ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

کرم اور تقدیر – شہلا خضر

سورج اپنی بانہیں سمیٹنے کو پر تول رہا تھا تمام دن اپنی کرنیں زمین کے باسیوں پر نچھاور کرتے کرتے وہ نڈھال ہو چکا تھا ۔ تھکے ماندے قدموں سے افق کے اس پار کہیں چین کی نیند سونے جارہا تھا۔زرد ، نارنجی ، گلابی نرم نرم روشنی نے آسمان کو رنگین چادر اوڑھا دی تھی۔مارچ کے اوائل کی خنک ہواؤں کی ہلکی سرسراہٹ چاروں جانب محسوس کی جا سکتی تھی۔
’’امجد اینڈ سن ‘‘بناسپتی گھی فیکٹری کے عقبی میدان میں آج میلے کا سا سماں تھا۔بھانت بھانت کی وضع قطع کےسینکڑوں مزدور جمع تھے ۔
جان توڑ مشقت کے پورے ایک ماہ بعد معاوضہ لینے سب جفا کش لمبی قطاروں میں کھڑے تھے۔اس روز ان گنت مسائل کا وزن ہلکا ہو جانے کی مبہم سی امید جاگ جاتی ہے ۔سب بے شمار تفکرات دل و دماغ میں سموئے ہم’’بدرالدین کیشئر‘‘ کی آمد کے منتظر تھےکچھ ہی دیر میں وہ آتا دکھائی دیا ۔
چیک لینے کا سلسلہ شروع ہؤا ‘تو صدمے کا ایک زبردست جھٹکا لگا\سیٹھ امجد کے حکم پر سب کی تنخواہ سے سیلابی بارشوں کے دوران غیر حاضری پر پورے چار دن کی اجرت کاٹ دی گئی تھی حالانکہ شہر کی تمام سڑکیں پانی میں ڈوب جانے سے شہر کئی روز بند پڑا رہا تھا ۔یہ بہت بڑی ناانصافی تھی پر اعتراض کر کے اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا نہیں چاہتے تھے ۔ سیٹھ امجد حد درجہ لالچی اور خودغرض تھا ۔ مال و دولت جمع کرنے کی حرص و ہوس نے اسے پرلے درجے کا کنجوس اور بد لحاظ بنا دیا تھا ۔ہر ماہ ہم غریبوں کی تنخواہ کسی نہ کسی بہانے سے کاٹ ہی لیتا ۔
’’اقبال بھائی سیٹھ امجد تو ارب پتی ہے پھر بھی اس کی نظر ہمارے چند ٹکوں پر کیوں لگی رہتی ہے ‘‘۔میں نے شکستہ لہجے میں اپنے سپر وائزر اقبال صاحب سے شکوہ کیا۔
’’میرے بھائی میں کیا کہوں ‘میں تو بس دعا ہی کر سکتا ہوں کہ اللہ ان کا دل نرم کر دے ‘‘۔انہوں نے افسردہ لہجے میں جواب دیا۔
بوجھل دل کے ساتھ اپنی کٹوتی شدہ تنخواہ لے کر ہم سب اپنے گھروں کی طرف لوٹ گئےجہاں تمناؤں کے ننھے دیپ جلائے کچھ نگاہیں ہماری راہ تک رہی تھیں ۔
کچھ دیر پہلے جس موسم کی خوبصورتی دل کو بھا رہی تھی وہ اب نظروں سے دھندلا گیا تھا اور آسمان کا زردنارنجی ‘ گلابی رنگ دل کی بے کلی کو دور کرنے میں ناکافی ثابت ہو رہا تھا ۔
٭ ٭ ٭
میں نے شہر کی مضافاتی بستی کرشنا کوارٹرز میں ہوش سنبھالا، اباکا پیشہ مزدوری تھاان کے انتقال کے بعد ان کا پیشہ اور ایک چھوٹاسا کوارٹروراثت میں ملا۔شادی ہوئی تو مسائل نے پیچھا نہ چھوڑا ‘بد قسمتی سے بڑی بیٹی کو پولیو لاحق ہؤا اور وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئی علاج کےلیے رقم نہ ہونے کی وجہ سے عمر بھر کےلیے یہ معذوری اس کا مقدر بنی ۔
اس کے بعد دوبیٹے اور ایک بیٹی اللہ نے دی جو بر وقت حفاظتی ٹیکے لگوانے کی وجہ سے اس موذی مرض سے محفوظ رہے ۔ جان توڑ مزدوری کے باوجود سب کا پیٹ بھرنا نہایت دشوار ہوتا جا رہا تھا ۔اسی دوران ایک فیکٹری میں نوکری کے لیےمزدوروں کی بھرتی کا پتہ چلا ۔ اللہ نے ہماری دعائیں سن لیں مجھے ملازمت مل گئی تنخواہ بہت زیادہ تو نہ تھی پر اب ہم فاقوں سے بچ گئےتھے ۔
میری بیوی زرینہ ایک سلیقہ شعار اور نیک عورت تھی کم آمدنی کے باوجود اس نے گھر گرہستی توکل اورقناعت سے چلائی۔بڑے ہوئے تو دونوں بیٹے بھی کام سیکھ کر موبائل مارکیٹ میں دیہاڑی پر کام کر نے لگے اس طرح ہاتھ کچھ کھلا ہو گیا۔
تنخواہ لے کر گھر پہنچا تو زرینہ بہت خوش نظر آرہی تھی ۔میں نے اس کا سبب پوچھا تو گویا ہوئی ۔
’’رشتہ کروانے والی بوُا آئی تھیں اور انہوں نے خوشخبری سنائی ہے کہ ہماری نازو کے لیےفریدہ بھابھی نےاپنے بیٹے رفیق کا رشتہ مانگا ہے ‘‘۔
رفیق کو میں اچھی طرح جانتا تھا ‘وہ ایک نیک اور ہنر مند لڑکا تھا ۔ فرنیچر کے کارخانے میں نوکری کرتا تھا ۔میرے لیےبھی یہ بہت بڑی خوشخبری تھی ۔ پولیو کا شکار میری بچی اب پورے پچیس سال کی ہونے والی تھی لاکھ کوشش کے باوجود اس سے شادی کےلیے اب تک ایک بھی خاندان راضی نہ ہؤا تھااور رفیق سے اچھا رشتہ نازو کےلیے ملنا ناممکن تھا۔
’’شکر ہے میرےرب کااس کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں‘‘۔
پردے کی اوٹ سے جھانکتی نازو شرما گئی ۔اللہ نے اسے بہت پیاری صورت سے نوازا تھا مگر پولیو کے مرض نے چاند پر داغ لگا دیا تھا ۔ وہ اپنی ماں کی طرح بےحد صابر تھی کبھی اپنے اس نقص پر گلہ شکوہ نہ کرتی ۔ اللہ نے اسے قرآن کی بہترین قرآت کی صلاحیت سے نوازا تھا ۔گلی کے سب بچے نازو سے قرآن شریف پڑھنے آتے تھے ۔محلے دار نازو کی بہت عزت کرتے اور اس کی قسمت اچھی ہونے کی دعائیں کرتے ۔
٭ ٭ ٭
شہر کے پوش علاقے کے سبزہ و گل سے سجے دوہزار گز کے عالیشان بنگلوں کی رو میں موجود’’امجد پیلس‘‘ روشنیوں سے جگمگا رہا تھا ۔ گیراج سے لے کر داخلی درروازے تک نصف درجن سے زاید جدید ماڈل کی لینڈ کروزرز ‘مرسیڈ یز اور لیموزین اور دیگر گاڑیاں قطار میں کھڑی تھیں ۔سیٹھ امجد من موجی آدمی تھے اپنے مرضی کے مطابق جس گاڑی پر بھی جانے کا دل چاہتا ‘شوفر کو اسے نکالنے کا حکم دے دیتے ۔
وسیع و عریض لان میں دنیا بھر کے بہترین پھول پودے لگائے گئے تھے۔دائیں طرف کی دیوار کے ساتھ حسین فواروں سے سجی راکری کے بیچ بنے تالاب میں رنگ برنگی مچھلیاں تیرتی دکھائی دیتی تھیں ۔بنگلے کو سیٹھ امجد شاہ کے جمالیاتی ذوق کے عین مطابق گولڈن اور لال رنگ کے بیش قیمت دیدہ زیب اٹالین فرنیچر سے سجایا گیا تھا۔
خلاف معمول آج بنگلے میں ایک سوگوار سی خاموشی چھائی تھی ۔
سیٹھ امجد شاہ اس محل نما بنگلے میں اپنی بیگم خالدہ اور بائیس سالہ اکلوتے بیٹے زوہیب شاہ کے ساتھ رہائش پذیر تھے ۔انہوں نے زوہیب کو شہر کے سب سے بڑے اسکول اور کالج سے تعلیم حاصل کروائی تھی اور اب اسے اعلٰی تعلیم کےلیے امریکہ کی یونیورسٹی بھجوانے والے تھے۔
سیٹھ امجد نے تمام عمر رشوت اور بے ایمانی کے سہارے دولت کے انبار لگالیےاپنے بیٹے کے لیےدنیا کی ہر آسائش خرید لی پر وہ یہ بھول گیا کہ جن غریبوں کی حق تلفی کر کے وہ یہ مال جمع کر رہا ہے ان کی آہیں اسے کنگال کر دیں گی۔
زوہیب کی طبیعت اکثر خراب رہنے لگی ‘ ڈاکٹروں نے تفصیلی ٹیسٹ کرائے تو پتہ چلا کہ دونوں گردے انفیکشن کی وجہ سے ناکارہ ہونے کے قریب ہیں ۔زوہیب کی جان کو شدید خطرہ تھا ۔فوری طور پر گردے کا ٹرانسپلانٹ کرواناناگزیر تھا ۔سیٹھ امجد اوراس کی بیوی کے ہوش اڑ گئے۔رعونت سے اکڑی گردنیں رب کے آگے جھک گئیں ،غرور اور تکبر کا پیکر عاجزی اور انکساری کی مجسم تصویر بن گئے۔ صدقہ وخیرات کے لیے اپنے برسوں سے جمع شدہ خزانے کے منہ کھول دیے ،مساجد میں دعائیں کروائی گئیں ۔ہر ہسپتال میں ڈونر کو منہ مانگی رقم دینے کے اعلانات کروائے گئے۔الغرض زمین آسمان ایک کر دیا گیا پر زوہیب کومیچنگ گردہ دینے والا نہ ملا ۔
٭٭٭
شادی کی حسب حیثیت معمولی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں ۔
نکاح سے کچھ روز پہلے رفیق کی ماں فریدہ ملنے آئی ہم نے خوب آؤ بھگت کی وہ کہنے لگی :
’’بھائی غفور کچھ ہی دنوں میں شادی کے بعد خیر سے نازو اپنے گھر والی ہو جائے گی۔دیکھو بھائی برا نہیں ماننا ہم نے اپنے جوان اور بر سر روزگار بیٹے کے لیے نقص زدہ لڑکی کا رشتہ مانگا تو خاندان بھر میں سب نے بہت باتیں بنائیں ۔ہم نے تو اتنی بڑی نیکی کر لی پر اب ہمیں برادری والوں کا منہ بھی تو بند کرنا ہے ۔تو ہم نے تمہاری عزت بنانے کے لیے انہیں بتا دیا کہ تم اپنے ہونے والے داماد کو دکان خرید کر دو گے تاکہ وہ اپنا کاروبار کرے۔آخر داماد اپنا کام کرے گا توتمہاری بیٹی ہی سکھی رہے گی‘‘۔
فریدہ بھابھی بولتی جارہی تھیں ۔ میرے دل و دماغ پر بجلیاں گر چکی تھیں ۔میرے کان سن ہوچکے تھے۔
میری بیوی نے کہا ۔
’’فریدہ بھابھی ہم غریب لوگ اتنی بڑی رقم کا بندوبست کیسے کریں گے ‘‘۔
فریدہ بھابھی رکھائی سے بولیں ۔
’’لوگ تو اپنی اولاد کی خوشیوں کےلیے اپنا آپ بھی بیچ دیتے ہیں۔تم لوگ معذور بچی کا گھر مفت میں بسانا چاہتے ہو کیا ۔جب بندوبست ہو جائے تو بتا دینا ہم بارات لے کر آجائیں گے‘‘ ۔
مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں انہیں کیا جواب دوں ۔اپنی بچی کی زندگی آبادکرنے کے لیے لاکھوں روپے کا بندو بست کہاں سے کروں ۔
برابر والے کمرے میں بچوں کو قرآن پاک پڑھاتی نازو نے سب سن لیا۔وہ خاموش رہی بس اس کے قرآن پاک کے صفحے اس کے آنسوئوں سے تر ہوتے رہے ۔
٭٭٭
نازو کی ساس کے جانے کے بعداپنی بے بسی پر ہم میاں بیوی بہت روئے۔اپنی بچی کی زندگی برباد ہوجانے سے روکنا اب ہمارے بس سے باہر تھا ہم نے مایوس ہو کر یہ رشتہ ختم کر دیا ۔
رفیق نے گھر آکر ہمارے پاؤں پکڑلیے کہ اسے ہم سے ایک تنکا بھی جہیز میں نہیں لینا۔اسے صرف نازو جیسی نیک اور صابر لڑکی اپنی شریک حیات کے روپ میں چاہیےوہ والدین کو چھوڑنے پر آمادہ تھا ۔ہم نےکسی نہ کسی طرح اسے سمجھا بجھا کر گھر واپس بجھوایا ۔
نازو بالکل خاموش رہی وہ رات ہم سب نے آنکھوں میں کاٹی۔نازو اس دن جو خاموش ہوئی تو اس دن کے بعد اسے کسی نے مسکراتے نہ دیکھا۔اس کے چہرے پر دکھ اور کرب کی چھاپ سی لگ گئی۔
ابھی چند ہفتے بھی نہ گزرے تھے کہ خبر ملی کہ رفیق کی ماں پر فالج کا شدید حملہ ہؤا وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگئی تھی۔ہمیں بھی بہت دکھ ہؤا ‘ لیکن اب دعا کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے تھے ۔
ایک روز فیکٹری پہنچا تو خلاف معمول گیٹ پر مجمع لگا تھا ۔میں حیران ہؤا کیا ماجرا ہے ۔آگے جاکر دیکھا تو پیروں تلےسے زمین نکل گئی۔سیٹھ امجد زمین پر بیٹھے زور زور سے رو رہے ہیں اور سب مزدوروں سے جھولی پھیلائے گردوں کے عطیہ کی بھیک مانگ رہے ہیں ۔زوہیب کی طبیعت بہت خراب تھی اور وہ ہسپتال میں داخل تھا ۔یہ انتہائی دردناک منظر تھا ایک کروڑ پتی سیٹھ جو کسی غریب کے سلام کا جواب دینا بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتا تھا آج اپنی اولاد کی محبت میں اپنا سارا غرور ‘تکبر اور اپنی آن بھلا کر خاک پر لوٹ پوٹ تھا ۔
اس لمحے مجھے سیٹھ امجد کی جگہ صرف ایک مجبور ‘بے بس اور غمزدہ باپ دکھائی دے رہا تھا ‘ جو تمام عمر کی پونجی لٹا کر بھی اپنے بیٹے کی جان بچانا چاہتا تھا ۔ اللہ نے اس وقت میرے دل میں یہ خیال ڈالا کہ میں اپنی بیٹی کی زندگی میں خوشیاں تو نہیںلا سکتا لیکن اگر میرا گردہ سیٹھ صاحب کے بیٹے سے میچ ہو جائے تو شایدان کی زندگی میں خوشیاں لوٹ آئیں۔
میں نے فوری طور پر اقبال صاحب سے بات کی۔
اقبال صاحب نے میرے کہنے پر تمام ٹیسٹ کروائےخوش قسمتی سے ٹیسٹ ہؤا تو نتیجہ مثبت آگیا ۔ہزاروں افراد کے ٹیسٹ ناکام ہونے کے بعد بالآخر میرا گردہ میچ ہو گیا۔
سیٹھ امجد کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا ۔میری ہر شرط ماننے کو تیار تھے لیکن مجھے یہ نیکی صرف اللہ کی رضا کی خاطر کرنی تھی ‘ان کے لاکھ اصرار کے باوجود میں نے ایک روپیہ بھی ان سے لینے سے انکار کر دیا۔سیٹھ امجد احسان مندی اور شرمندگی سے زمین میں گرے جا رہے تھے ۔اپنی دولت کا غرور اور خمار ان کے دل و دماغ سے اتر چکا تھا۔
چند روز بعد آپریشن کے ذریعے میرا گردہ زوہیب کو ٹرانسپلانٹ کر دیا گیا ۔اس دن کے بعد سے سیٹھ امجد کی زندگی میں انقلاب آگیا ۔ سیٹھ صاحب حد درجہ سخی اور ملنسار ہوگئے ۔تمام ملازمین کی تنخواہیں دگنی کر دیں ۔ان کی فیملی کے تمام میڈیکل اخراجات اپنے ذمے لے لیے۔اللہ نے ان کے دل کو بالکل پلٹ دیا ۔
سیٹھ صاحب مجھے بےحد عزت و احترام دینے لگے تھے بلکہ اپنے بھائی کا درجہ دینے لگے ۔
٭٭٭
فالج کے بعد رفیق کی ماں کی سوچ یکسر بدل گئی تھی ۔اسے اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہؤا اور وہ رفیق کے ہمراہ کسی نہ کسی طرح ہمارے گھر پہنچ گئی۔اس نے رو رو کر اپنے غلط رویےکی معافی مانگی اور خدا رسول کے واسطے دے کر نازو کا رشتہ ہم سے دوبارہ مانگ لیا۔اس کے احساس ندامت کو دیکھ کر اس رشتے کو رد کرنا ممکن نہ تھا ‘ اور یوں میری بیٹی کی زندگی میں روٹھی خوشیاں دوبارہ لوٹ آئیں اور رفیق جیسا اچھا لڑکا اس کی زندگی کا ساتھی بنا۔کئی بار سوچتا ہوں کہ اللہ نے شاید میری اس بے غرض نیکی کا صلہ مجھے دنیا میں بھی دے دیا ہے۔ میں نے کسی کے بچے کا احساس کیا تو اللہ نے میری بچی کاکام بنا دیا۔کسی کےآگے ہاتھ پھیلانا نہیں پڑا، اپنی نیکی کو معاوضہ لے کر داغدار کرنا نہیں پڑا، بلکہ اپنی جناب سے مجھ پر خاص کرم کردیا۔
آج اس واقعے کو بیتے چار سال بیت چکے ہیں میں دو پیارے پیارے نواسوں کا نانا بھی بن چکاہوں۔سیٹھ امجد کا بیٹا زوہیب اپنی ماسٹرز کی ڈگری لے کر امریکہ سے آچکا ہے اور فیکٹری کو احسن طریقے سے سنبھال رہا ہے ۔ہمارے بچے خوش باش اپنے گھروں میں صحت اور سکون بھری زندگی گزار رہے ہیں ۔
سیٹھ صاحب میرے ہمراہ ہر سال شکرانے کےلیے حج کرنے جاتے ہیں ۔آج حرم کے صحن میں بیٹھا یہ سوچ رہا ہوں کہ خانہ کعبہ کی زیارت مجھ غریب کو نصیب ہوگی ایسا تو کبھی خوابوں میں بھی نہ سوچا تھا!
ہم دونوں نے الوداعی طواف ادا کیا اور واپسی کےلیے رخت سفر باندھا ۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x