ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

غزل – حبیبؔ الرحمٰن

اے کاش جرمِ معاصی پہ اتنا رولوں میں
جو داغ دامنِ دل پر لگے ہیں دھولوں میں
تمام عمر ہی گزری اسی کشاکش میں
وہ پہلے پہل کرےگاکہ پہلے بولوں میں
کسی کے دل کو کوئی ٹھیس کیسے پہنچے گی
ہر ایک بات جو کہنے سے پہلے تولوں میں
اک اور رنگ کی دنیا ہو سامنے، آنکھیں
جو بند کرکے کبھی دل کی آنکھیں کھولوں میں
سبب ہے کیا سبھی مجھ سے کھچے کھچے کیوں ہیں
کبھی اکیلے میں خود کو ذرا ٹٹولوں میں
نہ کٹ سکیں گے اکیلے یہ عمر کے رستے
نہ دے جو ساتھ کوئی، ساتھ اپنے ہولوں میں
میں جھوٹ، جھوٹ کو اور سچ کو سچ ہی کہہ کہہ کر
کیوں زندگی کے فسانے میں زہر گھولوں میں
جہاں بھی سچ پہ زبانوں کو کاٹا جاتا ہو
وہیں تو فرض ہے مجھ پر کہ سچ ہی بولوں میں
جو اہلِ بیت سے نسبت اگر نہ ہو مجھ کو
تو شہرِ علم کا دروازہ کیسے کھولوں میں
جو شب گزار کے لوٹا ہو، گھر کا دروازہ
تو ایسے صبح کے بھولے پہ کیسے کھولوں میں
کبھی لگے نہ زمانے کی بد نظر، سر سے
حبیب بڑھ کے تمہارے بلائیں تو لوں میں

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x