ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ابتدا تیرے نام سے – صائمہ اسما

قارئین کرام سلام مسنون!
غزہ میں زمینی جنگ جاری ہے اور مزاحمت کی قوتیں اس بے جگری سے لڑ رہی ہیں کہ قابض فوج کواپنی کامیابی کا وہم تک نہیں ہونے دیا۔ شہریوں کے قتل عام پردنیا میں احتجاج کا دائرہ اس قدر وسیع ہوگیا ہے کہ بعض ممالک میں ان کی تاریخ کے بڑے مظاہرے ہورہے ہیں۔تازہ معرکے میں فلسطینیوں نے جانیں دے کر نئے سرے سے اپنا مقدمہ بطور مقبوضہ محصور آبادی دنیا کے سامنےپوری قوت سے پیش کیا ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل کی حمایت تاریخ کی نچلی ترین سطح پر آگئی ہے۔اس مقام پر اگر عرب ممالک ذرا سی بھی حمیت دکھائیں اور مسلم دنیا کو ساتھ ملائیں تو فلسطین کی آزادی کچھ بھی دور نہیں،مگر افسوس ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھی مہینےبھر سے اسلام آباد میں دھرنا دیےاحتجاج کررہے ہیں۔ان کے لانگ مارچ پر اسلام آباد میں داخل ہونے پر لاٹھی چارج کیا گیا،راستہ روکا گیا اور شہر سے باہر دھکیلنے کی کوشش کی گئی مگرسوشل میڈیا پر بات اتنی پھیل گئی کہ اتھارٹیز کے لیے مشکل پیدا ہوگئی۔ ان کا مطالبہ ان کے غائب کیے گئے افراد کی بازیابی ہے ۔ بہت عرصے سے بلوچستان میں یہ حالات ہیں کہ لوگوں کو اٹھا لیا جاتا ہےاور پھر ان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کس حال میں ہیں، زندہ بھی ہیں یا نہیں۔نہ ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی ہوتی ہے، نہ عدالتوں میں مقدمات چلائے جاتے ہیں ، نہ ان کے جرائم کی تفصیل بتائی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں چھوڑا جاتا ہے۔اب ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں بھی وزیراعظم نے کہا کہ یہ ایجنڈے پر آئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ایجنڈے پہ آئے ہیں تو کھل کر ان کا ایجنڈا عوام کو بتائیں،ان کا ایجنڈا اوپن کریں۔عوام کبھی بھی ملک دشمنوں کا ساتھ دینے والوں اور علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائی کی مخالفت نہیں کریں گے۔لیکن اگر بلوچ عوام کے جائز مطالبات کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو اٹھا لیا جاتا ہے اور ان کو ملک دشمنوں کے زمرے میں ڈال دیا جاتا ہے تو یہ نہایت ظلم ہے۔اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اگر یہ ملک دشمنی کے ایجنڈے پر ہوتے تو ریاستِ پاکستان کے آگے پر امن احتجاج کی صورت اپنے مطالبات اور فریاد لے کر کیوں آتے؟ بلوچوں کے اس احتجاج کی حمایت گوادر کی حق دو تحریک نے بھی کی ہے ۔اب اگر ان کی دادرسی نہ کی گئی توخدشہ ہے انہی میں سے ایسے لوگ نکلیں گے جو اپنا ردعمل غیر قانونی طریقوں سے ظاہر کریں گے۔
ملک دشمن ایجنڈے رکھنے کی بات بھی ناقابل فہم ہے۔ اسی بلوچستان میں دشمن کے جاسوس کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا گیا۔ اگر دشمن ہونے کے ناطےاس کو ہم اب تک کیفر کردارتک نہیں پہنچا سکے تو دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنے کے الزامات پر اپنے لوگوں کو غائب کرکے حراست میں رکھنے کا ہمارے پاس کیا جواز ہے؟ملک میں اپنی ہی آبادی کے ایک حصے کو انصاف نہ ملنا اور طاقت سے دبا کر خاموش کروانے کی کوشش کرناصحیح رویہ نہیں ہے نہایت بدقسمتی کی بات ہے کہ اس سے پہلے ہم یہی رویہ بنگالیوں کے ساتھ روا رکھ چکے ہیں جس کے نتیجے میں ہمیں ملک کا ایک حصہ گنوانا پڑا۔ اس وقت بھی طاقت کے مراکز اورمقتدر حلقوں میں اپنے اپنے مفادات کا کھیل جاری تھا اور ملک بچانے کی فکر کسی کو نہیں تھی۔یہی معاملہ آج بھی نظر آرہا ہے۔ ماہ رنگ بلوچ نے کھل کر کہا ہے کہ بلوچوں کو مارنے اور بھتہ لینے دینے کا عمل جاری ہے۔وہ لوگ نہایت تکلیف دہ صورتحال سے گزر رہے ہیں جن کو اپنے پیاروں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔لاپتہ کرنے کی بجائے قانونی تقاضے پورے کرکے سزا دی جائےتو بہت سے مسائل حل ہو جائیں۔
اس وقت ہر محب وطن شہری کی یہ خواہش اور مطالبہ ہے کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کروائیں،انہیں رہا کریں یا ان پر عدالتوں میں مقدمے چلائے جائیں۔اسی طرح کے حالات صوبہ کے پی میں بھی پیدا کیے گئے ہیں۔افغانستان سے ہم کشیدگی الگ پال چکے ہیں۔ چالیس پینتالیس سال جن افغانیوں کو کھلے دل اور کھلے بازوؤں کے ساتھ سنبھالا، ان کی نسلیں یہاں پروان چڑھیں اور وہ خود کو پاکستانی سمجھنے لگے، ان کو چند دنوں کے نوٹس پر جس طریقےسے یوں دیس نکالا دیاگیاوہ ہماری مہمان نوازی کی روایات کے مطابق نہیںتھا۔ کہ بطور پاکستانی سر شرم سے جھک گیا۔ بین الاقوامی آداب سفارت کاری میں ایسے کاموں کا بھی کوئی باوقار طریقہ ہوتا ہے۔کم از کم طورخم پر ایک باوقار تقریب تو منعقد کرہی سکتے تھے کہ پاکستان کی خدمات کا دنیا کوبھی معلوم ہوتا،اور افغانستان بھی اعتراف کرتا۔

پاسِ اُلفت نہ سہی میرا بھرم تو رکھ لے
میں نے لوگوں کوتجھے اپنا بتا رکھا ہے

سرورق پر اس بار ’’امید کی شہزادی‘‘ کی تصویر ہے۔ بلوچستان میں مکران کے ساحل پر ہنگول نیشنل پارک کے علاقے میں یہ قدرتی مجسمہ ایستادہ ہے۔اسے یہاں گھومنے والی بحیرہ عرب کی ہواؤں نے برسوں میں تراشا ہے۔مکران کوسٹل ہائی وے پر سفر کریں تو دونوں طرف حدِّ نگاہ تک بھربھری زرد چٹانیں پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان چٹانوں میں ساحلی ہواؤں کی سرمستیوں نے کسی ماہر سنگ تراش کی طرح ایسے ایسے نقش ابھار رکھے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ امید کی شہزادی کی طرح ایک ابو الہول کا مجسمہ بھی ہے، کئی جگہوں پر لگتا ہے خیمہ بستیاں بسی ہوئی ہیں یاٹوپی برقع پہنے افغان عورتوں کی قطاریں کھڑی ہیں۔ کہیں منظر ایسا جیسے کسی پرانے شہر کے کھنڈرات کی سکائے لائن ہو۔اور یہ سب ہوا کے ہاتھوں نے کیا ہے۔ مائیکل اینجلو نے کہا تھا کہ مجسمہ تو پتھر میں پہلے ہی موجود ہوتا ہے، میں صرف فالتو پتھر اس کے گرد سے تراش دیتا ہوں، تو بحیر ہ عرب کی ہوائیں ان پہاڑوں میں چھپے مجسمے نہ جانے کب سے دریافت کررہی ہیں اور کب تک کرتی رہیں گی!اس وقت تو دعا ہے کہ امید کی شہزادی ،اس سونا اگلتی بلوچ سرزمین کے لیےپاکستان کا ایک خوشحال، پرامن اور استحصال سے پاک صوبہ ہونے کی جو آس لگائے بیٹھی ہے، اس کی یہ آس جلد پوری ہو،آمین۔
نئے سال کا آغاز ہے۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جاچکا ہے ۔ ہوں گے یا نہیں یہ وقت ہی بتائے گا مگر ان کے نتائج کہاں تک حقائق کے آئنہ دار ہوں گے، اس بارے میں بے شمار تحفظات بجا طور پہ پائے جاتے ہیں۔ انتخابات عوامی رائے کے ذریعے حکومت بنانے کا عمل ہے مگر اس کوہمارے ہاں ایک ظاہری مشق بنا کر رکھ دیا گیا ہےجبکہ فیصلے کہیں اور ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس ملک کو ایسی عوامی بیداری کی ضرورت ہے جس کے آگے طے شدہ فیصلوں کی کوئی حیثیت نہ رہے۔

کند تلوار سے طاقت نہیں ملنے والی
بزدلی سے کبھی ہمت نہیں ملنے والی
قد بڑھائے ہوئے کچھ ذہن کے بونے نکلے
اس نمائش سے تو قامت نہیں ملنے والی

 

اگلے ماہ تک اجازت بشرطِ زندگی۔ دعاگو طالبہ دعا
صائمہ اسما

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x