ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

لمبی ہے غم کی شام مگر… – نادیہ سیف

جب اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف اندھیرا تھا۔اس نے بے ہوشی سے پہلے کا منظر یاد کرنے کی کوشش کی۔اچانک ہلکی ہلکی تلاوت کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی جو غورکرنے پر اسے اپنے بالکل نیچے کی طرف سے آتی محسوس ہوئی۔
’’ کیا ہم شہید ہو کر اجتماعی قبر میں ہیں؟‘‘
’’ شہید بے شک زندہ ہوتے ہیں لیکن ابھی ہمارے حصے کا کچھ کام باقی ہے‘‘۔
حمدان کی آواز نے اسے سب کچھ یاد دلا دیا، کیسے وہ ہاسپٹل میں لائے جانے والے مریضوں اور زخمی بچوں کی وڈیوز بنا رہا تھا کہ اسی دوران قریب ہی ہونے والےدھماکے کے بعد ہونے والی افرا تفری میں حمدان اور وہ تیزی کے ساتھ بھاگنے لگے،عمارتیں گرتی جارہی تھیں۔ جانے کب ڈھیتی ہوئی چھتوں سے بچتے بچاتے،بھاگتے آخر وہ بھی زد میں آ ہی گئےاور انہوں نے اپنے ہوش گنوا دیے۔
’’حمدان….حمدان…. تم ٹھیک ہو؟‘‘
’’ہاں شاید….ابھی کچھ سمجھ نہیں آ رہا‘‘۔
اوہ میرا کیمرہ ۔
اس نے جلدی سے اپنی کمر اور کندھے کے گرد بیلٹ کو ٹٹولا اور الحمدللہ کہہ کر بڑی کوشش کے بعد خود کو سیدھا کیا۔ جیب سے ٹارچ نکال کر روشن کرتے ہی اسے ارد گرد کا منظر واضح نظر آنے لگا۔ ایسا لگتا تھا کہ ملبے کا ایک بڑا ڈھیر ہے۔ اور اس پہاڑ پر وہ خود بھی کسی پتھر کی طرح بے حس پڑا ہے۔مختلف چیزیں جلنے کی بو،دھواں،پیاس کی شدت سے اس نے ہونٹوں پر زبان پھیری ،اور اپنی کلائی پہ نظر ڈالی تو حیرانی سے آنکھیں پھٹ گئیں۔ وقت6 گھنٹےآگےگزرچکا تھا۔
لیکن حمدان کہیں نظر نہ آیا ۔البتہ ملبے کی طرف سے روشنی پھوٹتے دیکھ کر،اس نےدور سے کئی نفوس اپنی طرف آتے دیکھے۔دوڑتے قدموں سے اس نے آنے والوں کی تعداد کا اندازہ لگایاجو شاید تین چار تھے۔ وہ ہانپتے ہوئے اس کے قریب آئے اور آتے ہی اس کو سنبھالا دینے کے ساتھ،دوسری طرف کا معاملہ بتا کر فوری طور پر ٹارچ کا مطالبہ کیا۔ اس نے خود کے درد کو دباتے ہوئے جلدی سے ٹارچ ان کو پکڑا دی ۔
’’حمدان….حمدان‘‘….اس کی آواز میں غم اور فکر دونوں نمایاں تھے۔
’’ہاں میں ٹھیک ہوں میرے دوست‘‘ ۔
آواز میں نقاہت محسوس کرتے ہی وہ حمدان کی آواز کی طرف لپکا۔جب کہ وہ خود صرف گھسٹ سکتا تھا۔
’’حمدان تم بولتے رہو تاکہ میں تم تک پہنچ سکوں‘‘۔
تم مجھ تک نہیں پہنچ سکتے ….شاید میں جیت جائوں گا۔ہم جنت میں ملیں گے دوست‘‘۔
’’حمدان تم ایسا نہیں کہہ سکتے۔ہم اس سفر میں ہمیشہ ساتھ رہے ہیں‘‘۔اس نے آواز کی کمزوری اور پستی کو شدت کرب سے محسوس کیااور اس کی طرف گھسٹنے لگا ۔وہ خود جس جگہ تھا اواز بالکل اس کی نچلی سمت سے آرہی تھی۔
’’حمدان اپنا ہاتھ بڑھائو‘‘۔
’’نہیں بڑھا سکتا، میرے بھائی‘‘۔
’’اوہ….حمدان تم نے سنا ؟وہاں چند بچوں کی آواز سنائی دیتی ہےمگر وہ کہیں نظر نہیں آ رہے شاید بہت گہرائی میں یا کسی چیز کی آڑ میں زندہ ہیں لیکن دبے ہوئے ہیں ۔گاڑی کی بیٹری سے چارج کیے جانے والے موبائل بھی بند ہو چکے ہیں ۔اندھیرے میں انہیں خدشہ ہو گا کہ کہیں وہ خود انہیں بچانے کے بجائے مزید نقصان نہ پہنچا دیں تو ایک ٹارچ سے وہ ان معصوموں کو بچا لیں گے‘‘۔
’’حمدان تم سن رہے ہو؟‘‘
’’ہمم….سن….‘‘مدھم سی آواز آئی۔
’’حمدان صبح ہونے میں چند گھنٹے باقی ہیں….کیا جب تک تم ٹھیک رہ سکتے ہو؟‘‘
’’ہاں میں ہلکا سانس لے رہا ہوں لیکن ہل نہیں سکتا‘‘۔
’’ کوئی بات نہیں سانس ہی زندگی کی علامت ہے۔تم کوشش کرتے رہو‘‘۔
وہ خود بھی بولنے اور خود کو گھسیٹنے کی مشقت سے ہانپ گیا تھا۔خود کو ڈھیلا چھوڑ کر وہ گزری زندگی کے بارے سوچنے لگا۔
وہ فلسطین کے رفیوجی کیمپ میں یتیم پیدا ہوا تو اس نے آنکھ کھولتے ہی بڑے بھائی اور اپنی ماں کے علاوہ حمدان کو اپنا دوست پایا۔شروع میں تو وہ اسے اپنا حقیقی بھائی ہی سمجھتا تھا۔بڑے ہونے پر معلوم ہؤا کہ وہ اور بہت سے بچوں کی طرح کسی شہید والدین کا بیٹا تھاجس کی امی اس کی اپنی ماں کی سہیلی تھی۔اسی لیے ان دونوں بھائیوں کے ساتھ وہ حمدان کو بھی بیٹے جیسا ہی چاہتی تھی۔
آہ …. ماں اور بھائی کے بعد تو وہ دونوں ہی ایک دوسرے کا سہارا تھے۔
وہ بھی ایک ایسا ہی درد ناک دن تھا۔ جب غاصب اسرائیل نے رات کے اندھیرے میں نہیں بلکہ دن دیہاڑے شہری آبادی پرمیزائیل داغے۔جن کا سلسلہ بڑھتا ہی رہا اور ان کا علاقہ بھی زد میں آیا۔وہ لوگ تو ہر دوسرے تیسرے دن لاشے اٹھانے کے عادی ہو چکے تھے۔اس مرتبہ شہیدوں میں اس کی ماں اور بھائی بھی شامل تھے۔الحمد للہ….سوچتے سوچتے بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔اور اسے اپنی آنکھیں بھیگتی ہوئی محسوس ہوئیں۔
اُف….ایک دو زخم نہیں جیسے پورا بدن چھلنی تھا، بازو کو اٹھاتے ہوئے اس نے اپنے کیمرے کو آن کرنے کی کوشش کی تاکہ جلد از جلد آج کی رہ جانے والی ویڈیوز وہ اپنے ترک صحافی دوست کو سینڈ کر سکے۔
کیمرا کھولتے ہی بہت سے کلپ کھلتے چلے گئے اور سارے کرب ناک مناظر گویا اس کی نگاہ کے سامنے آ گئے۔
ایک بے جان معصوم کلی، جس کی پالتو بلی اسے چوم رہی ہے۔
ایک باپ جو اپنے تین بچوں کو کفنائے ،ان کے کان میں کہتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا سلام کہنا۔
ایک ماں جو اپنے جوان شہید بیٹے کے چہرے کو چومتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کر رہی ہے۔اسے روزانہ شہادت کی دعا دینے والی آج اس درجے کے قبول ہونے کی دعا کر رہی ہے۔ اس کے خون کی خوشبو اسے جنت کی یقین دہانی کروا رہی ہے۔
ایک بھائی اپنی دونوں چھوٹی بہنوں سے لپٹے ہوئے دھاڑیں مار رہا ہے۔کسی کے ہٹائے نہیں ہٹتا جانے کون سی یادیں اسے رلائے دے رہی ہیں۔
آہ….صبر بھی بہت بڑی نعمت ہے وہ بھی اوّل وقت، اسے ایک اور ڈاکٹر یاد آیا جو اپنے گھر والوں کی شہادت کی خبر ملنے پر انا للہ پڑھ کر دوسروں کا علاج کرتا رہا ،اتنا ہی نہیں بلکہ جس کے لواحقین شہادتوں پر روتے،چلاتے تو انہیں قرآن کی آیتیں سنا کر صبر کی تلقین کرتا رہتا۔کبھی تو ڈانٹ بھی دیتا۔
اگلے کلک پر ایک کھدی ہوئی بڑی قبر اس کے سامنے تھی۔جب میتوں کو دفنانے کے لیے قبرستان میں بھی جگہ کم پڑ نے لگی تو اجتماعی قبریں کھودی جانے لگیں،جس کی مٹی میں کئی بچے چھلانگیں لگا کر لطف اندوز ہو رہے تھے۔کھیل کود میں مشغول ،جگمگاتی آنکھوں والے بچوں سے جب اس نے سوال کیا کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ یہ قبرستان ہمارا ہے، ہم اس میں کھیلیں گے اور اسی میں دفنائے جائیں گے۔ پھرہنستے مسکراتے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ گئے۔
اشہد ان لا ا لہٰ…. محمد عبد ہ ‘و رسولہ….کی مدھم آواز کانوں میں پڑتے ہی اس نے کیمرہ بند کر دیا۔انا للہ و انا الیہ راجعون!
وہ یہ آواز لاکھوں میں پہچان سکتا تھا۔
یہ وہ آواز تھی جس کو جتنا دبایا گیا،ہمیشہ اتنی ہی قوت کے ساتھ ابھرتی رہی۔
یہ قلمکار بہت اڑیل ہوتے ہیں۔
حمدان کی تحریروں کا غبار اس کی زندگی میں نظر آتا تھا۔بارہا قید وبند کی صعوبتوں سے گزرتے،زمانے کے کرب کو جھیلتے، وہ یارِ غار تھے۔ ارض فلسطین کے مسائل یا خبریں دنیا تک ویسٹرن چھلنیوں سے چھننے کے بعد پہنچتے اور وہ کئی بار عالمی ذرائع ابلاغ کی دروغ گوئی پر کڑھتے ہی رہ جاتے۔ایسے میں پناہ گزینی،بے سر و سامانی ،دربدری،غریب الوطنی جیسے الفاظ اس کے لیے محض علامت نہیں بلکہ تجربات بن کر اس کی تحریروں میں جلوہ گر ہوتے۔زخموں کے جو گلی کوچے آباد تھے،ان میں اسرائیلی جارحیت اور غاصب فوجیوں کی کئی کہانیاں اس کے قلم سے جنم لینے لگتیں جن میں جدوجہد تحریک آزادی اور سماجی مسائل کی بازگشت سنائی دیتی۔
ہا ئے آزادی کی شدید تڑپ اورخواہش وہ اپنی تحریروں میں بھی چھوڑ گیا….دل غمگین ہے….آنکھ آنسو بہاتی ہے….پر میں اپنے رب کی رضا میں راضی ہوں۔کاش میں بھی اپنے تخیلات،محسوسات اور مشاہدات کو کسی تحریر میں ڈھال سکتا۔آہ میرے ساتھی جنت کے راہی، میرے منتظر رہنا۔
پو پھٹ چکی تھی۔ دور سے لوگوں کی بھاگ دوڑ ،زخمیوں کے کراہنے،بچوں کے بلبلانے کی آوازیں اس کے تخیل میں عکس بندی کرتی رہیں۔ تانے بانے بنتی رہیں۔ درد و کرب کی منظر کشی میں جانے کتنے ہی شیرخوار ،یتیم، نوخیز لاشیں، خون کے آنسو روتی مائیں،اپنی آوازوں کو گھونٹتی،صبر کرتی مائیں،ڈرتے سسکتے سہمے بچے اور بے سہارا والدین اس کی نظروں کے سامنے گھوم گئے۔
بہت سےڈاکٹر والنٹئیرز اور امدادی ٹیمیں بھی انبیا کی سر زمین پر اپنی نذریں پوری کر چکے تھے۔جو ہیں وہ بھوک نیند اور ضروریات زندگی سے بے نیاز،ہر لمحہ خدمت خلق میں جتے ہوئے ہیں۔
بھوک کا سوچتے ہی اسے وہ ڈبل روٹی یاد آئی جس کا ایک ٹکڑا اب بھی اس کے بیگ میں موجود ہوگا۔ لیکن وہ جس بیکری سے خریدی گئی تھی وہ بھی بم دھماکے کے ذریعےتباہ شدہ املاک میں شامل ہو چکی تھی۔ یہاں ہر گلی پہ خون کی چھاپ اور ہر مکان سے کوئی نہ کوئی قربانی جڑی ہوئی ملے گی۔
ایک دفعہ پھر ذہنی و جسمانی تکلیف کے باعث اس پر غنودگی چھانے لگی۔اس کی بند ہوتی آنکھوں نے تمنا کی،کاش خوابیدہ وجود کے ہوش میں آنے پر امت بھی بیدار ہو چکی ہو!
گزشتہ کئی گھنٹوں کی اذیت برداشت کرنے کے بعد جب اس کی آنکھ کھلی تو اپنے اندازے کے مطابق خود کو ہسپتال میں موجود پایا۔بہت سے دوسرے مریضوں کی طرح وہ فرش پہ نہیں بلکہ بستر پر لیٹا ہؤا تھا۔ اس نے جان لیا تھا کہ اپنے بھائی جیسے دوست کے ساتھ ساتھ ،وہ اپنی دونوں ٹانگیں بھی گنوا بیٹھا ہےالحمد للہ! اس نے جانا کہ ابھی کچھ وقت باقی ہے ، اس کے حصے کا کام ابھی باقی ہے۔ارضِ فلسطین مزاحمت کا لپکتا استعارہ بن چکی ہے، اسے آزادی کا شعلہ دل میں سرد ہونے نہیں دینا….موجوں کی کشاکش میں عزم ہے دریا پار کرنے کا….اپنے حصے کا کام باقی ہے!
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x