ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

زیتون کہانی – بنتِ سحر

ایک صحن سے دوسرے صحن تک کا فاصلہ لامتناہی بن جائے گا، کسے خبر تھی! اس سرزمین کی کہانی جہاں لکھی جانے والی ہر داستانِ محبت جدائیوں کی پُرپیچ راہوں سے ہو کر گزرتی ہے

 

” ٹک “کر کے کچھ اس کے سر میں لگا تھا۔ اس نے چونک کر سر اٹھایا اور سامنے دیکھا۔ وہ نظروں کے بالکل سامنے تھا۔ وہ جس کی آنکھیں بولتی تھیں۔ نیلی آنکھوں میں شوق کا جہاں آباد کیے ، ذرا ذرا سی ندامت بھری نرمی لیے وہ صالح نضال….جو صلاحیت، قوت اور طاقت میں اپنے نام کا ایک تھا ، اس لڑکی کے سامنے کھڑا تھا۔ یقیناً وہ اپنے ہم دیوار گھر میں جھکی چچا کے زیتون کی واحد ٹہنی سے لٹک کر اسی کے ذریعے ان کے گھر میں کودا تھا۔
اور وہ سنہری تاروں سے بنے بالوں اور سبز آنکھوں والی خلیلہ یحییٰ جو چند لمحے قبل سر جھکائے اپنی سوچوں میں گم تھی، صالح کو دیکھتی اس کی آنکھوں میں پہلے غصے اور پھر دُکھ نے جنم لیا اور لمحے بھر میں اس کی آنکھیں بھرآئیں۔
صالح نے ایک لمحہ نہیں لگایا اور جلدی سے اس کے سامنے پتھر کی سل پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ آس پاس چند سبز زیتون گرے ہوئے تھے۔ خلیلہ اب نظریں جھکائے دور فرش کو گھور رہی تھی۔
” خلیلہ! “اس نے مدھم سی ملتجی آواز میں اسے پکارا۔
وہ منہ موڑ کر بیٹھ گئی۔ صالح نے بے بسی سے اسے دیکھا۔ اور اٹھ کر دوسری جانب اس کے سامنے آ بیٹھا۔ ابھی وہ پھر سے رخ بدلتی کہ اس نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
”خلیلہ!“ ۔ اب کے آواز میں التجا کا رنگ گہرا تھا۔ خلیلہ نے بمشکل نظر اٹھا کر اسے غصے بھری آنکھوں سے دیکھا پھر یکدم ہنس دی۔ وہ لگ ہی اتنا بیچارہ رہا تھا۔
اس کی ہنسی نے صالح کو حوصلہ دیا۔ اس نے واپس زیتون کو تکتی سنجیدہ نظر آنے کی کوشش کرتی خلیلہ یحییٰ کی جانب دیکھا۔
” خلیلہ جمیلہ!‘‘ (خوبصورت خلیلہ) وہ نام جس سے وہ اسے پکارا کرتا تھا جب وہ خفا ہوتی تھی۔
”کیا؟“ وہ ناراض سا چہرہ واپس موڑتے ہوئے بولی۔
”تم ناراض ہو؟“
”نہیں ہونا چاہیے؟“اس نے پلٹ کر سوال کردیا۔
”دیکھو! جب چچا نے تمہارا اور میرا نکاح کروایا تھا تب بھی تمہیں معلوم تھا کہ آج نہیں تو کل مجھے جانا ہوگا۔ رمضان آتے ہی حالات خراب ہو گئے ہیں۔ کل بھی ساتھ والے قصبے میں انہوں نے زیتون کا باغ جلا دیا۔ وہ ہمارے مالوں، جانوں اور عزتوں کے در پےہیں۔ مجھے جانا تو ہوگا“۔
”میں کب کہہ رہی ہوں کہ نہ جاؤ۔ میں فلسطینی ہوں۔ جہاد اور شہادت کی تمنا میرے خون میں ہے۔ مگر عمر کے بیس سالوں میں پہلے تایا کو کھویا۔ پھر بھائی کو۔ اور اب تم اور ابی ہر وقت کسی نہ کسی محاذ پر ہوتے ہو۔ میں نے پہلے کبھی ایسا نہیں کیا لیکن اس نکاح کے بعد تمہیں میدان جنگ کے لیے رخصت کرنا میرے لیے مشکل ہو گیا ہے۔ صالح یہ سب اب آسان نہیں رہا!“
صالح نے بے بسی سے اس کی جانب دیکھا۔
”خلیلہ! تم جانتی ہو۔ ہم فلسطینی ہیں۔ جہاد ہمارے بقا کی ضمانت ہے۔ ہم نہیں لڑیں گے تو دشمن سرخرو ہو جائے گا۔ بیت المقدس کا ہم پر جو حق ہے، خدا نہ کرے وہ ادا نہ ہو پائے گا۔ اور دیکھو ، میں نہیں لڑوں گا تو کیا پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سرخرو ہو سکوں گا؟ کیا تم یہ چاہو گی کہ میں ان کے سامنے شرمندہ ہوں؟“
خلیلہ نے تڑپ کر اسے دیکھا۔
”میں یہ ہرگز نہیں چاہتی صالح۔ میں چاہ بھی کیسے سکتی ہوں۔ لیکن میں تھکنے لگی ہوں۔ اس سرزمین پر لکھی جانے والی محبت کی ساری کہانیاں جدائیوں پر ختم ہو رہی ہیں۔ مائیں بیٹے کھو رہی ہیں۔ بیویاں سہاگ۔ بھائی بہنیں۔ اور یہی نسل در نسل چلا آ رہا ہے۔ آخر کب تک صالح؟“
صالح خاموش تھا۔ وہ جانتا تھا خلیلہ سب سمجھتی تھی لیکن اس لمحے بے حد دکھی ہو رہی تھی۔ وہ اس کے جانے پر رنجیدہ تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لے۔ بستی میں اس کی ہم عمر یعنی سہیلیوں جیسی لڑکیوں کی کمی تو ہمیشہ سے رہی تھی لیکن جب سے جندل (خلیلہ کے بھائی) کی شہادت ہوئی تھی وہ ویسے ہی بہت اکیلی ہو گئی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اسے بولنے کا موقع چاہیے۔ وہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گی۔
”اور تم؟ تم مجھے تسلی تک نہیں دے رہے۔ کل جب سے ابی نے بتایا کہ تمہیں بلا لیا گیا ہے۔ تب سے میں تمہارا انتظار کر رہی تھی۔ کہ تم آؤ گے مجھ سے بات کرو گے‘‘۔ خلیلہ پھر سے گویا ہوئی۔
”اچھا اب دے رہا ہوں نا تسلی۔ دیکھو جہاد ہمارا راستہ ہے اور شہادت ہماری منزل۔ یہ تو طے ہے کہ لڑنا ہے۔ پھر کیوں نہ اپنی جان کو اللہ کے حوالے کر دیا جائے بنا کسی خدشے کے، بنا کسی خوف کے۔ تم مجھے ہنس کر الوداع کرو گی تو میرے لیے سارے مرحلے آسان ہو جائیں گے‘‘۔
دھیرے سے خلیلہ کے ہاتھ کو تھپک کر اس نے بات مکمل کی۔ لیکن اب خلیلہ کی آنکھیں ڈبڈبا رہی تھیں۔
”صالح!“۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں ملتجی لہجے میں اس کو پکارا۔
”خلیلہ!“. صالح جواباً زبردستی مسکرایا۔ ”سنو! میں جلد لوٹ آؤں گا۔ پھر چچا سے کہوں گا جلدی سے ہماری رخصتی کی تاریخ دیں۔ میں تمہیں اس زیتون والے صحن سے اپنے صحن میں لے جانا چاہتا ہوں۔ پھر جب تم نے میکے آنا ہو گا تو ہم دونوں اس شاخ سے لٹک کر اس گھر میں کودا کریں گے۔ “
اس بات پر خلیلہ زور سے ہنس دی۔ صالح کا دل خوش ہو گیا۔ صد شکر کہ وہ اب رو نہیں رہی تھی۔
اورتھوڑی دیر بعد وہ جانے کے لیے اٹھ رہا تھا تو اس کی ماں اور چچی دروازے میں اسے رخصت کرنے کو کھڑی تھیں۔ ان سے مل کر اس نے متلاشی نگاہیں پیچھے دوڑائیں۔ اور وہ وہاں سے چلی آ رہی تھی۔ قریب پہنچ کر اس نے دھیرے سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ اس کی کھلی ہتھیلی پر دو سبز زیتون رکھے تھے۔
”یہ تم نے مجھے لوٹانے ہیں۔ اس لیے واپس آ جانا۔ اللہ کی امان میں“۔ کہتے ہوئے اس کی آواز کپکپا گئی۔
”ان شاء اللہ“۔ صالح نے دل مضبوط کرتے ہوئے جلدی سے ہاتھ بڑھا کر زیتون اٹھائے ، آخری بار اس کی آنکھوں میں دیکھ کر دھیرے سے فی امان اللہ کہا اور مڑ گیا۔
٭
کمانڈر ولید اپنے نائب یحییٰ ابو جندل کے ہمراہ اپنے کیمپ میں موجود تھے اور کچھ کمانڈرز سے مشورے کرنے میں مصروف تھے۔ وہ لوگ ابھی مسجد الاقصیٰ کے آس پاس سے یہودیوں کا صفایا کر کے آئے تھے۔ جس جگہ انہوں نے کیمپ لگا رکھا تھا، یہ مسجد الاقصٰی سے کافی دور تھی۔ یہاں سے وہ منظم انداز میں کتوں کی طرح اطراف میں پھیلے اسرائیلی فوجیوں کی طرف پیش قدمی کرتے اور ان کو ناکوں چنے چبواتے۔ اس جگہ کے دائیں جانب زیتون کے جنگل کے پار فلسطینی قصبے آباد تھے جبکہ دوسری جانب اسرائیل کا مکمل قبضہ تھا۔ ہمیشہ مجاہدین کا آدھا حصہ آبادی کو محفوظ رکھنے کے لیے وہیں رہا کرتا جبکہ بقیہ لوگ معرکے پر جایا کرتے تھے۔ کیمپ میں موجود کمانڈرز کے مشورے سے صالح کی قیادت میں مجاہدین کو یہیں چھوڑ کر جانے کا فیصلہ ہؤا تھا۔ جبکہ باقی مجاہدین کو ولید اور یحییٰ کی قیادت میں الاقصیٰ کی جانب آگے بڑھنا تھا۔ اب وہ لوگ افرادی قوت ، اسلحے اور دیگر تیاریوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ افطار کے بعد انہیں ایک بھرپور حملہ کرنا تھا۔ کیمپ میں موجود 55 جانبازوں میں سے 7 شدید زخمی تھے جو لڑائی میں شامل نہیں ہو سکتے تھے۔ جبکہ چند ہلکے پھلکے زخمی بھی موجود تھے جو اس وقت اپنی مرہم پٹیاں کرا کے آرام کر رہے تھے تاکہ تازہ دم ہو کر لڑ سکیں۔
جاسوس کی اطلاع کے مطابق اسرائیلی کیمپ میں آج خلاف معمول سکون تھا۔ وہ لوگ ابھی تک صبح فلسطینیوں کے ہاتھوں مارے جانے اور بچے کھچے زخمی فوجیوں کو سنبھال رہے تھے۔ لیکن سکون اس لیے تھا کہ انہیں لگ رہا تھا آج کے دن مزید حملہ نہیں ہو سکے گا۔ اور یہ فلسطینیوں کی حکمت عملی کا کمال تھا۔
صبح کا معرکہ انہوں نے رسک لیتے ہوئے محض 15 جانبازوں کے ساتھ لڑا تھا۔ ان میں سے آدھے زخمی تھے۔ یہی وجہ تھی اسرائیلیوں کو اطمینان تھا کہ چونکہ مجاہدین کی تعداد کم ہے جس میں زخمی بھی موجود ہیں لہٰذا ان کی جانب سے مزید حملہ نہیں ہو گا۔ لیکن مجاہدین جانتے تھے کہ یہی موقع تھا جب ان پر کاری وار کیا جا سکتا تھا۔ کمانڈر ولید کی ہدایت پر صالح نے اپنے ساتھیوں کو تیار رہنے کا حکم دیا ۔
عصر کے بعد وہ لوگ روانگی کے لیے تیار تھے۔ انہوں نے سب کو آخری ہدایات دے کر خیمے سے باہر بھیجا۔ اب خیمے میں صرف صالح اور یحییٰ موجود تھے۔
”کچھ کہنا چاہتے ہو“؟ انہوں نے صالح کے پرسوچ چہرے پر نگاہ ڈالی۔ وہ چونک گیا۔ ”جی“۔ کچھ دیر کمرے میں سکوت طاری رہا۔
”چچا جان! وہ ان کے بیچ موجود ہے۔ مجھے طلحہ (جاسوس) نے اطلاع دی ہے“۔
”کون؟“ وہ چونک کر کھڑے ہوئے تھے۔ صالح کے تاثرات ناقابل فہم سے تھے۔ یحییٰ نے اس کو غور سے دیکھا۔ وہ مٹھیاں بھینچے کھڑا تھا۔ وہ مشتعل لگتا تھا۔ مگر کیوں؟
سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں یحییٰ کے ذہن میں جیسے کوئی دھماکہ ہؤا تھا۔ یکدم ایسا لگا تھا جیسے وقت کسی فیصلہ کن گھڑی میں داخل ہو رہا تھا۔
”کون صالح؟ کون ہے ان میں“؟ وہ لپک کر اس کی جانب بڑھے۔
”وہی جس نے کمانڈر طیب جیسے جری شخص ، میرے بابا اور بھائیوں جیسے عم زاد جندل کی جان لی تھی۔ کمانڈر طیب کی شہادت نے ہمیں کس قدر نقصان پہنچایاہے تھا آپکو یاد ہے نا؟ آج ان کا قاتل ان لوگوں میں موجود ہے۔ مجھے اس کی جان لینی ہے چچا جان۔!“
صالح کی آواز طیش سے کانپ رہی تھی۔ یحییٰ پتھر کے بت کی طرح خاموش کھڑے تھے۔
”بولیے نا چچا! آپ کو یاد ہے۔ آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جب وہ ملا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں اس کو اپنے ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اتاروں۔ اس کی حفاظت کے انتظامات سخت ہیں مگر وہ خود ان میں موجود ہے یہ غنیمت ہے۔ آج موقع ہے کہ اسے موت کے گھاٹ اتارا جا سکے۔ میرے لیے کمانڈر ولید سے اجازت لیجیے ۔ آپ یہاں رکیں گے مجھے وہاں جانے دیجیے۔ آپ سن رہے ہیں چچا جان؟“ ۔
”ہوں؟“ یحییٰ جیسے گہری نیند سے بیدار ہوئے تھے۔ ”بیٹھ جاؤ صالح“۔
یہ کہہ کروہ خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئے۔
ان کےچہرے کے سامنے کئی منظر لہرا رہے تھے۔ بھائی جیسے کمانڈر طیب کا چہرہ، اس کی لاش جسے مسخ کردیا گیا تھا۔ جان سے پیارے بڑے بھائی کا چہرہ جنہیں اکٹھی دس گولیاں لگی تھیں اور جاتے سمے وہ ان سے کچھ کہہ تک نہ پائے تھے۔ اور وہ جندل! آہ جس کی پیدائش کے روز انہوں نے اسما سے کہا تھا کہ آج اپنی جان پر مشقت کرکے تم نے مجھے جو دیا ہے اس کا احسان میں کبھی نہیں اتار پاؤں گا۔ پھر ان کی زندگی کا ایک بڑا مقصد اس کی تعلیم، تربیت، فوجی تربیت ، شوق شہادت پیدا کرنا بن گیا۔ مگر پھر وہ جاں گسل لمحہ بھی آیا جب اس نے ان کی گود میں سر رکھے جان دے دی تھی۔ اکلوتا خوبرو جوان بیٹا۔ وہ بھلا کیسے بھول سکتے تھے۔ صبر بھلے ہی جتنا ہو ، ہر لمحے کی تکلیف روح میں بسی تھی۔ جگری دوست، بھائی ، بیٹا کھونے کا غم تازہ تھا۔ وہ اس درندے کو نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ لیکن جس کو اسے جہنم واصل کرنے کا وعدہ دیا تھا وہ کون تھا؟ وہ جو جانے کی اجازت مانگ رہا تھا، وہ ان کی بیٹی کا شوہر تھا۔ انہیں خلیلہ کو اس کے سنگ رخصت کرنا تھا۔ ان کی بیٹی کی خوشیاں اس سے جڑی تھیں۔ وہ گہری سوچ میں گم تھے۔
صالح اضطراب سے ان کے چہرے کے اتارچڑھاؤ دیکھ رہا تھا۔ جب بالآخر انہوں نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
”تم واقعی جانا چاہتے ہو“؟
وہ بولے تو ان کی آواز کھوئی کھوئی سی معلوم ہو رہی تھی۔
”چچا جان آپ جانتے ہیں۔ میں نے ہر بار اس موقع کا انتظار کیا ہے۔ آج وہ ان میں ہے۔ میں اسے کیسے چھوڑ دوں؟“
یحییٰ نے جھکا سر اٹھایا۔ دل مضبوط کیا، اپنے تاثرات چھپائے اور میز کی سطح پر ہاتھ جما کر بولے: ”صالح ابھی نہیں۔ ابھی میں تمہیں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ عصر کا وقت ہو رہا ہے۔ نماز کے بعد روانگی ہے چلو۔ “ یہ کہہ کر وہ خیمے کا پردہ اٹھا کر باہر نکل گئے۔
عصر کی جماعت کھڑی ہو چکی تھی۔ صالح امامت کے لیے کھڑا تھا۔ پہلی رکعت میں اس نے سورۃ توبہ کی تلاوت شروع کی۔
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنّت کے بدلے خرید لیے ہیں ۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں ۔ ان سے (جنّت کا وعدہ) اللہ کے ذمّے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں ۔ اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو ؟ پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے ، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے‘‘۔
اس کی آواز ہمیشہ سے زیادہ سوز سے بھری ہوئی تھی۔ ابوجندل کانپ رہے تھے۔ ان کو لگ رہا تھا ان کا دم گھٹ جائے گا۔ جیسے تیسے نماز کے بعد وہ اٹھے اور ولید کے پاس جا کر کافی دیر ان سے سرگوشی میں بات کرتے رہے۔
کچھ دیر بعد وہ صالح کے سامنے کھڑے تھے۔ وہ انہیں امید بھری نگاہوں سے تک رہا تھا۔ انہوں نے جا کر اس کی پیشانی چوم لی۔
” تمہیں اجازت ہے۔ میں یہیں رکوں گا۔ کمانڈر ولید کے ساتھ معرکے میں تم رہو گے۔ خدا کی امان میں دیا“۔ یہ کہتے ہوئے ان کی آواز کانپ رہی تھی۔ صالح کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے ان کے ہاتھ چوم لیے۔ ”چچا جان! میں آپ کا احسان مند ہوں۔ آپ نے مجھے زندگی کی سب سے بڑی خوشی دی ہے“۔ کہہ کر وہ مڑنے لگا۔ لیکن پھر واپس پلٹا جیسے کچھ یاد آیا ہو۔ اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ان کو مخاطب کرتے ہوئے ہاتھ بڑھایا۔ ”چچا جان! اگر میں نہ لوٹوں تو یہ زیتون خلیلہ کو دے دیجیے گا“۔
انہوں نے کانپتے ہاتھوں سے زیتون تھامے اور فرط جذبات سے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا۔
٭
کمانڈر یحییٰ بے چینی سے اپنے کیمپ کے باہر ٹہل رہے تھے۔ آبادی کی جانب خیریت رہی تھی مگر انہیں معرکے سے لوٹنے والوں کا انتظار تھا۔ وہ کبھی نفل پڑھنے لگتے۔ کبھی دعائیں کرتے۔ کبھی پھر سے ٹہلنے لگتے۔ مجاہدین کو گئےہوئے سات گھنٹے ہو چکے تھے۔ رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی جب ایکدم دور سے روشنیاں دکھائی دینے لگیں اور اللہ اکبر کے نعرے سنائی دیئے۔ فضا خدا کی کبریائی کے اعلان سے گونج رہی تھی اور یحییٰ کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ فتح کی خوشی ایک جانب اور کسی عزیز ہستی کو کھونے کا خدشہ دوسری جانب۔ وہ حسبنا اللہ کا ورد کر رہے تھے۔
مجاہدین قریب پہنچ چکے تھے اور ایک دوسرے سے مل کر مبارکباد دے رہے تھے۔ یحییٰ خاموش ساکت کھڑے تھے جب انہیں کمانڈر ولید سامنے سے آتے دکھائی دیئے۔ وہ قریب پہنچنے کے بعد چند لمحوں تک خاموشی سے یحییٰ کو دیکھتے رہے۔ کچھ دیر بعد ان کی بھرائی ہوئی آواز سنائی دی۔ ”یحییٰ! مبارک ہو“۔ الفاظ تھے یا بجلی جو یحییٰ کی سماعتوں پر گری تھی۔ گویا فیصلہ آ چکا تھا۔ قیامت گزر چکی تھی۔ یحییٰ بے اختیار پلٹے اور ان سے لپٹ گئے۔ بہت سے بے آواز انسو ان کی آنکھوں سے نکلے اور فلسطین کی مٹی میں جذب ہو گئے۔
٭
ہمیشہ اٹھے سر کے ساتھ گھر میں داخل ہونے والے یحییٰ آج اٹھے کندھوں مگر جھکے سر کے ساتھ داخل ہو رہے تھے اور ایسا دوسری بار ہؤا تھا ۔ پہلی بار جندل کی شہادت پر دنیا سے آنسو چھپانے اور اس کی ماں کے غم کا تصور کر کے وہ جھکی آنکھوں کے ساتھ گھر کے دروازے پر کھڑے تھے۔ اور آج تو سامنے تین دل تھے جنہیں سنبھالنا تھا۔ لیکن جیسے تیسے یہ خبر سنانا تو تھی ہی۔ اپنی بیوی اسما کو بھابھی کے ساتھ آتا دیکھ کر ان کے دل نے حسبنا اللہ کا ورد شروع کر دیا۔
اسما اور خولہ بھابھی کے پیچھے وہ کھڑی تھی۔ اور منتظر نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔ کچھ کھو دینے کا خوف! انہوںنے نفی میں سر ہلا کر سر جھکا لیا۔ خولہ بے اختیار اسما سے لپٹ گئیں۔ خلیلہ نے دل پر ہاتھ رکھا۔
”بابا!“
یحییٰ نے خاموش نگاہوں سے اسے دیکھا۔ اور آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھام لیا۔ ایک ہاتھ سے اس کی ہتھیلی کو تھامتے ہوئے انہوں نے دوسرے ہاتھ سے اس پر کچھ رکھا تھا۔
اس نے ساکت بھیگی آنکھیں ان کے چہرے سے ہٹائیں اور دھیرے دھیرے ہتھیلی کی جانب موڑ دیں۔وہ وہی تھے۔ دو سبز زیتون۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ لوٹائے گا۔اس نے لوٹا دیئے تھے۔ ساتھ میں ایک رقعہ تھا ۔ اس نے نم آنکھوں سے کھولا تو لکھا تھا :
” میری خلیلہ! محبت کی کچھ کہانیاں دنیا میں عارضی جدائیوں پر ختم ہوتی ہیں مگر جنت میں مستقل ملن کی خوشخبری کے ساتھ“۔
خلیلہ نے بے اختیار خط آنکھوں سے لگایا اور سسک پڑی۔ واقعی ہر کہانی دنیا میں مکمل نہیں ہوتی۔ ہر کہانی اتنی عام نہیں ہوتی کہ اسی دنیا میں مکمل ہو جائے!
٭ ٭ ٭

 

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x