ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بتول میگزین – بتول مارچ ۲۰۲۲

اے فخر دیں!تجھے مرحبا تجھے آفریں
بریرہ صدیقی۔ جرمنی
خیروشر کے ازل سے جاری معرکہ حق و باطل میں نعرہ تکبیر کی معجزاتی تاثیر ہمیشہ عقل انسانی کو مبہوت کردیتی ہے۔ کبھی فاران کی چوٹیوں سے اللہ اکبر کی پکار کےساتھ طلوع ہوتاسورج پوری دنیا کے ظلمت کدے کو اپنی کرنوں سے منور کرتا ہےتوکبھی چاغی کی پہاڑیاں اعلائے کلمتہ اللہ کی پکار پہ لبیک کہتی، ایٹمی قوت بننے کی نوید سناتی ہیں۔ کفر کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہے جبکہ قوم اس عظیم فتح کے دن کو یوم تکبیرسے موسوم کرتی ، ہر سال اس کا جشن مناتی ہے۔
حال ہی میں، ایک بار پھر تاریخ عرب کے ریگزاروں سے چودہ سو سال کا سفر طے کرتی ریاست کرناٹک کے کالج میں آپہنچی ہے ۔معرکہ حق و باطل ایک بار پھرسجا ہے اور شیطان ایک بار پھر اپنے لاؤ لشکراور ذریت سمیت ارغوانی اور نارنجی شالیں لہراتا آپہنچا ہے۔
کیمرے کی آنکھ جو منظر پیش کرتی ہے اس سے لگتا ہے کہ نہتے منحنی سے وجود پر لپکنے والے بےضمیر شرپسندوں کو انتظامیہ مداخلت کرکے روکتی ہے لیکن قلبی واردات اس کے برعکس گواہی دیتی ہے کہ ، ’’شاھت الوجوہ ‘‘ ،’’رسوا ہوں وہ چہرے ‘‘کہہ کر جو خاک مشرکین مکہ کے چہروں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بدر کے معرکے میں ڈلوائی گئی، ایسی ہی خاک نے ان کو وقتی معذوراور بدحواس کرکے پیش قدمی سے روکا ہوگا۔ نصرت الٰہی ، ایسے ہی معجزے کی شکل میں، ایسے ہی نازک موڑ پہ یکایک نمودار ہوتی اور حقیقی انقلاب کی اساس بنتی ہے۔مسکان خان کےنعرہ تکبیر کی گونجتی نہتّا مگر بھرپور آواز ایک اور یوم تکبیر کی نوید بنی ہے۔ اس لیے کہ اپنی تاثیرمیں یہ واقعہ کسی ایٹمی دھماکے سے کم نہیں۔ دشمن کے ایوانوں میں ایک بار پھر لرزہ طاری ہے جبکہ مطمئن اور پراعتماد مسکان کی مسکراہٹ نے اضطراب میں مزید اصافہ کردیا ہے۔
کالج میں پیدا ہونے والی یہ صورتحال اتفاقیہ نہیں بلکہ گزشتہ دو ماہ سے جاری کشیدہ حالات کا تسلسل ہے ،جس میں مسلم تہذیب ایک بار پھر بدترین نشانے پر ہے۔ حیرت کا مقام یہ ہے کہ حجاب جیسے ایشو کو اس وقت وجہ تنازعہ بنایا جارہا ہے جب دنیا کے زیادہ تر ممالک کلی ہتھیارڈال چکے ہیں یا عنقریب اپنی نئی پالیسیز کا اعلان کرنے کو ہیں۔ بنگلور کالج کی انتظامیہ مذکورہ طالبہ اور دیگر مسلم طالبات کو ایک روز پہلے بھی ممکنہ تشویشناک حالات سے آگاہ کرچکی تھی ۔ کالج، باحجاب آنے کا فیصلہ بھی قطعی اتفاقیہ نہیں ، مکمل شعوری تھا۔ معترضین کا یہ بھی کہناہے کہ ایک ڈری سہمی بچی کے خوف سے نکلے الفاظ کو، بہادری اور جرأت کا رنگ دینا، غیر دانشمندانہ جذباتیت ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے، جیسا کہ مسکان خان خود بتاتی ہیں کہ باحجاب کالج آنے کا اٹل فیصلہ ان کا اپنا تھا۔ یقینا نعرے خوف کی کیفیت میں بلند کیے گئے، لیکن اپنے سب سے پہلے انگریزی میں دیے گئے انٹرویو کے مطابق ،میں خوف میں اللہ کو پکارنے کی’’used to‘‘ہوں۔ درحقیقت ایسی ہی دہشت اور خوف کی کیفیت میں بے اختیار اللہ کی یاد اور اس کی کبریائی کا اعلان اکسیر ثابت ہوتے ہیں۔ نزول دجال کے وقت بھی،اس کے فتنوں اور چالوں کے سامنے جب دنیامتذبذب اور بے بس ہوگی، وہ لوگ جو کثرت سے تکبیر اور تسبیح وتہلیل کہنے والے اوراس کے’’ used to‘‘ تھے، یہی کثرت ذکرکی عادت ان کے لیےدجال سے نجات کاسبب بنے گی۔ یہاں تک کہ خوددجال کا وجود ، حضرت عیسٰیؑ کے نزول کے بعد ، موجودہ اسرائیلی ائیرپورٹ کے مقام پہ ختم ہوجائے گا (بحوالہ کتاب المغازی، صحیح بخاری)۔
قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ مسکان خان کی غیر معمولی بہادری کو غیرجانبدار ہندو برادری اور ساتھی ہندو طالبات نے سپورٹ بھی کیا ہے اورانتہا پسند ہندووں کی جارحانہ کاروائیوں کی بھرپور مذمت کی ہے۔ یقین اور بھروسے کی شرط کے ساتھ، دفاع کے ضامن’’اللہ اکبر‘‘ کے قیمتی الفاظ کے ساتھ پوری امت مسلمہ باہمت مسکان خان کو سیلوٹ پیش کرتے ہوئے ہم آواز ہے۔
تجھے مرحبا، تجھے آفریں!
٭ ٭ ٭
تقلید سے ناکارہ نہ کر
مہوش ریحان ۔کراچی
کل علی کا ٹیسٹ تھا اور جب سے علی کو پڑھانے بیٹھی ، وہ بار بار یہی کہہ رہا تھا کہ ہماری مس نے ایسے ہی لکھوایا ہے میں ایسے ہی لکھوں گا ورنہ میری مس نمبر کاٹ لیں گی ۔میں اس کو سمجھا رہی تھی کہ اگر آپ الفاظ بدل لیں گے تو کوئی فرق نہ پڑے گا مگر وہ ہرگز میری بات ماننے کو تیار نہ تھا۔ آخرکار اس کے سوال کا مطلب سمجھا کر رٹا لگانے کے لیے چھوڑ دیا ۔
اتنے میں فون کی بیل بجی میری بہن زارا کا فون تھا۔وہ مجھ سے مچھلی سالن بنانے کا طریقہ پوچھ رہی تھی۔ جب میں نے اس کو طریقہ بتایا تو وہ فورا ًبولی آپی امی تو ایسے نہیں پکاتی تھیں، اور مجھے تھوڑی دیر پہلے کہی علی کی بات یاد آگئی۔
میں یہ سوچ رہی تھی کہ ایک چھوٹا سا نقطہ بچوں کے معصوم ذہنوں کی بنیاد رکھ رہا ہوتا ہے یہ چھوٹی سی بات بچوں کو یہ پیغام دے رہی ہوتی ہے کہ اپنے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو گروی رکھ کر جو کہا جا رہا ہے وہی کرو۔ویسے ہی آجکل کا ماحول،میڈیا اور موبائل بچوں کے دماغوں کو اپنی گرفت میں لے چکے ہیں۔ پھر ہمارے تعلیمی ادارے بھی ان کے ذہنوں کو محدود کر رہے ہیں۔قرآن میں جگہ جگہ کہا جاتا ہے کہ غور کرو،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قرآن کو رہتی دنیا کے لیے قابل عمل بتایا ہے اور واقعات کے ذریعہ پتہ چلتا ہے کہ صحابہ ؓبھی سب سے پہلے قرآن،پھر حدیث اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور پھر اجتہاد کے ذریعے مسائل کا حل نکالا کرتے تھے۔آج یہ چھوٹے چھوٹے غیرارادی عمل ہمارے بچوں سے نہ صرف سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین رہے ہیں بلکہ ان کے معصوم ذہن آگے جاکر کوئی نئی بات قبول بھی نہیں کریں گے۔اگرچہ اس میں ان کا فائدہ ہو پھر بھی صرف اور صرف اسی لیے اس پر عمل پیرا نہیں ہوں گےکہ ہمیں تو بس یہی سکھایا اور بتایا گیا ہے ۔
قرآن میں بھی آبا ؤ اجداد کی اندھی تقلید سے روکا گیا ہے۔ جب کہ ہم بلا سوچے سمجھے بڑوں کو بھی گنہگار کر رہے ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بڑوں کا کوئی عمل اس وقت کے لوگوں،ماحول اور سہولیات کے حساب سے درست ہو مگر فی الوقت ان کی اندھی تقلید کا کوئی فائدہ نہیں۔بلکہ وہ آگے جا کر ایک رسم کی صورت اختیار کر لے اور ان کے لیے اور ہمارے لیے گناہوں میں اضافے کا سبب بنے۔
اردگرد نگاہ دوڑائی تو ہر طرف یہی نظر آیا،محرم ہو یا ربیع الاول اور اب تو جمعہ اور رجب کی مبارکبادیں۔سب کی اصل وجہ غلو اور بڑوں کی اندھی تقلید ہے۔ ہمیں آنکھیں کھول کر ،سوچ سمجھ کر قدم بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم خودایک نمونہ ہیں جس کی کل تقلید کی جاسکتی ہے ۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x