ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

قدرت – حمیرا بنت فرید

نقاہت زدہ وجود میں تھوڑی سی حرارت وقوت محسوس ہونے پر اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔
’’ممی ابھی لیٹی رہیں‘‘، لائبہ نے گرم سوپ کا آخری چمچہ ان کے منہ میں دیتے ہوئے کہا۔
’’الحمدللہ اب تو طبیعت کافی بہتر محسوس ہو رہی ہے بیٹا‘‘، نازیہ نے کہا۔
’’اللّہ کا شکر احسان ہے۔ میرا خیال ہے آپ تھوڑی دیر سو جائیں، پھر عصر تک اٹھ جائیے گا‘‘،لائبہ ان کا کمبل درست کرتے ہوئے بولی’’میں بھی اتنی دیر اپنا اسائنمنٹ پورا کر لوں‘‘لائبہ نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تو نازیہ نے مسکرا کر جیسے اسے اجازت دی۔
ایک ہفتے کی علالت کے بعد وہ رات کو ہی ہسپتال سے گھر آئی تھیں لیکن شدید کمزوری نے انہیں اٹھنے بیٹھنے سے بھی مجبور کیا ہؤا تھا۔ اس عرصے میں لائبہ نے جس جانفشانی سے دن رات ان کی خدمت کی تھی، وہ اس کی احسان مند تھیں۔ ان کے کھلانے ، پلانے، دوائی اور دوسری ضروریات کا لائبہ نے ہی خیال کیا تھا تب جا کے ان کی طبیعت میں ٹھہراؤ آیا تھا۔
لیٹے لیٹے نازیہ کچھ اکتا سی گئی تھیں، انھوں نے اپنے کمزور و ناتواں جسم کو کھینچتے ہوئے بیٹھنے کی کوشش کی۔ دکھتی کمر کو بستر کا سہارا دیتے ہوئے انہوں نے اپنا سر تکیے سے ٹکا لیا۔ چہرے پر پھیلی زردی، پیشانی پر گہری سلوٹیں، آنکھیں موندے جانے کب وہ ماضی کی بھول بھلیوں میں گم ہو گئیں ۔
٭
وہ ایک اچھے کھاتے پیتے گھرانے کی چشم و چراغ تھی۔ دولت کی ریل پیل نے اسے تفاخرمیں مبتلا کردیا تھا۔ ضد اور خودسری اس کی فطرت میں تھی۔ اور یہ اس کی خوبی کہیں یا خامی، نازیہ بغیر منصوبہ بندی کے کوئی بھی کام سرانجام دینا پسند نہیں کرتی تھی۔ تعلیم حاصل کرنے کے دوران تمام رشتے صرف اس لیے ٹھکرا دیےگئے کیونکہ وہ اس کے پلان کردہ پروگرام وترتیب کے منافی تھے۔ تعلیم کے بعد کچھ مدت کے لیے جاب، پھر کچھ آ رام، اس کے بعد شادی کا نمبرتھا۔
قسمت اچھی تھی۔ سب کچھ پلان کے مطابق ہؤا۔ جاب چھوڑنے کے بعد ایک سال تک بس گھومنا پھرنا، اپنی مرضی کا سونا جاگنا۔ اس دوران جنید کا رشتہ ہر لحاظ سے مناسب ہونے پر قبول کر لیا گیا اورجلد ہی نازیہ نے مسز جنید بن کر ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔ شادی کے بعد نازیہ بچوں کے جھمیلوں میں پڑنے کے حق میں نہ تھیں اور یہ بات انھوں نے جنید پر واضح کر دی تھی۔ وہ نئی شادی شدہ زندگی کو بھی اپنے طور پر گزارنے اور اس سے لطف اندوزہونا چاہتی تھیں ۔عبید کی پیدائش رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے چار سال بعد ہوئی۔ عبید پانچ سال کا تھا جب ایمن کی پیدائش پر نازیہ نے فیملی مکمل ہونے کا اعلان کر دیا ۔ ساتھ دینے والا شوہر اور دو پیارے سے پھولوں کے سنگ وہ اپنے گلستان میں ذہنی اور جسمانی طور پرمطمئن و مسرور زندگی گزار رہی تھیں ۔ اس بات کا سہرا بقول ان کے ان کی بہترین منصوبہ بندی تھی۔
٭
وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے بچوں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا۔ عبید کا یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا تھا اورایمن او لیول کی تیاریوں میں مصروف ۔ بچوں کی کوئی ایسی ذمہ داریاں ان کے سرپر نہ تھیں لیکن نازیہ اپنے اصول و ضوابط پراب بھی قائم و دائم تھیں۔ ملازمین خاص ان کے عتاب کا نشانہ بنتے لیکن پرکشش تنخواہ و دیگر مراعات اور سہولیات کی بنا پر ان کی جھڑکیاں کھانے پرمجبور تھے۔
’’باجی، اگر ممکن ہو تومیری اس ماہ کی تنخواہ آپ ایک ہفتے پہلے دے دیں ‘‘ان کی ملازمہ شاہ گل نے بڑی لجاجت سے کہا ۔
’’ارے ابھی دو ہفتے پہلے ہی تمھیں دو ہزار روپے دیے ہیں،آخر کیا مسئلہ درپیش آ گیا‘‘نازیہ کے لہجے میں بیزاری تھی۔
’’جی باجی، وہ بیٹی کے بچوں کی طبیعت ٹھیک نہیں اور خود اس کا حال برا ہے‘‘۔
’’بیٹی کو کیا ہؤا‘‘؟ نازیہ نے شاہ گل کو گھورتے ہوئے جیسے اپنے شک کی تصدیق چاہی۔
’’جی لیڈی ڈاکٹر سے چیک کرانا ہے‘‘ شاہ گل نے نظریں جھکاتے ہوئے جواب دیا ۔
’’غضب خدا کا، تم لوگ توعورت کو بھیڑ بکری سمجھتے ہو۔ ابھی چند ماہ پہلے اس کی بچی ہوئی تھی، اب چوتھے کی تیاری شروع ؟‘‘
نازیہ نے مدد سے پہلے فیملی پلاننگ پر ایک لمبا لیکچر دینا اپنا فرض سمجھا اوراورانتہا کے جاہل جیسے خطابات سے نوازا۔ شاہ گل بیچاری اپنی بےبسی پرکڑھتی چپ کر کے سنتی رہی۔
کچھ دنوں سے نازیہ کی اپنی طبیعت گری گری سی تھی۔ کمزوری بڑھ رہی تھی۔ کھانا پینا بھی کم ہو گیا تھا ۔ ٹیسٹ بھی سب ٹھیک تھے۔ وہ اپنی حالت سے پریشان تھیں ۔ انھوں نے اپنی سہیلی رافعہ سے اپنی کیفیت کا اظہار کیا ۔
’’الحمدللہ ٹیسٹ تو تمھارے سب نارمل ہیں‘‘، رافعہ نے نازیہ سے کچھ ضروری سوالات کرکے رپوٹزدیکھتے ہوئے کہا۔’’ میرے خیال سے ایک اہم ٹیسٹ ہونا باقی رہ گیا۔ اس کی رپورٹ پوزیٹو آ جائے تو سمجھو پریشانی ختم‘‘، رافعہ نے مسکراتے ہوئے کہا تو نازیہ اسے بیہودہ مذاق قرار دیتے ہوئے غصے سے باہر نکل گئیں ۔
رافعہ کی بات کی تصدیق نے تو انھیں ہلا کررکھ دیا ۔ایسا ہو جانا تو ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ ان کی منصوبہ بندیاں تو جیسے خاک میں مل گئی تھیں ۔ لوگ کیا کہیں گے ۔ اس عمرمیں ان کا مذاق ہی بننا تھا خاص طور پر ان کے اعلیٰ’ خیالات‘ کی بنا پر!وہ تصورمیں لوگوں کے چہروں پر استہازیہ مسکراہٹ دیکھ رہی تھیں۔ عبید اورایمن بھی بالغ اور سمجھدار تھے، یہ خیال بھی انہیں شرمسار کردیتا۔ یہ سب ان کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ پہلا خیال ان کے ذہن میں اس مصیبت سے جان چھڑانے کا ہی آیا اور اس کے لیے انھوں نے کئی حربے بھی استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن جنید کے بہت سمجھانے بجھانے پر وہ اس ننھی جان کو دنیا میں لانے پر راضی ہوئی تھیں ۔ بچوں نے بھی اس خبر کو مثبت انداز میں لیا تھا۔ بڑی تگ و دو کے بعد انہوں نے اپنےذہن کو اپنی مرضی کے خلاف تیار کر ہی لیا تھا۔
٭
آہ! نازیہ نے ماضی سے باہر نکلتے ہوئے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔ انسان بڑے زعم میں مبتلا رہتا ہے، اپنی چاہت کو مقدم سمجھتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہےاس ذات کو جس کے آگے ہماری مرضی کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ وہ جب چاہے جسے چاہے ، جو چاہے عطا کرے اور جب چاہے محروم کر دے لیکن انسان محض ایک مٹی کا پتلا، اپنے آ پ کو عقل کل سمجھنے والابھی اس عظیم ہستی کے آگے بےبس ولاچار ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ اللّہ تعالیٰ نے کس چیز میں اس کے لیے بھلائی رکھی ہے ۔یہ جانے بغیر کئی ایسی چیزیں جن کے پیچھے وہ زندگی بھر بھاگتا رہتا ہے، اس کے لیے خیر کا باعث بھی ہے یا نہیں ۔
نازیہ پھرماضی میں کھو گئیں۔ وہ وقت جسے وہ بہت کٹھن سمجھتی تھیں، بہت حسین یادوں سے جڑا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا وہ خود حیران تھیں کہ ایک ایک لمحہ ان کے لیے تقویت کا باعث بنتا جا رہا تھا۔ وہ اپنا بہت خیال رکھنے لگی تھیں کہ کہیں اس ننھی سی جان کو کوئی ضرر نہ پہنچے۔ وہ اکثر اپنے خیالوں میں اسے گود میں لیتی، لوریاں سناتی ۔ یہ تمام عرصہ انہوں نے بہت تحمل کے ساتھ برداشت کیا ۔ اپنے ہاتھوں سے نئے مہمان کے لیے سب تیاری کی۔ اتنا اہتمام تو انہوں نے اپنے بڑے بچوں کے لیے بھی نہیں کیا تھا۔
’’جنید میرا سانس گھٹ رہا ہے‘‘پسینے میں شرابور اس طوفانی رات نازیہ نے جنید کو اٹھایا تھا جواس کی کیفیت سے گھبرا کر فوراً ہسپتال لے کر بھاگا تھا۔ طویل تکلیف دہ لمحات سے گزر کر نازیہ نے ایک بچی کو جنم دیا تھا لیکن پیچدگیوں کے باعث دو دن وہ اپنے اطراف سے بیگانہ رہیں۔ ہوش وحواس میں آتے ہی ان کا پہلا سوال نومولود کے بارے میں تھا۔
’’بہت مشکل مراحل تھے، اللّہ کا شکر ہے کہ اس نے زندگی عطا کی۔ بچی ابھی انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ہے، ان شاءاللہ جلد ہی ہمارے حوالے کر دی جائے گی‘‘جنید نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔
نازیہ کے وہ دو، تین دن نہایت کرب میں گزرے تھے۔ بس اللّہ تعالیٰ سے ننھی جان کی عافیت مانگتے گزاری تھی، نازیہ سوچ رہی تھیں۔ انھوں نے پاس رکھے پانی کے گلاس کو منہ سے لگایا اور اپنے خشک ہوتے حلق کو تر کیا۔ اس گل گتھنے وجود کو سینے سے لگا کر انھیں نئے سرے سے ممتا کا ادراک ہؤا تھا۔ بچی کے تیکھے نقوش اور شربتی آنکھوں نے تو ان کا دل موہ لیا تھا۔
٭
نازیہ اپنی سوچوں میں ایک ٹھنڈک بھرے خوشگوار احساس کو محسوس کرتے ہوئے مسکرائیں۔ وقت نے بہت کچھ بدل دیا تھا۔ عبید جاب کے سلسلے میں کینیڈا گیا اوراب اپنی فیملی کے ساتھ وہیں رہائش پذیر تھا۔ سال دو سال میں یہی لوگ اس کے پاس ہو آتے تھے۔ ایمن بھی رخصت ہو کر امریکا میں سیٹل ہو چکی تھی۔ جنید کے انتقال کے بعد نازیہ اپنے آپ کو بہت تنہا محسوس کرنے لگی تھیں ۔ عمر کے اس حصے میں کہیں آ نا جانا، سفر کرنا اب بہت دوبھر لگتا تھا۔ ان کی حالت اب ایسے مسافر کی سی تھی جو تیزدھوپ، تپش کے باعث ایسے گھنےشجر کی تلاش میں ہوتا ہے جو اس کے جھلستے وجود کو ٹھنڈک بھرا سایہ مہیا کرے۔ ایسے میں لائبہ ہی وہ شجر ثابت ہوئی جو ان کے لیے باعث رحمت ، باعث راحت بنی۔ جس اولاد کوزحمت سمجھ کر وہ دنیا میں نہ لانے کی کوششوں میں تھیں ، وہی ان کی تنہائی کی ساتھی اور جینے کا سہارا تھی۔ ان کا دل لائبہ کی محبت سے بھرا ہوا تھا ۔
لیکن یہ سب قدرت کے کھیل ہیں۔ ان کو ایک بار پھر آزمایا گیا تھا اور یہ آزمائش پہلے سے زیادہ سخت اورکٹھن تھی!
نازیہ نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ ان کی سوچ پھر محو پرواز تھی۔
وہ لمحہ آج بھی ان کے ذہن میں نقش تھا جب جنید کے آ فس سے فون آنے پر انھیں کچھ ضروری کاغذات تلاش کرنے تھے۔ الماری میں رکھی فائلوں کے بنڈل میں سے ایک فائل ان کے ہاتھ آئی۔ انھوں نے ویسے ہی ماضی کے بیتے لمحات کو یاد کرتے ہوئے فائل کھولی۔ سامنے لگے صفحہ پران کی نظر جم سی گئی۔ کپکپاتے ہاتھوں سے یکے بعد دیگرے وہ کاغذات پلٹتی رہیں۔
’’یا اللّہ ، مجھ سے یہ سب چھپایا گیا‘‘ نازیہ کا سرگھومنےلگا تھا ۔ انھوں نے بمشکل اپنے چکراتے وجود کو سنبھالا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے، انھیں کسی طور یقین نہ آتا تھا۔
وہ جانے کتنی دیر یونہی گم سم سی بیٹھی رہیں۔ بڑی مشکل سے انھوں نے نارمل ہونے کی کوشش کی پراضطرابی کیفیت برقرار تھی۔ لائبہ ان کی کیفیت سے پریشان ، اس سے کئی سوالات کرتی جن کا بس وہ ہوں ہاں میں جواب دیتیں۔ وہ اسے توجہ دینے سے قاصر تھیں ۔ بچی کا ممی ممی کرکے ان کے آ گے پیچھے گھومنا انھیں مزید بے چین کر دیتا۔ ایک بار پھر وہ اپنے رب کے آ گے سوالی بن کر سکون کی، اس کی مدد کیلئے گڑ گڑا رہی تھیں ۔وہ سب کچھ جان کر بھی لائبہ سے اپنے آپ کو دور نہ کرسکیں۔ جانے انجانے وہ اس بچی پر اپنی پوری ممتا نچھاور کر چکی تھیں ، اس سے دستبردار ہونا ایک اذیت ناک مرحلہ ہوتا اپنے لیے بھی اور اس معصوم جان کے لیے بھی جس کو اچانک ممتا سے محروم کر دینا آخر کہاں کا انصاف تھا۔ اس سارے معاملے میں لائبہ کا کیا قصور تھا؟ یہ تو قدرت کا پلان تھا جسکی نفی کر کے وہ اپنی انا کو کونسی تسکین پہنچاتیں۔
ان کے کئی شب و روز شش وپنج میں گزرے۔ اس رب نے بھی اپنی کمزور بندی کو خالی ہاتھ نہ لوٹایا۔ نازیہ نے قدرت کے فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کر دینے کا مصمم ارادہ کرتے ہی اپنے اندر ایک ناقابل بیان تسکین محسوس کی اور یہ فیصلہ ان کی زندگی میں کبھی پچھتاوے کا باعث نہ بنا۔ لائبہ کو انھوں نے ہمیشہ سعادت مند اور محبت کرنے والا ہی پایا۔ ایک ہفتے کی سخت علالت میں اپنی تمام ترتعلیمی مصروفیت کے باوجود، ڈاکٹر نرسوں کی موجودگی میں بھی جس طرح اس نے نازیہ کی خدمت کی وہ کسی اور سے اس کی امید نہیں رکھ سکتی تھیں ۔ خدمت گزاری تو شاید لائبہ کی گھٹی میں ہی پڑی تھی لیکن نازیہ کی چاہت اور بہترین تعلیم و تربیت نے اسے ایک بہترین شخصیت کا مالک بنا دیا تھا۔
نازیہ نے ایک گہرا سانس لیا۔ وہ راز جو ان پراس دن منکشف ہؤا تھا وہ راز ان کے سینے میں ہی دفن رہا کہ لائبہ وہ نہیں جس کو انھوں نے ایک ایک لمحہ اپنے خون،اپنی محبت سے کوکھ میں سیچا تھا۔ وہ ننھی جان تو دنیا میں آ نے سے پہلے ہی رخصت ہو گئی تھی ۔ یہ تو شاہ گل کی چوتھی نواسی تھی جسے اس نے اپنی مالکن کی دلجوئی اور بچی کے روشن مستقبل کے لالچ میں نازیہ کی جھولی میں ڈالا اور خاموشی سے ان کی دنیا سے دور چلی گئی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ لائبہ کی شربتی آنکھوں کو دیکھ کر لاشعوری طور پر شاہ گل ان کے تصور میں اجاتی تھی ۔ایک ملازمہ کی اولاد کو ان کی آغوش میں پلوا کر قدرت نے بھی ان کا امتحان لینا تھا اور انھیں بھی یہ بات تقویت دے رہی تھی کہ وہ اپنے رب کے آ گے سرخرو ہو گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ شاید حقیرانسان کواس کی حیثیت اورمقام سے آگاہ کرنا چاہتا تھا اوراسے یہ باور کرانا تھا کہ ہوتا وہی ہے جو خالق اور مالکِ کل کی منشا ہوتی ہے اور یہ نظریہ نازیہ پر احسن انداز سے واضح ہو چکا تھا۔٭
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x