ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

علامتی افسانہ – آخری چراغ – عبد الرحمان

گئے وقت کے کسی لمحے میں فلک سے دو قطرے زمین پر برسے اور صدیوں سے سوئے ہوئے براعظم جاگ اٹھے۔ مگر یہ دونوں قطرے مختلف سمت میں ایک دوسرے سے کئی میلوں دور گرے۔ اور ایک دوسرے کو پانے کی کھوج میں نکل پڑے۔ یعنی وجود کی زندگی ایک تلاش ہے۔ مزار کی سیڑھیوں سے اتر کر کچھ فاصلے پر نظر آنے والی ساحلی پٹی کی طرف جاتے ہوئے میرا ذہن کا ئنات کے اسرار ورموز جاننے کی سوچوں میں مگن تھا۔ رات گہری ہو رہی تھی۔ ساحل پر سیر کو آئے لوگ گھروں کو لوٹ چکے تھے۔ سمندر سے لہروں کا شور بدستور اٹھ رہا تھا۔ دن بھر کی دھوپ سہنے اور تھکاوٹ کے باوجو دافق پر چمکتے ہوئے چاند نے ان کا سکوت چھین لیا تھا۔ بھنور سے لے کر ساحل اور دوبارہساحل سے لے کر گرداب تک ان لہروں کا سفر بھی کسی کی تلاش میں ہی ہوتا ہوگا۔
’’تلاش کا سفر بہت لمبا اور کٹھن ہے مگر پھر بھی یہ طے ہو ہی جاتا ہے۔ مگر کیسے؟ وہ کونسی چیز ہے جو انسان کو راستے کے پتھروں سے ٹکرا کر گرنے کے بعد اٹھنے کا حوصلہ دیتی ہے؟ کچھ تو ہے ‘‘۔ ساحل کنارے چلتے ہوئے میرے ذہن میں سوال ابھرا۔ سمندر کی نیلگوں لہروں میں چاند کا عکس نمایاں تھا۔ اسی لمحے مجھے ساحل کی ریت پر ایک دوسرا عکس دکھائی دیا۔ چند قدم کے فاصلے پر ایک انسانی وجود کا عکس جو رفتہ رفتہ سمندر کی لہروں کی جانب بڑھ رہا تھا۔ مجھے اندیشہ لاحق ہوا اور میں اس کی جانب لپکا۔
’’ چراغ ‘‘ اس کی آواز ابھری۔ میں ٹھہر گیا ۔ ’’ وہ چراغ ہی ہے جو تلاش کے سفر میں نوکیلے پتھروں سے ٹکرا کر گرنے کے بعد اٹھنے کا حوصلہ دیتا ہے‘‘۔ میرے قدم زنجیر ہو گئے ۔ اس نے میری سوچ پڑھ لی تھی۔ سمندر میں ایک دم سکوت چھا گیا۔ شاید لہر میں بھی اس کا جواب سننے میں مگن ہو گئی تھیں۔
میں نے پیچھے مڑ کر دور مزار کی طرف ایک نظر دیکھا۔ جہاں ایک قطار میں کئی چراغ جل رہے تھے ۔ ’’اس کا ئنات کا ہر وجود اپنے ہمسفر کی تلاش میں سفر پر رواں ہے۔ اور قدرت نے اپنے اس راستے پر کئی چراغ جلا کر رکھ دیے ہیں۔ مسافران کی روشنی میں راستے کی رکاوٹوں سے بچتا ہوا آگے بڑھتا ہے تو کہیں اچانک چراغ بجھ جانے کی وجہ سے اندھیرے میں ٹھو کر کھا کر گر پڑتا ہے مگر عین اسی وقت ایک اورچراغ جلتا ہے اور وہ پھر اپنی منزل کی جانب چل پڑتا ہے۔ اور یہ سفر اسی طرح جاری رہتا ہے ‘‘۔ اس نے جوتے اتارے اور ننگے پاؤںساحل کی ریت پر بیٹھ گئی۔
مجھے اس کی باتوں نے مسحور کر دیا تھا۔ میں آگے بڑھا اور اس سے دو قدم کے فاصلے پر بیٹھ گیا۔
’’کیا اس طرح منزل مل جاتی ہے۔ وجود اپنا ہمسفر تلاش کر لیتا ہے؟‘‘ میرے سوال پر اس نے نظر اٹھا کر چاند کی طرف دیکھا۔ ’’جوان راستوں کے چراغوں پر یقین رکھتا ہے، اس کو آخر کار منزل مل جاتی ہے، وہ اپنا ہمسفر پالیتا ہے، مگر راستے کے آخر پر ‘‘۔
’’اور جو یقین نہیں رکھتا ، وہ؟ ‘‘ لہروں کا شور پھر سے بڑھنے لگا تھا۔ شاید ان کو میرا سوال کرنا نا گوار گزرا تھا۔
’’جوان چراغوں پر یقین نہیں رکھتے ، وہ یا تو کسی ٹھوکر سے گرنے کے بعد وہیں ہمت ہار جاتے ہیں، اور سفر ترک کر دیتے ہیں۔ یا پھرسراب میں کھو کر راستے میں کسی گھاٹ کو اپنی منزل اور وہاں بنے کسی بت کو ہی اپنا ہمسفر سمجھ لیتے ہیں‘‘۔
میری نظر دوبارہ مزار کی طرف دوڑتی چلی گئی جہاں ایک قطار میں کچھ چراغ ٹمٹمار ہے تھے۔
’’ کیا منزل تک کا سارا راستہ ان چراغوں سے مزین ہے؟‘‘ میں نے پھر اس سے سوال کیا۔
’’ہاں! کہہ سکتے ہیں ایسا۔ رستے میں مختلف مقامات پر چراغ رکھے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ چراغ ادھ رستے میں بجھ جاتے ہیں مگرایک چراغ ان سب سے مختلف ہوتا ہے جو ہمیشہ عین منزل کے پاس جل رہا ہوتا ہے۔ اور وجود کے لیے منزل کو پانے کی حتمی کڑی ہوتا ہے‘‘۔میں نے مزار پر جلنے والے چراغوں میں سے قطار کے آخری چراغ کو دیکھا۔ اس کے شعلہ باقیوں سے بلند تھا۔
’’ وہ چراغ کیوں نہیں بجھتا ؟ ان آندھیوں کا کیا جو ہمیشہ چراغ بجھانے کے درپے رہتی ہیں۔ کیا وہ بھی نہیں بجھا پاتی ؟‘‘۔
لہروں کا شور ایک بار پھر بلند ہؤا۔ وہ ایک دم آگے کو جھکی اور ریت پر اپنے گداز ہاتھوں سے ایک ہالہ بنایا۔ ’’ دیکھو مسافر ! چاند کی روشنی ہرطرف ہے مگر اس حصار کے اندر نہیں پہنچ پار ہی اسی طرح قدرت نے اس آخری چراغ کے گرد ایک آڑ بنارکھی ہوتی ہے۔ جس کو وقت کی آندھیاں عبور نہیں کر پاتی‘‘۔
’’تم نے مجھے مسافر کہا؟‘‘
’’ہاں … اس کا ئنات کا ہر وجود مسافر ہے۔۔۔ اپنی اپنی منزل کا متلاشی ۔ کوئی طویل راستہ کاٹ کر منزل تک پہنچتا ہے تو کسی کی منزل ایک مختصر راستے کے بعد انتظار کر رہی ہوتی ہے‘‘۔
’’کیا تم نے منزل پالی ہے؟‘‘ میں پوچھے بنا نہ رہ سکا۔ اس دفعہ لہروں نے میرے اس سوال پر مکمل سکوت اختیار کیا۔ وہ میرا سوال سن کر ایک لمحے کو میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔ یہ پہلا لمحہ تھا جب اس نے میری طرف دیکھا تھا۔ اسی لمحے میں نے وہاں دوسرا سمندر دیکھا جو اس کی آنکھوں میں موجزن تھا۔ جہاں سے کچھ آنسو اس کے رخسار پر سیل رواں کی طرح بہہ رہے تھے اور لبوں تک پہنچنے کے بعد سرد آہوں کے زیر اثر خشک ہوئے جا رہے تھے۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر مجھے معلوم ہوا کہ آخر بلبل صبح سویرے تازہ کھلے ہوئے گلاب کے پھول اور اس سے رستی شبنم کو دیکھ کر اداس گیت کیوں گاتی ہے۔’’ تم بھی عجیب سوال کرتے ہو ‘‘۔ اس کی آواز نے میری سوچ کا تسلسل تو ڑا اور میں ایک دم چونک کر اس کی جانب متوجہ ہوا۔’’ زندہ رہ کر وجود کیسے منزل پاسکتا ہے۔ منزل پانے کے لیے مرنا پڑتا ہے‘‘۔
مجھے اس کی یہ بات سمجھ نہ آئی۔ میں نے پھر پوچھا۔ ’’ جب وجو د ہی مر گیا تو پھر کونسا چراغ …کونسی منزل ؟ ہمسفر کی تلاش تو دنیا میں کی جاتی ہے‘‘۔
اس نے ایک لمحے کو توقف کیا اور پھر کہنے لگی ۔ ’’ہاں تم سچ کہتے ہو… ہمسفر کی تلاش ہمیشہ دنیا میں ہی کی جاتی ہے۔ اور یہ راستے میں جلنے والے چراغ امید کے چراغ ہوتے ہیں۔ کوئی کوئی اپنا ہمسفر دنیا میں اس سفر پر ہی پالیتا ہے۔ مگر منزل ہمیشہ اس آخری چراغ کے بعد ہی ہوتی ہے ‘‘۔ ’’ ایمان کے چراغ ۔ یقین کے چراغ کے بعد ۔۔۔ مگر اس چراغ اور منزل سے پہلے ایک آڑ ہوتی ہے۔ موت کیآڑ ۔ وجود کو منزل پانے کے لیے اس آڑ کو عبور کرنا ہوتا ہے۔ مرنا پڑتا ہے۔ اور جب وہ مرکز منزل تک پہنچتا ہے تو اسے حاصل کر کے امر ہو جاتا ہے…کتنا خوبصورت سفر ہے نا یہ‘‘… اس کا جواب سن کر میں حیرت کا مجسمہ بنا رہ گیا۔ لہریں اس وقت مکمل خاموش تھیں ۔ مگر وہ سوئی نہیں تھی۔ میں ان کے اندر مجسم تلاطم دیکھ سکتا تھا جو شاید کسی آنے والے طوفان کا پتا دے رہا تھا۔
’’ اور تم نے مجھ سے میری منزل کا پوچھا تھانا ‘‘۔ اس نے دوبارہ بات شروع کی ۔ ’’تو سنو ! میرا آخری چراغ ابھی جل رہا ہے۔ میں نے زیادہ لمبا سفر طے نہیں کیا۔ مگر مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب میرا سفر منزل کے بہت قریب ہے۔ بس مجھے ایک آڑ عبور کرتی ہے‘‘۔ اس نے اپنے داہنے ہاتھ کی ہتھیلی کھول کر اس پر نظریں جمائے کہا۔ تب میں نے چاند کی روشنی میں اس کی ہتھیلی پر زندگی کی ایک بہت مختصر لے کردیکھی ۔ مجھے اس جوان وجود پر ترس آیا۔ شاید خوبصورت ہتھیلیوں کے مقدر میں ہمیشہ زندگی کی لکیر ہمیشہ چھوٹی ہوتی ہے۔
’’کیا تم اسی لیے یہاں آئی ہو؟ وہ آڑ عبور کرنے؟‘‘میں نے اس سے پوچھا۔
اس نے چاند کی طرف دیکھا اور کہا… ’’ میرے راستے کے چراغ مجھے یہاں تک لے آئے ہیں ۔ اب میں بہت خوش ہوں۔ مجھے میری منزل مل جائے گی ‘‘۔ وہ بے ساختہ دونوں ہاتھوں سے اپنے آنسو پونچھنے لگی۔
’’اگر تمہیں منزل نہ ملی تو ؟‘‘ میں نے سوال کیا تو لہریں جیسے مچل اٹھیں ۔
’’منزل کی تلاش کے اس سفر میں کبھی کبھی امید کے چراغ وجود کو بہکا دیتے ہیں، مگر یہ آخری چراغ… یقین کا چراغ کبھی دھو کہ نہیں دیتا، اس لیے مجھے منزل مل جانے کا یقین ہے ‘‘… اس نے اپنے پاؤں پھیلا دیے۔ دفعتاً ایک لہر کنارے تک آئی اور اس کے پیروں کو چھو کر پلٹ گئی ۔ وہ لہر واپس پلٹی تو مجھے یوں لگا وہ اپنے ساتھ کچھ لے کر جا رہی ہو۔ میں دیکھنے کے لیے اٹھ کر آگے بڑھا مگر وہ عکس تھا۔ اس وجود کا عکس جواہر اپنے دامن میں سمیٹے چلے جارہی تھی۔ میں واپس اپکا اور اس کے کندھے کو جھنجھوڑا کہ اہر اس کا عکس چرا کر لے جارہی ہے۔مگر تب ہی اس کا بے جان وجود میری بانہوں میں جھول گیا۔ اس نے اپنی منزل کے حصول کے لیے آڑ عبور کر لی تھی۔ اور میں وہاں تنہارہ گیا۔ اس کے وجود کو دفن کرنے کے بعد میں بوجھل قدموں سے واپس لوٹا تو مجھے اس کی وہ پتھر آئی ہوئی آنکھیں یاد آئیں ، جن میں ایک سفر کی روداد پنہاں تھی۔ میرے کانوں میں اس کے الفاظ گونج رہے تھے…’’منزل ہمیشہ اس آخری چراغ کے بعد ہی ہوتی ہے ۔ ’’ایمان کے چراغ ۔ یقین کے چراغ ‘‘کے بعد۔ مگر اس چراغ اور منزل سے پہلے ایک آڑ ہوتی ہے۔ موت کی آڑ ۔ وجود کو منزل پانے کے لیےاس آڑ کو عبور کرنا ہوتا ہے۔ مرنا پڑتا ہے۔ اور جب وہ مرکز منزل تک پہنچتا ہے تو اسے حاصل کر کے امر ہو جاتا ہے‘‘۔
چلتے چلتے میری نظر اس مزار کی طرف اٹھ گئی۔ جہاں کچھ دیر پہلے جلنے والے سارے چراغ بجھ گئے تھے ۔ مگر اس قطار میں آخری چراغ ہنوز جل رہا تھا۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x