ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

عمر پر کیا گزری – نور نومبر ۲۰۲۰

گرمیوں کی ایک دوپہر، عمر کے ساتھ عجب واقعہ پیش آیا ۔ وہ اپنے کمرے میں لیٹا کتابیں پڑھ رہا تھا ۔ کمرہ روشن اورآرام دہ تھا، تھوڑی ہی دیر میں اس پرغنودگی طاری ہونے لگی اور وہ خواب دیکھنے لگا ۔ اس نے دیکھا کہ اس کا کمرہ بدل گیا ہے۔ اسے لگا جیسے یہ چوروں کے گھر کا کمرہ ہے۔ اسے فہیم بھی نظر آیا وہ اپناچہرہ،عمر کے چہرے کے نزدیک لایااوراسے بغوردیکھتے ہوئے کسی سے کہا:
’’ ہاں ! وہی ہے ، مجھے یقین ہے یہ وہی ہے ۔‘‘
’’ ہاں یقینا وہی ہے ۔ میں اسے کہیں بھی دیکھوں گا توپہچان لوں گا ۔ مجھے اس سے نفرت ہے ۔‘‘ایک اور آواز آئی۔
آخری الفاظ بہت بلند آواز سے کہے گئے تھے ۔ عمر کی آنکھ کھل گئی، ساتھ ہی اس کی خوف سے جان نکل گئی۔ اس کو دو بدہئیت چہرے کھڑکی میں نظرآئے جو اس کی جانب دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے ایک فہیم تھا ۔ دوسرا شخص وہی تھا جس سے ڈاک خانے کے سامنے اس کی ٹکر ہوئی تھی ۔ عمر کو اس شخص کا نام معلوم نہیں تھا ، وہ منصورتھا۔
عمر اچھل کھڑا ہوا اورمدد کے لیے پکارنے لگا ۔ وہ سخت خوف زدہ تھا ۔ دوسرے ہی لمحے وہ دونوں وہاں سے غائب ہو گئے ۔ اس کی آواز سن کر سب دوڑے چلے آئے ۔ عمر نے جلدی جلدی انھیں ساری بات بتائی۔
وہ ان دو آدمیوںکو ڈھونڈنے باہربھاگے، مگروہ نہ ملے۔ لیکن عمر کویقین تھا کہ اس نے انھیں کھڑکی سے جھانکتے ہوئے دیکھا تھا۔
اگلے دن گُل کو شہر بھیجا گیا تاکہ وہ معلوم کر لے کہ کسی نے ان دو آدمیوں کو دیکھا ہو، پر ایسا کوئی نہ ملا ، لہٰذا ان کی تلاش ترک کردی گئی اور سب جلد ہی اس واقعہ کوبھول گئے ۔

٭…٭…٭

چیچہ وطنی میںناکامی کے بعد سے ہی بلو سائیں کی طبیعت نا ساز ہو گئی تھی ۔ نینا اس کا خیال رکھ رہی تھی ۔ وہ کافی کمزور ہوچکا تھا ۔ ایک دن فہیم چالباز اورشاہد کے ہمراہ وہاں آیا ۔ وہ لوگ اپنے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں لائے تھے۔
’’ دیکھو ہم تمھارے لیے کیا لائے ہیںبلو۔ ہم نے تمھیں نہیں بھلایا۔ میں اصل میں کام کے سلسلے میں لاہور سے باہر گیا ہوا تھا ۔‘‘ فہیم نے کہا۔
’’ ہاں مجھے معلوم ہے تم مجھے نہیں بھولے۔تم تو یہ بھی سوچتے رہتے ہو کہ تمھارا یہ کام اور تمھارا وہ کام کیسے کر سکتا ہوں ۔‘‘ بلو نے غصے سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ ارے میرے پیارے بلو ، دیکھو تو کتنی اچھی کھانے پینے کی چیزیں ہیں ۔‘‘ فہیم نے مٹھاس بھرے لہجے میں کہا۔
’’ آپ کی بڑی مہر بانی لیکن مجھے پیسے چاہئیں ۔ آج رات تک مجھے پیسے مل جانے چاہئیں، سنا تم نے ؟ ‘‘ بلو نے کہا۔
’’ میں چالباز کے ہاتھ جلد ہی بھجوا دوں گا ‘‘ بلو کے خونخوار لہجے کو سن کر فہیم نے جواب دیا۔
’’ نہیں ہر گز نہیں ، تم ایسا نہیں کرو گے ۔‘‘ بلوچلایا۔ وہ یقینا لانا ہی بھول جائے گا ۔ نینا تمھارے ساتھ جائے گی اور رقم لے کر آئے گی ۔‘‘
چناں چہ نینافہیم کے ساتھ چلی گئی۔
’’ رکو ، میں اوپر سے پیسے لے کر آتا ہوں۔‘‘ گھر پہنچ کر فہیم نے اس سے کہا ۔ اچانک ہی کسی کے قدموں کی آواز سنائی دی۔
’’ سنو! یہ یقینا منصور ہے۔ ‘‘ فہیم نے کہا ۔ اسے پیسوںکے بارے میںکچھ نہ بتانا ۔‘‘ اس نے سر گوشی کی ۔ فہیم کا اندازہ درست تھا۔ وہ منصور ہی تھا۔
’’ کیا کوئی خبر لائے ہو ؟‘‘ فہیم نے اس سے پوچھا۔
’’ ہاں ۔ اچھی خبر ہے ۔ پر مجھے تم سے اکیلے میںبات کرنی ہے۔‘‘
دونوںاوپر فہیم کے کمرے میں چلے گئے اور دروازہ بند کردیا۔
نینا نے اپنے جوتے اتارے اور دبے پائوںسیڑھیاںچڑھتی ہوئی دروازے تک پہنچی ۔ اس نے کان لگا کر سنا ، پر جلد ہی خاموشی کے ساتھ واپس نیچے اتر آئی ۔ تھوڑی دیر بعد فہیم اور منصور بھی نیچے آگئے ۔ منصور کووہاں سے روانہ کر کے فہیم نینا کی طرف متوجہ ہوا ۔ وہ خوفزدہ نظر آرہی تھی۔
’’ ارے نینا ، تمھاری رنگت اتنی پیلی کیوں ہو رہی ہے ؟ کیا بات ہے ؟‘‘اس نے پوچھا ۔
’’ کچھ نہیں ،‘‘ نینا نے جواب دیا ۔’’ مجھے رقم دو تاکہ میں واپس جائوں ۔‘‘
نینا وہاں سے نکل کر گلی میں پہنچی تو تھوڑی دیر کے لیے ایک گھر کی سیڑھیوں پر ہی بیٹھ گئی۔فہیم کے کمرے کے باہر اس نے کان لگا کر جو سنا تھا ، وہ بہت عجیب کہانی تھی ۔ منصور، فہیم کو عمر کے بارے میں بتا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ عمر کے والدین کون تھے۔ اس کو کچھ کاغذات ملے تھے جو یہ ظاہر کررہے تھے کہ رابعہ حقیقتاً عمر کی خالہ تھی۔ منصور نہیں چاہتا تھا کہ لوگوں کو اس حقیقت کا علم ہو، لہٰذا اس نے وہ کاغذات جلا دئیے تھے۔
اس کو اس بات کا بھی علم تھا کہ رابعہ اس وقت کہاں تھی اور یہ کہ عمر اور بیگم ملیحہ بھی اس کے ساتھ لاہور میں ایک ہوٹل میں قیام پذیر تھے۔ وہ لوگ یہاں کچھ دن ٹھہر کر کراچی کے لیے روانہ ہونے والے تھے۔
نینا کو اندازہ ہوگیا تھا کہ منصور عمر کے خلاف کوئی سازش کرنے والا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس کو ایسا کرنے سے کیسے روک سکتی ہے؟ اگلے روز نینا بہت گھبرائی ہوئی تھی۔
’’ارے لڑکی! تمھیں کیا ہوا؟ تمھارا رنگ کیوں فق ہورہا ہے؟ تمھاری آنکھوں میں اتنی دہشت کیوں ہے؟‘‘ بلو نے پوچھا۔
’’کوئی بھی بات نہیں ہے۔‘‘ نینا نے جواب دیا۔
’’تم کیا سوچ رہی ہو؟‘‘ بلو نے نینا کا بازو سختی سے پکڑتے ہوئے کہا۔
’’کچھ نہیں بلو!‘‘ نینا نے دوبارہ وہی جواب دیا۔
’’لگتا ہے تمھیں بخار چڑھ رہا ہے۔‘‘ بلو نے نینا کا بازو چھوتے ہوئے کہا اور اپنی دوا مانگی۔ نینا اٹھی، اس نے پیالی میں دوا انڈیلی، پھر جلدی سے اس میں کچھ اور بھی ملا دیا۔ اس کی پیٹھ بلو کی طرف تھی، اس لیے وہ دیکھ نہ سکا۔ نینا نے اس کو دوا دی جو اس نے پی لی۔
کچھ ہی دیر میں اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ اس نے انہیں کھولے رکھنے کی ناکام کوشش کی۔ اچانک وہ اٹھ کے بیٹھا۔ اس کی آنکھوں میں خوف تھا، مگر پھر دوبارہ لیٹ گیا اور گہری نیند میں چلا گیا۔
’’شکر خدا کا!‘‘ نینا نے خود سے سرگوشی کی۔ ’’دوا نے کام کر دکھایا۔ مجھے اب جانا چاہیے کہیں دیر نہ ہو جائے۔‘‘
گھر سے نکلتے ہی وہ سڑک پر تیز رفتاری سے دوڑنے لگی۔ وہ کئی مرتبہ لوگوں سے ٹکرائی۔ ایک دفعہ تو ٹیکسی سے ٹکر ہوتے ہوتے بچی لیکن پھر بھی اس نے اپنی رفتار کم نہ کی۔ جب وہ اس ہوٹل پہنچی جس کا ذکر منصور نے فہیم سے کیا تھا تواس کا سانس بری طرح پھول رہا تھا۔ اس نے دروازے سے اندر داخل ہونے کی کوشش کی تو ایک ملازم نے اسے روک لیا۔ اس نے نینا کا جائزہ لیا۔
’’تم جیسے لوگوں کو یہاں کسی سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔ باہر نکلو۔‘‘ اس نے درشتگی سے کہا۔ نینا روہانسی ہوگئی۔
اس دوران ایک اور ملازم وہاں نظر آیا۔ نینا نے اس سے رابعہ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔
کیا نام ہے تمھارا؟ تم رابعہ صاحبہ سے کیوں ملنا چاہتی ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’میں ان سوالوں کے جوابات نہیں دے سکتی، لیکن مجھے ان خاتون سے ضروری ملنا ہے پلیز، رابعہ صاحبہ کو جا کے بتائو کہ ایک لڑکی ان سے اکیلے میں ملنا چاہتی ہے۔ یہ بہت بہت اہم ہے۔‘‘ نینا نے التجا کی۔
ملازم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آکر اس نے نینا کو اپنے پیچھے آنے کو کہا، وہ اسے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے آیا۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x