ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

مصحف پاک کے لیے ایک نظم – اسما صدیقہ

یہ میرے ہونے کا اک پتہ ہے

ہر اک سفر میں ہراک خطر میں جوتھام لیتا ہے بن کے رہبر
کبھی یہ دھیرے سے لاج رکھ لے،کبھی بنا ہے یہ سرکی چادر
جو نوعِ انساں کودے تمدن،عطائے رحمت ہے جو سراسر
یہ میرے ہونے کاایک پتہ ہے
ہراک تعلق کاراستہ ہے
یہ معجزہ جوہر عہدکاہے کئی زمانوں سے جاملا ہے
اندھیری شب کی کثافتوں میں کرن خزانوں کا اک ذخیرہ
بہت مقدس بہت مکمل ہیں باب سارے ،بہت منزہ ہیں مثلِ ہیرا
سدا سے دارو یہ ہرستم کا ،بنا تسلی کاایک مظہر
قسم قلم کی جوکھارہا ہے خدائے برتر
سرشت ِانساں میں چھپ گیا ہے اسی صداقت کاایک جوہر
قلوب واذہاں کی روشنی ہے
یہ کتنے سینوں میں جاگزیں ہے
خدائے واحد کی قربتوں کا جبھی امیں ہے
جو نوعِ انساں کی عظمتوں کا یہ ہم نشیں ہے
حروف اس کے تمام روشن، جہان ِمعنی میں لعل و گوہر
کہ اس کی سنگت میں جاگ جائے ہراک مقدر
یہاں پہ حکمت کے باب سارے شعورووجداں سے ہیں منور
کھلے جو فطرت کے راز سارے ظہورِ عرفاں سے ہیں معطر
ضیاوظلمت میں فرق کرنا اسی کے دم سے
وفاکو وحدت میں غرق کرنا اسی کے دم سے

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x