ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

لیس الذکر کالانثیٰ – بتول نومبر ۲۰۲۲

صنفی شناخت نمبر کو کراچی میں بیٹھ کرترتیب دے رہی ہوں جہاں اردگرد پونے تین سالہ ڈارلنگ پوتاطواف کرتا ہے ،اورجو دوبڑی بہنوں کے ساتھ رہتے رہتے خود کو مونث بلانا سیکھ گیا ہے۔ اس کے ماں باپ بے فکر ہیں کہ کوئی بات نہیں خود ہی درست کرلے گا وقت آنے پر،اور ہم سر ہلا کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ ٹھیک ہے بھئی آپ کا بچہ ہے جو مرضی تجربہ کریں!مگر اندر اندر دل دہلا جاتا ہے۔
جیسے ہی باپ دفتر کو سدھارا اور ماں کاموں میں مصروف ہوئی، ہم نے اسے قابو کرنے کی ٹھانی۔ آواز دی۔
’’ جبریل!ادھر آئیں میرے پاس‘‘ اور جواب ملا، ’’ابھی آتی ہوں اماں!‘‘
لا حول ولا قوۃ!
اور جب صاحبزادے تشریف لائے تو جلو میں بہن بھی تھیں ہاتھ میں نیل پالش تھامے۔
’’اماں مجھے لگا دیں‘‘۔
’’مجھے بھی!‘‘
باریک سی آواز آئی اورانابیہ کے ہاتھ کے ساتھ ایک اور چھوٹا سا ہاتھ میرے سامنے پھیل گیا۔
’’ہائیں یہ کیا؟ لڑکے نہیں لگاتے!‘‘ہم نے خفگی سے کہتے اس حبیبِ عنبر دست کوپیچھے کیا۔
’’لگاتے ہیں‘‘ویسا ہی خفگی بھرا جواب آیا۔گنبد کی صدا…. سکواش گیند کی ہِٹ۔ہم نے سوچا لہجہ بدلنا پڑے گا۔
’’دیکھو نا بہن تو لڑکی ہے مگر آپ لڑکے ہیں نا….لڑکے تو نیل پالش نہیں لگاتے،لڑکیاں لگاتی ہیں‘‘۔
صاحبزادے نے ایک پل کی خاموشی اختیار کی مگراس سے پہلے کہ ہمیں اپنی کامیابی کا وہم ہوتا،فٹ سے بولے۔
’’میں لڑکی ہوں….لڑکا نہیں ہوں‘‘نہیں پر زوراور ساتھ سر کی نفی میں جنبش صرف ناراضگی نہیں،اپنے بیان کی درستی پریقین بھی ظاہر کررہی تھی۔
اوہ….اب ہمیں صورتحال کی سنگینی کا پورااحساس ہؤا۔لہجہ ہی نہیں،اپروچ، رویہ، اور حکمت عملی، سب کچھ بدلنا پڑے گا!
اب میں اس کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات میں جانے کے لیے خود کو تیارکررہی تھی۔اسے بتانا ہے کہ لڑکا اور لڑکی فرق ہوتے ہیں، مگر کیسے؟
’’اچھا دیکھو!‘‘ میں نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑے اور اسے اپنے قریب کیا۔
تم لڑکی نہیں ہو، لڑکا ہو، جیسے بابا….وہ….وہ….‘‘یہ کہتے کہتےمیں رک گئی کہ آفس جاتے ہیں۔ کل کو اس کی ماں کسی آفس جانے لگے، یا بہن بڑی ہوکر جوب کرنا چاہے تو یہ تو قبول ہی نہیں کرے گا۔لڑکوں کے یہ رویے ہم خود ہی تو بناتے ہیں، پھر لڑکیاں بھگتتی رہتی ہیں۔
نہیں یہ ٹھیک نہیں۔اگلا جملہ سوچا، لڑکے گاڑی چلاتے ہیں۔ مگر خود ہی ہنسی آگئی۔ بچوں کو سکول سے لانے کی سالہا سال ڈیوٹی خود نبھائی،لڑکوں کا گاڑی چلانا کس کام کا؟
مگر گھر میں رہنا لڑکیوں کا حق ہے، لڑکوں کو باہر کی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں۔ یہ کہنے میں کوئی ہرج نہیں کہ لڑکیاں گھر کاکام کرتی ہیں اور لڑکے باہر کا۔

’’اچھا دیکھو، لڑکیاں توکھانا پکاتی ہیں اور….‘‘ابھی الفاظ منہ میں تھے کہ اس کا چھوٹا چاچا ہاتھ میں فرائی پین اور چمچ پکڑے سامنے سے گزرا ’’مشروم کہاں رکھے ہیں؟جلدی بتائیں میں آملیٹ بنا رہا ہوں‘‘۔
جملہ کینسل!یہ بھی یاد آیا کہیں پڑھا تھا،سراپا مردانگی، ایک وقت کے اکھڑ،پُرغرورمردِ صحرائی عمر ؓبن خطاب کہتے تھے، خلافت کے کاموں نے مہلت ہی نہ دی ورنہ میں دکھاتا کیسا زبردست پکوان بنانے اور کھلانے کا شوقین ہوں!
اور وہ بھی تو تھے….محبوبِ خلائق جن پہ لاکھوں درودوسلام! اپنا ہر کام اپنے ہاتھ سے کرتے۔جوتے گانٹھ لیتے، جھاڑو دے لیتے، کپڑے کو پیوند لگا لیتے۔میں کیا سکھانے جا رہی ہوں ان کی امت کے ایک فرد کو!کل کو جو اس نے ’’لڑکیوں کے کام‘‘ سمجھ کر ان کاموں کواپنی توہین جاناتو ذمہ کس کا؟جسمانی طور پہ مضبوط صنف قوت کے نشے میں تو آہی جاتی ہے۔خاص کر جب مال بھی اس کے ہاتھ میں ہو! میشل فوکوطاقت کے مراکز کی یہی بات تو کرتا ہے، یہ اور بات کہ اس کی حد سے زیادہ عقل بھی اسے اپنی درست صنفی پہچان نہ دے سکی۔
’’لڑکے بہادر ہوتے ہیں….‘‘تو کیا لڑکیاں ڈرپوک ہوتی ہیں؟حد ہوگئی۔
’’لڑکے مشکل کام کرتے ہیں جیسے….جیسے گن چلانا‘‘۔ اور ساتھ ہی یاد آیا کہ بچوں کے لیے تحفے لاتے ہوئے میں نے انابیہ کے لیے گن خود ہی منتخب کی تھی،یہ سوچ کر کہ ہروقت گڑیاں کھیل کھیل کرگڑیا ہی بن جائے گی، اسے بندوق سے متعارف ہونا بھی ضروری ہے۔ ہمارے نبیؐ نے کہا ہے اپنی خواتین کو تیر اندازی اور گھڑ سواری سکھاؤ۔
’’لڑکے چوڑیاں نہیں پہنتے گھڑی پہنتے ہیں‘‘مگر گھڑی تو ایوا کے پاس بھی ہے۔
’’لڑکے سٹرونگ ہوتے ہیں‘‘ یعنی لڑکیاں کمزور ہوتی ہیں! یہ سکھاؤں تاکہ وہ ابھی سے کمزور کو دبانا سیکھ جائے، چہ خوب!اور ایوا تو کراٹے کلاس میں سب سے اچھا پرفارم کرتی ہے، لڑکے لڑکیوں دونوں میں۔
گویم مشکل و گَر نہ گویم مشکل!ایک طرف معاشرے کے غلط رویوّں کوتربیت سے منہا کریں تو دوسری طرف دوسری انتہا اہل مغرب کے افکار بانہیں پھیلائے کھڑے ہیں، جن کی تہی دامنی کا حال یہ کہ انسانی حقوق نام کی گمراہی میں مردوں کو نامرد اور عورتوں کو نازن بنانے لگے، خالق کی بنائی ہوئی جنس میں سے صنف کاالگ ٹنٹا نکال کھڑا کیا اورایک لکیر جیسی ٹھوس صنفی شناخت کو قوسِ قزح کےرنگوں کی طرح منتشر کردیا، غیر مستقل اور وقتی….ابھی ہے اور ابھی نہیں….ہر چند کہیں کہ ہے،نہیں ہے! اس منتشر شناخت کے ساتھ جو معاشرے تشکیل پائیں گے ان میں نسلِ انسانی کی بھلائی ہوگی یا بربادی!
مذاکرات تو شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوچکے تھے۔ پوتا ہاتھ چھڑا کر ڈنکیوں سے کھیل رہا تھا کہ اس کی ماں اندر داخل ہوئی۔
’’نیل پالش لگانے کی ضد کررہا ہے‘‘۔ میں نے مسکراہٹ اور پریشانی دونوں دباتے ہوئے جملہ مکمل کیا۔ جواباً اس کی ہنسی میں گندھی آواز آئی۔
’’جی! عید پہ مہندی اور چوڑیوں کے لیے بھی اتنی ضد کی کہ میں عاجز آگئی‘‘۔
توتاحال صاحبزادےموّنث کا صیغہ اور نیل پالش کی فرمائش پہ جمے ہوئے ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہؤا کہ میں نے ہر روز ان کی چھوٹی گاڑی پر انہیں بازار بھیجنے کا کھیل کھیلا۔ کاغذ کے پیسے پکڑائے، کبھی نقلی دوائی کبھی نقلی چپس منگوائے۔ یہ کھیل پوتیوں نے اس شوق سے نہ کھیلا تھا جس دلچسپی سے پوتے نے کھیلا۔ گیند کی تھرو کی پریکٹس بہنوں کی نسبت بہت بہتر کی، گڑیا کی بجائے کھلونا روبوٹ پکڑکر لائے کہ اسے سردی لگ رہی ہے کمبل دیں۔یہ بھی نوٹ کیا کہ گھر میں ہر طرف بکھری ہوئی گڑیوں کی ورائٹی میں دبی ہوئی گاڑیاں نکالنے پر صاحبزادے کی توجہ رہی۔ بہن کے بال کھینچنے پر کھچائی ہوئی کہ بھائی بہن کا خیال رکھتے ہیں تو اب گتھم گتھا ہوتے ہوئے صاحبزادے دزدیدہ نظروں سے میری طرف دیکھ لیتے ہیں۔ کچھ تسلی ہوئی کہ فطرت ابھر آئے گی یقیناً ، بے صبری دکھانے کی ضرورت نہیں، نہ ہی معاشرے کے سکھائے ہوئے غلط تصورات اس کے دماغ میں ابھی سے

منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔بچے رول ماڈل دیکھتے ہیں اور سب سے زیادہ ان سے سیکھتے ہیں۔ گھر میں دونوں صنفوں کو اپنی ذمہ داریاں نبھاتے دیکھیں گے تو ویسے ہی بنیں گے۔ جدید ماحول سے منسلک مسائل بھی ہیں جن میں کاموں کی واضح تقسیم کا خط دھندلا سا گیا ہے،تو نئے حالات میں ایڈجسٹ کرلینا گناہ نہیں ہے۔ تعلق کو،تعلق کی کوالٹی کو فوقیت حاصل ہے۔عورت ہو یا مرد،انسان بننا اصل اہمیت رکھتا ہے، ہم عورت کو عورت اور مرد کو مرد بنانے کے جنون میں کہیں ان کا انسان ہونا بھلا ہی نہ دیں!
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x