ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

نصیب – ام ایمان

علیزے کی چلبلاہت پورے خاندان میں مشہور تھی ۔ شوخ چنچل ہنسنے مسکرانے والی بات بات پر چٹکلے چھوڑتی ساری سہیلیاں اور چچا زاد خالہ زاد اس پر فدا اور وہ ان پر فدا ۔ جس محفل میں ہوتی باتوں کی آوازیں اور ہنسی بتادیتی کہ علیزے یہاںموجود ہے۔
کالج میں بھی سب کی سہیلی تھی اساتذہ کو بھی اس کا نام اور کام خوب پتہ تھے ۔ چھوٹی چھوٹی شرارتوں سے سب کو ہنسنے مسکرانے پر مجبور کر دیتی ۔ ابھی انٹر کا رزلٹ نہیں آیا تھا کہ اسے کھونٹے سے باندھنے کا بندو بست ہو گیا ، لڑکے کی سب سے بڑی خوبی تھی کہ وہ پڑھا لکھا اور بھاری تنخواہ والا تھا ۔ دوسری دو بڑی خوبیاں علاوہ تھیں کہ مناسب عمر اور اکیلا … والدین دور… سب کی نظر میں تو جیسے علیزے کی لاٹری نکل آئی۔
جھٹ پٹ رشتہ طے ہؤا ۔ والدین رخصتی کے لیے مقررہ تاریخ سے پہلے آگئے ۔ تصویر دیکھ کر پہلے ہی خوشی سے حامی بھر لی تھی ۔ سارے خاندان والے علیزے کی قسمت کے گن گا رہے تھے ۔ رخصتی کی تاریخ اتنی جلدی آگئی یہ کوئی علیزے سے پوچھے ۔ یونیورسٹی جانے کا خواب لیے علیزے پیا دیس سدھار ی ۔ سارا خاندان خوش قسمت کہہ رہا تھا سواس نے بھی اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھ لیا تھا ۔ سمیر کی چاہت اور تعلیم کے سب ہی گن گا رہے تھے سو علیزے کا دل بھی سر میں سر ملانے پر آمادہ ہوگیا ۔
چند دن شادی کے گزرے تو علیزے کو اپنی خوش قسمتی پر شک ہونے لگا ۔ سمیر کی بیگانگی کا ذکر ماں سے کیا ، ماں نے بہلا دیا کہ وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جائے گا ۔ لیکن سمیر کو ٹھیک نہیں ہونا تھا ۔ ماں کی کسی شرط پر ہار کر شادی کرنے والا سمیر دل میں کسی اور کو بسائے بیٹھا تھا۔چند ہی ماہ میں علیزے پر اس نے ساری کہانی واضح کردی۔
’’ میں تمہارے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کروں گا۔ تم جب جانا چاہواپنے والدین کے گھر جا سکتی ہو‘‘۔
سمیرنے ایک جملے میں علیزے کی زندگی کا فیصلہ اس کے ہی ہاتھ میں تھما دیا ۔ کیا چال ہے ! ماں کو خوش کیا ، ساتھ پہلی محبت کو پانے کی منصوبہ بندی کی ، لیکن ایک معصوم لڑکی کا نہ سوچا جس کو چند ماہ میں ہی خاندان بھر میں خوش قسمت سے بد قسمت بنا دیا ۔
علیزے کی سوچ تو اسی نکتے پر اٹک گئی تھی ۔ میں بد قسمت ہوں! علیحدگی کے بعد کئی ہفتے اس نے اس بات پر کڑھ کڑھ کر سوچ سوچ کر گزارے ۔ ماں باپ پریشان تو تھے ہی شرمندہ بھی تھے ۔ فیصلہ بھی تو ان ہی کا تھا ۔ اب کیا کریں ؟یہ سوال والدین کے سامنے کھڑا تھا ۔ خاندان کے لوگ نہ پوچھیں تو بھی آنکھوں میں سوال ہی نظر آتے تھے ۔ علیزے کا دماغ سن سا تھا جہاں خوش قسمت اور بد قسمت کی گردان ہی چلتی رہتی تھی۔
آخر کار اس نے اس گردان کو مکمل کر ہی لیا نہیں میں بد قسمت نہیں … مجھے اب اپنے خواب پورے کرنے چاہئیں ۔ میں پڑھوں گی ۔ یونیورسٹی جائوں گی۔
لو بھئی پر خواب ابھی بنا ہی تھا … اُلجھے دھاگے سلجھا کر … کہ الٹی متلی اور چکروں نے کسی اور سمت میں گھما ڈالا۔ لیڈی ڈاکٹر نے مصدقہ اطلاع دی کہ ایک نئی زندگی اس کے اندر نمو پا رہی ہے … علیزے کی سنِ کیفیت کا دوسرا دور شروع ہو گیا ۔ وہ سوچ و بچار میں تھی یا بالکل مائوف ذہن کے ساتھ چلتی پھرتی لاش … ماں باپ دم بخود تھے ۔ یہ خوشخبری چند ماہ پہلے پتہ لگتی تو شاید امید کا ایک در کھل جاتا لیکن اب … اس کے آگے سوالات کی کھائی گہری تھی ۔ اللہ کا کرشمہ تھا زندگی کی صورت میں جس کو ظہور میں آنا تھا اور آیا … ایک نئی زندگی نے دنیا میں آنکھ کھولی تو باپ کا سایہ تک ساتھ نہ تھا جس نے اس خبر کو مکمل بے پروائی سے سنا اور اپنی زندگی میں خوش اور مگن رہا۔
سوا مہینہ گزر گیا ۔ جیسے جیسے دن گزر رہے تھے علیزے کے رویے اور سوچ میں ٹھہرائو آ رہا تھا ۔ ماں بن کر اس کا دل مضبوط ہو گیا تھا ۔ اس نے اپنی بد نصیبی اور خوش نصیبی دونوں کو قبول کر لیا تھا ۔ ہاں ماں بننا بھی تو خوش نصیبی ہے یہ رتبہ ہر ایک کو نہیں ملتا ، اس کے دل نے سمجھایا ممتا کا ایک لطیف جذبہ ہر لمحہ اس کے دل میں ہلکورے لیتا رہتا ۔
ننھی منی گڑیا کی روشن آنکھیں اس کے دل کو امید کے نئے جگنوئوں سے روشناس کراتیں اور وہ خیالوں میں کہیں سے کہیں پہنچ جاتی۔ نانا نانی بھی خوش تھے اُن کو ایک جیتا جاگتا کھلونا میسر آگیا تھا ۔ زندگی کچھ پر سکون ہو چلی تھی کہ گھر کے صحن میں پتھر گرا ۔ بیری تو بیری ہی ہوتی ہے ۔ اس دفعہ یہ پتھر خالہ کے گھر سے آیا۔
خالد نے تو پہلے بھی اشاروں کنائوں میں زبیر کے لیے علیزے کی بات کی تھی ۔ لیکن اس وقت ایک شاندار خواب نے بہن کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا تھا ۔ سمیر کے گھر اور کمائی کے آگے زبیر کی تو حیثیت ہی کیا تھی! سو بہن بھی چپ ہو گئی ۔ اب جب کہ علیزے کی منی گڑیا دو سال کی ہو گئی تھی اور علیزے ماں کے ساتھ جا کر یونیورسٹی میں داخلے کے لیے ساری معلومات اور فارم لے آئی تھی ، خالد کے لائے رشتے پر امی اور ابا نے غور شروع کر دیا ۔ علیزے فارم سامنے رکھ کر مضامین کے انتخاب پر غور کر رہی تھی کہ امی نے زبیر کے رشتے کا قصہ چھیڑ دیا ۔
علیزے حیران پریشان ماں کی بات سن رہی تھی۔
’’ امی اب بس کریں ۔ مجھے اب اپنے خواب پورے کرنے دیں‘‘۔
’’ کیا ہیں تمہارے خواب ‘‘ امی نے علیزے کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دبایا۔
’’ یونیورسٹی میں پڑھنا ‘‘۔
’’ پھر ؟‘‘
’’ خوب پڑھنا…خوب آگے بڑھنا‘‘۔
’’ پر اس کے بعد ؟‘‘
’’ پھر پڑھانا … اپنے پائوں پر کھڑے ہونا … اپنی بیٹی کو خود پالنا … کسی پر بوجھ نہیں بننا ‘‘۔
’’ ہوں … اچھے خواب ہیں ۔ لیکن ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے زبیر تمہارے ساتھ ہوجائے تو پورے ہونے آسان ہوں گے ‘‘۔
’’ اگر پورے ہونے کے بجائے ٹوٹ گئے ؟‘‘ علیزے نے ساکت چہرے پر جلتی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔
’’ یہ مسکراہٹ ہے ؟‘‘ ماں نے علیزے کی مسکراہٹ دیکھ کر دل میں سوچا … میری ہنستی کھکھلاتی بچی…
ایک آنسو علیزے کے ہاتھ پر گرا۔
’’ امی آپ آنسوئوں سے مجھ پر دبائو ڈالیں گی ؟‘‘
’’ نہیں بیٹا میں ہر گز دبائونہیں ڈالوں گی … تم سوچ سمجھ کر مجھے بتائو … میں تو تم کو خوش ہی دیکھنا چاہتی ہوں ‘‘۔
ماں نے علیزے کے ماتھے پر پیار کر کے گلے لگایا۔
’’ میری بچی … اللہ تجھے ہنستا مسکراتا رکھے ‘‘۔
ایک ہفتے کے طویل سوچ بچار کے بعد علیزے نے ماں کو حامی بھری اس شرط کے ساتھ کہ زبیر کو میری بیٹی کے لیے باپ بننا ہوگا یعنی میں اپنی بیٹی کو اپنے سے الگ نہیں کروں گی ۔
’’ میری جان یہ بات تو پہلے ہی اس نے خود کہی تھی ‘‘۔ علیزے ماں کی بات پر مسکرا پڑی ’’ سچ میں ؟‘‘ ماں نے سر ہلایا ۔ بیٹی کی شرمیلی پیاری سی مسکراہٹ نے دل کو اطمینان سے بھر دیا۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x