ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بابو بھائی – آمنہ آفاق

وہ پراٹھے بناتے تھے ، گول گول لچھے دار پراٹھے ، ان کی خوشبو ہی دور سے اپنی جانب کھینچ لیتی۔ وہ اپنے کام میں بہت ماہر تھے ایسی پھرتی سے ان کے ہاتھ چلتے کہ دیکھنے والا پلک جھپکنا بھول جاتا ۔بڑے سے توے پر گھی ڈال کر وہ ایک کے بعد ایک بل دار پیڑے کو بیل کر اس پر ڈالتے جاتے اور مشینی انداز میں ان کو سینکتے اور پلٹتے اور بڑی مہارت سے کاغذ پر ڈال کر گاہک کے ہاتھ میں پکڑا دیتے۔ مجھے ان کی آنکھوں میں ایک درد کا جہاں نظر آتا تھا ۔کبھی انھیں نماز چھوڑتے نہ دیکھا تھا۔
’’ سنا ہے آپ کا بیٹا باہر ملک جا رہا ہے روزی روٹی کی خاطر“۔
آج انھوں نے پراٹھے بناتے ہوئے ہاتھوں کو باقاعدہ روک کر پوچھا تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔
”جی ہاں بابو بھائی، رکھا کیا ہے اس ملک میں جی …نہ نوکری نہ تعلیم ڈھنگ کی، آخر بہترین مستقبل کے لیے بیرون ملک تو جانا ہی پڑے گا ، بڑی مشکل سے میں نے پائی پائی جمع کی ہے اپنا آبائی گھر بیچ کر ایک چھوٹے سے فلیٹ میں منتقل ہو گیا ہوں کہ بس اس کا مستقبل سنور جائے“ ۔
میں نے تفصیل بتائی تو بابو بھائی نے مجھے کچھ خفا نظروں سے دیکھا۔
” ارے اگر ہمارے ملک کے ہونہار بیرون ملک جا کر غلامی کرنے کے لیے تیار ہیں تو یہاں تو صرف ہم جیسے ہی رہ جائیں گے نا“ ۔
میں نے مسکراہٹ دبا کر پھراثبات میں سر ہلایا اور اپنے پراٹھے لے کرچلتا بنا۔ اب میں ان سے کیا بحث کرتا! ان کو معلوم ہی کیا ہے بیرون ملک کی پڑھائی یا یہاں کی پڑھائی کا فرق ۔انہوں نے تو بچپن سے محنت مزدوری ہی کی ہوگی اور اپنے بچوں کو بھی اسی ڈگرپر لگانا چاہیں گے۔
میری بابو بھائی سے دوستی اقبال بھائی کے ایک چائے کے ہوٹل پر ہوئی۔ میں نے انھیں پہلی بار دیکھا تھا تو بہت کمزور ناتواں سے شخص اور اپنے اپ کو گھسیٹ گھسیٹ کر چل رہے تھے ، ہمیں تو لگا تھا کہ شاید کچھ مانگنے آئے ہیں مگر انہوں نے محنت مزدوری کا سوال کیا۔ اتفاق سے اس وقت پراٹھوں والے کی جگہ خالی تھی تو یوں ان کو پراٹھے بنانے پر رکھ لیا گیا۔ ذہین اور محنتی تو تھے ہی جلد ہی اپنے کام میں ماہر ہو گئے ، دینی لحاظ سے بھی ایک مضبوط شخصیت تھے ،فضول باتوں میں انہیں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ نماز روزے کے پابند اور سب سے بڑھ کر سب جانداروں کے لیے ہمدرد ۔
میری عادت تھی آفس سے آنے کے بعد اقبال بھائی کے ہوٹل پر بیٹھنے کی، پرانی دوستی تھی ہماری، اس وقت اتفاق سے کوئی گاہک نہیں آیا تھا اور بابو بھائی کی عادت تھی پراٹھے ہاتھ کے ہاتھ گرم گرم تیار کر کے دیتے، پہلے سے تیار کر کے نہ رکھتے تھے ۔اسی لیے وہ میرے پاس آ بیٹھے۔ میں نے تھوڑا سا پہلو بدلا اور اپنے آپ کو تیار کر لیا وعظ و نصیحت سننے کے لیے، مگر میری امید کے برعکس آج تو وہ کہیں اور ہی کھوئے ہوئے تھے۔
”خورشید بھائی مجھے تو افسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو تاریخ سے نہ جوڑ پائے“۔
”جی کیا مطلب؟ “ میں نے حیران نظروں سے دیکھا مگر وہ میری طرف نہیں دیکھ رہے تھے۔
”میری بھی سب سے بڑی غلطی یہی تھی جب میں نے اپنے بیٹے کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی۔ میرا بیٹا ملک سے باہر گیا وہیں شادی کی ،وہیں کا ہو کر رہ گیا ۔شروع میں خط بھی بھیجتا پیسے بھی مگر میرے دل نے گوارا نہ کیا کہ میں یہاں بیٹھ کر وہاں کی کمائی کھاؤں ۔میں نے منع کر دیا اس سے اور اب یہ رابطہ بھی ختم ہو گیا“۔
ان کے آج کے اس انکشاف پر میں بے حد حیران ہوا مگر میں نے انہیں بولنے دیا ۔
”میری سمجھ میں نہیں آتا خورشید بھائی! قیام پاکستان کے وقت ہمارے ان مسلمان بزرگوں کی جدوجہد وہ قربانیاں ، ان کے کٹے ہوئے اعضا، وہ بچھڑے ہوئے لوگ وہ کسمپرسی کی حالت میں لٹے پٹے قافلے ، کیا یہ سب اتنا آسان ہے بھول جانا؟ میری والدہ نے مجھے بتایا تھا کس طرح میرے خاندان والے میرے بہن بھائی سب اپنی جانیں بچانے کے خاطر ایک الگ وطن کی خاطر ، آزای کی خاطر اپنی جانیں داؤ پر لگا گئے ۔انہیں خود توآزادی نصیب نہ ہوئی مگر ہمارے بچوں کو پیدائشی آزاد کر دیا اور آج ہمارے بچے اس آزادی کا مقصد ہی بھول گئے ‘‘۔
”کیسا مقصد بابو بھائی؟ “میں نے انھیں بیچ میں ٹوکا تو میرے سوال پر انہوں نے مجھے اچنبھے سے دیکھا ۔میں نے نظریں چرا لیں۔
” پاکستان اسلام کے نام پر حاصل ہؤا ہے پاکستان کے لیے کی گئی ہر جدوجہد اصل میں اپنے دین کی حفاظت تھی، اسلام کے سنہری اصولوں کا نفاذ تھا، ہندوؤں کے طرزِ زندگی سے، ان کی بول چال سے آزادی تھی، مسلمانوں کو غلامی سے نجات دلانا مقصود تھا۔ مگر آج اپنے اطراف میں دیکھیں تو یہ سب کچھ تو ہمیں الگ دنیا کا منظر لگتا ہے۔ ہر کوئی اپنی جائیداد بنانے کے چکر میں ،ہر کوئی اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے چکر میں، ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی آزادی کا مقصد ہی بھول گئے۔ کیا رائیگاں چلی گئی ہیں میرے بزرگوں کی قربانیاں ؟
اس آزاد معاشرے میں تو کوئی نہیں ہے لاٹھی برسانے والا نمازیوں پر… پھر یہ مساجد کیوں خالی ہیں؟ آج بے حیائی کا طوفان ہر جگہ امڈتا نظر آ رہا ہے، اب کیا مجبوری ہے ان لوگوں کے ساتھ ؟ یہ ان کا اپنا دل ہے انگریزوں کے پہناوے کو قبول کرنے کا ، آج ہم آزاد ہیں مگر ذہن ہمارے ابھی بھی غلام ہیں ۔وہ وقت کیسے کٹا ہوگا جب ہندوؤں نے سکھوں نے بلوائیوں نے مسلمانوں کو مارا، کسی کو نہ چھوڑا، مگر آج کیا ہو جب مسلمان ہی مسلمان کو مار ڈالے…. ایک ذرا سی چیز انسانی جان سے بڑھ کر ہو گئی، کیا رہ گیا پھر؟ مسلمان تو اپنے دینی بھائی کی حفاظت کرتا ہے، اس کی جان کی مال کی آبرو کی، مگر اج کا مسلمان فرقہ واریت میں بٹ گیا ہے، اتنا کمزور ہو گیا ہے مسلمان خورشید بھائی….کہ بزرگوں کی قربانیوں کے بعد جوآزادی کی نعمت ملی تھی آج اسی نعمت کو لات مار کر پھر چلا ہے غلامی کے لیے “۔
”مگر بابو بھائی اب کیا کر سکتے ہیں؟ ترقی کے امکانات تو وہیں ہیں“ میں نے انہیں جواز پیش کرنا چاہا۔
”آپ نے بھی خوب کہا بھائی….ترقی پذیر ممالک میں سے جو جو ترقی کرتا جائے وہ ترقی یافتہ ممالک کا حصہ بنتا جائے تو ترقی پذیر تو ترقی پذیر ہی رہ جائے گا نا ، خیر اللہ اپ کے بچے کا روشن مستقبل کرے لیکن آپ کا فرض ہے کہ اپنے بچوں کو تاریخ سے جوڑ دیں ۔تاریخ دھندلا ضرور گئی ہے مگر پاکستان کا مقصد اب بھی صاف اور نمایاں ہے۔ یہ ایک بدترین سازش ہے کہ مسلمان اپنی تاریخ بھول جائیں، اصل میں خورشید بھائی! اپنی تاریخ بھلا دینا اپنا حافظہ کھو دینے کے مترادف ہے، میری والی غلطی آپ نہ دہرائیں ، پاکستان کے حصول کے جو مقاصد تھے اس معیارپرخود پورا اترنا اور اپنے بچوں کو پورا اتارنا ہماری اور آپ کی ذمہ داری ہے‘‘۔
’’انکل دو پراٹھے دینا“۔
ایک بچے کی آواز پر بابو بھائی پراٹھے بنانے کے لیے اٹھے ،مگر مجھ کو بہت کچھ دے گئے سوچنے کے لیے ، ایسا لگا کہ میں بھی اج تک ذہنی غلامی کا ہی شکار رہا ہوں۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x