ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

لوگ کیا کہیں گے! – عینی عرفان

جس نے بھی سنا دانتوں میں انگلیاں داب لیں۔ مختلف چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں۔
’’بھلا اتنے نیک اطوار باپ کے گھر ایسی اولاد کسی آزمائش سے کم ہے کیا‘‘۔
’’ایسی اولاد سفید کالر کے داغ کی طرح ہوتی ہے جسے نہ چھپا سکتے ہیں نہ اپنا سکتے ہیں‘‘۔
’’بڑھاپے میں یہ رسوائی دینے سے اچھا تھا ایسی اولاد پیدا ہوتے ہی مر جاتی‘‘۔
غرض جتنے منہ اتنی باتیں! اور یہ سب تو ان کے منہ پہ کہا جارہا تھا ، پیٹھ پیچھے جو طنز و تضحیک کی جارہی تھی اس سے بھی وہ ناواقف تو نہ تھے پر سب کچھ بےبسی سے سننے پہ مجبور تھے کہ اب وہ کر بھی کیا سکتے تھے۔
کئی روز سے ہمت مجتمع کرنے کے باوجود مشہود اپنی خواہش اپنے والد کے گوش گزار کرنے سے قاصر تھا۔ اس کو یقین تھا کہ عمل کرنا تو درکنار وہ اس کی بات سنتے ہی رد کردیں گے۔ وہ اس کے احساسات نہیں سمجھ سکتے اگرچہ ان کی بردباری اور سمجھداری کے پورے خاندان والے ہمیشہ سے ہی قائل تھے۔ کسی کی بیٹی کا رشتہ آتا یا بیٹے کی شادی کی تاریخ رکھی جاتی، کوئی خوشی غمی ہو یا رشتہ داروں کے درمیان چپقلش، ان کو خصوصی طور پہ مشورے کے لیے بلوایا جاتا تھا۔ وہ جب بھی فریقین کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتے تو معاملہ بخیر و خوبی نمٹ جاتا ۔
وہ بھرے پرے خاندان میں سربراہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ نام تو ان کا مسعود احمد تھا پر تایامجو کے نام سے مشہور تھے۔ وہ ایک مناسب ڈیل ڈول والے دراز قد آدمی تھے۔ سرخ وسفید رنگت پہ ہلکی بھوری داڑھی اور کنپٹیوں سے جھانکتے کچھ سفید بال، ہمیشہ کلف لگا کڑکڑاتا قمیض شلوار اور نفیس عطر کی دھیمی خوشبو، اس پہ طرہ ان کی حلیم طبیعت اور مسحور کن لہجہ لوگوں کو مرعوب کرتا تھا۔ ان کی شخصیت کا رعب سامنے والے کو تعظیم کرنے پہ مجبور کردیتا۔
احترام تو مشہود بھی ان کا بہت کرتا تھا پر اس کی وجہ ان کی نرمی و حلاوت نہیں بلکہ وہ غصیل لہجہ اور بد کلامی تھی جو وہ اپنے گھر والوں سے روا رکھتے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی وہ اپنی نفاست و محبت کا چولا بےدردی سے اتار پھینکتے۔ بیوی بچوں کے سامنے ان کی زبان نہ بد گوئی پہ لڑکھڑاتی نہ خواتین کا لحاظ کرکے فحش گوئی سے گریز کرتی۔ گالیاں ان کی نوکِ زبان پہ رہتیں۔جس خاندان کے وہ ہر دلعزیز تایا مجو تھے، پیٹھ پیچھے اسی خاندان کاخوب ہی مضحکہ اڑاتے۔ وہ دنیا کے ہر شخص کو بےوقوف اور خود کوعقلِ کل گردانتے تھے۔
مسعود احمد کے تین بچے تھے۔ سب سے بڑا منظور جو نہایت ہی لائق فائق تھا۔ ڈگریوں پہ ڈگریاں لے کر اس نے اپنے باپ کے مغرور کاندھوں کو مزید چوڑا کر دیا تھا۔ اب اس کو دفتر کی طرف سے دو سال کے لیے انگلینڈ بھیجا جا رہا تھا۔ منظور ستائیس سال کا ہو چکا تھا۔ اس کی ماں اس کی شادی کی خواہش مند تھیں مگر اس کے نزدیک کامیابیوں کی اس قطار میں شادی سب سے آخر میں کھڑی تھی۔ مسعود صاحب منظور کے اس فیصلے میں اس کا بھرپور ساتھ دے رہے تھے کہ ان کو واہ واہ سمیٹنے کا ایک اور موقع مل رہا تھا ۔آخر ان کا بیٹا انگلینڈ جا رہا تھا کوئی غیر اہم بات تھوڑی تھی۔ منظور سے دو سال چھوٹی ملائکہ تھی جس کو ایک سال قبل ہی مسعود صاحب نے بہت دھوم دھام سے شادی کر کے دبئی رخصت کیا تھا۔ پورے خاندان میں ملائکہ کی شادی کو مثالی شادی مانا جاتا تھا۔ جہیز، پہناؤنیاں، سلامی، کھانا، سب انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ تھا۔ ویسے بھی مسعود احمد دنیا دکھاوے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے تھے۔ وہ شخصیت کو سنوارنے سے زیادہ اس کی ملمع کاری پہ یقین رکھتے تھے۔
ملائکہ سے تین سال چھوٹا مشہود تھا۔اصولاً تو سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے اسے باپ کا لاڈلا ہونا چاہیے تھا لیکن مسعود صاحب ہمیشہ اس سے نالاں ہی رہے اور سب سے زیادہ باپ کے عتاب کا نشانہ بھی وہ ہی بنا۔ مشہود بچپن سے ہی پڑھائی میں کمزور تھا بمشکل ترقی پاس کرکے اسے نئی جماعت میں بھیجا جاتا ۔عموماً تو فیل ہو کے اسے ایک جماعت دو دفعہ پڑھنی پڑتی۔ بائیس سال کا ہونے کے باوجود ابھی تک کالج کے تیسرے سال میں تھا۔ اسے بچپن سے ہی کرکٹ کھیلنے کا جنون تھا تین سال قبل وہ اپنے کالج کی کرکٹ ٹیم کا کپتان منتخب ہوگیا تھا۔ اسے کالج کی طرف سے عالمی سطح پہ انڈر ٹونٹی میں کھیلنے کا موقع ملا مگر اسے باز رکھنے کے لیے مسعود صاحب نے ربڑ کے پائپ سے اس کی دھنائی کردی۔ وہ اسے بھی منظور کی طرح قابل دیکھنا چاہتے تھے، ان کھیل کھلونوں کے چکر میں پڑ کے وہ تعلیم کو بالکل ہی خیر باد کہہ دیتا۔ مشہود نے باپ کی سختی کی وجہ سے کرکٹ چھوڑ دی پھر بھی تعلیم کے میدان میں چاہ کے بھی جھنڈے نہ گاڑ سکا۔
اس کے دل میں باپ کا خوف بیٹھ چکا تھا ۔اسے ان کا منافقت بھرا روپ بالکل پسند نہیں تھا اس کے باوجود وہ اپنے باپ جیسا ہی بننا چاہتا تھا۔ دبنگ اور بارعب، باہر کے لوگ جس کی تکریم کریں تو گھر والے خوف سے سر جھکا کے رہیں۔ پچھلے تین سال سے مشہود نے ان سے کوئی فرمائش نہیں کی تھی وہ اپنے جیب خرچ کے پیسے بھی ماں یا بھائی سے لیتا لیکن اب جو اس کی خواہش تھی وہ گھر کے سربراہ کی حیثیت سے مسعود صاحب ہی پوری کرسکتے تھے۔ باقی گھر والے اس سلسلے میں کچھ نہیں کر پاتے۔ مشہود نے ہمت کرکے اپنا مدعا باپ کے سامنے بیان کر ہی دیا اور ان کا رد عمل حسبِ توقع ہی آیا۔ انہوں نے مشہود پہ ہاتھ تو نہیں اٹھایا کہ اب وہ قد میں باپ سے بھی اونچا ہوچکا تھا مگر ان کے منہ سے نکلنے والے مغلظات سے اس کی سماعتیں محروم نہ رہیں۔ تادیر گالیاں کوسنے سننے کے باوجود جب مشہود ٹس سے مس نہ ہؤا تو مسعود صاحب ٹھٹھکے کہ معاملہ سنجیدہ ہے۔ ان کو بیٹے کی آنکھ میں بغاوت نظر آئی تو وہ تھوڑی مفاہمت سے گویا ہوئے۔
’’ یوں تعلیمی اداروں میں لڑکوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی لڑکیاں کبھی بھی گھر نہیں بساسکتیں۔ یہ صرف شغل ہوتا ہے ان کا جس میں تم جیسے بدھو لڑکے پھنس جاتے ہیں‘‘۔
’’سامعہ ایسی نہیں ہے وہ تو کسی سے بات تک نہیں کرتی بہت الگ تھلگ رہتی ہے اس کا یہ گریز ہی مجھے پسند ہے۔ اس کے گھرانے میں لڑکیوں کی جلدی شادی کردی جاتی ہے اس سے پہلے کہ اس کی کہیں بات طے ہوجائے آپ امی کو لے کے اس کے گھر جائیں‘‘مشہود کی آواز دھیمی پر لہجہ اٹل تھا۔ مسعود صاحب کی پیشانی کے بلوں میں اضافہ ہؤا۔
’’ہمارے خاندان میں لو میرج کا رواج نہیں ہے۔ میں تمہاری پسند کی شادی کروا کے پورے خاندان میں اپنا ٹھٹھانہیں اڑواسکتا‘‘۔
’’تو اپنی مرضی کی لڑکی سے کرادیں‘‘مشہود جھٹ بولا تو مسعود کو اصل معاملے کا اندازہ ہؤا۔ زور پسند پہ نہیں بلکہ شادی پہ تھا۔ ان کا خون کھول گیا۔
’’عمر دیکھی ہے اپنی….. پالنے سے نکلے نہیں، شادی کی پڑی ہے۔ بڑا بھائی کنوارا ہے ابھی اور میں چھوٹے بیٹے کی شادی کردوں تاکہ لوگ میری اولاد کے بارے میں قیافے لگائیں، عجیب عجیب قیاس کریں باتیں بنائیں، نہ جانے بڑے بیٹے میں کیا عیب تھا جواس کی شادی نہیں کی۔جانے چھوٹے بیٹے نے کیا چاند چڑھایا جو اس کی شادی اتنی جلدی کردی۔ میری برسوں کی بنائی ہوئی عزت خاک میں مل جائے۔ ان خرافات کو ذہن سے نکالو اور پڑھائی پہ توجہ دو۔ جب تک منظور کی شادی نہیں ہوگی تم اس بارے میں سوچنا بھی مت‘‘ ۔
مسعود صاحب قطعیت سے کہہ کے کمرے سے باہر نکل گئے وہ مایوسی سے خود کو ڈھیلا چھوڑتا ہؤا صوفے پہ گر گیا۔
منظور کی باہر جانے کی تیاریاں مکمل تھیں۔ اس کے جانے میں چند ہی روز باقی تھے کہ مسعود صاحب کی بہن دستِ سوال لے کے چلی آئیں۔ باقاعدہ کوئی بات تو طے نہیں ہوئی تھی لیکن مسعود صاحب نے کئی بار اپنی بھتیجی کو بہو بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اب منظور دوسال کے لیے باہر جا رہا تھا تو وہ چاہتی تھیں کہ دونوں کا نکاح کر دیا جائے رخصتی منظور کے واپس آنے کے بعد ہوجائے۔ مسعود صاحب کو اپنی بہن کی بات پسند نہ آئی لیکن انہوں نے یہ ناگواری اپنے لہجے سے چھلکنے نہ دی۔ وہ بہت رسان سے گویا ہوئے۔
’’اگر میں یوں عین روانگی سے پہلے منظور کا نکاح کروں گا تو لوگ سمجھیں گے مجھے اپنی اولاد پہ اعتبار نہیں ہے۔ میں اس کے گلے میں پٹہ ڈال کے بھیجنا چاہتا ہوں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میں نے اپنی اولاد کی بہت بہترین تربیت کی ہے وہ میری رضا کے بغیر کوئی بھی قدم نہیں اٹھا سکتےاورنہ ہی میری اولاد سے کوئی غلطی سرزد ہوسکتی ہے کیونکہ ان کی رگوں میں میرا خون دوڑ رہا ہے‘‘ فرعون غرق ہو کے بھی کچھ لہجوں میں زندہ رہ گیا تھا۔
’’آپ کی بات ٹھیک ہے بھائی جان لیکن میں نے منظور کی وجہ سے فائقہ کے کئی رشتوں کو منع کیا ہے۔ اب مزید دوسال کا انتظار کیسے کروں آپ منگنی ہی کردیں تاکہ خاندان والوں کو باقاعدہ طور پہ پتہ چل جائے کہ فائقہ آپ کی امانت ہے‘‘۔
’’کس نے کہا کہ تم منظور کی وجہ سے انکار کرو اگر تمہیں خاندان میں منظور سے بہتر کوئی لڑکا ملے تو تم بے شک اس کے ساتھ فائقہ کی شادی کردو میں نے کب تمہیں پابند کیا ہے‘‘مسعود صاحب نے نہایت نرمی سے بہن کے دل میں کچوکا لگایا تھا۔ وہ کھسیا کے رہ گئیں۔
’’پھپھو اگر آپ کو فائقہ کی شادی فوری کرنی ہے تو مجھ سے کردیں میں ویسے بھی آجکل فارغ ہوں میرا کوئی اور پلان بھی نہیں ہے‘‘۔ مشہود نے پھپھو کا اداس چہرہ دیکھ کے شرارت سے کہا تو وہ بے ساختہ ہنس دیں۔ مشہود کی ذومعنی باتوں میں کیا مقصد پوشیدہ تھا مسعود صاحب کو اچھی طرح علم تھا۔انہوں نے کڑی نگاہ مشہود پہ ڈالی تو وہ نظر چرا کے رہ گیا۔
منظور کا ٹکٹ کنفرم ہوگیا تھا۔ اس کی روانگی سے ایک روز قبل مسعود صاحب نے پورے خاندان کی دعوت رکھی تھی۔ سب لوگ مختلف تحائف کے ساتھ منظور سے الوداعی ملاقات کرنے آئے ہوئے تھے۔ گھر میں خوب رونق لگی تھی سب لوگ ہی رشک کر رہے تھے۔ مسعود صاحب پھولے نہ سمارہے تھے۔ جلد ہی سب نے مشہود کی کمی محسوس کی تو اس کے بارے میں استفسار کرنے لگے۔ مسعود صاحب اس کی بیماری کا بہانہ بنا کے اس کے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ خود ان کی بھی مشہود سے تین چار دن سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ وہ شاید ان کے سامنے آنے سے گریز کر رہا تھا۔ ان کی بیگم نے بھی ان سے تشویش کا اظہار کیا تھا کہ شاید مشہود کی طبیعت خراب ہے نہ کچھ ڈھنگ سے کھا پی رہا ہے نہ کوئی بات کرتا ہے، پریشان پریشان لگتا ہے۔ تب انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی تھی لیکن اگر اب سب مہمان اس کی غیر موجودگی کا کوئی غلط مطلب نکال لیتے تو ان کی بدنامی ہوتی اس لیے وہ خود ہی مشہود کو بلانے چلے آئے۔
وہ سامنے مسہری پہ گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹ کے کسی گہری سوچ میں گم، مضمحل سا بیٹھا تھا۔ بال بکھرے تھےاور آنکھوں پہ سوجن تھی۔ رنگت خطرناک حد تک زرد ہو رہی تھی۔ وہ ان کی تینوں اولادوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھا اور وہ اپنا خیال بھی بہت رکھتا تھا اب اسے یوں حال سے بے حال دیکھ کے ان کے دل کو کچھ ہؤا۔ وہ جھنجھلا کے آگے بڑھے۔
’’آپ ہمیشہ صرف لوگوں کا سوچتے ہیں بابا…. کاش کبھی اپنی اولاد کا بھی سوچ لیتے‘‘ مشہود نے شکست خوردہ لہجے میں کہا۔
’’کیا کچھ نہیں کیا میں نے تم لوگوں کے لیے، اب ایک بچگانہ ضد کے پیچھے تم اپنے باپ کو مورد الزام ٹھہراؤ گے‘‘ مسعود صاحب نے غصے میں بمشکل اپنی آواز دبائی۔
’’یہ بچگانہ ضد نہیں ہے بابا، شادی کی ضد بچے نہیں کرتے‘‘ اس نے بچے کا لفظ چبا کے ادا کیا تو ان کی تیوری کے بل گہرے ہوگئے۔
’’مجھے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی فورا ًاپنا حلیہ درست کر کے باہر آؤ‘‘۔
’’مجھ سے گناہ ہوگیا بابا‘‘ اس سے پہلے کہ وہ کمرے سے باہر نکلتے ان کو مشہود کی سرگوشی سنائی دی۔ انہوں نے بجلی کی طرح لپک کے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھا۔
’’جوانی سنبھالی نہیں جارہی تو کم از کم راز سنبھالنا تو سیکھ لو۔ لغزشیں تو ہوہی جاتی ہیں پر ان کا یوں ڈھنڈورا نہیں پیٹا جاتا۔ اس عمر میں پھسلنا تو فطرت ہے پر اتنی نفاست ہونی چاہیے کہ گرد کی خبر نہ لگے کسی کو‘‘ ۔
وہ سرخ آنکھوں اور بھینچے ہونٹوں کے ساتھ مسقبل کا لائحہ عمل سکھا کے جا چکے تھے اور مشہود سُن کھڑا تھا۔ کیا یہ سچ مچ اس کی جنت کا دروازہ تھے جو اتنی آسانی سے جہنم کا پتہ دے گئے تھے؟ اسے اپنے باپ سے گھن آئی۔ اندر چھڑی ہوئی جنگ یکلخت ختم ہوئی۔فیصلہ ہو گیا تھا پر اس فیصلے نے اسے نڈھال کردیا تھا۔وہ بکھرتے اعصاب کے ساتھ بیٹھتا چلا گیا۔
٭ ٭ ٭
مسعود صاحب کو دل کا دورہ پڑا تھا۔ وہ ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں تھے۔ پورے خاندان میں کھلبلی مچی تھی۔ ہر ایک کے لبوں پہ تایا مجو کا ہی نام تھا ۔کسی کو اصل قصہ جاننے میں دلچسپی تھی تو کسی کو چٹخارے کا چسکا پڑا تھا۔ ساری عزت اور نیک نامی ایک ہی جھٹکے میں تمام ہوئی تھی۔اس مشکل گھڑی میں ان کی سگی اولاد بھی قریب نہ تھی۔ بیٹی دبئی میں تھی تو بیٹا انگلینڈ میں، رہ گیا شہود تو اسے تو وہ خود ہی اپنی زندگی سے نکال چکے تھے وہ ہی تو تھا ان کی اس حالت کا ذمہ دار ۔ کچھ رشتےدار مضحکہ اڑا رہے تھے تو کچھ خود کو منصف جان کے نام نہاد انصاف کا ڈگمگاتا ترازو اٹھائےکھڑے تھے۔ایسا ترازو جس کے جھکے ہوئے پلڑے میں ایک مظلوم اور بےبس باپ تھا جسے بڑھاپے میں رسوا کردیا گیا تھا تو دوسری طرف شہود تھا جس کا بےوزن اور ہلکا پلڑا ہوا میں معلق تھا۔
مسعود صاحب ہوش میں آئے تو سب رشتے دار ان سے ملاقات کو امنڈ آئے۔ ساری زندگی انہوں نے جس خوف کے گرد گزار دی تھی کہ لوگ کیا کہیں گے، آج ان کا وہ ہی خوف مجسم صورت ان کے سامنے کھڑا تھا۔ لوگوں کا فقط ایک ہی سوال تھاجس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ ہر ایک فقط یہ جاننا چاہتا تھا کہ:
’’شہود نے گھر کی ملازمہ کی بیٹی سے کورٹ میرج کیوں کرلی‘‘۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
4 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x