ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

قفس کو آشیاں سمجھے – عالیہ حمید

سامنے جھیل کے نیلے پانیوں پر سفید بگلے اور گرما کے اواخر کی ہلکی مست ہوائیں جو جسم و جان میں تراوت بھر دیں۔ اور آس پاس کے درختوں پر رنگ برنگے پھول پھل اور بہت سے پرندے ، جن کو آج میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ ایک گھنے درخت کی شاخ کے اوپر سبز پتوں میں چھپا بیٹھا میں دنیا کو اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے حیران ہو کر دیکھ رہا تھا۔ایک بار نہیں کئی بار میں نے پروں کو جی جان سے کھول کر انگڑائیاں لی تھیں۔ دائیں بائیں پلٹے کھائے تھے، گر کر سنبھلا اور سنبھل کر گرا تھا، کہ بند پنجروں میں اتنی جگہ کہاں ہوتی ہے۔
دنیا اتنی حسین ،عجوبہ روزگار اور وسیع ہے۔ اور میری کمر پر لگے پر اتنے مضبوط ہیں کہ یہ مجھے پنجرے کی قید سے نکال کر اس درخت تک لے آئے اور اگر میں ہمت کروں تو اس کے آگے بھی ان گنت جہاں ہوں گے۔
میں درخت کی شاخ پر بیٹھا، سامنے کی آذاد رنگیلی اور شفاف ہواؤں کا مشاہدہ کر کے حیران و پریشاں تھا۔ اور اس نئی نویلی دنیا میں میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے اس کے بارے میں فکرمند بھی۔ کیونکہ کچھ منٹ پہلے ہی کائیں کائیں کرنے والے بڑی چونچوں والے کالے پرندوں کے ساتھ لڑ کر آیا تھا اور ایک لمبی اڑان بھر کر اس درخت پر پناہ لے رکھی تھی۔
’’مٹھو… ابھی ایک گھنٹے پہلے ان کے منجھلے بیٹے نے پیار سے آواز دی تھی اور ساتھ ہی کٹوری اٹھائے میری طرف چلا آرہا تھا، پھر پنجرہ کھول کر کٹوری پنجرے کے ساتھ اٹکا دی۔
’’میں جو پنجرے کے بیچوں بیچ گزرنے والی سلاخ پر بیٹھا تھا فوراً سلاخوں پر سے ہوتا ہؤا کٹوری پر چڑھ بیٹھا اور کتر کتر کے باجرہ کھانے لگا۔ اس گھر کے سبھی بچے بہت پیار کرتے تھے مجھے ۔ امرود ،آم، سیب، آلو بخارہ، سٹرابیری،آڑو سبھی پھل کھلائے مجھے، جو خود کھاتے مجھے بھی کھلاتے تھے، لیز،بسکٹ،چیونگم، ٹافی، حتیٰ کہ سپرائیٹ اور اسٹنگ تک پلا دی مجھے، گھر کا پکا کھانا،ابلے آلو، بریانی، چنے۔ جب بھی مرغی کی ٹانگ مجھے ڈالی جاتی، ماما کہتیں یہ مت ڈالو مٹھو تو سبزی خور ہے لیکن جب میں ہڈی کو چونچ سے کترتا تو مسکرا کر کہا کرتی تھیں کہ لو جی مٹھو اب گوشت خور بھی ہو گیا ہے۔ چائے میں بھیگے رس میری مرغوب غذا تھی۔ ماما اکثر اپنی دوستوں کو کہتیں تھیں کہ میں نے اتنی محبت اور توجہ سے کبھی اپنے بیٹوں کے لیے چوری نہیں بنائی جتنی مٹھو کے لیے بنائی۔ میرا پنجرہ ہمیشہ صاف رکھا جاتا ،ماما خود روازنہ اسے صاف کرتیں اور لاڈ سے کہا کرتی تھیں کہ مٹھو ، گندہ بچہ، پنجرے کو کتنا گندہ کیا ہؤا ہے‘‘ اور یہ کہہ کر پیار بھرے غصے سے مجھے گھورتیں۔ جب بچے پڑھ رہے ہوتے اور میں شور مچا رہا ہوتا تو بھی پیار بھری ڈانٹ پڑتی کہ’’چپ کر کے بیٹھ‘‘۔
اور میں جو سب سنتا تھا ،بس گردن ذرا ٹیڑھی کر کے کن اکھیوں سے دیکھتا تھا۔ اتنی عیاشیاں تھیں وہاں۔ میں ان کے منجھلے بیٹے کو سب سے لاڈلا تھا وہ ہر وقت مجھے گود میں اٹھائے رکھتا اور میں ہمیشہ اس کے کندھے پر بیٹھا رہتا ، اس کی سب قمیضوں اور کالر کے سبھی بٹن چونچ سے اکھاڑ پھینکے تھے۔ اپنی گود میں بٹھا کر وہ فری فائیر کھیلتا رہتا اور میں آرام سے اس کی یہ لڑائی سنتا رہتا ۔
سب سے چھوٹا تو میرے لیے خود کو ہلکان کیے رکھتا۔ اپنی کھانے کی ہر چیز میرے ساتھ شئیر کرتا مجھے چونچ اور سر پر پیار کرتا اور سینے سے چپکائے رکھتا میں اس کی قمیض کے بٹن کو چونچ میں دبائے اس کے ساتھ لٹکا رہتا ۔ ماما ذبردستی مجھے الگ کروا کر پنجرے میں بند کرواتیں ۔ کچھ دن پہلے کی ہی بات ہے میں نے باتیں کرنا چھوڑی ہوئی تھیں۔ ماما کو فکر ہوئی ، انہوں نے بچوں کو ڈانٹا کہ ہر وقت اسے پنجرے سے نکال کر چپکائے رکھتے ہو اسی لیے وہ باتیں نہیں کرتا ۔ انہیں کسی نے بتایا کہ اگر طوطا بھوکا رہے تو باتیں کرتا ہے۔ انہوں نے ایک پورا دن مجھے بھوکا رکھا اس دوران سب سے چھوٹا بیٹا ان کے ساتھ بہت لڑا کہ اگر آپ کو کھانا نہ دیا جائے تو آپ کو اچھا لگے گا کیا ؟؟
میں نے پھر سے باتیں شروع کر دیں اور وہ سب لوگ بہت خوش ہوگئے۔ اور میرے کھانے پینے کی پابندیاں بھی ختم ہو گئیں۔ میں پھر سے پنجرے سے نکل کر آذادی سے گھومنے لگا۔ کبھی کرسی کے نیچے، کبھی میز کے اوپر کبھی کندھے پر اور کبھی چارپائی کے کنارے کنارے خراماں خراماں…. محلے کے بچے بھی میرے ساتھ آ کر خوب کھیلتے ۔
میں نے ان کے یہاں رہتے بہت سی باتیں بھی سیکھیں۔ لفظ ’’مٹھو‘‘ کتنے ہی اسٹائل سے بول لیتا ہوں، موبائل ٹیونز، آئسکریم والے کی ٹیون، پرندوں کی آوازیں، گاڑیوں کے ہارنز، اور چند مکمل فقرے جیسے گندہ بچہ ،چپ کر کے بیٹھ جا، اور اس گھر کے بچوں کے نام ۔ جبکہ ’’ اللّٰہ ہو‘‘ سیکھنے کے مرحلے میں تھا ۔
ایک گھنٹہ پہلے یوں ہؤا کہ منجھلے بیٹے نے مجھے پنجرے سے نکال کر پنجرے کے اوپر بٹھا دیا اور خود نہانے چلا گیا ۔ جاتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ مٹھو تم گھومو پھرو میں ابھی آیا۔ میں پنجرے پر بیٹھا تھا، سامنے جالی کا دروازہ تھا جو باہر ٹیرس پر کھلتا تھا ،آج صبح سے ہی ہوا زوروں کی چل رہی تھی ،اسی وجہ سے جالی کا دروازہ بھی کھل گیا ،میں آرام سے بیٹھا یک ٹک باہر کی جانب دیکھے جا رہا تھا ،میں اس بات سے انجان تھا کہ یہ میری پنجرے سے آزادی کا راستہ ہے۔ اور یہ راستہ اس نیلے آسمان کی طرف جاتا ہےجو میری اڑان کا اصل مسکن ہے۔ میں پنجرے پر چل رہا تھا کہ کنارے پر ہونے کی وجہ سے میرا پاؤں پھسلا ، میں نے نیچے گرنے سے بچنے کے لیے پروں کو پھڑپھڑایا تو فضا میں بلند ہوگیا اور جالی کے دروازے سے نکل کر سامنے کی جانب اڑتا ہی چلا گیا۔
یہ میری پہلی بلند ترین پرواز تھی ۔
باہر کی فضائیں بہت وسیع تھیں میں اڑتا اڑتا دائیں طرف کو ہو گیا اور پرواز کا مزہ لینے کو پروں کو پوری طاقت سے پھڑپھڑایا تو اور بھی بلند ہوتا گیا ۔ایک گھر کی چھت پر سولر کی پلیٹوں کے پاس گرا ۔’’مٹھو اڑ گیا‘‘ کی آوازیں پہلے تو زور وشور سے آرہی تھیں پھر مدھم ہو گئیں۔ شاید میرے اڑنے کے بعد مجھے تلاش کی کوششوں کی آوازیں تھیں۔ میں کچھ ثانیے وہاں کھڑا ہانپتا رہا ،اس پہلی لمبی پرواز نے تھکا دیا تھا ۔ لیکن پرواز کا مزہ کچھ ایسا تھا کہ دوبارہ یہی کوشش کی اور پھر اڑتا چلا گیا اڑتا چلا گیا اور آبادی سے دور درختوں کے جھنڈ میں پہنچ گیا۔
مجھے گھر کا راستہ نہیں آتا تھا نہ ہی سمتیں یاد تھیں ، اور میں بھاگنے کی نیت سے نہیں اڑا تھا ، اڑنا میری سرشت تھی سو میں اڑا۔ لیکن پھر بہک گیا تھا ، کچھ دیر پہلے کالے پرندوں کے ساتھ جھگڑا کر کے یہاں آ بیٹھا ہوں۔ اب سوچ رہا ہوں کہ انہیں سمتوں میں اڑتا ہوا جاؤں تو شاید وہی جالی کا دروازہ نظر آجائے گا اور اسی گھر میں اسی پنجرے میں واپس چلا جاؤں اور اگر آگے کو سفر جاری رکھوں تو ایک فضائے بسیط ہے ۔ آزادیاں تو ہیں لیکن کالے پرندوں کی لڑائی سے سمجھ چکا ہوں کہ یہاں فضاؤں میں بھی انسانوں کی طرح تیرے میرے کا جھگڑا ہے۔اب کٹوری میں رنگ برنگی اشیا نہیں ملیں گی، پیٹ بھرنے کو خود ہی تگ ودو کرنی ہے ، کالے پرندے بہت سے تھے ،اور دوسری نسل کے بھی ایک جیسے رنگ برنگے چھوٹے بڑے سائز کے پرندے تھے تو میرے جیسے بھی کئی ہوں گے، اپنے جیسے پرندوں کو تلاش کر کے ان کے بیچ جگہ بھی بنانی ہے۔ اور پروں کو مزید مضبوط بھی بنانا ہے تاکہ زمانے کے سرد گرم کا مقابلہ ہو سکے۔اس گھر میں پنجرے کی بڑی لاڈلی سی زندگی گزاری تھی ۔
اب واپس اسی پنجرے کی زندگی کی طرف جاؤں جو ہوگی تو قید مگر اس میں کوئی مشقت نہیں ،کسی حملے کا کوئی خوف نہیں، کوئی تگ ودو نہیں، کسی سے کوئی مقابلہ نہیں، اپنی بقا کے لیے کوئی جنگ نہیں، پیٹ بھرنے کو کوئی محنت نہیں کوئی تلاش نہیں۔ آرام سے بیٹھ کر کٹوری میں کچر کچر دانےکترنے ہیں۔
یا آگے اڑ جاؤں اور دور نیلے آسمان میں اڈاری بھروں جہاں آزاد فضاؤں کی اپنی آزمائشیں ہیں، فضا میں جینے اور مقام بنانے کے لیے اور نام اونچا رکھنے کے لیے بڑی مشقت درکار ہے۔لیکن خدا نے آنکھیں دی ہیں مجھے ، مضبوط چونچ دی ہے ، محسوس کرنے کی صلاحیت دی ہے، شاخ پر بیٹھنے اور کھانے پر گرفت کے لیے پنجے دیے ہیں، بال و پر دیے ہیں جو سردی گرمی سے بچاتے ہیں۔ میں ان نعمتوں کا استعمال کر کے آزاد مگر مشکلات سے بھری ان فضاؤں میں جی لوں گا ۔
تو میں آگے کا راستہ ہی اختیار کرنے جا رہا ہوں۔ لیں جی پر پھڑا پھڑا کر میں اس نیلے آسماں کی وسعتوں میں آگیا ہوں، دور نیچے جھیل کے پانیوں میں اپنا عکس دیکھ رہا ہوں اور اوپر آسماں کی وسعتیں میرے جذبے کو جنوں کر رہی ہیں۔
اے میرے صیاد ! برائے مہربانی مجھے معاف فرما دیں،اگرچہ میں آپ کے ہاتھوں کے طوطے اڑا چکا ہوں مگر اس کو بیوفائی اور طوطا چشمی نہ سمجھئے گا۔ اڑنا میری جینز میں ہے ،اڑنا میرا جنون ہے اور اب جبکہ میں آزاد فضاؤں کے عشق میں مبتلا ہو گیا ہوں تو قید کا ایک لمحہ بھی میرے لیے موت ہو گا۔
آپ کے گھر کے تمام کھانے، پھل، لاڈ پیار ، راحتیں، آرام اور محبتیں آزادی سے بھر پور اس ایک اڑان پر قربان ….کہ آزادی تو پھر آزادی ہے اور یہ اتنی قیمتی ہے کہ اس کے لیے جان بھی دی جاسکتی ہے۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
3 2 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x