کہنا چاہ رہا تھا کہہ نہیں پا رہا تھا۔
’’ میرا مطلب ہے تمہیں کسی کی مدد چاہیے ہو تو مجھے بتا سکتی ہو ‘‘۔
اورپون نے اس سارے عرصے میں پہلی بار کھل کر سانس لیا تھا ۔ وہ اکیلی نہیں تھی ، وہ اکیلی نہیں ہو گی اسے یقین ہوچلا تھا ۔
عائشہ اُس کو نماز میںپڑھی جانے والی سورتیں سکھا رہی تھی تاکہ وہ کم از کم نماز تو شروع کر سکے ۔ وہ قرآن بھی پڑھنا چاہتی تھی مگر کالج میں اتنا وقت نہیں ہوتا تھا ۔ پھر دیکھے جانے کا بھی خطرہ تھا اور عائشہ کے گھر وہ بار بار جانہیں سکتی تھی حالانکہ اسے قرآن سیکھنے کا بہت شوق تھا ، وہ اسے ایسے پڑھنا چاہتی تھی جیسے دوسری کوئی بھی کتاب پڑھتی تھی۔ جب بھی کسی مسئلے کا حل ڈھو نڈناہو …. جب بھی درست راستے کا انتخاب کرنا ہو …. جب بھی کسی مشکل سے نکلنا ہو …. وہ قرآن کھولے اور اپنی ساری مشکلیں آسان کر لے !
مگر ابھی اسے مناسب وقت کا انتظار کرنا تھا۔
٭
کالج کا فائنل امتحان اُس نے امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا تھا وہ پھر سے پہلے جیسی قابل اور ذہین پون بن چکی تھی ۔مستقبل کے اندیشے بے شمار تھے مگر ہر وقت کی بے چینی اور بے سکونی سے نجات مل چکی تھی اس کے دل و دماغ نے وہ پالیا تھا جس کی تلاش میں وہ برسوں سے سرگرداں تھی۔ اُسے یونیورسٹی میں داخلہ مل چکا تھا اور یہاں کی زندگی کالج کی زندگی سے بہت مختلف تھی زیادہ مصروف زیادہ آزاد زیادہ خود مختار…. وہ یہاں آکر خوش تھی بس ایک ہی کمی تھی عائشہ اُس کے ساتھ نہیں تھی اُس کے والد کے انتقال کے بعد سے اس کی امی کی طبیعت مستقل خراب تھی انہیں تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا تھا سو عائشہ نے پرائیویٹ ہی آگے پڑھنے کا ارادہ کیا تھا ۔
اپنے ڈیپارٹمنٹ میں سے صرف وہ اور اظفر ہی پہنچ پائے تھے۔ باقی کسی کا میرٹ نہیں بنا تھا تو کوئی کسی اور جگہ چلا گیا تھا ۔ اظفر بھی صرف اسی کی وجہ سے اس یونیورسٹی میں آیا تھا ورنہ اُسے کہیں اور جانا تھا اور پون کو یہ جان کربہت خوشی ہوئی تھی کہ وہ اس کی نظر میں اتنی اہم تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس نے اسے یقین دلایا تھا کہ پون جب فیصلہ کرے وہ اس سے شادی کرنے کے لیے بھی تیار ہے ۔ پون کے لیے یہ بہت مشکل فیصلہ تھا پر اس کی زندگی کا بہت بڑا قدم تھا جو شاید اُسے اکیلے ہی اٹھانا تھا ۔اُسے اندازہ تھا آنے والے دنوں میں جب حالات اس کے مخالف ہو ںگے وہ بالکل تنہا ہو جائے گی تب یہی ایک رشتہ اُسے تحفظ فراہم کر سکے گا ۔ اُسے کہیں نہ کہیں شادی کرنا ہی تھی تو پھر اظفر کیوں نہیں !
وہ اُسے برسوں سے جانتی تھی ۔ وہ ایک غریب گھرانے کا محنتی لڑکا تھا جس کی زندگی کا مقصد کچھ بن کر دکھانا تھا ۔ وہ اُس پر اعتبار کر سکتی تھی پھر اُسے یہ بھی معلوم تھا کہ یونیورسٹی ختم ہوتے ہی اُس کے ماں باپ اس کی شادی کا سوچیں گے اور انیل اُس کا چچا زاد بہت مضبوط امید وار تھا ۔ ایسے حالات میں ضروری تھا کہ اُس نے پہلے سے کوئی جائے پناہ ڈھونڈ رکھی ہو اور یہ جائے پناہ اُسے اظفر ہی فراہم کر سکتا تھا جو شروع سے اُس کے تمام حالات سے واقف تھا ۔ اُس کی شادی کی پیش کش نے اُس کی ڈھارس بندھا دی تھی ۔ اُس کے اندیشے کم ہو گئے تھے ۔ اب وہ یونیورسٹی کے دو سال سکون سے گزار سکتی تھی۔
’’ چلو بھئی آج کہیں باہر چلتے ہیں ‘‘ اُس دن وہ کلاس ختم ہوتے ہی اُس کے پاس آگیا تھا۔
’’ لیکن اظفر مجھے تو بہت ساری پڑھائی کرنی ہے …. آج تو بہت مصروف ہوں میں ‘‘۔
اصل میں وہ اُس کے ساتھ باہر جانے سے بچنا چاہ رہی تھی ۔ اُسے اپنی حدود کا مکمل احساس تھا ۔
’’ بھئی ہم تھوڑی دیر کے لیے باہر جائیں گے تم سے کچھ باتیں کرنا ہیں تمہیں اغوا نہیں کر رہا ‘‘ وہ جھنجھلا گیا تھا ’’ اُس سے بہتر تو ہم کالج میں تھے …. روزانہ کم از کم سلام دعا تو ہو جاتی تھی …. یہاں تو تم سے ایک بات کرنے کے لیے بھی باقاعدہ گھات لگا کر تمہارے انتظار میں بیٹھنا پڑتا ہے ۔ آخر تم کیوںاتنا کتراتی ہو …. باہر جانا تو دُور کی بات تم تو یونیورسٹی کے اندر بھی میرے ساتھ دو منٹ بات کرنے کو تیار نہیں ‘‘۔
’’اظفر ہم نہیں مل سکتے ‘‘وہ بہت سنجیدگی سے کہہ رہی تھی ’’تم دیکھتے نہیں جو لڑکیاں ادھر اُدھر لڑکوں کے ساتھ بیٹھی ہوتی ہیں اُن کے بارے میں لوگوں کی کتنی بُر ی رائے ہے ۔ کوئی انہیں اچھی نظر سے نہیں دیکھتا ۔ اور میں اُن لڑکیوں میں سے ایک نہیں بننا چاہتی ۔ تمہارے ساتھ جتنا بھی تعلق ہے وہ میری مجبوری ہے ۔اگر میرے حالات مختلف ہوتے تو تم سے اتنا بھی تعلق نہ ہوتا‘‘۔
وہ اُسے ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اُسے حقیقت بتانا بھی ضروری تھا ۔
’’ فکر نہ کرو ہم کہیں دُور جا کر ملیں گے ہمیں کوئی نہیں دیکھے گا ‘‘۔
’’ بے شک کوئی نہ دیکھے مگر اللہ تو دیکھ رہا ہے ناں !‘‘اُس نے تو بات ہی ختم کردی تھی ۔ اظفر کے لیے مزید کچھ کہنے کو بچا ہی نہیں تھا ۔
’’ اس کو دیکھو‘‘وہ لا جواب ہو کر ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا جب اُس کی نظر پارکنگ لاٹ کی طرف جاتے زرک پر پڑی تھی ۔
’’ ایک دوٹیچرز نے اس کی تعریف کیا کردی موصوف اب کسی کو خاطر میں ہی نہیں لاتے ۔ اتنا خود پسند اورمغرو ر انسان میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ‘‘ وہ سخت ناراض لگ رہاتھا اُس سے اور پون جانتی تھی وہ کہیں کا غصہ کہیں اتار رہا تھا ۔ مگر یہ بات بھی حقیقت تھی کہ کالج میں پہلی پوزیشن ہمیشہ اظفر کی رہی تھی جبکہ یہاں یونیورسٹی میں اس پر زرک کا قبضہ تھا ۔ وہ کوشش کے باوجود اُس سے یہ جگہ چھین نہیں پا رہا تھا اور یہی چیز اُسے غصہ دلاتی تھی۔
’’ناک دیکھی ہے اس کی ‘‘ وہ گاڑی میں بیٹھ کر اُسے سٹارٹ کر چکا تھا اور اب بس جانے ہی والا تھا مگر اظفر کا دھیان ابھی تک اُسی میں تھا ’’غرور کر کر کے اتنی لمبی ہو گئی ہے ‘‘۔
’’کیا ہو گیا ہے تمہیں ‘‘ پون کو ہنسی آگئی ’’ غرور کرنے سے بھلاکسی کی ناک کیسے لمبی ہو سکتی ہے ‘‘۔
’’ارے تم نہیں جانتیں کیا چیز ہے‘‘۔
’’ مجھے جاننے کی ضرورت بھی نہیں اور مجھے یقین نہیں آ رہا ہم اتنی دیر سے ایک غیر متعلق شخص کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں ‘‘ وہ بیزار ہو گئی تھی۔
کچھ دنوں کے بعد وہ پھر ایک نئی پیش کش کے ساتھ موجود تھا ۔
’’ اس دفعہ جب تم گھر جائو تو میں بھی تمہارے ساتھ چلو ں گا ۔ سفر کے دوران کسی کو کیا پتہ چلے گا ہم کون ہیں ‘‘۔
پھر وہی بات بھئی اللہ تو جانتا ہے ناں کہ ہم کون ہیں ‘‘ اُس نے پھر وہی جواب دیا تھا جووہ پہلے دے چکی تھی ۔
’’لگتا ہے تم مجھ پراعتبار نہیں کرتیں‘‘ وہ بجھے ہوئے لہجے میں بولا تھا ۔
’’اگر تم سمجھتے ہو کہ اعتبار کا یہ ثبوت ہے کہ میں جگہ جگہ تمہارے ساتھ دیکھی جائوں تو مجھے افسوس ہے کہ میںیہ ثبوت تمہیںفراہم نہیں کر سکتی‘‘اُس نے بات ختم کردی تھی ۔
پھر کچھ دنوں کے بعد اُس نے اظفر کو ایک لڑکی کے ساتھ بار باردیکھا۔ شاید وہ اُس سے بدلہ لینے کے لیے ایسا کر رہا تھا ۔ وہ سخت بدگمان تھی ۔ بعد میں اس نے خود ہی بتا دیا تھا کہ وہ ان کے ٹیچر سر سلیم کی بیٹی تھی جوکسی اور یونیورسٹی سے مائیگریٹ ہو کر یہاں آئی تھی اور وہ سر کے کہنے پر اس کی تھوڑی بہت مدد کر رہا تھا کیونکہ وہ سی ایس ایس کے لیے اس کی مدد اور رہنمائی کر رہے تھے ۔ بقول اظفر کے اُن کے اوپر تک تعلقات تھے ، امتحان میں کامیابی کے بعد وہ اوپر جانے کے لیے انہیں سیڑھی کے طور پر استعمال کر سکتا تھا ۔ نجانے کیوں مگر پون کو پہلی بار اس کی باتوں سے خود غرضی کی بو آئی تھی۔
’’دیکھنا میں امتحان میں ضرور کامیاب ہوں گا ‘‘ وہ اسے یقین دلا رہا تھا ۔
’’ ہاں کیوںنہیں ہر چیز کو سمجھ کر یاد کرنے کی بجائے فوٹو کاپی جو کر لیتے ہو ‘‘ پون نے دل ہی دل میں سوچا تھا ۔ مگر اس کی چھٹی حس کہہ رہی تھی وہ بدل رہا ہے ۔ اس کے کپڑے جوتے دن بدن مہنگے اور قیمتی ہوتے جا رہے تھے ، معلوم نہیں وہ اتنے پیسے کہاں سے لیتا تھا شاید گھر والوں سے جھوٹ بول بول کر حالانکہ وہ تو اس کی فیس بھی بڑی مشکل سے دے رہے تھے ۔
یونیورسٹی کے دو سال ختم ہونے ہی والے تھے اور اظفر نے دوبارہ شادی والی بات کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا ۔ یونیورسٹی کے آخری سال میں اُس نے سی ایس ایس کا امتحان بھی دے دیا تھا مگر اس کے مطابق اسے ابھی بہت آگے جانا تھا ، اپنا کیرئیر بنانا تھا اورپون اس کے راستے کی رکاوٹ نہیں بننا چاہتی تھی ۔ اگرچہ وہ پریشان تھی ، جانتی تھی یونیورسٹی سے فارغ ہوتے ہی اس کے گھر والے اس کی شادی کرنے کی کوشش کریں گے مگر اظفر کواپنے منہ سے یہ بات نہیں کہہ سکتی تھی۔ وہ انتظار کر رہی تھی کہ وہ کب خود سے شادی کی بات آگے چلائے۔
مگر اُس کا انتظار انتظار ہی رہا اُس کو گھر آئے بھی ایک سال ہونے کو آیا تھا وہ گھر والوں کو ٹال ٹال کر تھک گئی تھی ۔ ان کی باتوں سے بچنے کے لیے اور خود کو مصروف رکھنے کے لیے اس نے ایک مقامی سکول میں نوکری بھی کرلی تھی مگر اظفر کی طرف سے اسے کوئی مثبت اشارہ نہیں ملا تھا ۔ اب تووہ اُس کو فون بھی نہیں کرتا تھا ، ہمیشہ وہی کرتی اور وہ اپنی مصروفیت کے قصے سناتا ۔ وہ سی ایس ایس میں کامیابی کے بعد بڑی اچھی جگہ پرنوکری کر رہا تھا مگر شادی کا ذکر اُس نے اب بھی نہیں کیا تھا ۔ ادھر گھر والوں کا دبائوبڑھتا جا رہا تھا ۔ اُسے اظفر سے خود جا کر بات کرنا ہو گی، اُس نے فیصلہ کیا تھا اور پھر جب اُس کے بھائی کو لاہور کسی کام سے آنا پڑا تھا وہ بھی اُس کے ساتھ ہی آگئی تھی وہ اس کے کسی دوست کے گھر رکے تھے ۔
پون اگلے ہی دن اُس کے دفتر چلی گئی تھی ۔ وہ ایک قریبی ضلع کا اسسٹنٹ کمشنر تھا ۔
ضلع کچہری کی بڑی سی عمارت میں اس کا پر تعیش دفتر تھا ۔ جب وہ صدر دروازے سے اندر داخل ہو رہی تھی تو اس نے دیکھا عمارت کے ہر طرف ریڑھیوں کا ایک ہجوم تھا جن پر پھل اور سبزیاں ، پکوڑے ، سموسے فروخت ہو رہے تھے ۔اورانہی ریڑھیوں کے نیچے بڑی بڑی غلیظ نالیاں تھیں جہاں علاقے بھر سے آنے والی غلاظت جمع ہو رہی تھی ۔ ہر طرف گندگی کے ڈھیر لگے تھے اور اس غلاظت اور گندگی کے بیچوں بیچ اے سی صاحب تشریف فرما تھے اور غالباً چین کی بانسری بجا رہے تھے ۔ عمارت کے اندر بھی کم و بیش یہی صورتحال تھی لگتا تھا یہاں برسوں سے صفائی نہیں ہوئی تھی کچہری نہیں تھی مچھلی منڈی لگ رہی تھی ۔بھانت بھانت کی بولیاں اونچی آواز میں بے ترتیبی، بد نظمی ، بد تمیزی ہر طرف یہی منظر تھا لگتا ہی نہیں تھا کہ اس جگہ کا علاقے کے انتظام و انصرام یا انصاف سے کوئی تعلق ہے ۔ وہ جن امیدوں کو لے کر یہاں تک پہنچی تھی ، وہ کچھ مرجھا سی گئی تھیں ۔ جو شہر تو دور کی بات اپنا دفتر نہیں سنبھال سکتا وہ اس کی بھنور میں پھنسی کشتی کیا پار لگائے گا ۔ ہو سکتا ہے اُس کی کچھ سرکاری مجبوریاں ہوں۔ میں اُس کے بارے میںبرا کیوں سوچ رہی ہوں اُس نے سر جھٹکا ، ضرور ان سب چیزوں کا کوئی نہ کوئی جواز ہو گا اس کے پاس۔
پون کی آمد اس کے لیے غیر متوقع تھی۔ اظفر کے چہرے پر عجیب سے تاثرات تھے ۔ وہ صرف سنجیدہ تھا یا نا خوش وہ سمجھ نہیں پائی تھی ۔ وہ بار بارگھڑی دیکھ رہا تھا جیسے بہت جلدی میں ہو،اسے کہیںجانا ہو ، حالانکہ چھٹی میں تو کافی وقت تھا ۔
’’ کہو کیسے آنا ہؤا کوئی خاص کام تھامجھ سے ؟ اُس کے پہلے ہی سوال نے اس کی ہمت توڑ دی تھی۔
’’ نہیں کام تو کوئی نہیں تھا ۔ بس ایسے ہی اس طرف سے گزر رہی تھی سوچا تم سے بھی ملتی چلو ں‘‘ اس نے اپنا بھرم رکھنے کی کوشش کی تھی ۔
’’ سوری میں نے بھی بہت دنوں سے فون نہیں کیا سخت مصروف تھا ‘‘۔
’’ کیا کام کر رہے ہو تم آج کل ؟ ‘‘اس نے برسبیل تذکرہ پوچھاتھا۔
’’ ہر وہ کام جو میرا بینک بیلنس بڑھائے‘‘ وہ مزے سے بولا تھا ’’تم تو جانتی ہو میں نے بہت غربت دیکھی ہے ۔ اب میں اتنی ہی امارت دیکھناچاہتا ہوں ‘‘۔
’’ اپنی تنخواہ میں تو تم امارت دیکھنے سے رہے ‘‘ پون نے یاد دلایا ۔
’’ تنخواہ ؟‘‘
اس پر جیسے ہنسی کا دورہ پڑ گیا ’’ تمہارا خیال ہے لوگ جواس عہدے پر پہنچنے کے لیے جان مارتے ہیں چند ہزار روپے کی تنخواہ کی خاطر ؟ کتنی بے وقوف ہو تم …اُ س نے میز پر رکھی فائلوں کی طرف اشارہ کیا ’’ یہ در اصل کروڑوں روپے ہیں جو دوسرے حاصل کرتے ہیں ۔ مگر ساری محنت ہماری ہوتی ہے ۔ ہمیں اس محنت کی تنخواہ ملتی ہے … تنخواہ ! ہاں اچھا لطیفہ ہے یہ بھی ‘‘ وہ اُس کی بات سن کر بولا تھا ۔’’ ہمارے ایک دستخط سے لوگوں کی تقدیر بدل جاتی ہے ۔ اُس تقدیر میں سے اگر چند لاکھ یا ایک آدھ کروڑ ہم لے لیں تو کیا فرق پڑتا ہے یہ تو ہمارا حق ہے ‘‘۔
پون حیرت سے اُس کی شکل دیکھ رہی تھی پر وہ اظفر تو نہیں تھا جسے وہ جانتی تھی ، کہیں وہ مذاق تو نہیں کر رہا ؟
لیکن نہیں وہ تو پوری طرح سنجیدہ وہ سارے کاروبار جو وہ اے سی کی کرسی پر بیٹھ کر کر رہا تھا بڑے فخر سے وہ ان کی تفصیل بتا رہا تھا ۔
’’ یہاں وسیع و عریض زرعی زمینیں ہیںمقامی با اثر لوگوں کے ساتھ مل کر ہم وہ زمینیں انتہائی کم قیمت پر خرید رہے ہیں پھر ان کی پلاٹنگ کر کے یہاں سو سائٹیاںبنائیں گے اُس میں بڑا منافع ہے … اربوں کا منافع ‘‘۔
’’ تمہیں لگتا ہے تم زرعی زمینوں کی پلاٹنگ کر کے منافع کما رہے ہو ؟‘‘
’’ ہاں اس میں کیا شک ہے ‘‘ پون کے سوال پر اُس نے حیرت سے جواب دیا ۔’’ کمزور لوگوں کی زمین پر اُن کے بد معاش رشتہ دار قبضہ کر لیتے ہیں ،ہم اُن سے وہ زمین خرید لیتے ہیں، اُن کی بھی جان چھوٹ جاتی ہے اور ہمارا بھی فائدہ ہے کیونکہ وہ خود تو قبضہ چھڑا نہیں سکتے یوں انہیں کچھ پیسے مل جاتے ہیں ‘‘ وہ اپنی کار کردگی پر ہر لحاظ سے مطمئن تھا۔
’’ لیکن تمہارے ہوتے کوئی کسی کمزور کی زمین پر قبضہ کیوں کرے؟ کیا تم کو اس ریاست نے شاندار مراعات اور سہولیات دے کر اس کرسی پر اس لیے نہیں بٹھایا کہ تم ظلم اور زیادتی کو روکو ؟ تم اپنا اختیار کیوں استعمال نہیں کرتے ؟‘‘ پون کواس کی ہر بات پر اعتراض تھا ۔
’’ ارے یہ قبضہ چھڑانا اتنا آسان بھی نہیں اور ویسے بھی ہم تو کچھ عرصے کے لیے یہاں آئے ہیں ، جب ہم جائیں گے دوبارہ یہی کچھ ہو گا۔ پھر کیا ضرورت ہے اتنی مشقت کی اور مقامی لوگوں کے ساتھ تعلقات بگاڑنے کی !‘‘
پون نے دیکھا وہ اے سی کی کرسی پر بیٹھ کر چپڑاسی جیسی باتیں کر رہا تھا ۔وہ سوچ رہی تھی مقابلے کے امتحان کی کتابیں انہیں اے سی ڈی سی تو بنا دیتی ہیں مگر انہیں انسان بنانے سے قاصر ہیں ۔ یہ عہدے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو ذمہ دار اور محب وطن بنانے کی بجائے لالچی بے حس اور خود غرض بنا دیتے ہیں ۔
’’ یہ ریاست تم پر لاکھوں روپے خرچ کر رہی ہے مگر تم یہاں آکر ریاست اور عوام کی خدمت کرنے کی بجائے پراپرٹی ڈیلر بن گئے ہو ‘‘۔
پون جانتی تھی ان سب باتوں کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا مگر وہ اُسے آئینہ دکھانے پر مجبور تھی۔
’’سونا اُگلتی زرعی زمینوں پر سوسائٹیاں بنا کر تم اور تمہارے جیسے لوگ اپنی آنے والی نسلوں کے خلاف Plotting( سازش) کر رہے ہو ۔ یہ زمینیں اللہ نے فصلیں اور اناج اُگانے کے لیے بنائی تھیں تاکہ اللہ کی مخلوق کے پیٹ بھر سکیں ، مگر تم یہاں کنکریٹ کا جنگل اُگا کر آنے والی نسلوں کو بھوکا مارنے کا بندو بست کر رہے ہو ‘‘۔
وہ اس کا احتساب کرنے نہیں آئی تھی مگر وہ خود ہی اس کا موقع فراہم کر رہا تھا تو وہ خاموش نہیں رہ سکتی تھی۔ اس وقت خاموشی سے بڑا جرم کوئی نہ ہوتا ۔
’’ اور یہ جو تم جائز کاموں کی قیمت وصول کر رہے ہو … کروڑوں کی رشوت اس ڈھٹائی اور بے خوفی سے وصول کر رہے ہو تو پھر تو تمہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ پیغمبرؐ نے فرمایا رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں ‘‘۔
’’ ہاں مگر …‘‘
’’کیا مگر …پون نے اُس کی بات کاٹ دی تھی ،کیا تمہیں معلوم نہیں پیغمبر ؐ کی بات کے سامنے اگر مگر لیکن ویکن سب کی سب گستاخیاں ہیں تم شوق سے حرام کھائو مگر پیغمبرؐ کی بات کے سامنے اپنی بات رکھنے کا تمہیں کوئی حق نہیں ‘‘اُس کی اگر مگر پر پون کا سارا دُکھ اور افسوس شدید غصے میںبدل گیا تھا ۔
’’ اچھا ٹھیک ہے میں کچھ نہیں کہوں گا ‘‘ اُس نے ہاتھ کھڑے کیے ’’ تم آرام سے بیٹھو مجھے تم سے کچھ اور بات بھی کرنا تھی اچھا ہؤا تم خود ہی ادھر آگئیں ‘‘۔
وہ اُس کے اصرار پر دوبارہ بیٹھ چکی تھی اگرچہ اب کہنے سننے کو کچھ بھی نہیں رہ گیا تھا پھر بھی کوئی بات وہ کل پر نہیں چھوڑنا چاہتی تھی ۔
’’ پون مجھے اچھی طرح سے یاد ہے میں نے تم سے شادی کا وعدہ کیا تھا تم میرا انتظار بھی کر رہی ہو یہ بھی معلوم ہے مجھے لیکن ایسا لگتا ہے …‘‘ وہ کہتے کہتے رک گیا جیسے جو کہنا چاہ رہا ہو کہہ نہ پا رہاہو ’’ مجھے ایسالگتا ہے میں اپنا وعدہ نبھا نہیں سکوں گا مجھے معاف کر دو ‘‘ وہ دم بخود اس کی باتیں سن رہی تھی جیسے خواب کی حالت میں ہو ۔
’’ تمہارے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے میرے دل میں تمہاری بہت قدر تھی اور ہے بھی مگر اب میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تمہارا طرز زندگی مجھ سے بہت مختلف ہے ‘‘ اُس نے خاص طور پر اس کی بڑی چادر کی طرف دیکھا تھا ’’ اور میں اتنا اچھا مسلمان نہیں ہوں جتنا اچھا مسلمان تمہیں شوہرکے روپ میں چاہیےبجائے اس کے کہ ہم بعد میںایک دوسرے کے لیے مسئلہ بنیں ہمیں ابھی سے الگ ہو جانا چاہیے ۔ ویسے بھی میری منزل ابھی بہت دور ہے میں اتنا کچھ بنانا اور کمانا چاہتا ہوںکہ میری آنے والی نسلوں میں سے کوئی اُس بھوک اور غربت کی شکل تک نہ دیکھے جو میں نے برسوں برداشت کی ہے ۔تم سوچ بھی نہیں سکتیں کہ یہ بھوک اور محرومی کتنی بری چیز ہے لہٰذا ابھی میں کسی ذمہ داری کا طوق اپنے گلے میں نہیں ڈالنا چاہتا‘‘۔
تو اب وہ اس کے لیے کچھ نہیں تھی سوائے ایک طوق کے جو اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھا !
’’ اور اگر میں تم سے شادی کر بھی لیتا ہوں ‘‘ وہ کہہ رہا تھا ’’توتمہارے مخصوص حالات کی وجہ سے ہمارا اچھا خاصا سکینڈل بن جائے گا تب میں تمہاری حفاظت تو کیا کروں گا میرا اپنا کیرئیر خطرے میں پڑ جائے گا اور یہ تو تم بھی جانتی ہو میں نے یہاں تک پہنچنے کے لیے کتنی محنت کی ہے اب میں اسے اتنی سی بات کے لیے دائو پر نہیں لگا سکتا ‘‘۔
وہ اظفر کے دفتر سے کس طرح اُٹھی تھی اُس نے آنسوئوں کو بہنے اور قدموں کو ڈگمگانے سے کس طرح روکا تھا اُسے یاد نہیں تھا ۔ اظفر نے اس کے ساتھ جو کچھ کیا تھا اُس پر اُسے ساری عمر رونا تھا اور یہ کام وہ بہت تسلی سے کرنا چاہتی تھی اُسے کوئی جلدی نہیں تھی ۔ وہ آہستہ قدموں سے چلتی دفتر سے باہر آگئی تھی اُس نے ڈھلتے سورج کو بڑی حسرت سے دیکھا تھا جو اس کے مستقبل کی ساری اُمنگیں اور امیدیں ساتھ لے کر ڈوب رہا تھا۔
٭
’’پاپامیں نے اسلام قبول کرلیا ہے ‘‘۔
اُس کی بات نے ایک لمحے کے لیے تو اُن کی سانس ہی روک دی تھی ۔ مما بھی اسے یوںدیکھ رہی تھیں جیسے جو سنا ہو اس پر یقین نہ ہو ۔ وہ تو اسے انیل سے شادی کے حوالے سے قائل کرنے آئے تھے اور آج وہ طے کر کے آئے تھے کہ اُسے راضی کر کے ہی اٹھیں گے ۔ وہ یقیناً مذاق کر رہی تھی۔
’’نہیں پاپامیں مذاق نہیں کر رہی ‘‘ اُس نے اُن کی آنکھیں جیسے پڑھ لی تھیں ’’ برسوں پہلے میںنے خوب سوچ سمجھ کر دل کی پوری رضامندی کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا ‘‘۔
’’ کس کے لیے ؟ کیا کسی لڑکے کےلیے ؟‘‘ اُن کے لہجے میںگہرا طنز تھا ۔
’’ ہرگز نہیں ، میں نے صرف اللہ کے لیے اور اس کے بعد اپنے لیے یہ دین قبول کیا ۔ میں آپ کو یہ بات شاید ابھی نہ بتاتی کیوں کہ مجھے معلوم ہے میری یہ بات سخت تکلیف دے گی آپ کو مگر آپ انیل سے شادی کے حوالے سے مجھ پر دبائو ڈال رہے تھے تو مجھے مجبوراً بتانا پڑا ، کیونکہ میرے اور انیل کے بیچ کوئی رشتہ نہیں بن سکتا ، وہ مشرک ہے اور میں مسلمان …مشرک اور مسلمان کے بیچ شادی واقع ہی نہیں ہوتی اور میں کوئی ایسا رشتہ نہیں بنانا چاہتی جو اللہ کی نظر میں جائز نہ ہو اور جس کے نتیجے میں میری ساری زندگی خود اپنے آپ پر تھوکتے گزر جائے …‘‘
لیکن اسلام قبول کر لینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں آپ کو چھوڑ دوں گی یا آپ سے الگ ہو جائوں گی جبکہ مجھے جو اعتماد اور تحفظ یہاں حاصل ہے …‘‘
چٹاخ … ایک زور دار تھپڑ سے اس کی بات ادھوری رہ گئی تھی ۔ چہرے کے ساتھ ساتھ اس کا دماغ بھی گھوم گیا ۔ منہ سے بہتا ہؤا خون اس کی گردن اور پھر وہاں سے گریبان میں جذب ہو نے لگا ۔
(جاری ہے )
٭٭٭
اس کی حالت دیکھ کر مما کی چیخ نکل گئی تھی جس کے نتیجے میں اس کے بہن بھائی بھی دوڑتے آئے تھے۔
’’ کیا میں تمہارا باپ نہیں تھا ؟کیا میں نے تم سے پیار نہیں کیا ؟ کیا میں نے تمہیں کھانے کو روٹی نہیں دی ؟‘‘وہ اس کے سر پر کھڑے شدید غصے میں چیختے جا رہے تھے ،’’ کیا میں نے تمہیں پہننے کو نہیں دیا؟ کیا میں نے تمہیں سہولتیں اور آسائشیں دینے کے لیے دن رات گدھوں کی طرح کام نہیں کیا ؟پھر تم نے میری پیٹھ میں غداری کا چھرا کیوں گھونپا ؟ پھر تم نےمجھے رسوا کیوں کیا؟‘‘
ایک اور تھپڑ اُس کے چہرے پر لگا تھا اور اس بار اس کا سر دیوار سے ٹکرایا تھا ۔
’’ تم اپنے آپ پر تھوکنا نہیں چاہتیں لیکن اپنے ماں باپ پر بہن بھائی پر اور خاندان پر تھوکتے تمہیں کوئی شرم نہیں آئی ، اس گھر میں برسوں رہنے کھانے اور پلنے کے بعد اچانک تمہیں پتہ چلا کہ تمہارے باپ دادا کا مذہب غلط ہے اور دوسروں کا صحیح لہٰذا تم نے کھایا پیا حرام کرنے میں ذرا دیر نہیں لگائی ۔ ہماری محبت ہماری عزت ہماری قربانیاں کوئی چیز تمہیں اس غداری سے روک نہیں پائی‘‘۔
وہ بولے جا رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے جیسے شعلے نکل رہے تھے چہرہ سرخ لال ہو رہا تھا۔ اُن کا بس نہیں چل رہا تھا اس کا گلا دبا دیں اسے ان سے ایسے شدید رد عمل کی توقع نہیں تھی ۔
’’پاپا میں تو پہلے ہی کہتا تھا اس ملک میں نہ ہماری عزت محفوظ ہے نہ مذہب ہمیں یہاں سے چلے جانا چاہیے۔ آپ نے ایک نہیں مانی اور اب وہی ہؤ ا جس کا ڈر تھا اس کے بہت محبت کرنے والے بھائی نے بھی جلتی پر تیل ڈالا وہ شدید غصے میں مٹھیاں بھینچ رہا تھا ۔
سب کو اصل معاملے کی خبر ہو چکی تھی کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی ۔ اس دوران اس نے جب بھی بولنے یا وضاحت دینے کی کوشش کی تھی ایک زور دار تھپڑ نے اس کا منہ بند کر دیا تھا ۔
’’اگر میں نے دوبارہ یہ بکواس تمہارے منہ سے سنی جو تھوڑی دیر پہلے تم نے کی ہے تو یاد رکھو میں تمہیں گھر کے صحن میں زندہ دفن کر دوں گا‘‘پاپا ایک انگلی تنبیہی انداز میں اس کے سامنے لہراتے ہوئے کہہ رہے تھے اور اسے یقین نہیں آ رہا تھایہ وہی پاپا ہیں جو اس پر جان چھڑکتے تھے ۔
’’اور کان کھول کر سن لو کل تمہاری شادی ہو رہی ہے انیل کے ساتھ اب میں تمہیں ایک لمحے کی چھوٹ نہیں دوں گا ‘‘ وہ اس پر قہر آلود نظر ڈال کر باہر چلے گئے تھے۔
’’ اور اگر پاپا محبت کے ہاتھوں کسی لمحے کمزور پڑ گئے‘‘ اُن کے جانے کے بعد اُس کا بھائی بول رہا تھا’’ تو میں

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x