۲۰۲۲ بتول جنوریپلا د ے او ک سے ساقی! - بتول جنوری...

پلا د ے او ک سے ساقی! – بتول جنوری ۲۰۲۲

تفریح کے وقفے میں آمنہ اور رباب نے اپنا اپنا توشہ دان کھولا اور پھر ایک دوسرے کا ناشتہ دیکھ کر کھکھلا کر ہنس دیں۔
’’ اُف آج تو سموسوں میں بہت مرچیں ہیں ‘‘ رباب نے سی سی کرتے ہوئے پانی کی بوتل کو منہ لگالیا۔ آمنہ مسکرائی اور خاموشی سے اپنا برگر کھاتی رہی۔ رباب نے سموسوں کی پلیٹ پرے کھسکائی اور جیب سے چاکلیٹ نکال کرکھانی شروع کی۔’’ یہ برگر آنٹی نے بنایا ہے ؟‘‘ اس نے آمنہ سے پوچھا۔
’’ نہیں بھئی ۔ رات چاچو آئے تھے وہ لائے تھے صرف برگر نہیں ، پزا، ڈرم سٹک ، ونگز اورشاورمابھی‘‘۔
’’ کیا انہوں نے فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کھول لیا ہے؟‘‘ رباب ہنسی۔
’’ نہیں نہیں ‘‘ آمنہ بھی ہنسی ،’’ نائنتھ میں میرے اتنے اچھے نمبرآئے ہیں ۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ میری پسند کی ٹریٹ دیں گے۔اتنا ساراکچھ لائے تھے ۔ کچھ رات میں کھایا کچھ صبح ‘‘اس نے چٹخارا لیا ۔’’ ارے ہاں یہ تمہارے لیے بھی بر گر لائی ہوں ‘‘ آمنہ نے لفافے سے برگر نکال کر رباب کوپکڑایا۔
’’ بہت بہت شکریہ، اسے رکھو میں ابھی کوک لے کر آتی ہوں ‘‘ رباب یہ کہہ کر رُکی نہیں ۔
’’ توبہ ، اتنی کوک پیتی ہے جیسے کوک کا نشہ ہو ‘‘ آمنہ نے کندھے اچکائے۔
رباب کی واپسی کوک کی دوبوتلوں کے ساتھ ہوئی ایک آمنہ کے سامنے رکھی اور خود برگر کے ساتھ کوک سے لطف اندوز ہونے لگی۔
’’ رباب ، تمہارے بھی تو اتنے اچھے نمبرآئے ہیں تہیں کیاانعام ملا؟‘‘ آمنہ نے پوچھا تووہ ہنس دی ۔
’’ میں نے سب سے کہا کہ تحفہ خریدنے میں وقت اور پیسے ضائع نہ کریں ۔ نقد رقم دے دیں تاکہ میں ڈھیر ساری کوک پی سکوں ‘‘۔
’’کیا …….؟‘‘ مارے حیرت کے آمنہ کا منہ کھل گیا ۔’’ہاں یار امی اتنی کم منگوا کر دیتی ہیں اب ہفتہ دس دن تو عیاشی کروں گی ‘‘رباب نے جواب دیا۔
آمنہ اور رباب بچپن کی سہیلیاں تھیں ۔ گھر بھی قریب تھے اور سکول بھی مشترک ۔ سکول قریب ہونے کی وجہ سے پیدل ہی آتی جاتی تھیں ۔ پچھلے سال ان کے رہائشی علاقے سے متصل ہی ایک معروف فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کی نئی شاخ کا افتتاح ہؤا ان کی تو گویا چاندی ہو گئی ۔ گھر سے اجازت مل جاتی تو وہاں جاتیں ورنہ ہوم ڈلیوری کی سہولت سے فائدہ اٹھایا جاتا ۔ رباب نے اپنا خواب پورا کیا ۔ اس کے پاس اتنی رقم جمع ہوئی کہ ہفتہ دس دن تو کیا پورے دو ہفتے پانی کی جگہ کوک ہی پیتی رہی ۔ اس نے ایک آدھ بارٹوکا بھی مگر ٹال گئی۔
کچھ دن سے وہ طبیعت میں سستی محسوس کر رہی تھی ۔ اس دن سکول سے لوٹی ، بستہ رکھا اوریونیفارم بدلے بغیر بستر میں گھس گئی ، امی فکر مند ہوئیں ۔رباب کیا بات ہے بیٹی؟
’’ کچھ نہیں امی بہت تھک گئی ہوں ‘‘۔
’’ بخار تو نہیں ہو رہا ‘‘ امی نے ماتھا چھوا۔
’’ کچھ نہیں ہے ‘‘ وہ چڑ گئی ، ’’ بس مجھے سونے دیں ‘‘۔
’’ اچھا چلو سو جائو ‘‘ امی نے بتی بجھائی اور دروازہ بند کر دیا۔
شام کو سو کر اٹھی تو طبیعت نسبتاً بہتر تھی ، بھوک بھی لگ رہی تھی باورچی خانے سے کھانا لیا اور لائونج میں چلی آئی ۔ سب اہلِ خانہ چائے پی رہے تھے۔

’’ اب طبیعت کیسی ہے ؟‘‘ ابا جان نے پوچھا تو وہ مسکرا دی ۔
’’ میں ٹھیک ہوں ابا جان ‘‘ اس نے نوالہ توڑتے ہوئے جواب دیا ۔ ماش کی دال اس کی پسندیدہ تھی اس لیے رغبت سے کھانا کھانے لگی۔اچانک اس کے منہ کے زاویے بگڑے۔’’ امی…..‘‘ امی اس کی طرف متوجہ ہوئیں تووہ خفگی سے منہ بسور کر بولی ۔
’’ دال میں کنکر ہے ‘‘ امی کے چہرے پر خفت کے آثار نمو دارہوئے ۔ اس نے اپنی انگلی کی پور امی کے سامنے کی جس پر ننھا سا ٹکڑا دھرا تھا ۔ امی نے اس ٹکڑے کو غور سے دیکھا پھر بے یقینی سے رباب کو مخاطب کیا ،’’ یہ کنکر نہیں ہے بیٹی‘‘۔
’’ تو پھر کیا …..‘‘ رباب کی بات ادھوری رہ گئی اس کو اپنے منہ میں کچھ عجیب محسوس ہؤا اب بے یقین ہونے کی باری رباب کی تھی۔’’ یہ …. یہ تو میرا دانت ٹوٹا ہے ‘‘۔
ابا جی ، باجی ، بھیا سب اس کے قریب آئے اور سب کے چہرے پر ایک ہی سوال تھا کہ یہ کیسے ہو گیا؟
’’ کیا دانت ہل رہا تھا ؟‘‘ امی کی طرف سے سوال آیا ۔ رباب نے نفی میں سر ہلایا۔
’’ اگر دانت ہلتا تو پورا ٹوٹتا ۔ یہ تو اس کا ٹکڑا ٹوٹاہے یعنی اس کے دانت اتنے کمزور ہیں کہ روٹی چبا نے سے ٹوٹ جانے کا خطرہ ہے ‘‘ابا جان نے تجزیہ کیا ۔
’’ رباب گڑیا ۔ دودھ نہیں پیتی تم ؟‘‘ بھیا نے پوچھا ۔
’’ روزانہ پیتی ہوں پورا گلاس‘‘ وہ جھٹ بولی۔
’’ اچھا اب پریشان نہ ہو ۔ ایک آدھ دن میں ڈینٹسٹ سے مشورہ کرتے ہیں ‘‘ ابا جان نے گویا بات ختم کی رباب نے بد دلی سے مزید کچھ نوالے لیے اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
آمنہ نے پوری الماری پلٹ کر رکھ دی تھی اور اب منہ بسورے کھڑی تھی ۔ امی کمرے میں آئیں تو ٹھٹک گئیں ’’ آمنہ یہ کیا کیا ہے ؟‘‘
’’ کل مریم کی بہن کی شادی ہے لیکن میرے پاس کوئی بھی ڈھنگ کا سوٹ نہیں ہے ‘‘۔
’’ ابھی چھ ماہ پہلے تو اپنے چاچو کی شادی پر دو سوٹ سلوائے تھے۔ وہی پہنونئے تو نہیں لے کر دوں گی ‘‘ امی نے صاف ہری جھنڈی دکھائی۔
اس نے کچھ دیر سوچا کہ منت سماجت کر کے مگر امی کے چہرے پر صاف انکار رقم تھا ۔
’’ اچھا ٹھیک ہے ‘‘ اس نے ہار مانی۔
’’ اب یہ سارے کپڑے تہہ کر کے الماری میں رکھو ‘‘ امی نے حکم صادر کیا۔
’’ اف ….ف ف‘‘ اس نے دانت کچکچائے جلدی جلدی کپڑے سمیٹے اور رباب کو فون ملایا۔ رباب ابھی اپنے دانت کے غم میں مبتلا تھی ۔ اس کے لہجے میں افسردگی محسوس کر کے آمنہ نے وجہ پوچھی تو رباب نے دانت والا قصہ سنایا۔
’’اوہو…. یہ تو بُرا ہؤا‘‘ آمنہ نے ہمدردی کی ،’’ تم دودھ زیادہ پیا کرو‘‘۔
’’ روزانہ پیتی ہوں آجکل تو دودھ کا مزا بھی زیادہ آتا ہے کوک ملا لیتی ہوں ۔ ٹھنڈا ٹھار دودھ سوڈا لطف دیتا ہے ‘‘۔
’’ دودھ کون سا خالص ملتا ہے ‘‘ آمنہ نے امی کا جملہ بولا۔
’’ اور کیا ؟کل تو اتوار ہے پرسوں امی کے ساتھ ڈینٹسٹ کے پاس جائوں گی ‘‘۔
’’ کل مریم کی آپی کی شادی بھی ہے میں ابھی اسی کے لیے لباس دیکھ رہی تھی ، تم کون سا سوٹ پہنو گی ؟‘‘
’ ’ عید پر غرارہ سلوایا تھا وہی پہن لوں گی ‘‘۔
’’ ٹھیک ہے تم میرے گھر آجانا یہاں سے اکٹھے ہی چلیں گے ‘‘۔
’’ ٹھیک ہے ۔پھر کل ملاقات ہو گی ‘‘۔
’’ امی یہ سوٹ شرنک ہو گیا ہے ۔ مجھے پورا ہی نہیں آ رہا ‘‘آمنہ نے سوٹ لا کر امی کے سامنے پھینکا اور منہ بسورتے ہوئے بیٹھ گئی ۔ امی نے اس کی بد تمیزی کو نظر انداز کرتے ہوئے قمیض اٹھائی اور الٹ پلٹ کر دیکھا ۔ پھر آمنہ کا، بغورجائزہ لیا اور جیسے نتیجے پر پہنچ گئیں۔
’’ یہ شرنک نہیں ہؤا۔ تم موٹی ہو گئی ہو ‘‘۔

’’ موٹی‘‘ وہ تڑپ کر اچھلی اور آئینے کے سامنے جا کر گھوم پھر کر اپنے آپ کو دیکھنے لگی ۔ تو اسے امی کا فرمان سچ ہی لگا ۔
’’ موٹی تو نہیں ہوں ، تھوڑا سا وزن زیادہ لگ رہا ہے ‘‘۔
’’ تھوڑا نہیں کافی وزن زیاد ہو گیا ہے ، سارا دن موبائل اور کمپیوٹر پر مصروف رہتی ہو، الم علم فاسٹ فوڈ کھاتی ہو ، روٹی سالن سے تمھیں الرجی ہوتی ہے ، پھل پسند نہیں ہے ۔ واک کا وقت نہیں ملتا تو پھر اور کیا ہوگا ‘‘ امی نے پوری تقریر کردی۔
’’ اچھا اچھا آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں مگر اب میں کیا کروں؟‘‘ وہ روہانسی ہو گئی ۔
’’ یہی تو سوچ رہی ہوں ‘‘
’’ جلدی سوچیں نا ، امی رباب آنے والی ہو گی‘‘
’’ تم رباب سے کہو اپنا کوئی سوٹ لے آئے وہ تمہیں پورا آجائے گا ‘‘ امی نے مشورہ دیا تو وہ بدک گئی۔
’’ اپنی بے عزتی کروائوں ؟‘‘
پھر خاموشی سے بیٹھ جائو میرے پاس تو کوئی حل نہیں ۔ امی اٹھ کھڑی ہوئیں وہ پریشانی میں گھری ممکنات پرغور کرتی رہی اور آخر کار امی کا مشورہ ہی قابل عمل لگا ۔
رباب کو فون کر کے بات کی تو وہ ہنسنا شروع ہو گئی ۔آمنہ کو اور غصہ آیا ’’ تم بھی اڑا لو مذاق خود تو جیسے بہت سمارٹ ہو ‘‘۔
’’ ارے یہ تو ہماری خاندانی جسامت ہے ‘‘ اس نے فخریہ کہا۔
’’اچھا اب بتائو میری مدد کرو گی یا نہیں ‘‘ آمنہ جل کر بولی۔
’’ کیوںنہیں ؟ دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے ‘‘۔
’’ جلدی آئو میں انتظار کر رہی ہو ں‘‘ آمنہ نے اس کی بات کاٹ کرتاکید کی اور فون بند کر دیا۔
رباب کا لایا ہوا سوٹ آمنہ کے ناپ کا ہی نکلا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا ۔’’لائو میںتمہارا ہلکا سا میک اپ کر دوں ‘‘ رباب نے آمنہ کو آئینے کے سامنے بٹھایا اور ہاتھ چلانے لگی ۔
’’ آمنہ تمہارے چہرے پر بال زیادہ نہیں ہو رہے ‘‘ وہ تشویش سے بولی تو آمنہ نے بھی غور سے دیکھا ۔ ٹھوڑی پر واقعی بال موجود تھے ۔ ’’میں نے پہلے غور ہی نہیں کیا ۔ پتہ نہیںیہ کیوں آ رہے ہیں ؟‘‘
’’ ابھی تم پریشان نہ ہو ہمیں پہلے ہی دیر ہو رہی ہے بعد میں آنٹی سے کہنا کہ ڈاکٹر کو چیک کروائیں ‘‘۔
’’ ہاں ٹھیک ہے ‘‘ آمنہ کسی مسئلے کو زیادہ سر پر سوار نہیں کرتی تھی اس لیے آرام سے تیار ہونے لگ گئی۔
رباب کی چیخ سے سب گھبرا کر اس کی طرف متوجہ ہوئے ۔ شادی ہال میںان کی بہت سی ہم جماعت لڑکیاںموجود تھیں ۔ چمکتے دمکتے۔ ملبوسا ت، بے فکری ہنسی، شوخیاں…..وہ سب ایک ہی جگہ بیٹھی مشروب سے لطف اندوز ہو رہی تھیں ۔ اچانک رباب کے ہاتھ سے گلاس گر گیا اور وہ اضطراری حالت میں چلاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ سب اس کی طرف بڑھے اس نے دونوںہاتھوں کی انگلیاں نیم بند مٹھی کی صورت مڑی ہوئی تھیں اور مارے تکلیف کے وہ چلائے جا رہی تھی ،’’ میرا ہاتھ ، ہائے میرا ہاتھ‘‘۔
آمنہ نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر انگلیاں سیدھی کرنے کی کوشش کی مگر وہ تو جیسے تحتہ ہو گئی تھیں۔ اسی اثنا میںمریم کے والد اور چند دیگر مرد بھی بھاگے آئے اور رباب کی حالت زار دیکھ کر فوراً ریسکیووالوں کو فون کیا ۔ چند ہی منٹ میں شور مچاتی ایمبولینس شادی ہال کے دروازے پر موجود تھی۔ مریم کا بھائی اور آمنہ رباب کے ساتھ سوار ہوئے ۔ راستے میں ہی آمنہ نے رباب کی امی کو فون کر کے صورتحال سے آگاہ کیا اور ہسپتال پہنچنے کی درخواست کی ۔ ان کاگھر ہسپتال سے قریب ہی تھا ۔ رباب کے والدین اور ایمبولینس آگے پیچھے ہی وہاں پہنچیں۔ رباب اب بھی روئے جا رہی تھی ۔ ہاتھوں کی حالت میں کوئی فرق نہیں تھا ۔ ایمرجنسی میں فوری طبی امداد دی گئی اورچند ہی لمحوں میں رباب پر سکون ہوگئی۔ نرس نے ڈاکٹر کی ہدایت پر خون کا نمونہ لیا اور لیبارٹری بھیج دیا ۔ اس کی رپورٹ آئی تو چہرے پر تشویش لیے ڈاکٹر رباب کے پاس آئے ۔ اس کے والدین نے سوالیہ نظروںسے انہیں دیکھا ۔
’’ آپ کی بیٹی کے جسم میں کیلشیم کی سطح انتہائی کم ہے یہ تشویشناک صورتحال ہے ‘‘۔

’’ کیا آج کی تکلیف اسی وجہ سے ہوئی ‘‘ ابو نے سوال کیا۔
’’ جی ۔ اس کو Tetanyکہتے ہیں ۔خون میں کیلشیم کی مقدار ایک خاص سطح سے کم ہو جائے تو انگلیوں کے پٹھے تشیخی کیفیت میں اکڑ جاتے ہیںجو بہت تکلیف دہ ہوتا ہے ہم نے فوری انجکشن لگایا تو پٹھے ڈھیلے پڑ گئے مگر یہ وقتی اور ہنگامی علاج تھا ۔ اصل علاج تب ہوگا جب ہمیں اس کی وجہ کا علم ہوگا‘‘ڈاکٹر نے تفصیلی جواب دیا۔
امی کے ذہن میںگزشتہ روز والا دانت کا ٹکڑا گھوم گیا ۔’’ رباب اسی لیے کل تمہارے دانت کا ٹکڑا ٹوٹا تھا کیونکہ کیلشیم کم تھا ‘‘رباب دم بخود ان کی باتیں سن رہی تھی۔
’’ آپ کو بھوک ٹھیک لگتی ہے ؟‘‘ ڈاکٹر رباب کی طرف متوجہ ہوئے ۔
’’ کم لگتی ہے ‘‘
’’ تھکاوٹ تو نہیںمحسوس ہوتی ؟‘‘
’’ کچھ دن سے بہت جلدی تھک جاتی ہوں حتیٰ کہ تھوڑا سا لکھنے سے ہاتھ درد کرتے ہیںبال بناتے ہوئے بازو دُکھنے لگتا ہے ‘‘۔
’’ دودھ پیتی ہیں ؟‘‘
’’ جی روزانہ ‘‘۔
’’ خاندان میں کسی کو ایسا مسئلہ تو نہیںہؤا؟‘‘
’’نہیں‘‘۔
کچھ دیر غور کرنے کے بعد انہوں نے نرس کو ہدایت دی کہ ان کا ہڈیوںکاٹیسٹ بھی کروائیںتاکہ اندازہ ہو سکے کہ کیلشیم کی کمی سے ہڈیوں میں بھر بھرا پن تو نہیںپیدا ہوگیا ۔
’’ نجانے کون سی بڑی بیماری کا انکشاف ہونے جا رہا ہے ‘‘ رباب کو اپنا حلق سوکھتا ہؤا محسوس ہؤا’’ مم مجھے پیاس لگی ہے ‘‘اس نے ملتجی نظروں سے ابو کو دیکھا۔
’’ میںابھی پانی کی بوتل لے کر آتا ہوں‘‘ ابو فوراً اٹھے۔
’’ انکل اس کے لیے تو کوک ہی لے آئیں ‘‘آمنہ نے شرارت سے کہا تو ابو بھی مسکرا دیے ۔ سب کو اس کے کوک کے نشے کا علم تھا ۔ اگلے مریض کی طرف بڑھتے ڈاکٹر چونک کر پلٹے ’’ کیا آپ کوک بہت پیتی ہیں؟‘‘
ان کے لہجے میں کچھ تھا کہ سب کی مسکراہٹ سمٹ گئی ۔’’ جی ڈاکٹر صاحب بہت زیادہ ‘‘ آمنہ نے جواب دیا ،’’ اور پچھلے دو ہفتوں سے تو یہ پانی کی جگہ بھی کوک ہی استعمال کر رہی ہے ‘‘ڈاکٹر جیسے کسی نتیجے پر پہنچ گئے انہوں نے گہرا سانس لیا ’’ یہی تووجہ بنی ہے جسم میں کیلشیم کی کمی کی ‘‘ ان کی بات سن کرسب ہی سُن رہ گئے ۔
واپسی کے سفر میںسب ہی خاموش تھے مگر ڈاکٹر کی باتوں کی بازگشت سب کے ذہنوں میں گونج رہی تھی۔
’’ کولڈ ڈرنکس کا نشہ ہمارے ہاںوبا کی صورت میں پھیل گیا ہے حالانکہ ان میں نہ کوئی غذائیت ہے اور نہ صحت کے لیے کوئی فائدہ ۔ کوک کو تو میں کالا زہر کہتا ہوں یہ آپ کے معدے ، جگر اور گردوں کے لیے نقصان دہ ہے اور کیلشیم کی کمی کس حد تک کر سکتا ہے اس کا مشاہدہ آپ لوگوںنے آج کر ہی لیا ہے ۔ بچی کی ہڈیوں میں بھربھرے پن کے آثار شروع ہیں یہی حال رہا تو جیسے دانت ٹوٹا تھا ویسے خود بخودہڈیوں کے فریکچر ہونا شروع ہوجائیں گے ۔ ان مشروبات میں کچھ کیفین بھی شامل ہے جس کی وجہ سے پینے کے بعد تازگی کا احساس ہوتا ہے دماغ تازہ دم لگتا ہے مگر یہ عارضی ہوتا ہے ۔ ان میں شوگر کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ مسلسل استعمال سے آپ ذیابیطس اورموٹاپے کا شکار ہو سکتے ہیں اور ایک موٹاپا مزید کئی بیماریوںکا باعث بنتا ہے ۔ اس لیے تہیہ کریں کہ اس سے جان چھڑائیں ۔ کچھ لوگ اس کو دودھ میں ملا کر پیتے ہیں اس طرح تو دودھ کی غذائیت بھی ضائع ہو جاتی ہے ۔ صحت اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اس کو یوں ضائع نہ کریںصرف دوائیوں سے فائدہ نہیں ہوگا جب تک آپ کولڈڈرنکس نہیں چھوڑیںگی‘‘۔
گھر پہنچ کر آمنہ نے تفصیل سے امی کو پورا واقعہ سنایا تو امی بھی فکرمند ہو گئیں۔
’’ آمنہ کولڈڈرنکس تو تم بھی کافی پیتی ہو، کہیںتم میں بھی کیلشیم کی کمی نہ ہو‘‘۔
’’ کل مجھے بھی ڈاکٹر کے پاس لے چلیں ‘‘ وہ فکر مند ہو گئی ۔

ڈاکٹر نے تسلی سے ان کی بات سنی اور پھر ان کو ماہر امراض نسواںکے پاس جانے کا مشورہ دیا ڈاکٹر صاحبہ نے تفصیل سے ان کی شکایات سنیں ۔رباب کے واقعہ کا بھی بتایا۔
’’ آپ کا وزن تو نہیں بڑھ رہا ؟‘‘ انہوں نے سوال کیا ۔ جواب اثبات میں تھا۔
’’ ٹھوڑی پربال تو نہیںاُگ رہے ؟‘‘
’’ ایام میںبے قاعدگی تو نہیںہے ؟‘‘ ہر سوال کا جواب ہاںمیں تھا۔
ڈاکٹر صاحبہ نے اس کا وزن کیا ، الٹرا سائونڈ کیا اور جیسے کسی نتیجے پر پہنچ گئیں۔
’’ ڈاکٹر صاحبہ زیادہ مسئلہ تو نہیں ہے ؟‘‘ امی نے تشویش سے پوچھا۔
ان کو جواب دینے کی بجائے وہ آمنہ کی طرف متوجہ ہوئیں، ’’آمنہ آپ جنک فوڈ تو زیادہ نہیں کھاتیں ؟ یعنی فاسٹ فوڈ ، کولڈڈرنکس Laysوغیرہ ‘‘۔
آمنہ نے خوفزدہ نظروں سے امی کو دیکھا اور وہ تو جیسے اسی بات کی منتظر تھیں ۔’’ ڈاکٹر صاحبہ یہ تو کھاتی ہی جنک فوڈ ہے ۔ جتنا مرضی سمجھا لو مگر گھر کا کھانا تو شان کے خلاف ہے ‘‘ آمنہ مجرم بنی سر جھکائے بیٹھی رہی۔
’’ آپ کی بیٹی کو جو بیماری ہے اسے Pdycystic ovarian syndromeیاPcosکہتے ہیں یہ آجکل بڑھتی ہوئی بچیوں میں بہت عام ہے کیونکہ ہمارا رہن سہن بدل گیا ہے موبائل ، کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ ان کی وجہ سے بھاگنے دوڑنے والی کھیل ختم ہوئے اور فاسٹ فوڈ نے صحت مند کھانوں کی جگہ لے لی نتیجتاً بچیوںمیں ہارمون کا تناسب بگڑ جاتاہے اور وزن بڑھنا ، چہرے پر بالوں کا نکلنا اور ایام میں بے قاعدگی اسی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ صرف یہی نہیں شادی کے بعد بھی اس کی وجہ سے مسائل قائم رہتے ہیں ‘‘۔
آمنہ دم بخود ان کی باتیں سن رہی تھی ۔
’’ ڈاکٹر صاحبہ آپ اچھی سی دوائی لکھ دیں کہ میری بیٹی ٹھیک ہو جائے ‘‘ امی نے درخواست کی۔
’’ اس کا علاج تو بیٹی آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے ‘‘ ڈاکٹرصاحبہ آمنہ سے مخاطب ہوئیں ۔
’ ’ وہ کیسے ؟‘‘
’’ آپ کو اپنا طرز زندگی بدلنا ہوگا ۔چار’’چ‘‘ اپنی زندگی سے نکال دیں ۔ چینی ، چاول ، چکنائی اور برائلر چکن۔ روزانہ آدھے سے ایک گھنٹہ واک کریں ۔ سبزیاں ، پھل زیادہ استعمال کریں ۔بیکری مصنوعات ، کولڈ ڈرنکس اور فاسٹ فوڈ کا مکمل بائیکاٹ ‘‘۔
’’ پھر میں بالکل ٹھیک ہو جائوں گی؟‘‘
’’ ان شاء اللہ مگر جب تک آپ ان ہدایات پر عمل کرتی رہیں گی تب تک صحت مند رہیں گی ۔ یہ کوئی دو چار روز کرنے کے کام نہیں ہیںبلکہ ان کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں ‘‘۔
’’ ڈاکٹر صاحبہ آپ کوئی دوائی بھی دے دیں ‘‘ امی نے کہا۔
’’ جی بالکل۔ دوائی میں لکھ دیتی ہوں مگر بیٹی یاد رکھو اگر تم وزن کم کر لو تو سمجھوآدھا علاج ہو گیا ‘‘۔
’’ جی میں آپ کی ہدایات پر پورا عمل کروں گی انشاء اللہ ‘‘ آمنہ کے لہجے میں مضبوطی تھی۔
اگلے دن سکول میں آمنہ نے رباب کو کل کی روداد سنائی اور اسی عزم کو دہرایا جو وہ ڈاکٹر کے کلینک میں کر کے آئی تھی۔
’’ تم ٹھیک کہہ رہی ہو ، آمنہ ‘‘ رباب نے سر ہلایا۔’’ اس دن کے واقعہ سے میںبہت ڈر گئی ہوں یقین مانومیں نے تین دن سے ایک گھونٹ کوک بھی نہیں پی‘‘۔
’’ ہم نے اپنی صحت کا خیال رکھنا ہے ‘‘ آمنہ نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔
تفریح کے وقفے میں ان دونوں نے اپنا اپنا توشہ دان کھولا اور ایک دوسرے کا ناشتہ دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس دیں ۔ آمنہ کی امی نے فروٹ چاٹ اور رباب کی امی نے سبزیوں کا سلاد بنا کر دیا تھا ۔ وہ صحت مند طرز زندگی کی طرف قدم بڑھا چکی تھیں۔٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here