ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

دوسرا اورآخری حصہ – دعا عبادت کا مغز – ڈاکٹر میمونہ حمزہ

حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ کی اللہ تعالیٰ سے دعائیں افراد کے لیے بھی ہیں، قوم اور نسل کے لیے بھی ہیں اور معزز اور محترم شہر کے لیے بھی۔آپؑ کی زندگی اہلِ ایمان کے لیے بہترین اسوہ ہے۔ کافر باپ کے لیے دعا کا وعدہ کیا لیکن جب معلوم ہو گیا کہ وہ تو دشمن ِ خدا ہے تو اس سے بھی رک گئے۔ حضرت ابرائیمؑ نے مکہ شہر کے لیے دعا ئے امن کی تھی، اور اولاد کو بت پرستی سے بچانے کی:
’’پروردگار اس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا‘‘۔ (ابراہیم،۳۵)
یہ وہ انعامات ہیں جو اللہ نے انھیں دیے تھے اور وہ ان کا دوام مانگ رہے ہیں۔فرمایا:
’’پروردگار! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصّے کو تیرے محترم گھر کے قریب لا بسایا ہے۔ پروردگار! یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز ادا کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انھیں کھانے کو پھل دے، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں‘‘۔ (ابراہیم،۳۷)
اس دعا میں کس قدر رقت ہے اور فضا میں کس قدر سرور ہے، دل میں کتنا گداز پیدا ہوتا ہے۔ اور مشتاقانِ دید اڑ اڑ کر اس شہر پر گرتے نظر آتے ہیں۔ اور اس دعا میں بڑی تروتازگی ہے۔
حضرت ابراہیمؑ کی دعا شکر سے لبریز بھی ہے:
’’شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیلؑ اور اسحاقؑ جیسے بیٹے دیے، حقیقت یہ ہے کہ میرا رب ضرور دعا سنتا ہے۔ اے میرے پروردگار! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی (ایسے لوگ اٹھا جو یہ کام کریں)۔ پروردگار! میری دعا قبول کر‘‘۔ (ابراہیم،۳۹۔۴۰)
خشوع وخضوع سے بھرپور اس دعا میں اللہ کی بے بہا نعمتوں اور ان پر شکر کے مناظر دکھائے گئے ہیں، جس میں گفتگو نہایت دھیمے انداز میں کی گئی ہے، اللہ کا ذاکر اور شاکر بندہ اللہ تعالیٰ سے اسی طرح مخاطب ہو کر دعائیں مانگتا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نبوت سے پہلے بھی غلطی سے قتل ہو جانے پر اپنے ہاتھ اللہ کی جانب پھیلا دیے اور فوراً استغفار کیا:
’’اس نے کہا: اے میرے رب میں نے اپنے نفس پر ظلم کر ڈالا ہے، میری مغفرت فرما دے۔ پس اللہ نے اسے معاف کر دیا۔ وہ الغفور الرحیم ہے‘‘۔ (القصص،۱۶)
موسیٰ ؑ نے اپنے کانپتے ہوئے دل اور تیز احساس اور اپنی توجہ الی اللہ سے محسوس کر لیا کہ ان کے رب نے انھیں بخش دیا ہے۔ قلبِ مومن کو جب اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے، اور اس کی دعا قبول ہوتی ہے تو اسے احساس ہو جاتا ہے کہ اللہ نے اس کی دعا قبول کر لی ہے۔اور قبولیت کے احساس کے ساتھ ہی موسیٰـ علیہ السلام پر شکر کی کیفیت طاری ہوتی ہے، اور وہ بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں۔ ’’اے میرے رب! یہ احسان جو تو نے مجھ پر کیا ہے اس کے بعد میں کبھی مجرموں کا مددگار نہ بنوں گا‘‘۔ (القصص،۱۷) حضرت موسیٰ ؑ یہ عہد اس لیے کر رہے ہیں کہ اللہ نے ان کی دعا قبول کر لی ہے، اور یہ کیسا پیارا شکر کا طریقہ ہے۔ (دیکھیے، فی ظلال القرآن)
حضرت موسیؑ کا سفرِ مدین موقع موقع پر دعاؤں کے زادِ راہ پر مبنی ہے، جونہی فرعون کے سرداروں میں اپنے قتل کی خبر سنتے ہیں تو مدین کی راہ لیتے ہیں اور ڈرتے سہمتے اللہ سے فریاد کرتے ہیں: ’’اے میرے رب مجھے ظالموں سے بچا‘‘۔ (القصص،۲۱)
اور جب مدین میں ایک سایہ دار جگہ بیٹھتے ہیں تو اللہ سے دعا گو ہیں: ’’پروردگار! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں‘‘۔ (القصص،۲۴)
دنیا میں ایک عارضی سایہ دار جگہ انہیں مل گئی تھی، وہاں بیٹھ کراللہ کے سامنے اپنے فقر اور احتیاج کاتذکرہ کیا، اور ہر طرح کی خیر طلب کی۔ جسے اللہ نے فوراً ہی قبول کر لیا۔ اللہ دعا مانگنے والوں کے انتہائی قریب ہے۔فوراً ہی انہیں اجرت عطا کرنے کے لیے طلب کیا گیا، جہاں انھیں گھر بھی مل گیا اور زوجہ بھی۔
مدین سے واپسی پر جب انہیں نبوت ملی اور فرعون کو راہِ راست کی جانب بلانے کا کام سپرد کیا تو موسیٰ ؑ نے اسی رب کو پکارا، اور آسانی مانگی:
’’عرض کیا، ’’پروردگار، میرا سینہ کھول دے اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ سلجھا دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں‘‘۔ (طہ ، ۲۵۔۲۸)
حضرت موسیؑ ٰکے سپرد جو کام کیا گیا وہ بڑا دل گردے کا کام تھا، اس لیے آپ نے دعا کی کہ مجھے وہ صبر وثبات، وہ تحمل، وہ بے خوفی اور وہ عزم عطا کر جو اس کام کے لیے درکار ہے۔ (تفہیم القرآن، جلد۳،ص۹۲)
فرعون کے بنی اسرائیل پر ظلم و ستم پر فرعون کے لیے بد دعا کی: ’’اے ہمارے رب تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زینت اور اموال سے نواز رکھا ہے۔ اے رب کیا یہ اس لیے کہ وہ لوگوں کو تیری یاد سے بھٹکائیں؟ اے رب! ان کے مال غارت کر دے، اور ان کے دلوں پر ایسی مہر لگا دے کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں‘‘۔ (یونس، ۸۸)
یہ دعا حضرت موسیٰؑ نے قیامِ مصر کے آخری زمانے میں کی تھی۔
حضرت داؤدؑ بنی اسرائیل کے فئۃ قلیلۃ (گروہِ قلیل) کے ساتھ جالوت کے لشکر سے مقابلہ کے لیے آمنے سامنے ہوئے، تو چلو بھر پانی پینے کے بعد ان پر طمانیت اور سکینت نازل ہو چکی تھی، اور وہ اس ہولناک معرکے کے لیے تیار تھے اور رب کے حضور یوں فریاد کر رہے رہے:
’’اے ہمارے رب! ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب فرما‘‘۔ (البقرۃ،۲۵۰)
تو اللہ نے ان کو وہی نتیجہ دکھا دیا جس کے وہ منتظر تھے۔حضرت داؤد (ایک چھوٹی عمر کے لڑکے)نے جالوت (شہنشاہ )کو قتل کر دیا، اور فتح طالوت کے لشکر کا مقدر ٹھہری۔
حضرت سلیمانؑ کی آزمائش ہوئی تو انہوں نے اپنے رب کی جانب انابت اور رجوع کر لیا اور مغفرت طلب کی، کہا:
’’اے میرے رب مجھے معاف کر دے اور مجھے بادشاہی دے جو میرے بعد اور کسی کے لیے سزاوار نہ ہو، بے شک تو ہی اصل داتا ہے‘‘۔ (ص،۳۰)
اس دعا سے مراد یہی ہے کہ وہ اللہ سے ایسی خصوصیات چاہتے تھے جو معجزانہ ہوں۔ یعنی ان کو حکومتی اقتدار چلانے کے لیے معجزانہ قوتیں دی جائیں، اور تمام دوسرے ذی اقتدار لوگوں سے یہ اقتدار مختلف ہو۔ اس کی متعین شکل ہو، جس کی مثال تاریخِ انسانی میں نہ ہو، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ویسی ہی حکومت عطا کر دی اور اس کے بعد آئندہ کسی کو ایسی حکومت نہ دی جائے گی۔ (فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
حضرت زکریاؑ نے اپنے بعد اپنے اہل و عیال کے لیے اور ان کے دین اور مال کے لیے ایک اچھے جانشین کے لیے دعا مانگی،بڑھاپے میں مانگی جانے والی دعا کو اللہ تعالیٰ نے فورا ًقبولیت عطا فرمائی، اور بانجھ بیوی سے (جو ولادت کے قابل ہی نہ تھی) یحیی عطا کر دیا:
’’اور زکریا کو، جبکہ اس نے پکارا کہ اے پروردگار مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور بہترین وارث تو تو ہی ہے‘‘۔ (الانبیاء،۸۹)
اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کی اور استجابتِ دعا کا سبب بھی بتایا کہ ’’یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور وہ ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے‘‘۔ (الانبیاء،۹۰)یہی وہ صفات تھیں جن کی بنا پر جناب زکریاؑ اور ان کی اہلیہ اس بات کے مستحق ہوئے کہ انہیں غیر معمولی طور پر یحیی سا بیٹا دیا جائے۔یعنی یہ ایک مبارک خاندان تھا، اللہ کی رحمت و رضا کا مستحق!! (فی ظلال القرآن)
’’(اور یہی ہوش مندی اور علم و عمل کی نعمت) ہم نے ایوبؑ کو دی تھی۔ یاد کرو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے‘‘۔ (الانبیاء،۸۳)
دعا کا انداز کس قدر لطیف ہے۔ مختصر ترین الفاظ میں اپنی تکلیف کا ذکر کرتے ہیںاور اس کے بعد بس اس قدر کہہ کر رہ جاتے ہیں کہ تو ارحم الراحمین ہے۔ آگے کوئی شکایت اور شکوہ نہیں، کسی چیز کا مطالبہ نہیں۔ (تفہیم القرآن)
حضرت ایوبؑ اس اعتماد اور مودبانہ طریقے سے مخاطب ہوئے تو اللہ نے فوراً ان کی دعا قبول کر لی۔ آزمائش ختم ہو گئی اور رحمت خداوندی آن پہنچی۔نہ صرف ان کی تکلیف دور ہوئی بلکہ ان کے اہل و عیال بھی ان کو دے دیے گئے اور اسی قدر مزید بھی۔ (فی ظلال القرآن)
حضرت یونسؑ کو قرآن میں ذو النون بھی کہا گیا ہے۔انہیں جس علاقے میں دعوت کے لیے بھیجا گیا تھا ، وہاں کے لوگوں نے ان کی ایک نہ مانی، ان کو ان پر بہت غصّہ آیا اور وہ ناراض ہو کر وہاں سے چلے گئے، حالانکہ انھیں ہجرت کا حکم نہ آیا تھا اور انھوں نے کشتی میں بیٹھ کر وہاں سے نکل جانے کا ارادہ کیا۔ کشتی کو ہلکا کرنے کے لیے قرعہ اندازی کی گئی، تو ان کا نام نکل آیا، اور لوگوں نے انہیں سمندر میں پھینک دیا یا وہ خود کود گئے۔ ان کو ایک مچھلی نے نگل لیا، آخر کو انھوں نے تاریکیوں میں پکارا: ’’نہیں ہے کوئی خدا مگر تو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں ہی ظالموں میں سے تھا‘‘۔( الانبیاء،۸۷)
دعوت ِ اسلامی کے حاملین کے لیے اس میں بڑا سبق ہے، کہ وہ اپنے اندر صبراور برداشت پیدا کریں اور ثابت قدمی کا مشاہدہ کریں، اور دعوت کے کام سے مایوس نہ ہوں۔ دلوں میں از سرِ نو اصلاح کا جذبہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ حضرت یونسؑ کی دعا ، اندھیروں کے اندر مچھلی کے پیٹ میں ان کی دعا اور اللہ کی طرف سے اس کی قبولیت میں داعیان ِ حق کے لیے بھی خوشخبری ہے، کیونکہ اس کے بعد فرمایا: ’’اور اسی طرح ہم مومنوں کو بچا لیا کرتے ہیں‘‘۔
رسول اللہ ﷺ کو مکی دور کے انتہائی سخت زمانے میں اللہ تعالیٰ نے دعا سکھائی:
’’اور دعا کرو کہ پروردگار! مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال، اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے‘‘۔(بنی اسرائیل،۸۰)
یہ وہ دعا ہے جو اللہ نے اپنے نبی کو سکھائی تاکہ وہ ان الفاظ میں اللہ کو پکارے۔ اور آپ کے بعد آپؐ کی امت کو بھی معلوم ہو کہ وہ کس طرح اللہ کو پکارے۔اور کن معاملات میں اللہ کی طرف متوجہ ہو۔ یعنی دعا یہی ہونی چاہیے کہ صدق کا دامت کسی طور ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ تم جہاں سے نکلو صداقت کی خاطر نکلو، اور جہاں بھی جاؤ صداقت کے ساتھ جاؤ۔
یہ دعا جب اللہ تعالیٰ نے خود اپنے نبی کو سکھائی ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اقامتِ دین اور نفاذِ شریعت اور اجرائے حدود اللہ کے لیے حکومت چاہنا اور اس کے حصول کی کوشش کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ مطلوب ومندوب ہے۔ (تفہیم القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
یہ انبیاء علیھم السلام کی چند دعائیں ہیں جو دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اسے پکارتے تھے، ان کا خوف بھی اللہ سے تھا اور امیدیں بھی اسی سے وابستہ تھیں۔یہی فلاح اور سعادت پانے کا راستہ ہےجس پر چل کر اللہ کی اعانت سے کوئی محروم نہیں ہوتا۔ اور وہ اللہ سننے والا اور باخبر ہے۔
عبادت کا جوہر
دعا کا بنیادی جوہر یہ ہے کہ انسان دل کی گہرائیوں سے پورے خلوص سے دعا مانگے اور اسے یقین ہو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اور دنیا بھر کے تمام جن و انس کی دعائیں پوری کرنے اور ان سب کو عطا کر کے بھی اس کے خزانوں میںاتنی کمی بھی واقع نہیں ہوتی جتنی سوئی کو سمندر میں ڈالنے اور نکالنے سے اس کو لگنے والے پانی جتنی ۔ اللہ تعالیٰ جو کرنے کا ارادہ کرے تو وہ ’’کن‘‘ کہتا ہے اور (فیکون) یعنی ’’وہ ہو جاتا ہے‘‘۔ دعا مانگ کر بندہ یہ نہ کہے کہ میری دعا قبول نہ ہوئی، اور مایوسی کا شکار نہ ہو، کیونکہ اللہ کے ہاں قبولیت کے کئی طریقے ہیں۔
یقیناً دعا مانگنے کے اثرات انسان پر نہایت مثبت مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا سینہ کشادہ ہو جاتا ہے، اور وہ اپنے اندر اطمینان انڈیلتا ہؤا محسوس کرتا ہے کیونکہ دعا عبادت کا جوہر ہے۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’دعا ان مصیبتوں میں نفع دیتی ہے جو نازل ہو گئی ہیں، اور ان میں بھی نفع دیتی ہے جو ابھی نازل نہیں ہوئیں۔ تو اے لوگو تم پر لازم ہے کہ اللہ سے دعا مانگو‘‘۔ (مستدرک حاکم،کتاب الدعا والتھلیل،۱۸۵۸)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جو آدمی اللہ سے سوال نہ کرے تو وہ اس پر غضب فرماتا ہے‘‘۔ (رواہ الترمذی، ۳۳۸۴)
حضرت ابنِ مسعود کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ سے اس کا فضل مانگو، کیونکہ اللہ پسند فرماتا ہے کہ اس سے مانگا جائے‘‘۔ (رواہ الترمذی)
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک کو اپنی ہر حاجت اللہ سے مانگنی چاہیے حتیٰ کہ اگر اس کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ جائے تو اللہ سے دعا کرے‘‘۔ (رواہ الترمذی)
دعا کے فضائل
٭’’ اللہ کے نزدیک کوئی چیز دعا سے افضل نہیں‘‘۔(رواہ الترمذی، ۳۳۸۱)
٭ ’’دعا مسلمانوں کا ہتھیار، دین کا ستون اور زمین و آسمان کا نور ہے‘‘۔ (مستدرک حاکم،۱۸۵۵)
٭ ’’دعا مصیبت اور بلا کو اترنے نہیں دیتی‘‘۔ (مستدرک حاکم،۱۸۵۶)
٭ ’’دن رات اللہ سے دعا مانگنا دشمن سے نجات اور رزق وسیع ہونے کا ذریعہ ہے‘‘۔ (مسند ابی یعلی، ۱۸۰۶)
دعا کی قبولیت کی شرائط
’’وہ ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں کی دعائیں قبول کرتا ہے اور اپنے فضل سے ان کو اور زیادہ دیتا ہے۔ رہے انکار کرنے والے، تو ان کے لیے دردناک سزا ہے‘‘۔ (الشوریٰ، ۲۶)
مفسرین نے دعا کی قبولیت کی کچھ شرائط بیان کی ہیں:
۱ ۔ دعا مانگنے میں اخلاص ہو۔
۲ ۔دعا مانگتے ہوئے دل اللہ کی جانب متوجہ ہو۔ اور غافل دل سے دعا نہ مانگی جائے۔
۳ ۔ایسی دعا نہ مانگی جائے جس کا مانگنا شرعی طور پر ممنوع ہو۔
۴ ۔دعا مانگنے والا اللہ کی رحمت پر یقین رکھتا ہو۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ سے دعا مانگو، اس یقین کے ساتھ کہ وہ قبول فرمائے گا‘‘۔ (رواہ الترمذی)
۵ ۔اگر دعا کی قبولیت ظاہر نہ ہو تو وہ شکوہ نہ کرے کہ میں نے دعا مانگی اور قبول نہ ہوئی۔(خزائن العرفان المومن، ص۸۷۳)
۶ ۔دعا مانگنے والا قطعیت سے دعا مانگے۔ حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص دعا مانگے تو یوں نہ کہے کہ ، خدایا مجھے بخش دے اگر تو چاہے، مجھ پر رحم کر اگر تو چاہے، مجھے رزق دے اگر تو چاہے، بلکہ اسے قطعیت کے ساتھ کہنا چاہیے کہ خدایا! میری فلاں حاجت پوری کر‘‘۔ (رواہ البخاری)
تقدیر اور دعا
کبھی انسان سوچتا ہے کہ اگر سب کچھ تقدیر میں لکھا ہے تو دعا مانگنے سے کیا حاصل ہو گا؟
سید مودودیؒ کہتے ہیں: ’’یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے جو آدمی کے دل سے دعا کی ساری اہمیت نکال دیتی ہے، اور اس باطل خیال میں رہتے ہوئے اگر آدمی دعا مانگ بھی لے تو اس دعا میں روح باقی نہیں رہتی۔ قرآن میں ہے: تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘۔ (المومن، ۶۰)
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قضا اور تقدیر کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس نے ہماری طرح، معاذ اللہ! خود اللہ تعالیٰ کے بھی ہاتھ باندھ دیے ہوں اور دعا قبول کرنے کے اختیارات اس سے سلب ہو گئے ہوں۔ بندے تو بلا شبہ اللہ کے فیصلوں کو ٹالنے یا بدل دینے کی طاقت نہیں رکھتے، مگر اللہ خود یہ طاقت ضرور رکھتا ہے کہ کسی بندے کی دعائیں اور التجائیں سن کر اپنا فیصلہ بدل دے۔
اور دعا مانگنا بجائے خود ایک بہت فائدے کی چیز ہے خواہ دعا قبول ہو یا نہ ہو۔ اس کا بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ بندہ دعا کے ذریعے اپنے رب سے جڑ جاتا ہے۔ وہ اس کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کرتا ہے، اس سے دعا مانگ کر اس کی آقائی و بالا دستی اور اپنی بندگی و عاجزی کا اقرار کرتا ہے۔ یہ اظہارِ عبودیت بجائے خود عبادت بلکہ جانِ عبادت ہے، جس کے اجر سے بندہ کسی حال میں بھی محروم نہ رہے گا، قطع نظر اس کے کہ خاص وہ چیز اس کو عطا کی جائے یا نہ کی جائے جس کے لیے اس نے دعا کی تھی۔
رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’قضا کو کوئی چیز نہیں ٹال سکتی مگر دعا‘‘۔ (رواہ الترمذی)
یعنی اللہ کے فیصلے کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے مگر اللہ خود اپنے فیصلے کو بدل سکتا ہے، اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب بندہ اس سے دعا مانگتا ہے۔
قبولیتِ دعا کی صورتیں
حضرت جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’آدمی جب کبھی اللہ سے دعا مانگتا ہے، اللہ یا تو اسے وہی چیز دیتا ہے جس کی اس نے دعا کی تھی یا اسی درجے کی کوئی بلا اس پر آنے سے روک دیتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے‘‘۔ (رواہ الترمذی)
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ؐ نے فرمایا: ’’ایک مسلمان جب بھی کوئی دعا مانگتا ہے بشرطیکہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ اسے تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں قبول فرماتا ہے: یا تو اس کی وہ دعا اسی دنیا میں قبول کر لی جاتی ہے۔ یا اسے آخرت میں اجر دینے کے لیے محفوظ رکھ لیا جاتا ہے۔ یا اسی درجے کی کسی آفت کو اس پر آنے سے روک دیاجاتا ہے‘‘۔ (مسند احمد)
دعاکا انداز
اللہ سے دعائیں چپکے چپکے اور گڑگڑا کر مانگنا ہی مطلوب ہے:
’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے، یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (الاعراف،۵۵)
اللہ کی جلالتِ شان کے لائق یہ ہے کہ انسان اسے نہایت نرم اور دھیمی آواز سے پکارے اور اس انداز میں جس سے معلوم ہو کہ اللہ قریب ہے اور سن رہا ہے۔
حضرت ابو موسیٰؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ؐ کے ساتھ سفر میں تھے۔ایک روایت کے مطابق غزوہ میں تھے، لوگوں نے زور زور سے اللہ اکبر کہنا شروع کر دیا۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: لوگو ذرا نرمی کے ساتھ اور اپنے دل میں پکارو، تم کسی بہرے کو نہیں پکار رہے اور نہ کسی ایسے شخص کو پکار رہے ہو جو غائب ہے، تم تو سننے والی قریب ذات کو پکار رہے ہو جو تمہارے ساتھ ہے۔(فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
توسل اختیار کرنا
دعا مانگتے ہوئے جائز توسل اختیار کیا جا سکتا ہے، جیسے اسماء الحسنی کے وسیلے سے، یا اس کی بلند و بالا صفات کے واسطے سے، اور بندہ اپنے اعمالِ صالحہ کو بھی وسیلہ بنا کر دعا مانگ سکتا ہے۔اور معاشرے کے نیک افراد سے بھی دعا کرنے کا کہہ سکتا ہے۔
ہر مضطرب کا سہارا
’’کون ہے جو مضطرب دل کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف کو رفع کرتا ہے؟‘‘۔ (النمل،۶۲)
انسانوں کی حالت ایسی ہے کہ جب وہ امن، عافیت اور خوش حالی میں ہوتے ہیں تو وہ غفلت میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ ذاتِ باری کو بھول جاتے ہیں۔ پھر وہ زمین کی کسی قوت سے نصرت وامداد طلب کرتے ہیں۔ لیکن جب سختی آتی ہے اور انتہائی کرب کے حالات میں وہ گھر جاتے ہیں تو اس وقت غفلت کے پردے اتر جاتے ہیں اور اس وقت وہ گڑگڑا کر اپنے رب کی طرف لوٹتے ہیں۔اور وہ قریب اور علیم و خبیر رب اپنی شان کے ساتھ ان کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے۔ اور جس کا اتنا پیارا رب اس کے دل میں اٹھنے والے احساسات سے بھی باخبر ہو اور بن کہے بھی اس کی ضروریات اور خواہشات کو ہر آن پورا کر رہا ہو، آخر وہ اسے کیوں نہ پکارے، محبت اور اخلاص کے ساتھ، اور یقین کے ساتھ اپنی جھولی اس کے سامنے پھیلا دے۔
ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔
ربّنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم!!
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x