ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

خاص مضمون – محصور فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم کی مذہبی بنیادیں – ڈاکٹرحافظ محمد ثانی

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا کی اصلاح کی سب سے زیادہ امید اس قوم سے کی جا سکتی ہے ، جو حضرت نوح علیہ السلام کے بعد ان کی اولاد میں سب سے پہلے وحی الٰہی کی امانت دار بنی، اسی لیے قرآن نے ان سے کہا : وَلَا تَکُوْ نُوْ ا اَوّلَ کَافِرِ بِہٖ( البقرہ /۴۱)اور سب سے پہلے تم ہی پیغام ِ الٰہی کے منکرنہ بنو ، مگر یہ قوم سخت جان ہونے کے ساتھ ساتھ سخت دل بھی ثابت ہوئی ۔ اس نے مختلف زمانوں میں اپنے پیغمبروں کو جھٹلایا، انہیں تکلیفیںدیں ، بلکہ قتل تک کر ڈالا، حضرت موسیٰ ؑاور ان کے بعد کوئی پیغمبر ایسانہ ہوگا ، جس نے ان کی سنگ دلی کا ماتم نہ کیا ہو اور ان کی سر کشی پر ان کے حق میں بد دعا نہ کی ہو ۔ ان کی سر کشی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے انبیاء کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا ۔قرآن کریم کا بیان ہے :
’’ اور وہ نا حق پیغمبروں کو قتل کر تے ہیں ، اس لیے کہ وہ نا فرمان اور حد سے بڑھنے والے ہیں‘‘ ۔(البقرہ۶۱)
’’ سورہ آل عمران ‘‘ میں اس سے بھی بڑھ کر ہر حق کی داعی اور خیر کے مبلغ کے قتل کردینے کا الزام بھی ان پر بجا ہے :
’’بے شک ، وہ لوگ جو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے اور پیغمبروں کانا حق قتل کرتے اور ہر اس شخص کی زندگی کے دشمن بن جاتے ہیں، جو انہیں انصاف اورنیکی کا حکم دیتے ہیں ، تو انہیں دردناک عذاب کی خبر دے دیجیے‘‘۔( آل عمران ۲۱)
سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران میںیہودیوں کی سر کشی اور ان کے ایک ایک عیب کو کھول کر بیان کیا گیا ہے ۔ ان کی مذہبی انتہا پسندی ، سنگ دلی اورتعصب کا سب سے درد ناک سانحہ وہ ہے ، جو اسلام کی آمد سے ۰،۶۰ برس پہلے یمن میں پیش آیا کہ یہودیوں نے بحران کے عیسائیوں کو گڑھوں میں آگ جلا کر ان میں جھونک دیا ۔ قرآن کریم نے اس مذہبی انتہا پسندی اور ظلم وتشدد پر مبنی پُر درد داستان کو ان لفظوں میں بیان کیا ہے :
’’گڑھے والے لوگ مارے گئے ، بھڑکتی آگ کے گڑھے ، جب وہ ظالم ان کے کنارے بیٹھے ایمان والوں کے ساتھ جوکر رہے تھے ، اسے دیکھ رہے تھے ، ان کا گناہ یہی تھا کہ وہ غالب اورخوبیوںوالے خدا پرایمان رکھتے تھے‘‘ ۔(البروج۴ تا۸)
یہودیوں کی مذہبی تاریخ جبر و تشدد، قتل و غارت گری اور مذہبی انتہا پسندی سے عبارت ہے ۔ متعدد انبیائے کرام کو انہوں نے قتل کیا ، حضرت عیسیٰؑ اورخودرسول اکرمؐ کے قتل کی کوششوں میںوہ پیہم مصروف رہے ۔ ان کی انتہا پسندی اورسر کشی اس درجے عروج پرتھی کہ وہ باہم ایک دوسرے کوقتل کرنے لگے ۔ مختلف قبائل اور مختلف فرقوں کے افراد باہم دست و گریباں رہتے ۔بعثتِ نبویؐ کے وقت ان کی انتہا پسندی اس درجے عروج پر تھی کہ وہ ایک دوسرے کےوجود تک کو برداشت کرنے کو تیار نہ تھے ۔ آپس میں قتل و خوںریزی کا بازر ان میں گرم تھا ۔ ایک طاقت ور قبیلہ دوسرے کم زورقبیلے کو قتل اور بے گھر کر دیتا تھا ۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے Encyclopedia of jews Religion 1965)
قرآن نے ان کے متعلق اس طرح بیان کیا ہے:
’’ثُمَّ اَنتُمْ هَـؤُلَآءِ تَقْتُلُونَ اَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًۭا مِّنكُم مِّن دِيَـٰرِهِمْ تَظَـٰهَرُونَ عَلَيْهِم بِاَ لْإِثْمِ وَاَلْعُدْوٰنِ‘‘ (البقرہ۸۵)
پھر تم ہی لوگ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرتے اورایک گروہ کو ان کے گھروںسے نکالتے ہو، ان کے بر خلاف گناہ اور ظلم سے مدد کرتے ہو۔ ان تمام باتوں کے باوجود انہیں اپنے اوپراتنا زعم تھا اورمذہبی انتہا پسندی میں وہ اتنا آگے تھے کہ انبیاء کی اولاد ہونے کے ناطے وہ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ :
’’نَحْنُ اَبْنَاءُ اللہِ وَاحِبَّاؤہ‘ ‘‘( المائدہ ۱۸) ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پسندیدہ ہیں۔ساتھ ہی انہیںیہ دعویٰ بھی تھا کہ :وَقاَلُوْالَنُ تَمَسَّناَ النَّارْاِلاً اَ یَّا ماً مّعْدُوْدَۃً( البقرہ۸۰) اور انہوں نے کہا کہ ہمیں دوزخ کی آگ ہر گز نہیںچھوئے گی لیکن چند روز۔
’’تالمود‘‘ یہودیوں کے نزدیک بڑی مقدس کتاب ہے ، تورات سے بھی زیادہ کی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے ، یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ اگر ان کے ’’ حاخاموں‘‘ (علمائے یہود) کے ملفوظات کی کوئی بے حرمتی کرے تو وہ سزائے موت کا مستحق ہے ۔ بلکہ ان کے ہاں یہ جائز نہیں کہ کوئی یہودی صرف تورات پر اکتفا کرے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تالمود کی روشنی ہی میں تورات کو سمجھے۔
(بحوالہ:عبد اللہ التل) یہودی خباثتین ، مترجم ،سید سلمان حسینی ندوی، مجلس نشریات اسلام کراچی ،۲۰۰۶،ص۹)
’’ تالمود‘‘میںتحریر ہے کہ ’’ یہودیوںکی روحیںتمام جانداروں کی روحوں سے ممتاز ہیں ، وہ ( نعوذ باللہ) اللہ کا جزو ہیں ، جیسا کہ بیٹا باپ کا جزو ہوتا ہے ، دیگر انسانوں کی روحیں شیطانی ہیں اور حیوانوں کی روحوں سے مشابہ ہیں ‘‘۔(ایضاً ص۱۰)
’’تالمود‘‘ میں یہ تعلیم بھی ملتی ہےکہ :’’ جنت صرف یہودیوں کا حق ہے ، جب کہ جہنم عیسائیوں ، مسلمانوں اور تمام منکروں کے لیے ہے‘‘۔(ایضاًص۱۰)
یہ تعلیم بھی دی گئی کہ ’’ ہر یہودی کو اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ دنیا کی دیگر قوموں کی حکومت باقی نہ رہے ، تاکہ دنیا پر صرف یہودیوں کا غلبہ ہو‘‘۔( حوالہ سابقہ ص۱۰)
’’ تالمود‘‘ میں یہ بھی کہا گیا کہ ’’ دنیا یہودیوں کی ملکیت ہے ، انہیں ہر چیز پر تسلط کاحق حاصل ہے ‘‘۔(ایضاًص۱۱)
یہودیوں کے نسلی تفاخر اور مذہبی برتری کے حوالے سے ’’ تالمود‘‘ میں یہ تعلیم ملتی ہے کہ :
’’ اسرائیلی خدا کے نزدیک فرشتوںسے افضل ہے ، اگر کوئی غیر ، اسرائیلی کو مارتا ہے تو وہ خدا کی عزت پرحملہ آور ہوتا ہے اور وہ سزائے موت کا مستحق ہے ، اگر یہودی نہ ہوتے تو زمین میں برکت نہ ہوتی ، یہودی اوردیگر لوگوں میں فرق ایسا ہے جیسا کہ انسان اورحیوان میں (یہودیوں کے علاوہ) دیگر لوگ کُتے ہیں …. مزید کہا گیا کہ جو یہودی نہیں ، وہ گدھا ہے ، دنیا کی تمام اقوام جانوروںکے باڑوں کی طرح ہیں۔(ایضاًص۱۱)
’’تالمود‘‘ میں یہ بھی کہا گیا کہ :’’ ہم(یہودی ) خدا کے منتخب کردہ ہیں ، دنیا کی قومیں ہماری خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہیں‘‘۔ (حوالہ سابقہ ص۱۱)
علاوہ ازیں ’’ تورات ‘‘ میں مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے جو تعلیمات ملتی ہیں ، وہ درج ذیل ہیں :
(تفصیل کیلئے دیکھئے:(Encyclopedia of religion and Ethics.new your.1931)
٭ جب خدا وند تیرا خدا انہیں تیرے قبضے میں کردے ، تو وہاں کے ہرایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر …. ان قوموں کےشہروںمیںجنہیںخدا وند تیرا خدا تیری میراث کر دیتا ہے ۔ کسی چیز کو جو سانس لیتی ہو ، جیتا نہ چھوڑیو۔(استثنا،۲۰،۱۳،۱۶)
٭ خدا وند نے سائول کو حکم دیا، سو تو اب جا اور عمالیق کو مار اور جو کچھ ان کاہے ، یک لخت حرم کر ( قتل کر ) اوران پر رحم مت کر ، بلکہ مرد اورعورت اور ننھے بچے اورشیرخوار ،بیل ، بھیڑ اوراونٹ اورگدھے تک سب کو قتل کر (سموئیل اول۱۵:۳)
٭ تورات کے مطابق خدا کی طرف سے حضرت موسیٰ کو حکم ملتا ہے :’’ جب کہ خدا وند تیرا خدا انہیں تیرے حوالے کردے تو ، تو انہیںمار اور حرم کر ، نہ تو ان سے کوئی عہد کر اورنہ ان پر رحم کر ۔(استثناء۳۲۱:۷، بحوالہ: غلام رسول چوہدری ،مذاہب عالمی کا تقابلی مطالعہ ، لاہور،علمی کتب خانہ ،۱۹۹۸، ص۳۹۴)
جرمن محقق ڈاکٹر اریک بیسکوف جویہودیت پر مطالعہ و تحقیق کے حوالے سے اتھارٹی مانے جاتے ہیں، وہ ایک یہودی مصنف کی کتاب (Thkume Zohar) کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :
’’یہودیوں کے نزدیک دین و مذہب کا حکم یہ ہے کہ غیروں کو (غیر یہودیوں کو ) قتل کیا جائے ، ان کے اورجانوروںکے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، یہ قتل شرعی طریقے پر ہونا چاہیے، جو لوگ یہودی مذہب اور یہودی قانون کو نہیںمانتے ، انہیں خدائے اعظم کے حضور بھینٹ چڑھا دینا چاہیے۔
گریٹر اسرائیل کے عالمی صیہونی کی خفیہ دستاویز ’’ یہودی پروٹو کولز‘‘ پرٹو کول ۱۴ میں تحریر ہے :
’’ جب ہم ( یہودی ) اپنی سلطنت میں داخل ہوں گے تو اپنے مذہب کے علاوہ کسی مذہب کو برداشت نہیں کریں گے ، خدا کی محبوب قوم کی حیثیت سے ہمارا مقدر خدائے واحد کے ساتھ وابستہ ہو چکا ہے اور اسی کے واسطے سے ہماری تقدیر دنیا کی دوسری اقوام کی تقدیر سے وابستہ ہوئی ہے ۔ ہمیں ایمان اور اعتقاد کی دوسرے تمام ( دیگر مذاہب ) کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا ہو گا ‘‘۔
(یہودی پروٹوکولز ،مترجم:حمدیحییٰ خان،لاہورنگارشات، ۲۰۰۷، ص ۱۸۳)
یہودی اس نظریے کے حامل ہیںکہ طاقت اورفریب کاری سیاسی مدان میں خصوصی طور پر کار آمد چیزیں ہیں، ان کے ذریعے دوسروںکو ہمنوا بنانے میںبڑی مدد ملتی ہے ۔یہ ’’ یہودی پروٹوکولز ‘‘ کابنیادی تصور ہے ، چنانچہ گریٹر اسرائیل کے عالمی صیہونی منصوبے کے پروٹو کول نمبر (۱) میںیہ تحریر ہے :
’’ سیاسی امور میںطاقت ایک کار گر حربہ ہے ، بشرطیکہ اسے ہوشیاری اور دبیز پردوںمیں ملفوف کر کے استعمال کیا جائے ، دہشت و بربریت کے ذریعے اپنے مخالفوں کو راہِ راست پر لایا جا سکتا ہے ، دو سروں کودغا دینے اوربے وقوف بنانے میںبھی کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیںکرنا چاہیے اگر رشوت ، دغا و فریب نیز غداری و بے وفائی کے حربوںسے کامیابی حاصل ہو سکے تو ان کے استعمال سے قطعاً گریز نہیںکرنا چاہیے ۔ اگر کسی کی جائیداد چھین کر اسے اطاعت و فرماںبرداری پرمجبورکیا جا سکتا ہو اور اقتدار پر قبضہ کرنا ممکن ہو تو کسی پس و پیش کے بغیر ایسا کر گزرنا چاہیے ‘‘۔(بحوالہ : یہودی پروٹو کولز ، ص۱۲۹)
نام و ر عیسائی محقق اور یہودیت پر گہری نگاہ رکھنے والے دانش ور William Gri Mstadاپنی کتاب ’’Antizion‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ مذہبی تعصب ، تنگ نظری ، قومی تفاخر ، نسلی غرور اوربرتری کے پندار میںمبتلا یہودی دیگر مذاہب اوردنیا کی دوسری قوموںکوکس نظر سے دیکھتے تھے، اس کابخوبی انداز محض اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مختلف اخلاقی اور تمدنی احکام میںاسرائیلی اور غیر اسرائیلی کے درمیان فرق کرتے تھے ۔ ایک ہی برتائو اسرائیلی کے ساتھ ناجائز ، مگر غیر اسرائیلی کے ساتھ جائز تھا ۔ مثلاً خود بائبل میںصراحت ہے کہ ’’ اگر ایک شخص نے دوسرے کو قرض دیا ہو تو سات سال گزر جانے پر اسے معاف کردے ، البتہ وہ پردیسی سے اس کامطالبہ کر سکتا ہے ۔ اسی طرح اس میں یہ حکم بھی ہے کہ ’’ تو پردیسی کو سود پر قرض دے تودے، باپ بھائی کو سود پر قرض نہ دینا ۔ یہودیوںکی مذہبی کتاب ’’ تالمود‘‘ میں اس قسم کی تعلیمات ملتی ہیںمثلاً:
٭’ ’ جو فرق انسان اور حیوان میں پایا جاتا ہے ، ویسا ہی فرق یہود اوردیگر قوموں کے درمیان ہے ‘‘۔
٭ ’’ یہود کے علاوہ دیگر لوگ کُتوں ، گدھوںاور خنزیروں کی مثل ہیں،ان کی روحیں ناپاک ہیں‘‘۔
٭ ’’ غیر یہودی کسی ہمدردی کے مستحق نہیںہیں۔انہیں دھوکہ دینا ، ان سے جھوٹ بولنا ، ان کے ساتھ منافقت کا برتائو کرنا یہود کے لیے جائز ہے ۔ اس لیے کہ وہ اللہ کے بھی دشمن ہیں اوران کے بھی ‘‘۔
٭’’دنیا اور اس کی تمام چیزیںیہودی کی ملکیت ہیں۔ اللہ نے انہیں ان پر تسلط بخشا ہے اور تصرفانہ حقوق عطا کیے ہیں‘‘۔
٭’’ یغیر یہودیوں کے مال کی حیثیت متروک کی ہے ۔ یہود میں سے جس کے بھی ہاتھ لگے ، وہ اس کا مالک ہے ‘‘۔
٭’’ یہود کے اموال کوچُرانا جائز نہیں ۔جہاں تک غیر یہود کے اموال کا تعلق ہے ، ان کی چوری کی جا سکتی ہے ‘‘۔
٭ ’’ یہودی کے ساتھ خرید و فروخت میںدھوکہ دینا جائز نہیں ، البتہ غیر یہودی کو دھوکہ دینے اور اسےدیے گئے قرض پر بھاری سود وصول کرنے کی اجازت ہے ‘‘۔
٭’’ اگر کسی اسرائیلی اور غیر اسرائیلی کا مقدمہ تمہارے پاس آئے تو اگر اسرائیلی شریعت کے مطابق تم اپنے اسرائیلی بھائی کو فائدہ پہنچا سکتے ہو تو ویسا ہی کرو اور کہہ دو کہ یہ ہمارا قانون ہے اور اگر ایسا غیر یہودی قانون کے ذریعے کر سکتے ہو تو اسی طرح اسے فائدہ پہنچائو اور غیر اسرائیلی سے کہہ دو کہ یہ تو تمہارا قانون ہے اور اگر دونوں قوانین سے اسرائیلی کو فائدہ پہنچانا ممکن نہ ہو تو پھر حیلے اور فریب سے کام لو ، تاکہ بہر حال مقدمے کافیصلہ اسرائیلی کے حق میں ہو۔
(آئینہ، صہیونیت، مترجم،منیر احمد جوئیہ ، یو پبلشرز لاہور،۲۰۱۰)
یہودیوں کی اہم مذہبی کتاب ’’The Talmud Unmasked‘‘ جو عرصہ دراز تک خفیہ رکھی گئی، یہ ان کی مذہبی اور اہم تاریخی کتاب ہے ، اس کے مطالعے سے یہودیت جنگ کے قوانین اور یہودیوں کے عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے پیرو کاروں کے بارےمیںخیالات کاپتہ چلتا ہے ، نیزاس سے ان کی تنگ نظری، مذہبی جنون، انتہا پسندی اوراپنے مخالفین کے بارے میںان کے نظریات اورمذہبی تعلیمات کا بھی پتہ چلتا ہے۔ذیل میں ’’ تالمود‘‘ سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں:
٭ تمام عیسائی خواہ کتنے ہی اچھے کیوںنہ ہوں، ہلاک کردیے جائیں ۔
عبد زارا(26,B Tosephoth)کہتی ہے :’’ سب سے بہتر عیسائی کو بھی قتل کردینا چاہیے ‘‘۔
(177b) Sepher or Israelمیں ہدایت کی گئی ہے :
’’ Kliphothکی زندگی چھین لو اور انہیں قتل کر دو ۔ اس طرح تم خدا کو خوش کرو گے ۔ بالکل اسی طرح جیسے خدا کو خوشبو پیش کی جاتی ہے ‘‘۔
اسی طرح (245c-n772)Lalkut Simoniمیں لکھا ہے :
’’ہروہ شخص جو کسی نا پاک ( مخالف) فرد کاخون بہاتا ہے ، وہ خدا کے نزدیک اتنا ہی قابل قبول ہے ، جتنا وہ شخص جو خدا کے حضور قربانی پیش کرتا ہے ۔‘‘
٭ ٹیمپل ( عبادت گاہ ) کی تباہی کے بعد صرف ایک ہی قربانی کی ضرورت ہے اور وہ ہے عیسائیوں کی تباہی۔
(۱)ظہر(III,227b)میں Good Pastor کا بیان کرتا ہے :
’’ صرف ایک ہی قربانی مطلوب ہے ، یعنی یہ کہ ہم اپنے اندر سے ناپاکوں کو علیحدہ کریں ‘‘۔
(۲) ظہر(II,43a)میں حضرت موسیٰ ؑ کے اس تصور کو کہ اولین پیدائش گدھے کی نجات کے لیے ایک بھیڑ کی پیش کش کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ :
’’ گدھے سے یہاں غیر یہودی مرادہیں،جن سے نجات پانے کے لیے بھیڑ کی پیش کش کرنی چاہیے، جو اسرائیل کی گمشدہ بھیڑ ہے ، لیکن اگر وہ قتل ہونے سے انکار کر دے تو اس کا سر توڑ دو ۔زندہ لوگوں میںسے انہیں خارج کر دینا چاہیے ،کیوںکہ ان کے متعلق کہا گیا ہے کہ جو میرے خلاف گناہ کرتاہے ، میںاس کی زندگی ہی چھین لوں گا ‘‘۔
٭ عیسائیوں کو قتل کرنے والے جنت میں اعلیٰ مقام پائیں گے
ظہر(1,38bاور39a)میںکہا گیا ہے :
’’ چوتھی جنت میںوہ لوگ ہوںگے جنہوںنے Sionاور یروشلم کانوحہ پڑھا تھا اور وہ لوگ ہوں گے جنہوںنے بُت پرست قوموں کا خاتمہ کیا اوروہ لوگ جنہوںنے بُت پرستوںکوقتل کیا۔ وہ وہاں ارغوانی (لال نیلی ملی ہوئی ) پوشاک پہنے ہوئے ہوں گےاور انہیں عزت کامرتبہ ملے گا ،نیزوہ دُور ہی سے شناخت کر لیے جائیں گے ‘‘۔
٭ اس میںتعلیم دی گئی کہ :یہودیوں کو عیسائیوں کومٹادینے کے عمل سے کبھی نہیںرکنا چاہیے ۔ وہ انہیں نہ تو کبھی امن کی حالت میںرہنے دیں اور نہ ان کے آگے عاجزی کریں۔
hilkhoth Akum(XI)میں ہدایت کی گئی ہے :
(۱)’’ بُت پرستوں کے ساتھ کبھی نہ کھائو اور نہ انہیں بتوں کی پرستش کی اجازت دو ۔ کیو کہ لکھا ہوا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی عہد وپیمان نہ کرو اور نہ ان کی خاطر رحم کا کوئی جذبہ پیدا کرو، Deuter.ch7,2یا تو انہیں قتل کر دو ‘‘۔
(۲)Ibidemمیں درج ہے:
’’ ان مقامات پر جہاں یہودی مضبوط ہیں ،کسی بت پرست کو رہنے کی اجازت نہ دی جائے ‘‘۔
٭ اپنے درمیان سے غداروں کو تباہ کرنے کے لیے سارے یہودیوں کو متحد ہوجانا چاہیے۔
Choschen Hamm(38,16)میں ہدایت دی گئی ہے کہ :  ’’شہر کے تمام باسیوںپر لازم ہے کہ وہ غدار کو قتل کرنے کے خرچ میں تعاون کریں ، خواہ وہ پہلے ہی دوسرے ٹیکس کیوںنہ دے رہے ہوں ‘‘۔
٭تعلیم دی گئی کہ: کوئی بھی تہوار، خواہ وہ کتنا ہی سنجیدہ ہو ، تمہیں عیسائی کا سر اڑانے سے باز نہ رکھے۔
Pesachim(49b)میں کہا گیا ہے :
’’ربی ایلز ر نے کہا صلیب کے دن ’’ احمق‘‘ کا سر کاٹنے کی تمہیں اجازت دی گئی ہے ، خواہ وہ سبت کے دن ہی کیوں نہ واقع ہےہو۔ اس کے ماننے والوں نے اس سے کہا،ربی آپ کو تو بلکہ قربانی کاحکم دینا چاہیے،اس نے جواب دیا ، ہرگزنہیں، کیوں کہ قربانی کے لیے تو نماز پڑھنا بھی ضروری ہے، لیکن سر کاٹنے کے موقع پر نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
٭ یہ بھی تحریر ہے کہ: یہودیوں کے تمام اعمال اورنمازوں کا ایک ہی مقصد ہونا چاہیے کہ عیسائیوں کا خاتمہ کر دیا جائے ۔ (دیکھیے:The Talmud Unmasked,P77–79مذکورہ کتاب کا انگریزی سے اردو ترجمہ ہمارے رفیق محترم رضی الدین سید نے کیا ، جونیشنل اکیڈمی آف اسلامک ریسرچ کراچی سے شائع ہو چکا ہے )
اٹھارویں صدی عیسوی کے نام ور فرانسیسی فلسفی اورمصنف وولٹیئر نے یہودیوں کی فطرت اور ذہنیت کی عکاسی کرتے ہوئے بجا طور پر لکھا ہے :
’’ یہودی قوم دیگر اقوام سے ناقابل مصالحت نفرت کااظہار کرنے کی جرأت کرتی ہے ، ہمیشہ سے تو ہم پرست یہ قوم دوسروں کی خوش حالی کو حریصانہ نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ ہمیشہ کی وحشی ،غربت میں بچھ جانے والی اور خوش حالی میں گستاخ‘‘۔
(بحوالہ : آئینہ صہیونیت ص۲۳۵)
’’ عہد نامہ قدیم ‘‘ میں مندرجہ ذیل نوع کی ہدایات و تعلیمات با آسانی دیکھنے کو ملتی ہیں:
٭ بنی اسرائیل ( اسرائیلی ) خدا کی طرف سے باقی لوگوں کی نسبت منتخب قوم ہیں۔
٭ اسرائیلیوں کو تمام دوسرے لوگوں پر حکومت کرنے کاحق حاصل ہے اور خدا نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ایک دن وہ ساری دنیا پر اقدار اورحکمرانی کریں گے ۔
٭اسرائیلیوں کو ( خدا کی جانب سے ) حکم دیا جاتاہے کہ دنیا کے جس حصے میںبھی وہ آباد ہونا چاہیں ، وہاں کے تمام لوگوں کو قتل کر دیں اور یہ بھی حکم دیا جاتا ہے کہ ان بدیسی قوموںکے تمام افراد کو ہلاک کردیں جو ان کی غلامی قبول نہیں کرتیں ۔
(بحوالہ : ڈاکٹر مجاہد مرزا / یہودیوں کا نسلی تفاخر ، لاہور، بک ہوم ۲۰۰۶،ص۸)یہودیوں میں نسلی برتری،قومی و مذہبی تفاخر، اقتدار اورغلبے کی یہ روایات تب سے چلی آ رہی ہیں، جب مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ایک چھوٹا سا قبیلہ تھا ، انہوں نے اپنی مذہبی روایات اور تعلیمات کو اپنے ذہنوں میں اس طرح ڈھال لیا جس سے یہ ثابت ہؤا کہ یہودی پروردگار عالم کی منتخب قوم ہیں ۔انہیںدنیا پر حکومت کرنے کا فرض و دیعت کیا گیا ہے ۔ یہ روایت بائبل میں اس طرح درج ہے:
’’ اور بادشاہ تم میں سے ہوں گے اور رُوئے زمین پر جہاں بھی اولاد آدم کے قدم پہنچیں گے ، تم وہاں حکمراں ہو گے ، میں تمہارے نطفے کو آسمانوں تلے ساری دھرتی بخش دوں گا اور وہ تمام اقوام پر اس طرح حکومت کریں گے ، جیسے وہ چاہیں گے اور بالآخر تمام دھرتی پر ان کا قبضہ ہو جائے گا اور وہ ہمیشہ کے لیے ان کی وراثت بن جائے گی ‘‘۔(ایضاً ص۱۱۵)
چنانچہ یہودیوں نے اپنی نسلی ، مذہبی ، قومی برتری کے تصور اور روایات کو عملی شکل دینے کے لیے اس کا آغاز فلسطین کے باسی فلسطینیوں سے کیا ، کیوں کہ وہ برسوں سے ہر روز بیدار ہو کر پہلی خواہش دعا کی صورت یہی کرتے تھے کہ ’’ اگلا برس یروشلم میں گزرے ‘‘۔
اور جب تمام تر سازشوں ، مکرو فریب پر مبنی تدبیروں اور مکاریوں کو بروئے کار لا کر ۱۹۴۸ء میں وہ ارض فلسطین پر اسرائیل کا خنجر گاڑنے میں کامیاب ہو ئے تو انہوں نے فلسطین کے حقیقی وارثوں اور اصل باسیوں ، فلسطینیوں پر ان کی ہی زمین تنگ کرنا شروع کردی ، اس پر یہودیوں کی توجیہہ یہ تھی کہ یہ زمین خدا نے انہیں بخشی تھی ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بنی اسرائیل جب مصر سے اپنے ابتدائی ورود کے دوران یہاں پہنچے تو اس کےاصل باسی اہلِ فلسطین یہاں عرصہ دراز سے موجود تھے ۔
چنانچہ معروف برطانوی مورخ ٹائن بی ارضِ فلسطین پر یہودیوں کے دعوے کو مضحکہ خیز اور احمقانہ قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے :
’’ اٹھارہ سو برس کے بعد یہ بات ہر گز نہیں کہی جا سکتی کہ فلسطین یہود کا وطن ہے ، ورنہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ریڈ انڈینوں کا ملک ہے ،اگر ایسی بات ہوتی تو برطانیہ اور دوسرے کئی ممالک کی صورت حال بالکل بدل جائے گی ۔ میرے خیال میں فلسطین پر یہودیوں کا بجز و اس کے کوئی حق نہیں کہ وہ وہاں جائیدادیں خرید سکتے ہیں ، انہیں وہاں ریاست قائم کرنے کا کوئی حق نہیں ، یہ بے حد بد نصیبی کی بات ہے کہ وہاں مذہب کی بنیاد پر ایک ( یہودی )ریاست قائم کردی گئی ہے ‘‘۔
(یہودی پروٹو کولز،ص۱۱۰)
برطانیہ کی کروائی گئی ۱۹۲۲ء کی مردم شماری کے مطابق یہودی وہاں کی آبادی کا محض دس فیصد تھے اور اسرائیل کے قیام سے صرف ایک سال قبل کی مردم شماری کے مطابق بعد میں اسرائیل کا نام دیے جانے والے علاقے میں یہودیوں کی تعداد تقریباً نصف تھی اور فلسطینیوں کی ۹۳فیصد صد زمین عرب فلسطینیوں کے پاس تھی ، مگر بعد میں صیہونیوں کی کثیر نقل مکانی کے نتیجے میں ہتھیاروں کے بل بوتے پر دہشت اور دھونس دھمکی کے ذریعےفلسطینیوں کونکال کر ان کی جائیداد پر ناجائز قبضے کا عمل شروع ہؤا۔
ایک رپورٹ کے مطابق ۱۹۴۸ء سے پہلے اسرائیل کی مقبوضہ سرزمین پر آٹھ لاکھ عرب مسلمان آباد تھے ، جن میں سے بعد ازاںاسرائیلی ظلم و ستم اور جارحیت کے نتیجے میں بچ رہنے والوں کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار رہ گئی اور چھ لاکھ تیس ہزار فلسطینی دیگر عرب ممالک میں ہجرت پر مجبور ہوئے ۔ انہیں اپنے گھروں سے جبری بے دخل کیا گیا ، جہاں فلسطینیوں کے آبائو اجداد ہزارہا برس سے مقیم تھے ، اسرائیل نے ۱۹۵۶ء،۱۹۶۷، ۱۹۷۳ ء کی جنگوں اور بعد ازاں ۱۹۸۶ء میں لبنان پر چڑھائی کر کے اپنی سرحدوں کو وسیع تر کیا ۔
( مزید تفصیل کے لیے دیکھیے : ڈاکٹر مجاہد مرزا / یہودیوں کا نسلی تفاخر، ص۱۱۴)
جنگ عظیم اوّل کے اختتام پر عربوں ، صہیونیوں ، برطانیہ اور فرانس کے متضاد دعوئوں پر کوئی بھی مفاہمت نہ کر سکا ۔ بالآخر ۱۹۱۹ء میں وڈرو ولسن اور اس کے جمہوریت کے دیوانے امریکیوں نے خلافت عثمانیہ کے سابق عرب صوبوں میں ’’ کنگ کرین کمیشن ‘‘ روانہ کیا ، تاکہ ان صوبوں کے حقیقی باشندوں سے بعد از جنگ تصفیے کی خاطر معاملے کے لیے ان کی خواہشات معلوم کی جا سکیں ۔ اس کمیشن نے مختلف جائزوں کے بعد ایک رپورٹ پیش کی ، جس میں کہا گیا تھا کہ :
٭فلسطین کے ۹۰ فیصد باشندے غیر یہودی ہیں اور وہ فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کے مخالف ہیں ۔
٭ اس کے باوجود اگر فلسطین ان کے حوالے کیا گیا تو صہیونیوں کی خواہش ہے کہ وہ ارض فلسطین سے تمام غیر یہودیوں ( یعنی عربوں) کو نکال کر باہر کردیں گے ۔
٭فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام سے فلسطینیوں کے حق خود مختاری کی خلاف ورزی ہو گی۔
٭ کمیشن نے سفارش کی کہ :
صہیونی ، فلسطینی باشندوں کی خواہشوں کا احترام کریں اور یہودی ریاست کے قیام کے لیے کوئی اور سر زمین تلاش کریں ۔
امریکہ کے نامور مصنف رون ڈیوڈ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ عام طور پر یہودی اپنے ملک کی جو تاریخ بیان کرتے ہیں ، اس میں وہ ’’ کنگ کرین کمیشن ‘‘ کا ذکر ہی نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو اس کی اہمیت کو کم کر کے بیان کرتے ہیں ، میرے خیال میں جمہوریت کے علمبرداروں کو ضرور سوچنا چاہیے کہ ’’ کنگ کرین کمیشن ‘‘ کی رپورٹ ایک بڑا واقعہ تھی، یہ رپورٹ بہت سے غلط واقعات کے خلاف ایک واضح ثبوت تھی یعنی ! صہیونیوں کو معلوم تھا کہ وہ لوگوں کی خواہشات کے بر خلاف کا م کر رہے ہیں ، انہوں نے جان بوجھ کر جمہوریت کو سبوتاژ کیا ، وہ مزید لکھتا ہے :
’’ فلسطینی آج جس حق کا مطالبہ کر رہے ہیں ، امریکہ نے کل اس کے جائز ہونے کی تصدیق کی تھی ‘‘۔
( رون ڈیوڈ / قومیں جو دھوکہ دیتی ہیں ، ص۲۰-۲۱)
یہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ یہودی اپنی مذہبی روایات، نسلی تفاخر ، مذہبی تعصب، انتہا پسندی ، بد ترین جارحیت اور فلسطین پر غاصبانہ قبضے اور اپنے مذموم عزائم کی بدولت فلسطینی مسلمانوں پر بد ترین مظالم ڈھا رہے ہیں، وہ عہد نامہ قدیم اور ’’ تالمود‘‘ میں موجود بد ترین نسلی اور مذہبی تعصب پر مبنی روایات اور تعلیمات کو عالمی مذاہب میں صرف اور صرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں ۔
عرب مصنف ڈاکٹر محسن محمد صالح اپنی کتاب’’ تاریخ فلسطین‘‘ میں یہودیوں کی ارض فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی تاریخ ۔ صہیونیوں کے فلسطینی مسلمانوں پر بد ترین مظالم ، خطے میں یہودیوں کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کا جائزہ لے کر ۱۸۸۱ء سے ۲۰۰۲ء تک عہد بعہد تاریخ کے مختلف ادوار میں متعلقہ موضوع پر انتہائی مفید معلومات فراہم کی (مترجم، فیض احمد ثہابی لاہور، ادارہ معارفِ اسلامی ،۲۰۰۸ء ،ص ۳۱۴-۳۲۸)
ان کی جارحیت، نسلی تعصب ، مذہبی جنون اور غارت گری کا شکار نصف صدی سے زیادہ عرصے سے صرف اور صرف مسلمان ہیں ، طرفہ تماشا یہ کہ تہذیبی اقدار ، احترامِ انسانیت ، بنیادی انسانی حقوق ، عالمی امن ، انسان دوستی اور عالمی ضمیر کے نام نہاد ترجمان اور اخلاقی اور قانونی قدروں کے نام نہاد امین اس پر نہ صرف خاموش بلکہ اسرائیلی جارحیت کے معاون ، مدد گار اور اس کے وکیل کے طور پر سامنے آتے ہیں ، آج خود ساختہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کی توپوں کا رخ بھی صرف اور صرف مسلمانوں کی طرف ہے ۔مسلمان اپنے ہی ممالک میں عالمی اور صہیونی جارحیت کا شکار نظر آتے ہیں ۔ ایسے میں امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا اس کے لیے کہ ؎
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے ، تم ہی کہو!
مسلمانوں پر بد ترین اسرائیلی مظالم ، جارحیت ،سفاکی و درندگی ، شدید تعصب و تنگ نظری ، بہیمانہ سلوک کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ تاریخی حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ اسلام اور مسلم حکمرانوں نے تاریخ کے ہر دور میں عدل ، مساوات ، روا داری ، انسان دوستی ، اعلیٰ اخلاقی اقدار اور مذہبی روا داری پر مبنی اسلامی روایات اور تعلیمات کو ہمیشہ پیش نظر رکھا ۔ تاریخی حقائق اس پر گواہ ہیں ۔
اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں بالخصوص عہد نبویؐ ، عہد ِ خلافت راشدہ ، دور اموی ، عہدِ عباسی اور بعد کے ادوار میں ’’ یہودیوں ‘‘ کو جو مذہبی آزادی حاصل رہی ، مسلم حکمرانوں نے ان کے ساتھ جو مثالی سلوک روا رکھا ، انہیں جس طرح مذہبی ، معاشرتی اور قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ، جس طرح روا داری برتی گئی ، وہ ایک روشن مثال ہے ، چنانچہ عالمی شہریت یافتہ برطانوی مورخ کیرن آر مسٹرانگ (Karren Armstrong) اپنی کتاب ’’The Battle for God‘‘ میں اعترافِ حقیقت کے طور پر رقم طراز ہے :
’’ اسلامی دنیا میں یہودیوں کو محدود نہیں رکھا گیا ، بلکہ انہیں عیسائیوں کی طرح ’’ذمیوں ‘‘ کا درجہ حاصل تھا ، جس سے انہیں شہری اور عسکری تحفظ مل گیا تھا ، مسلمانوں نے یہودیوں پر ظلم و ستم نہیں ڈھائے ‘‘ اسلامی دنیا میں صیہونیت دشمنی کی کوئی روایت نہیں ملتی، اگر ذمی دوسرے درجے کے شہری تھے ، تاہم انہیں مکمل آزادی حاصل تھی ۔ وہ اپنے معاملات اپنے قوانین کے مطابق طے کر سکتے تھے اور مرکزی دھارے کے کلچر اور تجارت میں شمولیت کے لیے یورپ کے یہودیوں سے کہیں زیادہ آزاد تھے ‘‘۔
(Karren/Armstrong/the Battle for God)ترجمہ : خدا کے لیے جنگ، مترجم ،محمد احسن بٹ ، لاہور نگارشات ، ۲۰۰۲ص ۵۶)
مغربی مصنف وکٹر ای مارسڈن لکھتا ہے:’’ (عہدِ نبویؐ اور بعد ازاں خلافتِ راشدہ میں ) یہود کو ان کی بد اعمالیوں کے سبب سر زمین عرب سے خارج کرنا تو نا گزیر ہو چکا تھا ، تاہم مسلمان ان سے اہل کتاب ہونے اور ذمی ہونے کی بناء پر حسنِ سلوک ہی کا مظاہرہ کرتے رہے ، چنانچہ جہاں تک اسلامی سلطنت پھیلتی گئی ، وہ بھی آگے بڑھتے رہے ۔ عربوں نے انہیں مصر، فلسطین ، شام اورایران کہیں سے بھی بے دخل نہ کیا ، وہ بے خوف ہو کر کھیتی باڑی اور تجارت کرتے رہے ، ان کے اسقف اعظم بابل ،آرمینیا، ترکستان ، ایران اور یمن میں اپنے اپنے علاقوں کے یہود کے لیے شہزادوں کی حیثیت رکھتے تھے ۔ ہسپانیہ میں مسلمانوں کا زریں دور یہود کا بھی زریں دور تھا ، ان کی مذہبی، سماجی اور اقتصادی سر گرمیوں پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہ تھی ، ظہورِ اسلام سے قبل کے ہسپانوی حکمرانوں نے ان کی شرارتوں اور مفسدہ پر دازیوں کے باعث انہیں اس قدر کچل دیا تھا کہ انہیں ایک صدی تک سر اٹھانے کی جرأت نہ ہو سکی ، لیکن مسلمانوں نے ایک بار پھر انہیں با عزت زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا ‘‘۔
(یہودی پروٹو کولز ص۲۰-۲۱)
مغربی مصنف رون ڈیوڈ اپنی کتاب ’’ قومیں جو دھوکہ دیتی ہیں ‘‘ میں لکھتے ہیں :’’ عربوں کے سنہری دور کی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے پرورش کی ، ایک یہودی سنہرے دور کی ‘‘۔ یعنی اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلم حکمرانوں نے یہودیوں کو مذہبی آزادی فراہم کی ، عربوں کے روادارانہ رویے کی بناء پر یہ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ یہودیوں کے لیے ایک سنہری دور تھا ، جس میں بلا تفریق مذہب انہیں مکمل مذہبی اور معاشرتی آزادی حاصل تھی۔
(مترجم: رضی الدین سید ، راحیل پبلی کیشنز ،۲۰۰۸ص۳۲)
رون ڈیوڈمزید لکھتا ہے : ’’ عثمانی خلافت میں عیسائیوں اور یہودیوں کو مذہبی آزادی دی گئی ، مسلمانوں کی ’’ جیو اور جینے دو ‘‘ کی یہ خوب صورت پالیسی اس دور کی متعصب عیسائی حکومتوں کی پالیسی کے بالکل برعکس تھی ‘‘۔( ایضاً ص۴۸)
رو ن ڈیوڈ مزید لکھتے ہیں : ’’ کیسی بھی عیسائی ملک کی نسبت مسلم ممالک میں یہودیوں کے ساتھ عمدہ سلوک کیا جاتا تھا ‘‘۔( ایضاً۵۵)
تاریخ کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ پندرہویں صدی عیسوی سے قبل دنیا کے اکثر یہودی مسلم دنیا خاص طور پر اندلس میںرہتے تھے ، انہیں مشرقی یہودی (Eastern Jews)یاسفاروم (Sephardim) کہا جاتا تھا ، سولہویں صدی عیسوی تک مسلم دنیا میں آباد یہودیوں کی تعداد دنیا بھر میں آباد یہودیوں کے مقابلے میں ایک غالب یہودی اکثریت تھی ‘‘۔ اس سے یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں کی فراخ دلی اور مذہبی روا داری کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
(بحوالہ ، ڈاکٹر محسن محمد صالح/ تاریخ فلسطین ص۱۵۰)
ٹی ڈبلیو آرنلڈ(T.w.Arnold)اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’The Preaching of Islam‘‘میں اعتراف حقیقت کے طور پر لکھتے ہیں : ’’عیسائی پادری اپنے اقتدار سے فائدہ اٹھا کر یہودیوں پر ظلم و ستم کرتے تھے ، جو لوگ اصطباع لینے سے انکار کرتے تھے ، ان کے خلاف وحشیانہ قسم کے سخت مظالم کے احکام جاری کرتے تھے ، ان سختیوں ( اور امتیازی رویے ) کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب عربوں نے اندلس پر چڑھائی کی تو یہودیوں نے حملہ آوروں کو نجات دہندہ جان کر ان کا خیر مقدم کیا ، جن شہروں کو عرب فتح کر چکے تھے ، ان کی حفاظت کے لیے سپاہ کا کام دیا اور جن شہروں کا مسلمان محاصرہ کیے ہوئے تھے ، ان کے دروازے کھول دیے ‘‘۔
ٹی ڈبلیو آرنلڈ کے اس بیان سے مسلمان کی یہودیوں سے فراخ دلی اور رواداری کا بخوبی پتا چلتا ہے ۔ موصوف نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب میں جو اسلام کی دعوتی اور تبلیغی تحریک کی ایک مکمل تاریخ ہے ، ایسی بے شمار شہادتیں پیش کی ہیں ۔
ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں :
’’ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہودی غزوہ خیبر میں بد ترین ہزیمت، اپنی ریاست کے خاتمے اور جزیرہ عرب سے اخراج کے بعد مشرق و مغرب کے مختلف خطوںپر اقلیت کی حالت میں رہے ، بعدازاں مسلم حکمرانوں نے یہودی علماء کی قدر کی ۔ ان کے ساتھ مذہبی رواداری کا سلوک کیا ، یہی وجہ ہے کہ جب اندلس پر عیسائیوں نے قبضہ کیا تو انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کو بھی وہاں سے بے دخل کردیا ، عیسائی دنیا میں ہمیشہ یہودیوںکو بھی وہاں سے بے دخل کر دیا ، عیسائی دنیا میں ہمیشہ یہودیوں کے ساتھ امتیازی برتائو کیا گیا ۔ انہیں معاشرے سے کاٹ کر علیحدہ کر دیا گیا ۔ ان کے رہنے کے لیے شہروں سے باہر علیحدہ محلے (Ghetoes) مقرر کر دیے گئے ، جہاں وہ زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔
(تاریخ اور مذہبی تحریکیں،ص۸۹)
جب کہ اس کے بر خلاف مسلم معاشرے میں وہ مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے میں پوری طرح آزاد تھے ۔
آج اسرائیل فلسطینی مسلمانوں پر بد ترین جارحیت کا مرتکب ہے۔ معصوم بچے ، بوڑھے ، خواتین بھی اس کی سفاکی ، درندگی اور بد ترین مظالم سے محفوظ نہیں ، عرب خطے میں اس کے توسیع پسندانہ عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ، ان تمام حقائق کے باوجود عالمی طاقتیں اسرائیل کے غاصبانہ قبضے ، اس کے جارحانہ عزائم ظلم ، سفاکی ، درندگی پر خاموش ہیں ۔ ایسے میں عالمی امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ارض فلسطین اور عرب علاقوں میں اسرائیل کا وجود خطے میں جنگ اور بد امنی کا بنیادی سبب ہے ۔ اسرائیلی مظالم کی ایک طویل تاریخ ہے ، بدقسمتی سے آج فلسطین کے مسلمان بد ترین صہیونی مظالم کا شکار ہیں ۔ جس کا تدارک اور سد باب صرف اور صرف مسلم امہ کے اتحادمیں مضمر ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ فلسطین پر بد ترین اسرائیلی مظالم کی طویل تاریخ اس امر کی غماز ہے کہ ظلم و ستم کی سیاہ رات اب ختم ہونے والی ہے ۔ ایک تباہ کن جنگ جو مستقبل میں یہودیوں کو در پیش ہو گی ، وہ دُور نہیں ۔ جب صیہونیت کی بساط الٹ جائے گی، اسرائیل کا نا مسعود وجود انشاء اللہ پارہ پارہ ہو کر مٹ جائے گا۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ مسلم اُمہ کو اس کا کھویا ہؤا مقام عطا فرمائے ۔(آمین )
نوٹ: یہ مضمون میربابر مشتاق کی کتاب ’’ اسرائیل آغاز سے انجام کی طرف ‘‘ کے آغاز میں مقدمہ کے طور پر شامل ہے ۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x