ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

قولِ نبیؐ – مہمان اورپڑوسی کے حقوق – سید محمود حسن

رسولؐ نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخر ت پر ایمان رکھتا ہؤا اسے اپنے مہمان کا احترام کرنا چاہیے ایک دن رات تو عمدہ اور بہتر کھانے سے اس کی خاطر داری کرنی چاہیے ، مہمان تین دن تک ہے اس کے بعد بھی اگر مہمان کھانا کھتا رہے تو وہ میزبان کی طرف سے صدقہ خیرات ہے مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنےمیزبان کے پاس اتنے دن ٹھہر جائے کہ اسے تنگ کر ڈالے ۔(بخاری)
مہمان کا احترام کرنے کے معنی یہ ہیں کہ میزبان ،
ث خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرے۔
ث جہاں تک ہو سکے اسے راحت اور سکون دینے کی کوشش کرے۔
ث اس کی عزت نفس کو مجروح نہ کرے ۔
ثاس کی دلآزاری اور تحقیر سے پرہیز کرے۔
پہلے دن تو میزبان کو اپنی استطاعت کے مطابق نہایت عمدہ اور پر تکلف کھانے سے اپنے مہمان کی تواضع کرنی چاہیے دوسرے اور تیسرے دن اسےوہ کھانا کھلائے جوگھرمیں تیارہوتا ہے ۔ جوشخص تین دن تک کسی کے یہاں ٹھہرتا ہے اور اس کے گھر سے کھانا کھاتا ہے وہ اس کا مہمان ہے اور اپنے میزبان سے دعوت کھاتا ہے ۔
رہا وہ شخص جو تین دن کے بعد بھی اپنے میزبان کے پاس رہتا ہے وہ مہمان کی حیثیت سے ضیافت نہیں کھاتا بلکہ ایک مسافر کی حیثیت سے صدقہ ، خیرات کھاتا ہے ۔ تین دن کے بعد میزبان کے گھر سے کھانا کھانے کو صدقہ کہنے سے مقصود یہ ہے کہ مہمان اپنے میزبان کو زچ اور پریشان کرنے سے اجتناب کرے کوئی خود دار آدمی کسی شخص کے گھر سے صدقہ ، خیرات لینے کو پسند نہیں کرتا ۔بڑا نادان ہے وہ مہمان جو میزبان کے گھر دھرنا مار کر بیٹھ جائے اور جانے کا نام نہ لے اوراس کو پریشانی میں مبتلا کردے۔
بسا اوقات آدمی اپنے معاشرتی اور معاشی حالات کی بنا پر زیادہ عرصہ تک کسی مہمان کو اپنے ہاں ٹھہرانے اور اسے کھانا کھلانے کی استطاعت نہیں رکھتا اس بنا پر کسی شخص کو بھی اپنے میزبان کے پاس تین دن سے زیادہ قیام نہ کرنا چاہیے الا یہ کہ میزبان خوش دلی سے اُسے اپنے پاس رہنے کی دعوت دے یا مجبور کرے۔
کھانا کھلانا
ایک آدمی نے نبی ؐ سے سوال کیا حضور! اسلام کی کون سی خصلت اچھی ہے ؟ آپ ؐ نے فرمایا یہ کہ تم کھانا کھلائو اور ( ہر مسلمان کو ) سلام کہو چاہے تم اسے پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو ۔(بخاری )
مسلمان کی زندگی سراپا خیر و برکت ہوتی ہے وہ عمدہ اخلاق اور اچھی عادات کا حامل ہوتا ہے لیکن ان دو خوبیوں کو اعلیٰ اور بہتر قرار دیا گیا ہے ۔
اسلام بخل اور تنگدلی کو پسند نہیں کرتا وہ اپنے ماننے والوں کو فیاضی اور نرم روی کی تعلیم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ محتاجوں ، غریبوں ، مسافروں اور مہمانوں کو کھانا کھلائو اعزہ و اقارب ، پڑوسیوں اور دوستوں کو کھانا کھلانے سے تعلقات خوشگوار ہوتے ہیں خاص طور پر ’’ضیافت ‘‘ اس کا بہترین ذریعہ ہے اس سے لوگوں میں باہمی الفت پیدا ہوتی ہے بلکہ یہ ملت کے مختلف افراد کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے کا باعث بھی ہے اس کا ایک نہایت اہم فائدہ یہ ہے کہ سفر پر جانے والے لوگ پریشانی سے دو چار نہیں ہوتے ہرملنے والے سے السلام علیکم کہنا چاہیے اس کے معنی اور مفہوم کو ذہن میں رکھ کر اس کلمہ کو زبان سے کہنے سے نفرت اور بیگانگی ختم ہو جاتی ہے ۔
رسول ؐ نے فرمایا یہ سنت سے ہے کہ آدمی اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے ( ابن ماجہ )
مطلب یہ ہے کہ مہمان کو رخصت کرنے کے لیے آدمی کو اپنے گھر کے دروازے تک جانا چاہیے ۔ اس سے مقصود ، مہمان کی عزت کرنا ہےمیزبان کو خوش اخلاق، کشادہ ظرف اور ہنس مکھ ہونا چاہیے وہ اپنے مہمان کی عزت اور دلجوئی کرنے میں کوئی کسر اٹھا کر نہ رکھے۔
میزبان کو اپنے اخلاق اور برتائو سے یہ تاثر دینا چاہیے کہ اس نے خلوص دل سے مہمان کی خدمت کی ہے ، اس کی عزت و احترام میں کوتاہی نہیں کی اس کے آنے پر وہ کبیدہ خاطر نہیں ہؤا بلکہ اس نے راحت محسوس کی ہے ۔
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو جن آداب اور اخلاق کی تعلیم دی ہے ان میں سے ایک ’’ ضیافت‘‘بھی ہے انبیاء اور صالحین اس خصلت کے حامل رہے ہیں۔
دور نبوّت میں میزبانی کا ایک واقعہ
ایک آدمی رسول ؐ کی خدمت میں حاضر ہؤااور اس نے عرض کیا میں بھوک سے نڈھال ہوں آپؐ نے کسی کو اپنی ایک بیوی کے پاس بھیجا (تاکہ وہ کھانے پینے کی کوئی چیز لا کر دے ) تو اس نے کہا حضور :اس ذات کی قسم ! جس نے آپؐ کو دین حق کے ساتھ بھیجا ہے میرے پاس پانی کے سوا کھانے پینے کی اور کوئی چیز نہیں ہے پھر آپؐ نے اسے دوسری بیوی کے پاس بھیجا تو اس نے بھی یہی جواب دیا یہاں تک کہ سب بیویوں نے یہی بات کہی ( اس کے بعد ) رسولؐ نے فرمایا جو شخص ( آج رات) اسے مہمان بنائے گا اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرمائے گا ۔ ایک انصاری نے اُٹھ کر عرض کیا اے اللہ کے رسول!ؐ میں اسے مہمان بناتا ہوں وہ اسے اپنے گھر لے گئے اور بیوی سے پوچھا تمہارے پاس کھانے پینے کی کوئی چیزہے ؟ وہ بولی ، بچوں کی خوراک کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
اس نے کہا’’ تم بچوں کو کسی چیز سے بہلائو اور سُلا دو جب ہمارا مہمان آئے تو اسے یہ تاثر دینا ہے کہ ہم بھی کھانا کھا رہے ہیںجب وہ کھانا کھانے کے لیے ہاتھ بڑھائے تو چراغ کو درست کرنے کے بہانے سے اٹھ کر جانا اور اسے بجھا دینا ‘‘۔
بیوی نے اس پر عمل کیا ۔ وہ تینوں بیٹھ گئے مہمان نے کھانا کھایا اور وہ دونوں رات بھر بھوکے سوتے رہے ۔
جب مہمان صبح سویرے حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہؤا تو آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فلاں مرد اور فلاں عورت سے راضی ہو گیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ( سورہ الحشر)
’’ وہ دوسرے حاجت مندوں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں فاقہ ہو اور جو لوگ حرص اور بخل سے دامن بچا کر نکل جائیں وہ کامیاب ہیں ( مشکوٰۃ)
واقعہ غزوہ خیبر ۷ ھ سے پہلے کا ہے ایک فاقہ زدہ مہمان رسول اللہ ؐ کے پاس آیا جبکہ آپ ؐ اسلامی ریاست کے صدر تھے آپ ؐ نے اسے کھانا کھلانے کے لیے اہلِ بیت سے رجوع کیا تو ہر بیوی نے عرض کیا کہ میرے گھر میں پانی کے سوا کھانے پینے کی اور کوئی چیز نہیں ہے ۔ نبی ؐ اور آپ ؐ کے اہلِ بیت نے نہ صرف یہ کہ بھوک اور معاشی تنگی پر صبر کیا بلکہ دنیا کے مال و متاع اور خوشخالی میں دلچسپی نہ لے کر جس بے نیازی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
حضورؐ کے تربیت یافتہ صحابی اور ان کی بیوی نے تنگدستی کے باوجود مہمان کو کھانا کھلایا اور اس کی خدمت کی ۔ اللہ اور اس کے رسولؐ نے ان کے حق میں کلمہ خیر کہا ان کو فلاح کی بشارت دی اور رحمت کی نوید سنائی معاشی تنگی کے باوجود کسی مہمان کی ضیافت کرنا نہ صرف یہ کہ نیکی ہے بلکہ حسنِ اخلاق کا نہایت بلند مرتبہ ہے ۔
میزبان کو چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کو اپنی معاشی بد حالی سے مطلع نہ کرے یہ کوئی معمولی خوبی نہیں ہے کہ آدمی تنگدستی کے باوجود کسی حاجت مند کو اپنی ذات پر ترجیح دے یہ صفت صرف اس آدمی میں پائی جاتی ہے جس کا دل بخل اور حرص سے پاک ہو۔
نبیؐ نے فرمایا جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے پڑوسی سے نیک سلوک کرنا چاہیے ۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ اسے اپنے پڑوسی کی عزت کرنی چاہیے۔اور جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہواسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیے اور جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے ( مسلم )
’’ ایمان کامل‘‘ کی بہت سی علامتوں میں سے تین علامتیں یہ ہیں جن کا ذکر اس حدیث میں ہے۔
مومن کو اپنے پڑوسی کی عزت کرنی چاہیے اور اس سے نیک سلوک کرنا چاہیے مثلاً جب وہ بیمار پڑے تو اس کی عیادت کرو ۔ اور جب وہ قرض طلب کرے تو اسے قرض دو اگر کسی معاملہ میں وہ تمہاری مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرو ۔ اگر اسے معاشی پریشانی ہو تو اس کی اعانت کرو ۔ اگر وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو اسے تسلی دو اور اس سے ہمدردی کا اظہار کرو ۔ اگر وہ نعمت پائے تو اسے مبارک باد دو قرآن میں ہے ۔
’’ اور تم سب اللہ کی بندگی کرو ۔ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو ۔ ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو ۔ قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئو اور پڑوسی رشتہ دار سے ، اجنبی ہمسایہ سے ، پہلو کے ساتھ اور مسافر سے اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں احسان کا معاملہ رکھو یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مفرو ر ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے ۔‘‘ (النساء)
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہل ایمان کو جن حقوق العباد کے ادا کرنے کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ پڑوسی سے احسان کا معاملہ رکھا جائے ۔
پڑوسی چاہے رشتہ دار ہو یا اجنبی ہر حال میں اس سے حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے البتہ اجنبی ہمسایہ کے مقابلہ میں رشتہ دار ہمسایہ کا حق دہرا ہے اس کا ایک تو رشتہ داری کا ہے اور دوسرا ہمسائیگی کا ہے ۔
بہتر پڑوسی
رسولؐ نے فرمایا اللہ کے نزدیک بہتر دوست وہ ہے جو اپنے دوست کے لیے اچھا ہو اور بہتر پڑوسی وہ ہےجو اپنے پڑوسی کے لیے اچھا ہو۔ (ترمذی)
ایک شخص کے بہت سے پڑوسی ہوتے ہیں ان میں سے ہر شخص ایک دوسرے کا پڑوسی ہے بہتر پڑوسی وہ ہے جو اپنے ہمسایہ سے ہمیشہ بھلائی اور احسان کا برتائو کرتا رہے ورنہ اسے نقصان تو نہ پہنچائے۔
رسولؐ اللہ نے فرمایا پڑوسی کے بارے میں جبریل ؑمجھے بار بار تاکید کرتے تھے یہاں تک کہ میں نے خیال کیا کہ وہ ایک پڑوسی کو دوسرے پڑوسی کاوارث قرار دیں گے ( بخاری )
حضرت جبریل علیہ السلام نے پڑوسی کے حقوق کی حفاظت کرنے اور اس کے ساتھ اچھا برتائو کرنے پر بہت زوردیا۔ پڑوسی کے ساتھ اچھا برتائو کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اسے سلام کیا جائے ۔ تحفہ دیا جائے اور اس کی خیر و عافیت معلوم کی جائے اگر وہ کسی تکلیف اور مصیبت میں مبتلا ہو تو اس کی مدد کی جائے اور جب اس سے ملاقات ہو تو مسکراکر بات کی جائے ۔
اس حدیث کے ایک اور راوی حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ کے گھر میں بکری ذبح کی گئی تو انہوں نے فرمایا:
کیا تم نے ہمارے پڑوسی یہودی کو بھی کچھ گوشت کا تحفہ دیا ہے ؟ پڑوسی کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔(مسلم عن انس کتاب الایمان)
نبیؐ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری زندگی ہے کوئی بندہ مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے پڑوسی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیےپسند کرتا ہے ۔( مسلم )
اس شخص کے ایمان میں نقص اور کمزوری ہے جو دنیا کی بھلائیوں اوردین کی نعمتوں کو اپنے لیے تو پسند کرتا ہے اور ان سے فائدہ اٹھاتا ہے لیکن اپنے پڑوسی کو اس سے محروم رکھتا ہے ۔
کونسا پڑوسی ہدیہ کا مستحق ہے ؟
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ میرے دو پڑوسی ہیں میں ان میں سے کس کے یہاں ہدیہ بھیجوں ؟ آپؐ نے فرمایا جس کے گھر کا دروازہ تیرے گھر کے دروازے سے زیادہ قریب ہو ۔ (بخاری )
پڑوسی کے یہاں ہدیہ ، تحفہ بھیجنا مستحب ہے ۔ پڑوسی تو بہت ہوتے ہیں آدمی سب کے یہاں تو ہدیہ نہیں بھیج سکتا تو اس کے یہاں تحفہ بھیجے جس کا گھر اس کے گھر سے زیادہ قریب ہو ۔
پڑوسیوں کے درمیان ہدیہ کا لین دین
نبی ؐ نے فرمایا اے مسلمان خواتین ، پڑوسن ، پڑوسن کےلیے ہدیہ دینے کو حقیر نہ جانے چاہے وہ بکری کا ایک کھُر ہو ۔ (بخاری )
ہر مسلمان عورت کو اپنی حیثیت کے مطابق پڑوسن کے یہاں ہدیہ بھیجتے رہنا چاہیے یہاں تک کہ وہ معمولی چیز کا ہدیہ بھیجنے میں بھی تامل نہ کرے اسی طرح کسی پڑوسن کے یہاں سے آئے ہوئے معمولی ہدیہ کو بھی وہ حقیر نہ جانے بلکہ اسے خوش دلی سے قبول کرے اور ہدیہ دینے والی کا شکریہ ادا کرے اس سے نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کے خلاف ، کینہ اور غصہ دُور ہو جاتا ہے بلکہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرنے لگتی ہیںاور ان کے باہمی تعلقات خوشگوار ہو جاتے ہیں۔
پڑوسی کی خبر گیری کرو
حضرت ابو ذرؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں رسول ؐ نے فرمایا ابو ذرؓ جب تو شور بے والا سالن نکانے لگے تو اس کا پانی زیادہ کردے اور اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری کر ( مسلم )
پڑوسیوں کی خبر گیری کرنے کے معنی یہ ہیں کہ جس پڑوسی کے گھر میں سالن نہ پکا ہو اس کے یہاں کچھ سالن بھیج دیا جائے لیکن اس ہدایت کے برعکس عام طور پر کھاتے پیتے گھروں میں کھانا بہت وافر مقدار میں پکتا ہے ضرورت سے زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ گھر میں خراب ہوتا رہتا ہے وہ اُسے ضائع تو کر دیتے ہیں لیکن کسی پڑوسی کے گھر بھیجنا پسند نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے نوکر اور ملازمہ کو بھی دینا گوار انہیںکرتے حالانکہ نبیؐ نے اس خشک مزاجی اور روکھے پن کو نا پسند فرمایا ہے ۔
مومن پڑوسی کو نہیں ستاتا
نبیؐ نے فرمایا اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہے اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہے اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہے ۔عرض کیا گیا کون اے اللہ کے رسولؐ؟ آپ نےفرمایا جس کے شر سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو ۔(بخاری )
’’ مومن‘‘ کا مصدر ایمان امن سے ماخوذ ہے جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو وہ مفسد اور شر پسند نہیں ہو سکتا اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ مومن اپنے پڑوسی کو ایذا نہیں دیتا ، اس پر ظلم نہیں کرتا ،اس پر بہتان نہیں لگاتا اس کی عزت و آبرو پر حملہ نہیں کرتا بلکہ وہ امن و سلامتی کا پیکر ہوتا ہے۔
نہ صرف یہ کہ پڑوسی اس کے شراور دراز دستی سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ غیر مسلم ہمسائے بھی اس کی شرافت ، امانت اور اخلاق پر اعتماد کرتے ہیں۔
جوشخص اپنی شرارتوں سے ہمسایہ کو پریشان کرتا رہتا ہو اور اپنی فتنہ انگیزی سے اس کا چین چھین لیتا ہو وہ مومن نہیں ہے ۔
ایک دوسری روایت میں ہے ۔
جس کے شر سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو وہ جنت میں نہ جائے گا ۔( مسلم )
پڑوسیوں کے خلاف زبان درازی کی سزا
ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ فلاں عورت کے بارے میں بیان کیا جاتاہے کہ وہ کثرت سے نماز پڑتی ہے اور بہت روز ے رکھتی ہے اور بہت صدقہ کرتی ہے لیکن وہ اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے تکلیف پہنچاتی ہے ۔
آپ ؐ نے فرمایا : وہ دوزخ میں جائے گا۔
اس آدمی نے پھر عرض کیا اے اللہ کے رسول ؐ فلاں عورت کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ تھوڑے روزے رکھتی ہے اور تھوڑی نماز پڑھتی ہے اور صدقہ بھی کم کرتی ہے پنیر کے کچھ ٹکڑے صدقہ کرتی ہے لیکن اپنے پڑوسیوںکو اپنی زبان سے ایذا نہیں دیتی۔
آپؐ نے فرمایا : وہ جنت میں جائے گی۔ (مشکوٰۃ)
پڑوسیوں کے خلاف بد زبانی کرنے والوں کی سزا جہنم ہے چاہے وہ کثرت سے عبادت کرتے ہوں اور صدقہ خیرات کرنے میں فیاض ہوں ۔
پڑوسی ایک دوسرے کی دیوارسے استفادہ کر سکتے ہیں
رسول اللہ ؐ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اپنی دیوار میں پڑوسی کو لکڑی گاڑنے سے نہ روکے ۔(بخاری )
حنفیہ کے نزدیک ضرورت پڑنے پر آدمی اپنے پڑوسی سے اجازت لے کر اس کی دیوار میں لکڑی گاڑ سکتا ہے اور اس پر رکھ سکتا ہے دیوار کے مالک کو چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کو اس سے استفادہ کی اجازت دے کر اجر حاصل کرے لیکن امام احمد ؒ فرماتے ہیں کہ پڑوسی کو دیوار میں لکڑی گاڑنے کا حق ہے چاہے دیوار کا مالک اس کی اجازت نہ دے۔
رسول اللہ ؐ نے فرمایا قیامت کے دن دو جھگڑا کرنے والوں کا مقدمہ سب سے پہلے پیش ہو گا وہ دو پڑوسی ہوں گے ۔( مشکوٰۃ)
ایک آدمی نے نبیؐ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول جب میں نیکی کروں تو مجھے کیسے معلوم ہو کہ میں نے نیکی کی ہے یا جب میں برائی کروں تو مجھے کیسے معلوم ہو کہ میں نے برائی کی ہے ؟
نبیؐ نے فرمایا جب تُو اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے سُنے کہ تُونے نیکی کی ہے تو بے شک تُونے نیکی کی ہے اور جب تو اُن کو یہ کہتے ہوئے سُنے کہ تو نے برائی کی ہے تو بے شک تُونے برائی کی ہے ۔( مشکوٰۃ)
سب پڑوسیوں کی اجتماعی رائے کے غلط ہونے کا امکان بہت کم ہوتا ہے ۔ اس لیے اپنے بارے میں ان کی رائے کو اہمیت دینی چاہیے۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x