ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ماتم – بتول جنوری ۲۰۲۳

عبدالباقر ایک ترقی پذیر ملک کے سب سے گنجان آباد شہر کےجنوب میں ایک متوسط محلے میں قدرے زمین میں دھنسے ہوئے دو کمروں کے گھر کا مکین تھا ۔اس کا گھر سڑک سے تقریباً دو فٹ نیچے تھا۔ سال کے سال سڑک پر روڑی ڈال کے کالا پانی پھیر دیا جاتا تھا جو مون سون کے پہلے چھینٹے میں ہی بیٹھ جاتا۔
جانے کس کی کرم نوازیاں تھیں جو ہدایت اللہ کے گھر کو بتدریج قبر سے مشابہہ کر رہی تھیں۔ اس کے پاس نہ پکڑنے کے لیے کوئی گریبان تھا نہ انگلی اٹھانے کی اوقات۔نہ جانے کتنے سالوں سے اس کے شہر کے وارث ہی اس شہر سے لاوارثوں جیسا سلوک روا رکھے ہوئے تھے ۔
کیا نام تھا اس کے شہر کا ؟چلیے جانے دیجیے،اپنا ہی پیٹ کیا ننگا کرنا!
پچھلے ایک مہینہ کی بارش نے عبدالباقر کی تقریباً ساری گھر ہستی تباہ کردی تھی ۔گھر کے صحن تو کیا کمروں تک میں پانی بھرا ہؤا تھا ۔ عبدالباقر کی بیوی اپنے تینوں بچوں کو سارا دن پلنگ تک محدود رکھتی۔ پانچ سالہ داور اور چار سالہ دانیہ تو پھر بھی ماں کا پلو پکڑ کے پلنگ سے اتر جاتے پر چھ ماہ کی رانیہ اگر ماں کی ذرا سی بے دھیانی کا شکار ہوجاتی تو یقینا اس پانی میں ڈوب جاتی۔ دونوں میاں بیوی کا آدھے سے زیادہ دن گھر سے پانی نکالنے میں لگ جاتا۔ تھوڑاامن ہوتا کہ پھر ابرِ رحمت برس جاتا۔ سڑک پہ کھڑا ہونے والا پانی پھر ان کے گھر آجاتا ۔ایسا لگ رہا تھا کہ زندگی صرف پانی پانی ہو کر رہ گئی ہے۔ خدا کی رحمت سے شکوہ نہیں تھا کیوں کہ ان کو معلوم تھا کہ یہ برسات ان کے ملک اور ان کی نسلوں کی بقا کے لیے کتنی ضروری ہے پر حکمرانوں کی نا اہلی پر دل خون کے آنسو روتا تھا۔ اس علاقے کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا تھا۔ ان کے علاقے تک آنے والا پل ندی بھرجانے کی وجہ سے بند کردیا گیا تھا۔ سڑکوں گلیوں گھروں سب جگہ نالوں سے ابلنے والا پانی بھر چکا تھا۔ کتنے ہی گھروں کی دیواریں اور چھتیں منہدم ہوگئی تھیں۔ مستقل اہل علاقہ کی طرف سے مدد کی اپیل کی جارہی تھی پر بے سود۔ اگر انصاف اندھا تھا تو انصاف دینے والے بہرے ۔مختلف پوش علاقوں میں پمپ سے پانی نکالا جا رہا تھا مگر اس غریب محلے کی چیخ سننے والا کوئی نہ تھا۔
عبدالباقر کئی دنوں سے کام پر نہیں جارہا تھا۔ کیسے جاتا ،نہ جانے کا راستہ تھا نہ پیچھے بیوی بچوں کے لیے کوئی آسرا ۔ گھر میں رکھا گیلا سوکھا سارا راشن ختم ہوگیا تھا۔ سونے پر سہاگہ ٹنکی میں پانی بھی ختم ہوگیا۔ اس کے علاقے میں پچھلی کئی دہائیوں سے نلکوں میں سرکاری پانی نہیں تھا ۔ ہاں سرکاری کاغذات میں گھر گھر پانی تھا پر یہ کاغذات کا پانی کاغذات تک ہی محدود تھا۔ اس کے علاقے میں تو ٹینکرمافیا کا راج تھا، ساڑھے چار سو کی آدھی ٹنکی ڈلواتا اور اسے پندرہ دن تک اس کے گھر والے تبرک کی طرح استعمال کرتے۔ حالیہ پٹرول کی قیمتیں بڑھنے پر ٹینکروں نے یکلخت آدھی ٹنکی ساڑھے چار سو سے سات سو کی کردی تھی ،گویا پانی غریب کے لیے امرت ہوگیا تھا۔
بارشوں کے دوران پرنالے سے بہنے والا پانی ایک بڑے ڈرم میں محفوظ کرکے گھر کی ضروریات کے لیے استعمال ہو رہا تھا پر اب پینے کا پانی بھی ختم ہوگیا۔ بڑی مشکل سے سارا جمع جتھا جوڑ کر عبدالباقر نے پانی والے کو فون کیا تو اگلوں کی بات سن کے ششدر رہ گیا ۔پانی کی آدھی ٹنکی اب سات سو سے بڑھا کر بارہ سو کی کردی گئی تھی۔ اس نے مایوسی سے فون کاٹ دیا۔ اس نے تو سنا تھا کہ بارشوں میں ڈیم اتنے بھر گئے تھے کہ اگلے تین سالوں تک کی ضرورت کا ذخیرہ جمع ہوگیا تھا تو آخر اس کو کیوں قطرہ قطرہ کی دوگنی قیمت ادا کرنی پڑ رہی تھی؟
کچھ سوال صرف سوال ہی رہتے ہیں ان کے کوئی جواب نہیں ہوتے۔
اس کو آس بھری نظروں سے دیکھتا ہوا اس کی بیوی کا چہرہ مرجھا گیا ۔اس نے پرنالے سے بھرا ہؤا پانی چھان کر فیڈر میں بھرا اور بلکتی

ہوئی رانیہ کے منہ سے لگادیا ۔رانیہ کے منہ میں گندے پانی کا فیڈر دیکھ کر عبدالباقر تڑپ کر رہ گیا۔ بیٹی کو وہ پانی پلانے کا یارا نہ تھا پر فیڈر چھیننے کا حوصلہ بھی نہ ہوا۔ اس کا کلیجہ منہ کو آگیا۔
آزمائش چھوٹی ہو یا بڑی آخر کار گزر ہی جاتی ہے۔ گزشتہ دس روز سے بارش تونہیں ہوئی تھی مگرسڑکوں پر کھڑا پانی لیس دار کیچڑ کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ اس کے گھر کا پانی بھی سوکھ گیا تھا۔ ندی کا پل کھول دیا گیا ۔ تین دن سے عبدالباقر کام پر جارہا تھا۔ سیٹھ خدا ترس آدمی تھا، دوکان کے سارے لڑکوں کو مہینے بھر کا راشن مفت میں دیا تھا۔ اب یہ صدقہ تھا یا زکوٰۃ عبدالباقر کو کیا غرض ،اس کے بچوں کا پیٹ بھر رہا تھا اس کے لیے اتنا ہی بہت تھا۔ البتہ اتنی مہنگی پانی کی ٹنکی ڈلوانے کی ہمت اس کی ابھی بھی نہ ہوئی تھی۔ وہ روز فلٹر سے بیس روپے کا کین بھر کے لاتا اور وہ ہی چھو چھو کر استعمال ہوتا۔
عبدالباقر کو نو اور دس محرم کی دوکان سے چھٹی ملی تھی۔ وہ گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ مل کےساری گیلی چیزیں چھت پر ڈال کر سکھا رہا تھا۔ فرنیچر پانی میں پڑے رہنے کی وجہ سے نہایت خستہ حال ہوگیا تھا،اس کی بھی مقدور بھر مرمت کر رہا تھا ۔ پانی سے ہوئے نقصان کو وہ پورا تو نہ کرسکتا تھا پر کوشش تو کر ہی سکتا تھا۔ وہ دونوں میاں بیوی نہایت ہی مصروف تھے کہ یکلخت ڈھیر سارا پانی ریلے کی صورت گھر میں داخل ہؤا ۔ اس کی بیوی نے چیخ کر رانیہ کو گود میں اٹھایا ،عبدالباقر باہر کو لپکا۔ بارش تو ہوئی نہیں تھی پھر اتنا پانی کہاں سے آیا ۔پورے محلے میں ہا ہا کار مچی ہوئی تھی۔ ان کے محلے کے پیچھے صنعتی علاقہ تھا،معلوم ہؤا وہاں سے فیکٹریوں نے بڑے پمپ سے سارا پانی ان کے محلے میں چھوڑ دیا تھا۔ لوگ چیخ رہے تھے چلا رہے تھے احتجاج کر رہے تھے پر خود بول کے خود ہی کو سنا رہے تھے کہ وہاں کوئی اور سننے والا تو تھا نہیں۔ آخر کب تک یہ ظلم برداشت کیا جاتا۔ محلے والے مل کر بڑی سڑک پر دھرنا دینے جارہے تھے۔ چھٹی کا دن تھا تو سب ہی مرد گھر پر تھے، ایک جم غفیر جمع ہوگیا۔ عبدالباقر گھر کو لوٹ آیا۔ وہ اتنے چھوٹے بچوں کو بیوی کے پاس اکیلا چھوڑ کر کہاں جاتا۔ پانی پلنگ کے برابر آگیا تھا، اس کی بیوی بچوں کو پکڑ کر پلنگ پر بیٹھی تھی، غم و غصّے سے برا حال تھا۔ جب اس کو پتہ چلا کہ سب احتجاج کو نکلے ہیں تو اس نے زبردستی عبدالباقر کو بھی جانے کے لیے راضی کر لیا۔
’’ظلم سہنے والا ظالم کا مدد گار ہوتا ہے….. ہر شخص کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے‘‘۔
عبدالباقر بچوں کو پیار کر کے باہر نکل گیا۔
اہلِ محلہ نے شاہراہ کیا بند کی شہر میں ہلچل مچ گئی۔ عزا داروں کے جلوس رک گئے، منٹوں میں میڈیا اور صحافی جمع ہوگئے، سیکیورٹی گارڈز کی تعداد بڑھا دی گئی۔ عام دنوں میں ان کی آواز نظر انداز کردی جاتی پر آج بہت خاص دن تھا، کئی اداروں کی نظریں جلوسوں کے لیے کیے گئے حفاظتی اقدامات پر تھیں۔ عام عوام اور جلوس میں تصادم کے خطرہ کے پیش نظر دو جھنڈے والی گاڑیاں بھی پہنچ گئیں۔
وجہ احتجاج سن کے فوراً ایک وزیر اور سیکیورٹی گارڈوں کے ہمراہ ان کو ان کے علاقہ کی طرف روانہ کیا گیا تاکہ ان کامسئلہ حل کرایا جائے ۔ میڈیا خود ہی ان کے ہمراہ تھا۔ ماتمین کے لیے لمحوں میں راستہ صاف کراکے شاہراہ کو کھول دیا گیا۔
عبدالباقر بخوشی واپس لوٹا تھا۔ ایک آس بن گئی تھی کہ شاید اب اس کے مسائل حل ہو جائیں کیوں کہ اب آواز حکام بالا تک پہنچ جائے گی، آخر پورا میڈیا ساتھ تھا اور میڈیا کی طاقت سے کب کسی کو انکار تھا۔
مگر عبدالباقر کو کیا معلوم تھا کہ ایک قیامت صغریٰ اس کی منتظر تھی!
شام ہوچکی تھی اور علاقہ اندھیرے میں ڈوبا تھا۔ بجلی کی پی ایم ٹی پھٹ گئی تھی ،کسی گھر میں حادثہ ہوگیا تھا، پانی سوئچ بورڈ تک جانے کی وجہ سے پانی میں کرنٹ پھیل گیا اور کچھ ہی دیر میں دھماکے سے بجلی بند ہوگئی۔ تھی لیکن کرنٹ کے وہ کچھ لمحے عبدالباقر کی دنیا اجاڑ کر لے گئے تھے۔ سامنے پلنگ پر اس کی بیوی اور تینوں بچوں کی نیلی مسخ شدہ لاشیں آپس میں چپکی پڑی تھیں۔ کیمرے دھڑا دھڑ ان کی تصویریں بنانے میں لگے تھے ۔عبدالباقر ساکت و جامد تھا، وہ تو گھر کے دروازے میں ہی مردہ ہوگیا تھا، سانس چل رہی تھی پر سانس کب زندگی کی ضامن ہؤا کرتی ہے!
بڑی سڑک سے جلوس گزر رہا تھا ۔وہ کربلا کا ماتم کر رہے تھے بین کررہے تھے مگر یہاں تو ہر دور میں کربلا بپا ہوتا رہا ہے۔ ہر کربلا کو

ماتمین کہاں ملا کرتے ہیں،ہر مظلوم کو کب رویا جاتا ہے!
آج عبدالباقر کی میت دروازے میں کھڑی تھی پر اس پر سینہ کوبی کرنے والی اس کی بیوی اپنا کام ادھورا چھوڑ کر جا چکی تھی۔ اس کی ناگہانی موت پر چھاتی پیٹنے والا بیٹا جنت کے سفر پر نکل گیا تھا۔ اس کے بےگوروکفن جسم پر بین کرنے والی بیٹیاں دور کہیں وادیوں میں چپکے چپکے مسکرا رہی تھیں اور عبدالباقر کی زندہ لاش پر ماتم کرنے والا کوئی نہیں بچا تھا۔
کوئی بھی نہیں!
٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x