ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

آخری دستک – عشرت زاہد

وہ کراچی کا ایک گنجان آباد علاقہ تھا۔
چھوٹی چھوٹی گلیوں پر مشتمل درمیانے طبقے کی آبادی تھی۔ انہیں میں سے ایک گھرانہ فوزیہ کا تھا۔
’’چلو آ جائو، جلدی سے سب لوگ ناشتہ کر لو۔ پھر کہیں گے چائے ٹھنڈی ہو گئی‘‘فوزیہ کی اماں نے روز کی طرح صدا لگائی۔
یہ ناشتہ صرف دو چیزوں پر مشتمل ہوتا۔ کبھی کبھار اگر رات کا سالن بچا ہؤا ہو تو اور بات ہوتی۔ ورنہ پتیلی بھر چائے میں اماں ایک پاؤ دودھ ڈال کر ابال دیتیں جو دوسری مرتبہ گرم ہو جائے تو مزید گہرے رنگ کی ہو جاتی۔ اس کے ساتھ اماں کے ہاتھ کے پراٹھے۔ ہاں پراٹھوں پر اماں کبھی سمجھوتا نہیں کرتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صبح کا ناشتہ پیٹ بھر کھا کر ہی گھر سے باہر نکلنا چاہیے، تبھی بندہ دن بھر توانا رہتا ہے۔ وہ گرما گرم سرخ اور خستہ پراٹھے بناتیں جن کو چائے سے کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا۔ ایسے میں اس پتلی اور گہرے رنگ والی چائے کی کلفت بھی دور ہو جاتی۔
فوزیہ کے ابو کسی سبزی والے آڑھتی کے پاس نوکر تھے۔ اس لیے انہیں صبح تڑکے ہی سبزی منڈی جانا پڑتا۔ اور جب شام میں واپسی ہوتی تو کوئی سبزی ساتھ لے آتے۔ جس سے رات کے سالن کا آسرا ہو جاتا۔
بڑا بھائی پانچویں سے آگے پڑھ نہیں سکا تھا تو اس کو مکینک کے پاس بٹھا دیا تھا۔ جب ایک اچھا کاریگر بن گیا اور کمائی بھی کچھ بہتر ہو گئی تو گزشتہ سال اس کی شادی کر دی تھی اور اب اس کی ایک چھوٹی سی بیٹی تھی۔ گھر میں ان کے علاوہ فوزیہ کی دو چھوٹی جڑواں بہنیں نیلو اور شیریں تھیں جو ابھی میٹرک میں تھیں ۔ بڑی بہن کی شادی ہوئی تھی لیکن بےچاری کا دو ماہ پہلے ہی زچگی میں انتقال ہو گیا تھا۔
فوزیہ میٹرک کے بعد نرسنگ کا ڈپلومہ کر رہی تھی۔ جس کا آخری سال رہ گیا تھا۔ وہ سانولے رنگ کی مگر تیکھے نقوش والی پیاری سی لڑکی تھی، بہت محبت کرنے والی اور کافی سمجھدار ۔ اپنے گھر کے حالات بہتر کرنے کے لیے محنت کر رہی تھی۔ دو تین رشتے بھی آئے لیکن اس نے انکار کر دیا۔ گھر والوں نے بھی کچھ زیادہ اصرار نہیں کیا تھا۔ وہ خاموشی سے اس کے فارغ ہو کر کسی ہسپتال میں کام پر لگنے کے منتظر تھے۔ ادھر فوزیہ بہتر تنخواہ اور دیگر مراعات کی وجہ سے سرکاری ملازمت کے خواب دیکھ رہی تھی۔ جس کے لیے گھر پر فارغ وقت میں خوب پڑھائی بھی کرتی تھی۔ اب اس کی ہسپتال میں پریکٹس بھی شروع ہو گئی تھی۔
ساتھ پڑھنے والی سہیلی لبنیٰ نے ایک دن اس سےکہا۔
’’بس یار، جلدی سے یہ پڑھائی ختم ہو جائے اور اچھی جگہ کام مل جائے۔ کچھ پیسے جمع ہوں گے تو بہت سارے کام کرنے ہیں۔ اماں کی آنکھ کا آپریشن کروانا ہے۔ عید پر بڑی آپی کی شادی ہے، اماں کہہ رہی تھیں کہ چھوٹی بہن مہر کا بھی رشتہ آیا ہؤا ہے، اگر یہ پکا ہو جائے تو دونوں لڑکیوں کی شادی ایک ساتھ ہی کر دیں گی‘‘۔
’’مہر تو ابھی چھوٹی ہے، اس سے پہلے تو تمھارا نمبر ہے!‘‘فوزیہ استہزاء سے ہنستے ہوئے کہنے لگی۔
’’فوزیہ تم بھی بھولی ہو بالکل۔ اماں سونے کا انڈا دینے والی مرغی کو اپنے سے کیوں جدا کریں گی؟ یہ مہر والا رشتہ میرے لیے ہی آیا تھا، مگر انہوں نے مہر کو آگے کر دیا‘‘۔
’’اور تم نے کچھ نہیں کہا؟‘‘
’’کیا کہتی؟ یہ کہ پہلے میری شادی کر دیں؟ ارے اماں بہت سمجھدار ہیں، ابا کے جانے کے بعد زمانے کی بہت اونچ نیچ دیکھی ہے انہوں نے۔ اسی لیے پہلے میری تنخواہ سے سارے کام کروا لیں گی، پھر کہیں میرے بارے میں سوچیں گی….لیکن وہ ٹھیک ہی تو کر رہی ہیں۔ تم ہی بتاؤ کہ میں قربانی نہیں دوں گی تو کون دے گا! بھائی بھی ابھی پڑھ رہا ہے۔ اور مجھے یہ بھی پتا ہے کہ بھائی کی بھی جب نوکری لگ جائےگی تو اس کو اپنی شادی کی ہی فکر ہوگی۔ میں نے اس کو فون پر کسی سے کہتے ہوئے سنا تھاکہ بس یار آخری سمیسٹر ہے، جیسےہی نوکری ملی، چھوکری گھر میں….مطلب صاف ہے بہنا…. کہ وہ بھی اپنے ہی چکر میں ہے۔ اگر اماں کو ہی میری شادی کی فکر نہیں ہے تو اور کون کرے گا….میں تو اسی لیےتم سے بھی کہتی ہوں کہ اپنے لیے سوچو…. اب کوئی رشتہ تمہارے لیےآئے تو منع مت کرنا‘‘۔
لبنیٰ ،فوزیہ کے حالات بھی بخوبی جانتی تھی، اسی لیے اس کے مشورے پرفوزیہ اداسی سے مسکرا کر رہ گئی تھی۔دو ماہ پہلے جس بڑی بہن کا انتقال ہوگیا تھا، اس کے ننھے سے بیٹے کو لے کر اس کے بہنوئی اور ان کی اماں گھر کے چکر لگا رہے تھے۔ انہوں نے دبے لفظوں میں اماں سے فوزیہ کے لیے بات کی تھی۔ اماں نے بھی یونہی فوزیہ سے پوچھ لیا، فوزیہ نے فوراً ہی انکار کر دیا تھا، کیونکہ ظفر بھائی اس کو پہلے سے ہی سخت ناپسند تھے۔ آپی زندہ تھیں تب بھی وہ اس کو بہت بری طرح گھورتے تھے۔ ان کی نظریں اس کو آگے پیچھے ہر طرف چبھتی ہوئی محسوس ہوتیں اور وہ کلس کر رہ جاتی۔
اس کے انکار پر اماں کے دل سے وہ تھوڑی بہت ہمدردی بھی جاتی رہی جو دو ماہ کے ننھے شایان کے لیے جاگی تھی۔ تب انہوں نے بھی ظفر بھائی کی امی کو سہولت سے منع کر دیا تھا۔جواز ظاہر ہے اس کی ہمدردی نہیں بلکہ اس کی آنے والی تنخواہ تھی۔ سب ہی اس سے توقع لگائے بیٹھے تھے۔
سامنے رہنے والا فرحان، جو بچپن سے اس کا بہت اچھا دوست رہا تھا، وہ بھی اشاروں کنایوں میں پوچھتا کہ امی کو کب بھیجوں تمہارے گھر؟ وہ آنکھیں نیچی کر کے کہتی، ابھی نہیں۔ اور وہ ایک ٹھنڈی سانس لے کر رہ جاتا۔ مواقع تو تھے کہ اگر ہاں کہہ دیتی تو کہیں نہ کہیں بات پکی ہو سکتی تھی۔ مگر وہ سچے دل سے اپنے گھر والوں کی محبت میں اور اپنے ابو کو مالی طور پر سہارا دینے کے لیے ملازمت کرنا چاہتی تھی، ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اس دن واپسی پر جیسے ہی وہ گلی میں داخل ہوئی، ظفر بھائی آتے ہوئے نظر آئے۔ اس کو دیکھ کر رک گئے۔ وہ ان کے قریب سے تیزی سے گزر جانا چاہتی تھی کیوں کہ ان چھوٹی چھوٹی گلیوں میں پڑوسیوں کی آنکھوں کے ان گنت سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے تھے جو ہر وقت آن ہی رہتے۔ ذرا سی چوک پر بات کا بتنگڑ بن جانا معمولی بات تھی۔
لیکن ان کے آواز دینے پر رکنا پڑا۔ کہنے لگے۔
’’فوزیہ، میری حالت پر کچھ تو رحم کرو، میں اکیلے شایان کو نہیں سنبھال سکتا۔ تم تو اس کی خالہ ہو، تم سے بہتر کون دیکھ بھال کر سکتا ہے!‘‘ اس نے ان کی طرف دیکھے بغیر ہی کہا کہ’’ظفر بھائی، اس طرح راستے میں نہ کھڑے ہوں۔ گھر آ کر بات کر لیں‘‘ اور تیزی سے آگے بڑھ گئی۔ ظفر بھائی نہ جانے کیا سمجھے، فوراً بائیک موڑ کر اس کے پیچھے چل پڑے۔
فوزیہ نے منہ ہاتھ دھو کر یونیفارم تبدیل کیا، تب تک اماں ان کے لیے شربت بنا چکی تھیں۔ وہ بھی آ کر بیٹھ گئی۔ اماں نے سوالیہ نظروں سے اس کو دیکھا تھا۔
’’ جی ظفر بھائی، میں کہہ رہی تھی کہ اماں نے آپ کی امی کو اچھی طرح سمجھایا تھا کہ مجھے ابھی شادی نہیں کرنی ہے۔ پہلے پڑھائی مکمل کروں گی۔ پھر نوکری کروں گی۔ میں تو ویسے بھی آپ کے کسی کام کی نہیں۔ کیوں کہ ہماری ڈیوٹی اکثر 12 گھنٹے کی ہوتی ہے۔ آپ کو تو کوئی بھی گھریلو لڑکی مل جائےگی جو ننھے شایان کو اور آپ کے گھر کو بھی سنبھال لےگی اور آپ کی والدہ کے لیے بھی ٹھیک رہےگی۔ میں شایان کی خالہ تو ہوں مگر اس کو ابھی چوبیس گھنٹے ماں کی ضرورت ہےجو میں نہیں بن سکتی۔ اور ہاں اس طرح راستے میں مجھ سے آئندہ کبھی بات مت کیجیےگا۔ مجھے یہ بالکل پسند نہیں۔ ٹھیک ہے؟‘‘
ظفر بھائی منہ کھولے سن رہے تھے۔ ان کے جواب دینے سے پہلے ہی فوزیہ اپنے کمرے میں جا چکی تھی۔ اماں بھی کھسیانی ہو کر کہنے لگیں ’’وہ ابھی تھکی ہوئی آئی ہے نا! اس لیے‘‘۔
’’ جی جی…. ٹھیک ہے میں چلتا ہوں‘‘ کہہ کر وہ چلے گئے۔
وقت تیزی سے گزرتا رہا، اس کی ٹریننگ مکمل ہو چکی تھی اور سرکاری ہسپتال میں ملازمت بھی ہو گئی تھی۔ادھر نیلو کی شادی ہو رہی تھی۔ اور شیریں کے لیے خاندان سے ہی رشتہ آیا ہؤا تھا۔
نیلو کی شادی کے دن فوزیہ نے ہلکے گلابی رنگ کا جوڑا پہنا ہؤا تھا اور بھاگ بھاگ کر سارے انتظامات سنبھال رہی تھی۔ وہ بہت خوش نظر آ رہی تھی۔ گلابی رنگ کے دوپٹے میں اس کا سانولا چہرہ، ہلکے میک اپ کے ساتھ دمک رہا تھا۔ فرحان اسے دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔ اس نے پھر شادی کے لیے اصرار کیا تو فوزیہ کندھے اچکا کر رہ گئی۔ جب اسی دن فرحان کی امی نے، فوزیہ کی اماں سے بات کی تب انہوں نے نیلو کی شادی کا بہانہ بنا کر پھر سے ان کو منع کر دیا تھا۔ لیکن فوزیہ کب تک اپنے دل پر پتھر رکھ سکتی تھی۔ وہ اس رات کمرہ بند کر کے بہت روئی۔ بےچارہ فرحان کب سے آس لگائے بیٹھا تھا۔ حالانکہ فوزیہ نے اس کو کہہ دیا تھا کہ تم میرا انتظار مت کرو۔ لیکن وہ اس امید پر ہی رکا ہؤا تھا کہ جلد ہی والدین کو اس کا خیال آئےگا۔
اسی دوران ابو کا کام چھوٹ گیا، ان سے اب اتنی بھاگ دوڑ نہیں ہوتی تھی۔بھائی کے چار بچے ہو چکے تھے جن میں تین بیٹیاں تھیں، بیٹا سب سے چھوٹا تھا۔ اماں گھٹنوں کی وجہ سے گھر کی ہی ہو کر رہ گئی تھیں۔ بس بیٹھے بیٹھے بھابی کی کچھ مدد کر دیتیں۔ ہاں زبان اب بھی خوب چلتی تھی۔
فوزیہ نے بھی تیس کی دہلیز پار کر لی تھی۔ لیکن وہ اب بھی پہلے کی طرح ذمہ داری سے اپنی ڈیوٹی کر رہی تھی۔ اب ابو کو اس کے بیاہ کی فکر ستاتی۔ لیکن اب صرف بھائی کی کمائی سے گھر نہیں چل سکتا تھا، اس لیے کچھ عرصے پہلے جب محلے سے ہی ایک رشتہ آیا تو اماں نے اس کو منع کر دیا تھا۔
فوزیہ نے اب اپنی شادی کا خیال دل سے نکال ہی دیا تھا۔ لیکن آج اچانک لبنیٰ نے اپنی شادی کی خبر سنائی تو اس کے مقید جذبات کی جھیل میں کوئی کنکر سا پڑ گیا۔ جس سے بننے والے سوچ کے دائرے اس کے دماغ کی دیواروں پر ارتعاش پیدا کر رہے تھے۔ وہ بہت خوش بھی ہوئی ، ساتھ ہی اداس بھی….کیونکہ کئی سال سے وہ دونوں ایک ہی ہسپتال میں کام کر رہی تھیں۔ اب وہ اس کے جانے کے بعد اکیلی ہو جاتی۔ اس نے لبنیٰ کو گلے لگا کر بہت ساری دعائیں دے ڈالیں۔ جواباًاس نے بھی اس کو اچھے سے شریک حیات کی دعا دی تھی۔ اس وقت فوزیہ اداسی سے مسکرا دی کیوں کہ اب اس ڈھلتی عمر میں اچھے جیون ساتھی کا ملنا کیسے ممکن تھا؟
اس دن گھر جا کر اس نے جب ابو کو لبنیٰ کی شادی کا بتایا تو انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’میری بیٹی نے بہت خدمت کر لی۔ اب تمہاری بھی شادی ہو جانی چاہیے‘‘ وہ بس مسکرا دی تھی۔
’’میری بیٹی، زندگی بار بار موقع نہیں دیتی۔ ایک وقت کے بعد یہ در بند ہو جاتے ہیں۔ بہت کم خوش نصیب ہوتے ہیں، جن کو دوبارہ موقع ملتا ہے۔میں کل ہی تمہاری ماں سے بات کرتا ہوں۔ اگر وہ نہ مانی تو میں خود کہیں دیکھتا ہوں…. ورنہ تم خود اپنے لیے ضرور کوئی راستہ تلاش کر لینا۔ اب جو بھی دستک ہو، دل کے دروازے کھول دینا‘‘۔
اور اسی رات ابو ایسی ابدی نیند سوئے کہ صبح اٹھ ہی نہیں سکے۔ فوزیہ کی دنیا اندھیری ہو گئی۔ امید کی روشنی گل ہو گئی تھی۔ وہ اس واحد مخلص سہارے کے ختم ہونے پر تڑپ تڑپ کر روئی تھی۔
پرسہ دینے کے لیے آنے والی ایک خاتون نے جب فوزیہ کا پوچھا تب اماں گلوگیر آواز میں کہنے لگیں۔
’’ہاں بہن ! میں بھی یہ سوچتی ہوں کہ کب تک بیٹی کو سینے سے لگا کر رکھوں گی، کوئی اچھا رشتہ آئے تو اس کو اپنے گھر کا کر دوں، مگر یہ مانتی ہی نہیں‘‘۔
فوزیہ اکتا کر وہاں سے اٹھ آئی۔
اب اپنی شادی کے ذکر پر اس کے دل کے تار نہیں جھنجھناتے تھے۔ لیکن یہ زندگی کی ایسی ضرورت تھی جس کے بغیر لوگ جینا حرام کر دیتے ہیں۔ اس کے دل میں اب ارمانوں یا خواہش کا نام و نشان تک باقی نہ رہا تھا۔ وہ بہت پہلے ان کا گلا گھونٹ چکی تھی۔ بس اس کو اپنی اماں پر حیرت ہوتی، کہ ایک ماں اتنی بےحس اور خودغرض کیسے ہو سکتی ہے؟
پھر اسے ابو کی بات یاد آتی تو وہ جی بھر کے رو لیتی۔
ویسے بھی اس کے لیے کسی اور انتخاب کا وقت گزر چکا تھا، ایسے میں فرحان جیسا مخلص ساتھی ملنا بھی خوش نصیبی ہی تھی۔ اب جبکہ اس نے ان حالات سے نکلنے کا ارادہ کر لیا تھا تو ایک ایک کر کے آگے پیچھے سے اس کےلیے رکاوٹیں کھڑی ہونے لگی تھیں۔ کیونکہ بھابی بھی اب عمر کا طعنہ دینے لگی تھیں اور بھائی کی کم آمدنی کی وجہ سے ہونے والی تنگدستی کا بار بار ذکر چھیڑ دیتیں۔ حالانکہ اس کو سب خبر تھی کہ کس طرح وہ پیسے بچا بچا کر چپکے چپکے کمیٹیاں ڈالتی ہیں،لیکن وہ خاموش ہی رہی۔
یہ ابو کے انتقال کے صرف ایک ہفتے کے بعد کی بات ہے۔ فرحان کی امی ان کے گھر آ دھمکیں۔ وہ فوزیہ کے لیے اپنے بیٹے فرحان کا رشتہ لائی تھیں۔ اماں نے ان کو اچھی طرح بٹھایا۔ پاندان اپنی طرف گھسیٹا۔ چھالیہ کترتے ہوئے سکون سے بتانے لگیں کہ فوزیہ کے لیے کیسے اچھے اچھے رشتے آئے اور وہ منع کرتی چلی گئی۔
’’ بس بہن اس کی مرضی ہی نہیں ہے شادی کی…. بہت محبت کرتی ہے اپنے بھائی سے، اپنی بھتیجیوں سے۔ اب ظاہر ہے میرا بچہ اکیلا ہی کمانے والا ہےتو فوزیہ ہی اس کا ہاتھ بٹاتی ہے….اب دیکھیں نا اس کی بڑی لڑکی بھی جوان ہو رہی ہے، وہ اس مہنگائی میں کیسے کرے گا ان کا شادی بیاہ‘‘۔
یہ سن کر فرحان کی امی کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔
’’اے بہن آپ کیسی ماں ہیں؟ پہلے اپنی بیٹی کی فکر کریں ۔آپ کی پوتیاں تو ابھی بہت چھوٹی ہیں۔ میں تو برسوں سے فوزیہ کو آپ کے گھر کا بوجھ اٹھاتے دیکھ رہی ہوں۔ اور فرحان کی ضد کی وجہ سے کئی مرتبہ آپ سے درخواست بھی کی۔ لیکن آپ ٹالتی رہیں۔ میرے بچے کو کوئی کمی نہیں ہے لڑکیوں کی۔ لیکن بچپن سے دونوں ساتھ کھیلتے کودتے بڑے ہوئے ہیں۔ مجھے بھی فوزیہ بہت پسند ہے۔ کم از کم اب تو اس کی خوشیوں کی فکر کرنی چاہیے آپ کو‘‘۔
اماں کون سی پیچھے رہنے والی تھیں!
’’دیکھیں بہن، پڑوسن ہونے کے ناطے آپ سے ہمارا برسوں سے تعلق ہے۔ لیکن آپ ہمارے گھر کے معاملے میں دخل نہ دیں! فوزیہ نے بھری جوانی میں سارے رشتے ٹھکرا دیے، اب اس عمر میں کیا کرےگی شادی؟‘‘
اسی وقت فوزیہ ہاتھ میں شربت کی ٹرے لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔ فرحان کی امی کو شربت دے کر وہ ان کے سامنے ادب سے بیٹھ گئ۔ اماں نے اس کو بتایا کہ وہ کس لیے آئی ہیں۔
’’جی اماں میں نے سن لیا سب‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا۔
اماں کا تیز تیز چھالیہ کاٹتا ہاتھ پل بھر کو تھم گیا۔
’’ہاں بیٹا میں نے ان کو بتا دیا کہ تم کس طرح ہر رشتے کو منع کر دیتی ہو، چاہے کتنا ہی اچھا ہو۔ اور اب بھی تم انکار ہی کروگی، لیکن وہ بحث کر رہی ہیں‘‘۔
’’اس لیے اماں، اب میں آپ کی بات مان رہی ہوں۔ میں اب انکار نہیں کروں گی۔ مجھے یہ رشتہ قبول ہے‘‘فوزیہ نے نرمی سے کہا ۔
اماں اسے دیکھتی ہی رہ گئیں۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x