ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

انتظار – اسماء صدیقہ

درد کی رفاقت میں بے طرح کی شدت ہے
بے کسی کے ہاتھوں میں چیختی ہے تنہائی
منتظر زمانوں میں مضطرب فسانوں میں
وحشتوں کے پہرے ہیں اور بہت ہی گہرے ہیں
جسم وجاں بھی گھائل ہیں،یاسیت پہ مائل ہیں
دل کشی کے منظر بھی ہرقدم پہ زائل ہیں
بے حسی کے نرغے میں بے بسی کے قبضے میں
یہ خیال چبھتاہے ،اک سوال اٹھتا ہے
دکھ کو سکھ میں آنے تک،زہرکتنا پینا ہے
کتنا جی کے مرنا ہے کتنا کرکے جینا ہے
بے کراں سے جنگل کے اک سفر کے سنگم پہ
دہشتوں کے سناٹے راستوں میں حائل ہیں
کیسی نارسائی ہے ،قید یا رہائی ہے
قسمتوں کے پھیرے میں کیسی کج ادائی ہے
اس عذابِ پیہم سےمل سکے گا کیوں کر پھر
راستہ خلاصی کا
منصفی کے چرچے میں واسطہ ثلاثی کا
غفلتوں کی شدت جب جرم بن کے چھاجائے
دہشتوں کی جدت جب ظلم بن کے آ جائے
بےحسی وقلّت سے کیسے ہو مسیحائی
وقت کتنا گزرا ہے ،اور کتنا گزرے گا
قید سے نکلنے میں ،بیڑیوں کے کٹنے میں
بےحسی کے مٹنے میں ،بےبسی کے کٹنے میں

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x