مقناطیس – عینی عرفان
’’ٹین ڈبے والا، بھوسی ٹکڑے والا، ردی والا، کباڑ والا‘‘۔ جون کے وسط کا سورج سوا نیزے پہ نہ تھا مگر اس کی تپتی شعاعیں
’’ٹین ڈبے والا، بھوسی ٹکڑے والا، ردی والا، کباڑ والا‘‘۔ جون کے وسط کا سورج سوا نیزے پہ نہ تھا مگر اس کی تپتی شعاعیں
جس نے بھی سنا دانتوں میں انگلیاں داب لیں۔ مختلف چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں۔ ’’بھلا اتنے نیک اطوار باپ کے گھر ایسی اولاد کسی آزمائش
الحمدللہ خدائے بزرگ نے تخیل کی پرواز وسیع رکھی ہے۔ لفظوں کی بنت کیسے کہانی میں ڈھل جاتی ہے، پتہ ہی نہیں چلتا۔ مگر اس
ساحر زیرِ تعمیر بلڈنگ سے باہر نکلا تو چلچلاتی دھوپ نے استقبال کیا۔ تپتی دھوپ میں تیزی سے گزرتا ہو&ٔا گاڑی میں بیٹھا اور سکون
’’مجھے نہیں کھانے یہ بینگن…. آپ کو کچھ بھی اچھا پکانا نہیں آتا مما…. ہر وقت یہ سبزیاں پکا کر رکھ دیتی ہیں‘‘ تابش نے
مدیحہ ارحم کو کندھے سے لگائے بے چینی سے کمرے میں چکرا رہی تھی۔ کبھی دل میں غصہ کی لہر اُٹھتی توکبھی رونا آجاتا ،کبھی
عبدالباقر ایک ترقی پذیر ملک کے سب سے گنجان آباد شہر کےجنوب میں ایک متوسط محلے میں قدرے زمین میں دھنسے ہوئے دو کمروں کے
سکینہ تھکے تھکے قدموں سے گھر میں داخل ہوئی تو گھر کے مکینوں کی آنکھوں میں سکون دوڑ گیا۔ اس گھر میں کئی جانوں کی
ادارہ بتول کے تحت شائع ہونے والی تمام تحریریں طبع زاد اور اورجنل ہوتی ہیں۔ ان کو کہیں بھی دوبارہ شائع یا شیئر کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ساتھ کتاب اور پبلشر/ رسالے کے متعلقہ شمارے اور لکھنے والے کے نام کا حوالہ واضح طور پر موجود ہو۔ حوالے کے بغیر یا کسی اور نام سے نقل کرنے کی صورت میں ادارے کو قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا۔
ادارہ بتول (ٹرسٹ) کے اغراض و مقاصد کتابوں ، کتابچوں اور رسالوں کی شکل میں تعلیمی و ادبی مواد کی طباعت، تدوین اور اشاعت ہیں تاکہ معاشرے میں علم کے ذریعےامن و سلامتی ، بامقصد زندگی کے شعوراورمثبت اقدار کا فروغ ہو
Designed and Developed by Pixelpk