ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

کچھ خلاہے کہیں – قانتہ رابعہ

صبغہ اکلوتی بیٹی ،نہ بہت ذہین فطین کہ اس کے فرمودات سوشل میڈیا کی ہر دو منٹ کے بعد زینت بنیں، نہ ہی اتنی بے وقوف کہ روٹی کو چوچی کہے!
اسی طرح پڑھنے میں بھی درمیانی ،نہ کتابی کیڑا نہ رٹو طوطا۔
کم عمری میں شادی ہوئی، پڑھائی کے دوران نکاح ہؤا اور چار چھ ماہ کے بعد پڑھائی کے دوران ہی شادی ہوگئی ۔صبغہ اشرف ،پہلوٹھی کی اولاد ابھی تو ماں باپ کے چائو لاڈ بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ میاں کو پیاری ہوگئی۔عمر اتنی کم تھی کہ ابھی دنیا کے بارے معلوم تھا نہ دنیا والوں کے۔ایک مرتبہ دور پار کی چچی زلیخا ملنے کے لیے آئیں تو لمبے سفر کی تھکاوٹ سے انہیں بخار سا محسوس ہؤا اور سارا جسم درد کرنے لگا ۔
امی نے صبغہ سے کہا ’’میری میز کی دراز سے پیناڈول اور فریج سے پانی کی بوتل لے آئو‘‘۔
چند لمحوں کے بعد صبغہ بی بی تشریف لائیں تو پلیٹ میں پانی کا گلاس اور چمچ کے ساتھ چھوٹے بھائی بہزاد کو دیا جانے والا سیرپ پیناڈول رکھا ہؤا تھا!
امی تو بیٹی کی حرکت پر خود ہی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتی رہیں لیکن چچی زلیخا بہت حیرت سے دونوں کو دیکھ رہی تھیں ۔
’’ائے زبیدہ یہ کیا حرکت کی ہے تمہاری صبغہ نے‘‘۔
’’ہائے چچی زلیخا دیکھیے تو سہی کتنی بھولی بھالی ہے میری بیٹی، اس نے پچاس پچپن سال کی عورت اور بچے کوایک ہی لائن میں کھڑا کردیا ‘‘ امی نے ناک سے مکھی اڑائی۔
’’نہ بھئی ،لڑکی ذات ہے کل کلاں کو سسرال میں ایسی حرکت کی تو تم منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہوگی‘‘زلیخا چچی نے قدرے ناگواری سے کہا ۔
’’جب سسرال جائے گی تب دیکھی جائے گی ‘‘امی ابھی بھی بیٹی کے لیے ایک حرف سننے کو تیار نہ تھیں ۔
قسمت نے زلیخا چچی کے الفاظ پر مہر لگاکر اس کا رشتہ امیر محمد سے طے کردیا ۔
قسمت جب کچھ کرنا چاہے تو بولنے والوں کی بولتیاں ایسے ہی بند کروادیتی ہے جیسے صبغہ کے ماں باپ کی کیں !
رشتہ معقول تھا،لڑکے کی پہلی خوبی اکلوتا ہونا تھا ایک ہی بہن ہے جس کی رخصتی کی تقریب میں ستر فیصد پاکستانیوں کی طرح صبغہ کا ولیمہ بھگتا لیا جائے گا۔دوسری خوبی برسر روزگار ہونا،تیسری اپنے کام سے کام رکھنا ۔کوئی شوق یا عادت قابل اعتراض نہیں تھی۔ سگریٹ کے دھویں سے اس کا دم گھٹتا تھا، یار بیلی کوئی تھا ہی نہیں دکان سے گھر اور گھر سے دکان تک کاسفر اسے پسند تھا لہٰذا کولھو کے بیل کی طرح دکان اور گھر کے گرد گھومتے ہوئے زندگی گزر رہی تھی کہ ایک عدد اٹھارہ سالہ بیوی بھی اس کے کھونٹے سے بندھ گئی ۔
جہیز میں اماں باوا نے سوئی سلائی سے فریج تک ہر چیز دی لیکن بری میں اسے زیور کپڑا لتا بعد میں ملا،منہ دکھائی میں پچپن منٹ کا مفت کا لیکچر سننے کو ملا جس کا لب لباب یہ تھا کہ:
’’ اس گھر میں ابا کے بعد سب سے کارآمد ہستی اماں کی ہے …. اماں کی ٹانگ رکشہ سے اترتے ہوئے ٹوٹ گئی تھی،ڈاکٹروں کی لاپروائی سےچلنے پھرنے کے کام میں ان کو مشکل ہوتی ہے باقی سب کام آسانی سے کر لیتی ہیں….پیڑھی نما تخت پر بیٹھے بیٹھے سبزی ترکاری بناتی ہیں ، کپڑوں کی تہہ لگاتی ہیں ،محلے کی بچیوں کو قرآن مجید پڑھاتی ہیں ،اور بھی

سینکڑوں کام اسی جگہ پر طے پاتے ہیں۔ وہ معذور قطعی نہیں لیکن حالت معذوروں والی ہے‘‘۔
اماں کے اس طبی بلیٹن کے بعد اس نے اماں کی روٹین گوش گزار کی ۔
’’اماں کو صبح تہجد کے وقت چائے اور پاپے کھانے کی عادت ہے اس سے پہلے نہار منہ انہیں کیپسول دیناہوتا ہے،ناشتے کے بعد مسور کی دال برابر گولی اور سفید شیشی والا سیرپ دینا ،دوپہر کے کھانے سے پہلے دو گولیاں اور ایک سہ پہر کی چائے کے بعد ،دو کیپسول نیلے رنگ کی ڈبیہ میں سے رات کے کھانے کے بعد اور سونے سے پہلے پھر چنے کی دال جیسی دو گولیاں….ہفتہ میں ایک دن کیلشیم کا انجکشن دودھ میں ڈال کر ، اورمہینے میں ایک مرتبہ مچھلی کے تیل والے کیپسول،یہ سب وہ وقت پر لینے کی عادی ہیں‘‘ ۔
نئی نویلی دلہن فلموں ڈراموں میں شادی کے نام پر خوشیوں کے جھولے میں جھولتا دیکھ کر منہ دکھائی میں کنگن ،بریسلیٹ یا کم از کم پیار کے شیرے میں ڈوبے چار مدہوش کردینے والے فقروں کے ساتھ انگوٹھی کی امید میں بیٹھی میاں کے منہ سے میڈیکل سٹور پر فروخت ہونے والی ادویات کی فہرست سن کر ہونق بنی منہ کھولے اچنبھے سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کی ناقص عقل میں ان ادویات کے ذکر کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی اس کے کھلے منہ کو دیکھ کر میاں امیر محمد کو ترس آیا تو سمجھایا۔
’’میری اماں خود سے دوا نہیں لے سکتیں ایکسیڈنٹ میں ان کے دماغ پر چوٹ لگی تھی تو وہ ادویات گڈ مڈ کردیتی ہیں آج سے مرتے دم تک یہ ڈیوٹی اب تمہاری ہے کہ صبح فجر سے پہلے نہار منہ والے کیپسول سے لے کر سونے سے قبل والی مسور کے دانے جیسی گولی تک سب تم نے پوری ذمہ داری سے دینا ہے،پہلے یہ کام خالدہ کرتی تھی اب ظاہر ہے وہ اپنے گھر کی ذمہ داریاں ادا کرے گی نہ کہ ہمارے گھر کی‘‘امیر محمد نے وضاحت کرتے ہوئے بات جاری رکھی۔
’’اماں کی ٹوٹی ٹانگ کا مساج بھی روزانہ کرنا پڑتا ہے اس کی ٹینشن نہ لینا وہ ایک عورت ہے مالش کرنے والی ،وہ کیا کرتی ہے‘‘۔
صبغہ ناسمجھی سے نئے نویلی شادی کے ڈائیلاگ کی امید میں آئی تھی اور ذمہ داریاں کچھ اور طرح کی مل گئیں بس قدرت کے کھیل کا ایک حصہ بن گئی تھی ۔
باقی زندگی میں اسے دوائیوں کے نام اور اوقات یاد رکھنے میں کم از کم چار پانچ ماہ لگے۔ کبھی نہار منہ والی دن کے چار بجے دے دیتی اور کبھی رات کے بارہ بجے والی عصر کے وقت!سب سے مشکل تو فجر کے لیے اٹھنے میں ہوتی۔ نماز تو پڑھنے کی پہلے بھی کبھی توفیق نہیں ہوئی تھی، مشکل تو بند آنکھوں اور گھومتے سر کے ساتھ نہار منہ والی دوا دینے میں ہوتی۔
کاموں کی طرف سے اسے تنگی نہیں تھی واقعی اس کی ساس پلنگ پیڑھی پر بیٹھے ادھے کام کر لیتی تھیں۔ باقی کاموں کے لیے ماسی آتی تھی۔ ساس اس سے بہت محبت کرتی تھیں اور برملا اظہار بھی کرتی تھیں۔ میاں بھی کھانے پینے میں درویش صفت انسان تھے بس موت تو اسے دن میں بارہ مرتبہ ادویات دینے میں پڑتی۔ اب لمبی گردن والی شیشی سے سیرپ اب گول منہ والی بوتل سے دو چمچ اب دو کیپسول ایک گولی….وہ بری طرح سے تھک جاتی تھی ۔نند جب آتی اس کا دل چاہتا اس سے فرمائش کرے کہ جتنے دن تمہارا قیام ہے تم اپنی ماں کی ادویات کی ذمے داری اپنے سر پر لو،لیکن اس کی نوبت ہی نہ آتی ،گھر میں داخل بعد میں ہوتی پہلے نعرہ لگاتی۔
’’بھا بھی جان ،آپ کی قسمت اچھی ہے امی بھی کام کرواتی ہیں اور ہیلپر بھی ملی ہے… ایک میں ہوں بہو کی شکل میں آیا ،باورچن ،دھوبن ماسی سب کچھ ہی مل گئی اس لیے میں تو گدھوں کی طرح مشقت کرکے تھکی ہوئی آئی ہوں مجھے اب اس وقت تک کوئی نہ اٹھائے جب تک خود نہ اٹھوں‘‘۔
اسی روز مرہ کی مصروفیات میں دن ہفتوں میں ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے گئے صبغہ کو قدرت نے تین بچوں کی ماں بنایا جبکہ نند کی بس دو بیٹیاں ہی تھیں۔ تیسرے بچے کی مرتبہ صبغہ کے کیس میں بہت پیچیدگی ہوگئی اور چار بوتلیں خون کی چڑھائیں ،کئی دن ہاسپٹل میں رکھا لیکن گھر میں داخل ہوتے ہی پھر طبیعت خراب ۔
نند کے ہاں فوتگی ہوئی تھی وہ نہیں آسکیں، اس نے اپنی امی کو بلایا وہ دو ہفتے رہیں بچے کو اور بیٹی کو جتنا آرام پہنچا سکتی تھیں پہنچایا جب وہ اٹھنے بیٹھنے کے قابل ہو گئی تو انہیں بھی بالآخر واپس جانا پڑا ۔
ماں کے جانے کے بعد صبغہ کو ہی میدان میں اترنا پڑا۔کہنے کو ماسی آئی تھی جھاڑو پوچا کر کے ہی گئی لیکن دو مہینوں سے الٹا ہؤا گھر منٹوں میں کیسے درست ہوتا۔ اس نے روٹی بنائی سالن بنایا بچوں کے کپڑے دھوئے۔
ہمت سے بڑھ کر کام کرنے سے تھکاوٹ اور بخار محسوس ہؤا سارے جسم میں درد کی لہریں اٹھ رہی تھیں۔ رات کو سونے کے لیے لیٹی تو کمر اکڑ کر تختہ بنی ہوئی تھی ۔بغیر بہائے اس کی جھیل جیسی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو بہہ رہے تھے دائیں طرف ہلتی تو ہائے بائیں طرف ہلتی تو ہائے ۔
اس نے میاں سے کہا ۔
’’ذرا فریج میں سے سیرپ اور میری طاقت کی دوا تو لادیں اٹھنے کی ہمت نہیں ہے‘‘۔
امیر محمد نے تیکھی نظروں سے چند لمحے اس کی طرف دیکھا اور بولا ۔
’’اتنی بھی کیا نازک مزاجی کہ اُٹھ کر دو قدم سے دوا بھی نہیں پکڑ سکتیں ‘‘۔
صبغہ گنگ بنی اس کا منہ تک رہی تھی ۔
’’اب کیا دیکھ رہی ہو میرے منہ کی طرف اتنی کم ہمت ہو تو نہیں کہ اپنی دوا بھی خود نہ لے سکو میں تو خود بہت تھکا ہؤا ہوں بہت ٹینشنیں بھگتائی ہیں آج… دکان پر دو جعلی نوٹ دے گیا کوئی گاہک مردود خبیث ، بس سیاپا ہی پڑا رہا ‘‘۔
بیوی کی حالت سے بے خبریہ کہتے ہوئے وہ کروٹ بدل کر لیٹ گیا اور کچھ منٹوں میں اس کے خراٹے کمرے کے درودیوار سے ٹکرا کر واپس آرہے تھے۔ صبغہ کی آنکھیں ایسی ہی کھلی ہوئی تھیں اور ہونقوں کی طرح ایسے ہی میاں کو دیکھ رہی تھی جیسے شادی والی رات دیکھ رہی تھی…. بس فرق یہ تھا کہ تب نا سمجھی کی عمر تھی اب سمجھ ،عقل اور تجربے کے پلوں سے بہت کچھ بہہ چکا تھا۔٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x