ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

مقناطیس – عینی عرفان

’’ٹین ڈبے والا، بھوسی ٹکڑے والا، ردی والا، کباڑ والا‘‘۔
جون کے وسط کا سورج سوا نیزے پہ نہ تھا مگر اس کی تپتی شعاعیں کسی انی کی طرح جسم کے آر پار ہورہی تھیں۔ کنپٹی سے رستا پسینہ اور تر بتر گریبان اس کی مشقت کے گواہ تھے۔ وہ خستہ حال ہوائی چپل اور ابا کے بوسیدہ، پیوند زدہ کتھئی شلوار قمیض میں ملبوس اس پوش علاقے میں صبح سے اپنا ٹھیلا گھسیٹتا چلا جارہا تھا۔ ان علاقوں میں اس کے دوچار اچھے گاہک لگ جاتے تو اس کا کافی فائدہ ہوجاتا ورنہ گلی محلوں میں تو چند لوگ فقط بھوسی ٹکڑے ہی بیچنے آتے کہ زیادہ کوئی کباڑ ان کے گھروں سے نہ نکلتا یا شاید دل سے ہی نہ اترتا تھا۔ تمام بیکار چیزوں کو یہ سوچ کے سنبھال لیتے کہ شاید کبھی نہ کبھی کام آجائے۔ پھپھوند زدہ روٹی بیچتے بھی یوں دام طے کرنے میں چک چک کرتے گویا کوئی خزانہ ہو۔ روٹی کے انمول ہونے میں اسے کوئی شک نہیں تھا۔ وہ روٹی کی قیمت سمجھتا تھا۔ یہ روٹی ہی تو تھی جو سترہ سال کے فیقے کو یوں در بدر پھراتی تھی۔
ہسپتال کے پرچے میں جانے ماں نے اس کا نام توفیق لکھوایا تھا یا رفیق، اس کی ماں کو خود ہی بھول چکا تھا اور اس نے کون سا نام کمانا تھا جو تحقیق کرتا۔ وہ گمنام رہے یا بے نام کیا فرق پڑتا ہے۔ اسے نام نہیں روٹی کمانی تھی صرف اور صرف روٹی۔ باپ کا چھ ماہ پہلے انتقال ہوگیا اور اچانک ہی بیوہ ماں اور یتیم بہن کی ذمّہ داری اس کے کنچے بنٹے کھیلتے بے فکر کاندھوں پہ آپڑی تھی۔ جوان بہن کی شادی سر پہ تھی۔ اگلوں کا احسان تھا کہ انہوں نے جہیز لینے سے منع کردیا مگر اپنی برادری میں وہ بے غیرت مشہور ہوگیا جو باپ کے مرنے کے بعد یتیم بہن کو خالی ہاتھ بیاہ رہا تھا۔
بہن کے سسرال والوں نے نکاح مسجد میں رکھا تھا اور چار لوگوں کے ساتھ گھر کے دروازے سے رخصتی مانگی تھی کیونکہ وہ لڑکی والوں پہ کسی قسم کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ ابا اپنی زندگی میں ہی اپنی بیٹی کا رشتہ ایسے ہیرا لوگوں میں کرگیا تھا جو آج کے زمانے میں عنقا ہیں مگر اس کی اپنی ہی ذات برادری والوں کو چین نہیں تھا۔ ان کے ہاں چاہے دو نمبری کی جائے یا مانگ تانگ کے انتظام کرنا پڑے مگر نہ جہیز میں کمی کوتاہی ہوتی اور نہ ہی شادی کی دعوت میں کوئی سمجھوتا۔ اب فیقے کو بھی اپنی برادری کو شادی کی روٹی تو کھلانی ہی پڑتی ورنہ وہ کس کس کا منہ بند کرتا۔
دماغ مختلف سوچوں کی آماجگاہ بنا ہؤا تھا اور منہ کسی ٹیپ ریکارڈ کی طرح بج رہا تھا ۔ ابا کے جانے کے بعد ان چھ مہینوں میں اسے مسلسل ’’ٹین ڈبے والے‘‘ کی گردان کرنے کی کافی مشق ہوگئی تھی۔
’’کباڑ والے! ‘‘
پیچھے سے کسی کے پکارنے پہ وہ امید کے ساتھ پلٹا۔ ایک ادھیڑ عمر شخص بڑے سے بنگلے سے نکل رہا تھا۔ کپڑے مختلف رنگوں سے سنے تھے اور دونوں ہاتھوں میں رنگ کے بہت سارے خالی ڈبے تھے۔ یقیناً وہ کوئی رنگ ساز تھا۔ اس نے شکر ادا کیا۔ بھوسہ اور ردی سے زیادہ کباڑی بازار میں ٹین کی مانگ تھی۔ اس کی بھی اچھی خاصی بچت ہوجاتی۔ اس شخص سے مول طے کرکے وہ ڈبے باری باری ترازو پہ تولنے لگا۔
’’سنو تمہاری عمر کتنی ہے؟‘‘
عموماً لوگ اس کی کم عمری کی وجہ سے افسوس کرتے تھے کہ اتنی سی عمر میں وہ گلی گلی ریڑھی کیوں چلاتا تھا۔ وہ بھی معصوم شکل بنا کے اپنی مجبوریاں بیان کرتا تو اگلے کا دل پسیج جاتا اور وہ معمولی پیسے کے عوض اس کو کباڑ دے جاتے۔
ابھی بھی اس نے لٹکے چہرے کے ساتھ بتایا کہ اگلے ماہ وہ سترہ سال کا ہو جائے گا، پھر توقف کیے بنا باپ کی اچانک موت، بہن کی شادی، ماں کی بیماری، برادری کی توقعات سب بیان کرتا چلا گیا۔ زبان کے ساتھ ساتھ اس کے ہاتھ بھی چل رہے تھے۔ سارا سامان تول کے اس آدمی کے سامنے رکھا تو وہ عجیب نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ فیقے کے دل میں خوف کی لہر اٹھی۔
’’کیا ہوا چاچا!‘‘ اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
’’کچھ نہیں، میں سوچ رہا ہوں کہ تم صبح شام اتنی محنت کیوں کرتے ہو۔ جوان ہو، ہٹے کٹے ہو، دم دار بھی لگتے ہو تو تم چوری چکاری کیوں نہیں کرتے، آتے جاتے لوگوں کے پرس، موبائل، بٹوے چھین سکتے ہو، ڈاکے ڈال سکتے ہو یا کوئی بھی ایسا کام جس میں کم وقت میں زیادہ پیسہ کما سکو تاکہ تمہارے سارے مسئلے چٹکی میں ہی حل ہو جائیں‘‘۔
’’کیسی باتیں کرتے ہو چاچا!‘‘ آدمی کی بات پہ اس کی آواز بلند اور چہرہ سرخ ہوگیا۔
’’ میرے باپ نے ساری زندگی محنت کی کمائی سے زندگی کی ریڑھی گھسیٹی اور ورثہ میں میرے لیے بھی صرف دو ہی چیزیں چھوڑ کے گیا۔ یہ لوہے کا باٹ اور حلال کا پاٹ۔ تم آ کے مجھے الٹی پٹیاں پڑھا رہے ہو‘‘۔
’’میں تو تمہاری ہی آسانی کے لیے کہہ رہا تھا کیونکہ باپ کا چھوڑا ہؤا ورثہ تو تم نے اپنایا ہی نہیں تو پھر کیا فائدہ خود کو اتنا ہلکان کرنے کا ….جب حرام ہی کمانا ہے تو اپنی سہولت تو دیکھو‘‘۔
اس آدمی نے ہاتھ بڑھا کے ترازو کے پلڑے کے نیچے چپکا بڑا سا مقناطیس نکال لیا۔
عرقِ ندامت نے فیقے کی پیشانی کو بھگودیا ۔وہ نظر جھکا کے رہ گیا۔
’’حرام کا ایک لقمہ بھی پوری دیگ کو ناپاک کردیتا ہے جب ناپاک ہی کمانا ہے تو اتنی محنت کیوں کرتے ہو۔ چھوڑ دو یہ حلال کا ڈھونگ، ان ہزاروں محنت کشوں کو بدنام نہ کرو جو سچ میں حلال کماتے ہیں۔ باپ کا راستہ چھوڑو اور پاپ کے راستے پہ اپنی منزل تلاش کرو۔ ویسے کہیں تمہارا باپ ہی تو یہ طریقہ سکھا کے نہیں گیا‘‘۔
سمجھاتے سمجھاتے آخر میں اس آدمی کا لہجہ مشکوک ہوگیا تو فیقہ تڑپ اٹھا۔
’’نہیں بخدا نہیں، ابا کی ایمانداری ہی تو تھی جو اسے پوری برادری میں ممتاز رکھتی تھی۔ یہ تو مجھے میرے دوست نے بتایا تھا مول تول میں ہیر پھیر کروں گا تو زیادہ منافع ملے گا۔ بہن کی شادی سر پہ تھی تو میں مان گیا۔ ابھی ایک مہینہ ہی ہؤا ہے مجھے ترازو میں یہ مقناطیس لگائے…. لیکن کوئی فائدہ ہی نہیں ہؤا، روز کی کمائی روز ختم ہوجاتی ہے کچھ بچت ہی نہیں ہوتی‘‘ فیقے کے لہجے میں بے بسی تھی۔
اس آدمی نے اس کے کاندھے پہ ہاتھ رکھا’’ تمہیں پتہ ہے حرام کا مال اور ناشکری کا بول رزق میں تنگی پیدا کرتا ہے۔ برکت ختم ہوجاتی ہے۔ پوری برادری کے لیے حرام جمع کرنے سے اچھا تھا چار لوگو کو حلال کھلا کے بہن رخصت کرتے۔ کیا لوگوں کے سوال جواب اتنے فکر انگیز تھے کہ آخرت کا حساب کتاب بھول گئے‘‘۔
آدمی کا نرم لہجہ اور حوصلہ بھری تھپکی فیقے کی آنکھ میں آنسو لے آئے، اس کا ضمیر سویا نہیں تھا ایک ذرا سی اونگھ آئی تھی جو نیکی کی مدھم پکار پہ ہی ٹوٹ گئی تھی۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ شیطان مختلف روپ دھار کے بار بار اسے اکسائے۔ اس نے مقناطیس اٹھا کے سڑک کے کنارے نصب کچرے کے ڈبے میں اچھال دیا اور دوبارہ ٹین ڈبے تولنے لگا۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
3 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x