ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اعتبارِ وفا – بتول جنوری ۲۰۲۲

ملگجے سے حلیے میں بکھرے بال اور ویران چہرہ لیے وہ کسی اجڑے ہوئے دیار کی باسی لگ رہی تھی ۔خالی خالی نظروں سے وہ سب کو یوں دیکھ رہی تھی جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہو حالانکہ وہ سب اس کے اپنے تھے اس کے گھر والے،لیکن کچھ تھا جو اس کےاندر اس شدت سے ٹوٹا کہ وہ سنبھل نہ پا رہی تھی۔جیسے جیسے وقت قریب آرہا تھا، جدائی کا غم اور مستقبل کے اندیشے ، اس خوشی سے جڑے سہانے تصورات پر حاوی ہورہے تھے۔ رتجگے کی چغلی کھاتی آنکھیں رو رو کر سوجی ہوئی تھیں۔مینا نے پیارسےاسے دیکھا تھا اور پانی کا گلاس لیے اس کے پاس چلی آئی تھی۔
’’کیا حال بنا رکھا ہے فاطمہ یہ لو پانی پیو‘‘اس نے پانی کا گلاس فاطمہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔’’خوشی کا موقع ہے اور تم سوگ منا رہی ہو‘‘۔
فاطمہ نے غائب دماغی سےاسے اجنبی نگاہوں سے یوں دیکھا کہ اس کا دل کٹ گیا۔وہ بے ساختہ اس کے گلے لگی تھی اور کب سے حلق میں پھنسے آنسو تیزیسے باہر آئے تھے۔اس کی عزیز بہن پرائے گھر کی ہورہی تھی۔
اور پھر وہ شام بھی آئی جب ڈھولک کی تھاپ پہ گیت گاتی لڑکیاں آتے جاتے فاطمہ کی طرف کوئی نا کوئی چٹکلہ اچھال دیتی تھیں جسے سن کر وہ شرما جاتی،یا موقع تاک کر جواب دیتی اور پھر خوب قہقہے لگتے۔آج فاطمہ کی مہندی تھی ۔سو گھر بھر کی رونقیں عروج پہ تھیں ۔ کزنز، سہیلیا ں سب جمع تھے۔
فون کی گھنٹی بج بج کر چپ ہو چکی تھی لیکن اس شوروغل میں کان پڑی آواز نہ سنائی دیتی تھی سو وہ گھنٹی بھی کوئی نا سن پایا۔کہ اچانک ابا کا موبائل بج اٹھا۔
’’ہیلو ہیلو ……‘‘وہ کال ریسیو کرتے ہی باہر کی جانب بڑھ گئے۔کچھ ہی دیر میں مینا بھاگتی ہوئی آئی اور بولی۔
’’ ارے ارے ہوشیار باش فاطمہ کے سسرال والے مہندی لے کر آ رہے ہیں ابھی ابا کے فون پہ ان کا فون آیا ہے وہ بس نکل رہے ہیں‘‘۔پھولے سانسوں سے اعلان کرتی وہ باہر لپکی کہ اماں وغیرہ کو اطلاع دینا باقی تھا۔
مہندی،بارات،ولیمہ سب بخیر و عافیت انجام پا گیا اور فاطمہ یکدم سے معتبر ہو گئی کہ وہ گھر کی بڑی بہو تھی اور بہت دوستانہ ماحول کا حصہ بنی تھی،اس کے سسرال والے سلجھے ہوئے،پڑھے لکھے افراد تھے۔
زندگی سکون سے گزرنے لگی اور چند سالوں میں وہ پیارے پیارے دو بچوں کی اماں بن گئی،مینا کی بھی شادی ہو گئی،دو بھائی تھےسو وہ بھی وقت پہ بیاہے گئے،سب اپنے اپنے گھروں میں شاد تھے۔اماں،ابا تو جیسے انتظار میں تھے کہ اِدھر ان کی ذمہ داریاں پوریہوں اور اُدھر وہ ابدی سفر پہ روانہ ہوں۔سو وہ عرصہ ہؤا رب کے مہمان ہو چکے تھے۔اور وقت کی رفتار اب ان چاروں بہن بھائیوں کواماں،ابا کے مقام پر لے آئی تھی۔
تلاشِ روزگار میں ایسا موڑ آیا کہ فاطمہ کے شوہر کوبیرونِ ملک مقیم ہونا پڑا۔کونٹریکٹ اگرچہ محدود مدت کا تھا مگر فاطمہ اور بچے ساتھ نہیں جاسکتے تھے۔بیٹی میڈیکل کی طالبہ تھی،اور بیٹا دسویں جماعت کے اہم مرحلے پر۔ پھرفاطمہ کے سسر بزرگ تھے، انہیں اکیلےچھوڑ کر جانا ممکن نہ تھا۔ فاطمہ نے صبر سے وقت گزارا مگر پھر کچھ ایسا ہؤا جس نے اس کی پر سکون زندگی میں ہلچل مچا دی۔

اس کی نند اپنے شوہر سمیت اسکے گھر آن بسی کہ اس کے میاں ریٹائر ہوئے تھے اور کیونکہ وہ سرکاری ملازم تھے اور سرکار کی طرف سے ملے فلیٹ میں رہتے تھے سو انہوں نے فلیٹ خالی کیا تو دونوں میاں،بیوی فاطمہ کے گھر پہنچے ۔گھر فاطمہ کے سسر کاتھا سو وہ ٹہکے سے ابا کے گھررہنے آئے۔ان کے دونوں بچے بیرون ملک مقیم تھے سو دونوں میاں بیوی نے سوچا کہ جب تک اپنے ذاتی گھر کا بندوبست ہوتا ہے ہم ادھر رہ لیتے ہیں۔طاہرہ باجی (نند)کے میاں سگے پھوپھی زاد تھے سو ان سےایسی اجنبیت بھی نہ تھی ۔فاطمہ البتہ تھوڑا سا پریشان تھی کہ طاہرہ باجی کی فطرت سے خوب آگاہ تھی۔وہ زبان کی تیز اور جھگڑالو طبیعت کی تھیں، ساری عمر خاوند اور سسرال سے نہ بنی تھی ۔میکے آتی تھیں تو مانو فاطمہ ہر وقت ذہنی طور پہ کسی نہ کسی ہنگامے کے لیے تیار رہتی تھی کہ کچھ پتہ نہ چلتا تھا کب کس بات پہ بگڑ جائیں۔
اب جو کچھ عرصہ مستقل ان کے آنے کی خبر ملی تو اس کا دل یکدم بیٹھ سا گیا۔اس نے بلال صاحب سے ذکر کیا اپنی کیفیت کا توانہوں نے بیگم کو تسلی دی اور بولے۔
’’ارے وہ کونسا مستقل رہیں گے،چند ماہ کی بات ہے انکا گھر مکمل ہو جائے تو وہ شفٹ ہو جائیں گے بلکہ اس سے پہلے میں واپس آجاؤں گا،تم مت گھبراؤ…..مجھے اپنی زوجہ کی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد ہے بھئی،کچھ غلط نہ ہو گا ان شاء اللہ‘‘۔
آخری جملہ متبسم لہجے میں کہتے وہ فاطمہ کے اندرتوانائی بھر گئے تھے۔فون بند ہو چکا تھا لیکن اب فاطمہ پر سکون تھی کہ بلال صاحب کی ذرا سی توجہ،کوئی میٹھا جملہ،اسے نئےسرے سے جوان کر دیتا تھا۔
بالآخر وہ گھڑی آئی کہ وہ میاں بیوی اپنے سامان سمیت پہنچے۔فاطمہ سلیقہ مند اور کام کاج میں تیز تھی سو جھٹ پٹ سب کام نمٹا لیتی۔طاہرہ باجی ابا کے سرہانے جانے کون سے قصے لے کر بیٹھی رہتی تھیں۔ان کے میاں آفاق ،فاطمہ کے سگھڑاپےاور سلیقے کے روزِ اوّل سے قائل تھے معاملہ فہم اور خوش اخلاق ہونا اس کی اضافی خوبیاں تھیں جو اسے ہر محفل میں نمایاںرکھتیں۔
چند دن ہی گزرے تھے کہ طاہرہ باجی اپنی اصلیت پہ آ گئیں،شوہر سے روز ہی جھگڑ پڑتیں،بچے باہر سے فون کرتے تو ان کو الگ سناتیں کہ تمہارے ابا کے ساتھ رہنا عذاب ہے،آفاق صاحب بھی ہر وقت ضبط کے مراحل سے گزرتے کہ وہ واقعی ایک نفیس طبع انسان تھے اور قسمت کی ستم ظریفی کے سبب وہ طاہرہ باجی کے میاں بن بیٹھے تھے،سو دامے،درمے،سخنے اس بے جوڑ تعلق کونبھا رہے تھے۔
وہ ایسی ہی ایک خزاں کی اداس شام تھی،طاہرہ باجی اور آفاق بھائی میں زوردار جھڑپ ہوئی تھی اور اب طاہرہ باجی دروازہ بندکیے کمرے میں بیٹھی تھیں اور اب انہوں نے تب تک باہر نہ آنا تھا جب تک سب ان کی خوب منت نہ کر لیتے۔آفاق بھائی بیزار سےباغیچے میں بیٹھے تھے،تیز ہوا چل رہی تھی،لان کی سبز گھاس،خزاں کے پیلے،چُر مُر کرتے پتوں تلے چھپی ہوئی تھی،ٹنڈ منڈ درختوںپہ گلہری کی آمدورفت جاری تھی،پرندوں کا شور اس سارے منظر میں رنگ بھرتا معلوم ہو رہا تھا۔کہ فاطمہ شام کی چائے کی ٹرے لےکر آئی اور خیالوں میں کھوئے آفاق بھائی سے مخاطب ہوتے ہوئے ان کو چائے کی طرف متوجہ کیا۔وہ یکدم جیسے کسی خیال سےچونکے اور ٹرے رکھ کر پلٹتی فاطمہ کو بے ساختہ مخاطب کر بیٹھے
’’بھابھی ذرا بات سنیے گا پلیز‘‘۔
جانے کیا تھا ان کے لہجے میں کہ فاطمہ نے حیرت سے پلٹ کر ان کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’برائے مہربانی آپ کچھ دیر یہاں بیٹھ سکتی ہیں؟اگر آپ کے پاس وقت ہو “۔
کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سب کام فاطمہ کے ذمے ہی ہے اور اس چیز کا ان کو بے حد قلق تھا،کہ وہ خود کو اضافی بوجھ محسوس کرتے ہوئے کوشش کرتے کہ کچھ مدد کروا دیں،فاطمہ نے ان کی ابتدائی مدد کی پیشکش کو ہی رسان سے رد کر کے ان کی مزید پیش قدمی پہ بند باندھ دیے تھے۔
’’جی آفاق بھائی کچھ چاہیے آپ کو؟‘‘فاطمہ نے جواب دیا ۔
وہ گویا ہوئے ’’نہیں دل بہت بوجھل ہے طاہرہ کے رویے پہ،

سوچا آپسے کچھ دیر بات کر لوں…… آپ پلیز بیٹھ جائیے‘‘۔
فاطمہ خاموشی سے دوسری کرسی پہ ٹک گئی اور سوالیہ نگاہوں سے ان کو دیکھنے لگی۔
’’دراصل میں بہت پریشان ہوں،اب عمر کے اس حصے میں اعصاب پہلے جیسے مضبوط نہیں رہے،بی پی کے مرض نے رہی سہی برداشت بھی ختم کر دی ہے،بھابھی آپ ہی کچھ سمجھایے طاہرہ کو کہ خدارا اب تو وہ کچھ سمجھداری کا مظاہرہ کر لے،آپ سےہی کچھ سیکھ لے‘‘۔
جلے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے فاطمہ کو وہ بہت عاجز لگے۔
اس نے بے بسی سے ان کو دیکھا اور بولی
’’بھائی آپ جانتے ہی ہیں ان کو بھلا کون سمجھا سکا ہے آج تک،وہ خود کو کبھی غلط تسلیم کریں تو اصلاح کی جانب قدم بڑھائیںناں ‘‘
فاطمہ کی بات میں بہرحال وزن تھا کہ وہ جو کہہ رہی تھی درست کہہ رہی تھی طاہرہ باجی نے کبھی بھی خود کو غلط نا سمجھاتھا۔
’’آپ صبر کیجیے اور دعا کیجیے کہ جب ہم بے بس ہونے لگیں تو سب سے طاقتور ہتھیار دعا ہی ہے‘‘۔
اپنی بات کے اختتام پہ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
آفاق بھائی نے خاموشی سے اس کی بات سنی اور بولے:
’’بلال واقعی خوش نصیب ہے بھابھی،آپ نے دو جملوں میں معاملہ سمیٹ دیا یوں جیسے ریشم کو سلجھایا جائے‘‘۔
فاطمہ دھیمی سی مسکراہٹ لبوں پہ سجائے اندر بڑھ گئی اُس طوفان سے یکسر بے نیاز جو اس کے سر پہ آنے والا تھا۔
اگلے چند دن بعد جو ہوا وہ کسی قیامت سے کم نا تھا۔فاطمہ کو اچانک بخار نے جکڑ لیا تھا،گھر کی ذمہ داری طاہرہ باجی بسورتے، ناک بھوں چڑھاتے سنبھالے ہوئے تھیں ۔انہیں تو بھاوج کے سر پہ خوب آرام کی عادت ہو گئی تھی۔آفاق بھائی اخلاقاً فاطمہ کےکمرے کے دروازے تک اس کا حال پوچھنے چلے گئےاورجب مڑے تو طاہرہ باجی نے ان کو آتے ہوئےدیکھ لیا۔انہوں نے فوراً انتہائی غلط رنگ دے کر اس بات کو ابا کے کانوں تک پہنچایا بلکہ یہ بھی اضافہ کیا کہ انہوں نے پہلے بھی کئی دفعہ آفاق کو فاطمہ کے گرد دیکھا ہے۔ابا کے سامنے فاطمہ کی ساری زندگی تھی لیکن بیٹی کی باتوں نے ان کی بوڑھی آنکھوں پہ پٹی باندھ دی اور انہوں نے ہر اس یاوہ گوئی کو سچ مانا جو فاطمہ اورآفاق کے خلاف طاہرہ نے کی۔
بات یہاں تک رہتی تو الگ بات تھی لیکن بلال کو فون پہ جانے ابا نے کس انداز میں اور کیا کہہ کر بات کی کہ ان کا فون فاطمہ کو ہلاگیا۔وہ اس پہ اس عمر میں شک کر رہے تھے جب ایسی بات سوچتے بھی شرم آتی ہے،فاطمہ کو لگا اس کے سر سے چادر نوچ لی گئی ہے،وہ ایک لفظ بولے بنا بھائی کے گھر آ گئی۔وہ بہت کم میکے جاتی تھی سو اس کی آمد کی خبر سن کر مینا اسے ملنے بھاگی چلی آئی،لیکن وہ ایسی وحشت زدہ ہو رہی تھی کہ مینا اسے دیکھ کر گھبرا گئی،اور جب اسے سارے معاملے کا علم ہوا تو وہ کتنی ہی دیر مارے دکھ کے کچھ بول نا پائی کہ اس کی اتنی اچھی بہن کی عمر بھر کی ریا ضتوں کا یہ صلہ دیا گیا تھا۔سب سے زیادہدکھ اسے بلال پہ ہو رہا تھا کہ وہ کیسے ایسی بے پر کی بات پہ یقین کر سکتے ہیں جبکہ وہ فاطمہ کے ساتھ ساتھ اپنی بہن کی فطرت سے بھی خوب آگاہ تھے پھر بھی۔
ایسے میں عمر اور خولہ نے ماں کا بھرپور ساتھ دیا اور باپ کے سامنے ڈٹ گئے۔پردیس میں بیٹھے بلال کو عمر کی باتوں نے جیسےباور کروا دیا کہ فاطمہ پہ تہمت لگائی گئی ہے اور اب اس کے بچے،بچے نہیں رہے کہ کچھ محسوس نا کریں ۔عمر نے من و عن ساری تفصیل بلال کو بتائی کہ پہلے دن سے اب تک کیسے حالات جا رہے تھے۔
بلال کی مدت ملازمت ویسے ہی ختم ہونے کے قریب تھی۔ انہوں نے ہفتے کاکام دنوں میں سمیٹا اور وطن واپسی کی راہ لی۔ آفاق بھائی اتنے بدترین الزام کے بعد گھر چھوڑ کر جا چکے تھے اور اب وہ بضد تھے کہ طاہرہ کو طلاق دیں گے۔سو اب سب ان کو ٹھنڈاکرنے کی کوشش کر رہے تھے۔عمر نے پھوپھی کو بھی آئینہ دکھایا تھا اور اب وہ شرمندہ شرمندہ سی تھیں کہ ان کی لگائی آگ ان کے گھر کو ہی جلانے لگی تھی۔آفاق بھائی سے لاکھ جھگڑا سہی ، ان کے بغیر رہنے کا تو وہ تصور بھی نہ کر سکتی تھیں۔ابا بیماریوں

میں گھرے دواؤں کے سہارے زندگی کے دن پورے کر رہے تھے سو ان کی ذہنی حالت بہت قوی نہ رہی تھی اور یہ بلال کو گھر پہنچ کر کچھ ہی دن میں اندازہ ہو گیا تھا۔
آج موسم نے بہت دن بعد انگڑائی لی تھی،بارش کُھل کر برسی تھی۔اب بارش کے بعد والی حبس تھی جس نے فضا کو بوجھل کر رکھاتھا۔کچے صحن میں چھاجوں مینہ نے برس کر پانی کھڑا کر دیا تھا۔فاطمہ کو آج مہینہ ہو چلا تھا ابا کے بنائے گھر میں جہاں زندگی کا ایک حصہ گزرا تھا،بچے روز ملنے آتے اور واپسی پہ اصرار کرتے لیکن ایک چپ تھی جو اس کو لگ گئی تھی اور انکار جو کسی طور اقرار میں نہ بدل رہا تھا۔
دروازے پہ بجتی گھنٹی نے اس کی توجہ اُدھر مبذول کروائی تو بلال کو زبیر بھائی سے ملتے دیکھا وہ فوراً کمرے میں چلی گئی۔آنکھیںبے ساختہ ہی شفاف پانیوں سے بھر گئی تھیں۔
’’معاف کر دو فاطمہ پلیزززز،میں مجرم ہوں تمہارا،مجھے ابا اور طاہرہ باجی نے اس طرح سے سب بتایا کہ نا چاہتے ہوئے بھی مجھےسب سچ لگنے لگا،تمہاری وفا پہ اعتبار ہے مجھے بس وقتی گرد تھی جو اب چھٹ گئی ہے پلیز معاف کر دو اور گھر چلو سارا گھرکاٹنے کو دوڑتا ہے تمہارے بن،بچے الگ مجھ سے کھنچے کھنچے رہنے لگے ہیں‘‘۔
وہ ایک ہی سانس میں بولتے چلے گئے،فاطمہ نے بھیگا چہرہ ان کی طرف موڑا اور بولی ۔
’’شادی کے ایک طویل عرصے کے بعد بھی اگر میری وفا کا اعتبار اتنا کچا ہے تو کیوں جاؤں میں آپکے ساتھ؟‘‘
’’یار غلط فہمی ہو گئی تھی ‘‘۔
فاطمہ نے تڑپ کر دیکھا اور ’’بولی غلط فہمی؟‘‘
جوابًا بلال نے شرمندہ ہو کر نظر چرائی تھی۔
’’بچے انتظار کر رہے ہیں فاطمہ،ابا بھی معافی مانگنا چاہتے ہیں تم سے،لو میں بھی ہاتھ جوڑے کھڑا ہوں جو چاہے سزا دے لو یا پھرمعاف کر دو،لیکن خدارا گھر چلو‘‘۔
بات کے اختتام پہ ان کی آواز میں گھلی نمی بے ساختہ فاطمہ کو تڑپا گئی کہ جو بھی تھا وہ اس کےشوہر تھے اور اب غلطی تسلیم کر کے اسے منانے آئے تھے،اور اس کی عزت اور وقار بھی اسی گھر سے جُڑا تھا جہاں سب اس کےمنتظر تھے۔
فیصلے کے اس مشکل ترین لمحے نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس نے بلال کے بڑھے ہوئے ہاتھ میں ہاتھ دے کر سر جھکا لیا۔ اپنے فیصلے نے اسے ہلکا کردیا تھا۔باہر بادل زور سے گرجا اور ایک بار پھربارش شروع ہو گئی ،لیکن اب حبس کا زور ٹوٹ چکا تھا۔مٹی کی بھینی بھینی خوشبو من مہکا رہی تھی،ڈوبتے سورج کی کرنیں بھی مسکراتی معلوم ہو رہی تھیں۔ فاطمہ بیگ پیک کر چکی تھی،ایک نئی صبح ان کی منتظر تھی۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x