ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

فاصلے اور فیصلے – بتول جون ۲۰۲۲

سوتے سوتے اچانک ہی ان کی آنکھ کھلی تھی ۔کمرے میں اندھیرا تھا ۔ گھڑی کی سوئی کے ساتھ ان کے ذہن میں بھی خیالات کی یلغار آنی شروع ہوئی تھی ۔ وہ اُٹھ کر بیٹھ گئیں تھیں ۔ جاتی سردیوں کے دن تھے ۔ موسم میں تبدیلی آ رہی تھی ۔ کسی وقت ہلکی سی خنکی محسوس ہوتی ۔ انہوں نے لیٹے ہوئے چھوٹی زینیہ سے چادر ڈلوائی تھی ۔ انہوں نے آہستہ سے چادر اپنے اوپر سے سرکائی ۔ باہر کمرے سے اب بھی باتوں کی دھیرے دھیرے آوازیں آ رہی تھیں ۔ کھلے دروازے سے روشنی ایک لکیر کی صورت میں کمرے کے اندر تک آ رہی تھی۔ انہوں نے چند لمحے اس پیلی لکیر کو دیکھا ۔ زندگی بھی اسی طرح گھپ اندھیرے کی مانند ہو چکی تھی ۔ ارشد صاحب کے دنیا سے جانے کے بعد زندگی بھی محدود ہو گئی تھی۔ بس یہ اولاد ہی تھی تاریکی میں روشنی کی لکیر کی مانند لیکن اب یہی روشنی نا امیدی کی علامت بن رہی تھی ۔ انہوں نے گہرا سانس لیا۔
’’ تم دونوں رہو خاموش‘‘ لیکن میں نہیں رہوں گی ، امی کو تو دبا لیا ، وہ کہیں بھی تو کیا لیکن مجھے …‘‘دھیرے دھیرے آتی آوازوں میں نیلما کی آواز یکدم ابھری تھی ۔ ویسے بھی وہ بچپن سے غصہ کی تیز تھی ۔اپنی دونوں بہنوں کے مقابلے میں وہ ہمیشہ آگے ہو کر ڈٹ کر بات کرتی ۔ نہ گھبراتی نہ ہکلاتی جبکہ زینیہ اور رخشی منہ ہی منہ میں بڑ بڑا کر اور منمنا کر چپ کر جاتیں۔
انہوں نے اندھیرے میں پیر دائیں بائیں گھما کر چپل تلاش کی اوراٹھ کھڑی ہوئیں ۔ دل ایک دم پھر گھبرانا شروع ہو گیا تھا ۔ انہوں نے اپنا دوپٹہ سر پر برابر کیا اور دروازہ کھول کر باہر آگئیں ۔
’’ اب لڑائی جھگڑا تو ہم نے کرنا نہیں ، آصف بھی یہی کہہ رہے تھے ، دنیا میں حق مارنے والا ، آخرت میں …‘‘
’’ ارے باجی تم تو سارے دنیا کے معاملات آخرت پر ہی اٹھا رکھو ، تم دونوں میاں بیوی بھی بس نیک ، متقی ہی رہنا ‘‘۔ نیلما نے رخشی کی بات کاٹتے ہوئے کہا اور میز پر پڑا بسکٹ کا ڈبہ اٹھا لیا۔
’’ گناہ ، ثواب اپنی جگہ لیکن ہم حق بات کر رہے ہیں ۔ حق سے بڑھ کر نہیں مانگ رہے اور نہ ہی ناجائز کسی چیز پر قبضہ کر رہے ہیں ۔ دین بھی اپنے جائز حق کے مطالبہ کا حکم دیتا ہے اگر ہر کوئی یہی سوچ لے نا جیسے تم سوچتی ہو تو یہ ساری عدالتیں ، وکیل ،سب فارغ‘‘۔ اب وہ بسکٹ منہ میںرکھ کر تیز تیز چلا رہی تھی ۔
’’ ہاں باجی ، نیلما باجی بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں میرے میاں بھی کہہ رہے تھے کامران بھائی نے اگر سیدھی طرح بات نہ مانی تو انگلیاں ٹیڑھی کرنی پڑیں گی ‘‘۔ زینیہ بے چارگی سے کہہ رہی تھی ’’ ارے! امی اٹھ گئیں ‘‘۔
زینیہ کی بات سن کر دونوں نے گردن موڑ کر دیکھا ’’ ارے امی، آپ لیٹی رہتیں نا ، کیوں باہر آ گئیں ؟‘‘
رخشی نے آگے بڑھ کر ماں کا ہاتھ تھاما اور اپنے برابر تخت پر بٹھا لیا ۔’’ ابھی ایک گھنٹہ ہی تو ہؤا تھا آپ کو لیٹے ‘‘۔امی نے جواباً خاموشی ہی اختیار رکھی ۔ کیا کہتیں ؟ لگتا تھا کہنے کے لیے کچھ بچا نہیں ۔ کامران اس حد تک چلا جائے گا یہ تو انہوں نے کبھی نہ سوچا تھا ۔ خیر سو چا تو یہ بھی نہ تھا کہ زندگی کا ساتھی اتنی جلدی چھوڑ کر انہیں تنہا زندگی کے طوفان کی نذر کر جائے گا ۔
’’امی پلیز آپ زیادہ پریشان نہ ہوں‘‘۔ رخشی نے ماں کا ہاتھ سہلایا ’ ’ کامران کو ہم سمجھا لیں گے ‘‘۔ رخشی نے بظاہر ماں کو تسلی دی تھی لیکن شاید اس سے زیادہ اپنے آپ کو دی تھی۔
’’ آخری عمر میں مجھے یہ بھی دیکھنا تھا ۔ گھر سے بے گھر ‘‘۔ اس سے آگے ان سے کہا نہ گیا آواز بھر ا گئی تھی ۔’’ کوئی بے گھر نہیں کرے گا

آپ کو یہ آپ کا گھر ہے ، ہمارے باپ کا گھر ہے انہوںنے خریدا ، بنوایا آپ مالک ہیں اس کی ‘‘۔ نیلما نے کہا ’’ ہم سب ہیں نا آپ کے ساتھ ۔ اچھا میں آپ کے لیے کھانا گرم کرتی ہوں ۔ آپ کھانا کھائیں اطمینان سے ‘‘۔
’’ اطمینان تو شاید اب قبر میں ہی آئے گا ‘‘۔ انہوں نے دوپٹہ سے آنکھوں کے کنارے صاف کیے ۔
’’ آپ کو معلوم ہے نا مایوسی کفر ہے‘‘۔ نیلما ، کچن کی طرف جاتے ہوئے جیسے یاد دہانی کرواتی ہوئی بولی۔ کچھ ہی دیر میں وہ کھانا لے آئی تھی ۔ اُس نے زبر دستی ماں کو کھانا کھلایا ۔ اس دوران تینوں بیٹیاں ماں کے ساتھ ایک دوسرے کو بھی طفل تسلیاں دیتی رہی تھیں ۔
٭…٭…٭
زندگی نے کیسے اچانک پلٹا کھایا تھا یہ تو نہ انہوں نے سوچا تھا ۔ نہ تینوں بیٹیوں نے اور نہ ہی کامران نے جو بیگم ساجدہ کی واحد نرینہ اولاد تھا ۔
آج چالیس سال قبل جب ارشد صاحب نے یہ مکان خریدا تھا اور اس کے چند سال بعد ہی اس پر چار دیواری کھڑی کر کے دو کمرے ڈلوالیے تھے بیوی اور دو بچوں کو لے کر وہاں منتقل ہو گئے ۔ ساجدہ بیگم نے ایک طویل عرصہ ، ارشد صاحب کے ساتھ بڑا صبر آزما گزارا تھا ۔ ارشد صاحب کی محدود آمدنی تھی ۔ یہ اتفاق تھا کہ شادی کے فوراً بعد ہی دفتر میں کسی سکیم کے تحت ملازمین کو اپنا گھر خریدنے کے لیے بلا سود فنڈ دیے گئے ۔ ارشد صاحب کو بھی کچھ رقم ملی جس سے انہوں نے اپنے ایک جاننے والے کے ذریعہ مناسب سے علاقہ میں زمین لے لی اور پھر کھینچ تان کر کے کچھ تعمیرات بھی کروا لی اور بیوی ، بچوں کے ساتھ شفٹ ہو گئے ۔
زندگی اپنے جلو میں بہت سے مسائل، دکھ اور سکھ لے کر چل رہی تھی کہ شادی کے محض پندرہ سال بعد ہی ارشد صاحب، بیوی کا ساتھ چھوڑ کر ابدی نیند سو گئے ۔اس وقت بڑی بیٹی ، چودہ سال ، کامران بارہ سال اور دونوں چھوٹی بیٹیاں بالترتیب آٹھ اور چھ سال کی تھیں ۔ پہلے ہی زندگی کون سی پھولوں کی سیج تھی ۔ ارشد صاحب کے جانے کے بعد تو مزید مشکل اور سخت ہو گئی تھی ۔ ساجدہ بیگم نے بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر ، سلائی ، کڑھائی کر کے اور کچھ اپنے نیک بخت بھائیوں کی مدد سے اگلے کئی سال زندگی کی ڈور کو سلجھاتے اور اس کی گرہیں کھولتے گزار دیے تھے ۔ بچے بڑے ہوئے تو ماں کے بازو بنتے گئے ۔ بیٹیوںنے ماں کے ساتھ ٹیوشن پڑھائی ۔ سلائی کی، تو کامران کو بھی ماموں نے میٹرک کے بعد ہی چھوٹی موٹی جاب دلا دی۔ حالات نے کامران کو وقت سے پہلے ہی با شعور کر دیا تھا ۔ وہ پڑھائی اور جاب کے ساتھ مختلف کورسز اور ہنر بھی سیکھتا رہا ۔ اس کی کام میں سنجیدگی اور دلچسپی ، لگن نے اس کو زندگی کے میدان میں آگے بڑھنے میں بہت مدد دی ۔ زندگی کی ہر رکاوٹ کا مقابلہ اس نے بڑی جی داری سے کیا تھا اور اس کا نتیجہ یہی تھا کہ وہ آگے بڑھتا چلا گیا ۔ اس نے اچھی جاب ملتے ہی ماں کی سلائی کڑھائی چھڑوا دی تھی ۔ بڑی بہن کی شادی تو ماں نے جیسے تیسے بچت اور کچھ اپنے بھائیوں کے سہارے کر دی تھی لیکن نیلما اور زینیہ کی شاید کامران نے ہی بڑی خوش اسلوبی سے کی تھی ۔ ساتھ ساتھ وہ گھر پر بھی توجہ دیتا رہا ۔ اس نے باپ کے بنائے دو کمروں کو نہ صرف ٹھیک ٹھا ک کروا دیا بلکہ ایک اور کمرہ بھی مزید بنوایا ۔ ساتھ واش روم کچن ، اسٹور اور صحن کو بھی نئی شکل دے دی ۔ اب گھر وہ گھر نہ رہا تھا بلکہ اپنے مالکان کی حیثیت کی تبدیلی کی کہانی صاف اور کھلے لفظوں میں ہر آنے جانے والے کے گوش گزارتا ۔ ماں ، بہنیں بھی حالات کے آسودہ ہونے پر خوش تھیں ۔ تینوں بیٹیاں شادی شدہ اور بال بچوں والی ہوگئی تھیں۔ اب وہ بیٹے کے پیروں میں بھی زنجیر ڈالنا چاہ رہی تھیں ۔ یوں کچھ تلاش کے بعد وہ نازیہ کو بڑے چائو سے بیاہ کر لے آئیں ۔
بدلتے صبح شام میں تبدیلی آئی تھی ، چاند، سورج کی گردشوں میں یا پھر لوگوں کے مزاجوں میں … نہ جانے کہاں کمی ، کوتاہی ہو رہی تھی ۔ ساجدہ بیگم کو سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔ کامران اپنی جاب کر رہا تھا ۔ چھوٹا موٹا دوست کے ساتھ بھی کسی کاروبار میں حصہ ڈالا ہوا تھا ۔ بچے بھی ہو گئے تھے۔ شادی کے بعد اس نے آہستہ آہستہ گھر میں مزید تبدیلیاں کروا لی تھیں جو نگاہوں کو بھلی لگ رہی تھیں لیکن مزاجوں کو بھلا بنا رہی تھیں ۔ مکینوں کے مابین غیر محسوس انداز میں فاصلے پیدا ہو رہے تھے جسمانی بھی

، اور روحانی بھی اور ذہنی بھی۔
’’ امی، میں نے ایک بہتر علاقہ میں فلیٹ پسند کیا ہے ۔ میں چاہ رہا ہوں ہم لوگ وہاں شفٹ ہو جائیں ‘‘۔
آج سب بہنیں میکہ آئی ہوئی تھیں ۔ کھانے سے فارغ ہو کر چائے کا دورچل رہا تھا جب کامران نے بیوی کے ہاتھ سے سفید کانچ کی نازک پیالی ہاتھ میں پکڑتے ہوئے بڑی وزنی بات کا آغاز کر دیا تھا۔
’’یہ تو خوشی کی خبر ہے ‘‘۔ رخشی نے سب سے پہلے جواب میں کہا’’ کس علاقے میں لوگے ؟اور پھر اس گھر کا کیا کرو گے ؟کیا بیچ دو گے ؟ ابو کی نشانی ہے ‘‘۔ رخشی نے پے در پے کئی سوال کر دیے تھے ، وہ بھی جو ماں کے دل اور سب بہنوں کے دلوں میں فوری طور پر ابھرے تھے ۔ کامران یہ دیکھے بغیر کہ اس کی اس بات سے ماں کے چہرے پر تفکر کی کیسی لکیریں ابھری ہیں بڑی بہن کے سوالوں کے جواب دینے لگا تھا۔
’’ باجی زندگی آگے بڑھنے کا نام ہے ۔ کتنا عرصہ گزر گیا ہمیں یہاں رہتے ہوئے ‘‘۔ اس نے اطمینان سے گھونٹ بھرا۔ لہجے اور الفاظ دونوں ہموار تھے ۔’’ اس علاقہ کی اب کوئی ویلیو نہیں ۔ اگر اب بھی اس کو نہ بیچا تو پیسے اچھے نہ ملیں گے ۔ پھر بچوں کا اسکول بھی یہاں سے دور ہے ۔ میرا ارادہ گلشن میں لینے کا ہے ۔ دو ، تین سے بات چیت بھی چل رہی ہے‘‘۔ وہ اطمینان سے کہتا جا رہا تھا اور باقی نفوس کا اطمینان چھنتا جا رہا تھا۔
’’ تو کیا تمہارے پاس اتنی رقم ہے کہ تم … ‘‘ نیلما کہتے کہتے کچھ ہچکچائی ۔ ورثہ کی بات کرنا شاید اتنا آسان نہیں ہوتا وہ بھی اپنے ماں جائے سے کہ تم سب کو ان کے حصے دے دو اور گھر بھی خرید لو کیا ممکن ہے ؟ بہر حال سوال تو مکمل کرنا تھا ۔
’’ حصے؟ کون سے حصے ؟ کیا مطلب؟ امی تو میرے ساتھ ہی ہیں ‘‘۔ تیوری پر ابھی پہلی لکیر ابھری تھی ۔ ’’ بھائی یہ گھر ابو نے خریدا تھا نا تو میں …‘‘ ابھی نیلما میں اتنا حوصلہ نہیں ہو رہا تھا کہ وہ کھل کر اپنے حق کی آواز اٹھا لیتی ہو سکتا ہے کہ وہ ان باتوں سے نا واقف ہو، نیلما نے اپنے آپ کو ڈھارس دی ’’ میرا مطلب ہے کہ اس گھر میں ہم سب کا ہی حصہ ہے ‘‘۔ ایک دفعہ پھر رک کر نیلما نے جملہ مکمل کیا ۔
’’ کیا تم ورثہ کی بات کر رہی ہو ؟‘‘ کامران کی تیوری پر لکیروں کی تعداد میں اضافہ ہؤا۔
’’ ہاں جو شرعی ہے‘‘۔ نیلما نے متانت سے کہا ۔
’’ چلو اچھا ہے یہاں سب بیٹھے ہیں تو کھل کر بات ہو جائے ۔ دیکھو میں تم لوگوں پر ایک بات واضح کردوں یہ گھر ابو نے جب لیا تھا اس وقت یہ صرف ستر، اسی ہزار کا تھا ۔ پھر انہوں نے اس پر یہ معمولی سے کمرے بنوا لیے اور آج اس کی قیمت تقریباً اسی لاکھ بن چکی ہے ۔ پچھلے بیس سالوں سے میں اس مکان پر اپنا کتنا پیسہ لگا چکا ہوں ۔ یہ بتانے کی شاید ضرورت نہیں ‘‘۔کامران کا لب و لہجہ ، انداز ، الفاظ سب ہی تو یکا یک بدل رہے تھے ۔ جس تیزی سے اپنی گفتگو میں اس نے اس ’’ گھر ‘‘ کو ’’مکان‘‘ بنایا تھا ، شاید اتنی ہی سرعت سے رشتوں میں دوری آچکی تھی ۔ مکان کی دیواروں کے ساتھ اجنبیت کی دیواریں بھی بلند ہوئی تھیں۔
’’ لیکن یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ باپ کی جائیداد میں اس کی بیوی اور اولاد سب کا حصہ ہوتا ہے ‘‘۔نیلما نے اب نا گواری اپنے حق کی بات کی۔’’ جائیداد … ہاہ… ‘‘ کامران کا لہجہ استہزائیہ ہؤا ’’ اس گھر کو بلکہ چھوٹے اور معمولی گھر کو تم جائیداد میں شمار کر رہی ہو ؟‘‘ جس کے جواب میں نیلما نے لب بھینچے تھے ۔ باقی دونوں بہنیں اور ماںخاموش تھیں ۔
’’ دیکھو میں بات مختصر کروں گا ، خواہ مخواہ اپنا اور تم سب کا وقت ضائع کرنے کا کیا فائدہ !‘‘ کامران نے اپنی بات کا آغاز ہی پکے بیوپاری کی حیثیت سے کیا تھا ۔
’’ ابو کے ، اس گھر کو خریدنے اور بنوانے میں بمشکل اسی ہزار سے ایک لاکھ خرچ ہوئے تھے ۔ اگر ہم ایک لاکھ سے بھی ،بقول تمہارے اس جائیداد ، کی قیمت لگاتے ہیں تو تم تینوں کا فی حصہ پندرہ سے بیس ہزار کے درمیان بنتا ہے اور رہیں امی تو وہ تو ساتھ ہی ہیں میرے ، کوئی الگ تو نہیں ، پھر امی کیا کریں گی یہ رقم لے کر ؟‘‘
’’ کیوں ؟ کیا امی کے خرچے ، ضرورتیں نہیں ہیں ؟‘‘ نیلما ان تینوں کی نمائندہ بنی ہوئی تھی ۔ اسی نے بھائی کو ٹوکا۔

’’ میری بات مکمل ہونے دو ‘‘ کامران نے ہاتھ اٹھا کر اسے مزید بولنے سے روکا ۔’’ تم بہنوں کی شادیوں پر بھی کوئی کم خرچہ نہیں ہؤا اس کے علاوہ شادی کے بعد بھی لین دین ، تحفے تحائف کا سلسلہ جاری ہے ۔ خیر میں تم سے اس کی بابت بات نہیں کروں گا ورنہ اگر تم لوگ حقیقت کی نظر سے دیکھو تو لاکھوں کا حساب بنتا ہے ‘‘۔
’’ یعنی کہ تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ ہمارا حق وہ چند ہزار بھی نہیں ‘‘۔ اب کے بڑی دیر سے خاموش رخشی بھی بولی تھی۔
’’ لیکن کامران بھائی ، آپ آج سے پینتیس چالیس سال پہلے کی ویلیو کی بات کیوں کر رہے ہیں یہ گھر تو آج کی ویلیو کے حساب سے ہی فروخت ہوگا اور پھر حصہ بھی آج کی قیمت کے لحاظ سے ‘‘۔ اب کے زینیہ کے میاں نے بھی گلا کھنکار کے کامران کے سامنے وضاحت پیش کی ۔ جس کے جواب میں کامران نے تیز نظروں سے اُسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو تو تمہیں ہمارے گھر کے معاملے میں دخل در معقولات کرنے کی ضرورت نہیں ۔ نازیہ جو اتنی دیر سے ان بھائی بہن کی گفتگو بڑی دلچسپی سے سن رہی تھی اس نے بھی ناگواری سے اس سچ کو سن کر پہلو بدلا تھا ۔ زینیہ کا میاں ثاقب ، کامران کی آنکھوں کی تاب نہ لاتے ہوئے خاموش ہو گیا تھا۔
’’ درست تو کہہ رہے ہیں ثاقب بھائی ۔ گھر کوئی ایک ، دو لاکھ میں تو نہیں بک رہا جب ویلیو آج کے وقت کے لحاظ سے تو حصہ کیوں چالیس سال پہلے کے زمانے کے حساب سے لگایا جا رہا ہے‘‘ ، نیلما نے ایک دفعہ پھر انصاف کا علم بلند کرنا چاہا۔ لیکن کامران کو اس کی یہ جسارت ایک آنکھ نہ بھائی تھی۔
’’ میں کہہ چکا ہوں کہ اس گھر پر میرا ذاتی پیسہ لگا ہے اور بے حساب لگا ہے ‘‘۔ کامران نے اپنی چائے ختم کرلی تھی اور شاید گفتگو بھی ۔وہ مزید اس موضوع پر گفتگو نہ چاہتا تھا ۔ کم از کم چہرے کے تاثرات کہہ رہے تھے ۔
’’ تو تم اپنا پیسہ لے لو بلکہ زیادہ ہی لے لو ۔ لیکن یہ تو کسی پہلو سے درست نہیں کہ ہم کو بالکل محروم کر دیا جائے ‘‘۔ نیلما واحد تھی جو میدان چھوڑ کر نہیں بھاگ رہی تھی اس کے تھیلے میں ابھی بھی چند ہی ہتھیار تھے ۔ زیادہ کا حساب کیسے ’’ اس ’ زیادہ ‘ کا حساب کیسے لگائیں گے آپ ؟‘‘ کامران کی بھنویں تن گئیں’’میری دن رات کی محنت کا حساب لگ سکتا ہے کیا ؟ ابا کے جانے کے بعد میں نے گھر کی گاڑی کس طرح کھینچی ، کسی کو احساس ہے ؟ اس دو کمرے کے مکان کوآپ سب کے لیے کیسے کشادہ اور آرام دہ بنایا ، جدید سہولتیں مہیا کیں ۔ جب میں نے بے حساب یہ سب کیا تو کیا اب آپ میرے ساتھ ، حساب کتاب سے چلیں گے ؟ کیا اس گھر پہ میرا حق نہیں بنتا ؟آپ کو کچھ تو خیال ہونا چاہیے ‘‘۔ اس کا لہجہ اس کے ٹوٹے دل کی غمازی کر رہا تھا ۔
ماں خاموش تھیں اور بہنیں بھی۔’’ یہ گھر میں اپنے نام منتقل کروا رہا ہوں ۔ آپ دستاویز ات پر دستخط کر دینا ‘‘۔ اتنا کہہ کر اس نے بیوی کو اشارہ کیا اور دونوں کمرے سے باہر نکل گئے تھے ۔
٭…٭…٭
چاروں ماں بیٹیاں کامران کے اس اقدام سے نہ صرف نا خوش تھیں بلکہ متنفر بھی ہو رہی تھیں ۔کامران اتنے آرام سے ان چاروں کا حق غضب کر لے گا یہ تو انہوں نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا ۔ تینوں بہنوں نے آج تک کبھی بھائی سے ورثہ کا مطالبہ نہ کیا تھا ۔ ایک تو اکلوتا ، پھر لاڈلا ۔ وہ بھائی سے رقم کا مطالبہ کر کے یا گھر کو فروخت کرو ا کر ماں اور بھائی بھاوج کو پریشانی میں مبتلا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں ۔ انہیں اندازہ تھا کہ گھرکی فروخت اور سب کو حصے دینے کے بعد بھائی کے پاس اتنی رقم نہ ہو گی کہ وہ ایک مناسب گھر خرید سکے ۔ لیکن شاید اس کا انداز ہ نہ تھا کہ ان کا بھائی اس مکان پر اپنا حق سمجھتا ہے ۔
پھر یہ معاملہ شروع ہؤا تو رکا نہیں تھا ۔ وقت کے ساتھ اس میں تلخی آتی چلی گئی تھی ۔ امی نے بھی بیٹے کو سمجھانے کی ناکام کوشش کی تھی لیکن کامران… سارے اسباق اسے ازبر تھے ۔ جنھیں پوری شدت سے وہ گھر میں دہراتا ۔ امی تو شاید حالات سے سمجھوتا کر چکی تھیں لیکن بیٹیوں میں مزاحمت کے لیے دم خم ابھی تھا ۔ وہ اپنے ساتھ یہ نا انصافی ہر گز برداشت نہ کرنا چاہتی تھیں ۔ نیلما کے میاں نے تو وکیل کرنے کی بھی پیش

پھر یہ معاملہ شروع ہؤا تو رکا نہیں تھا ۔ وقت کے ساتھ اس میں تلخی آتی چلی گئی تھی ۔ امی نے بھی بیٹے کو سمجھانے کی ناکام کوشش کی تھی لیکن کامران… سارے اسباق اسے ازبر تھے ۔ جنھیں پوری شدت سے وہ گھر میں دہراتا ۔ امی تو شاید حالات سے سمجھوتا کر چکی تھیں لیکن بیٹیوں میں مزاحمت کے لیے دم خم ابھی تھا ۔ وہ اپنے ساتھ یہ نا انصافی ہر گز برداشت نہ کرنا چاہتی تھیں ۔ نیلما کے میاں نے تو وکیل کرنے کی بھی پیش کش کردی تھی ۔ لیکن امی نے آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ اُسے اس اقدام سے باز رکھا تھا ۔ وہ خاندان ، برادری میں اپنے گھر کا تماشا نہیں بنوانا چاہتی تھیں ۔ انہیں ڈر تھا کہ اگر بیٹے ، بہو نے انہیں بھی اپنے ساتھ میں رکھنے سے انکار کر دیا تو وہ کہاں اس بڑھاپے میں خوار ہوتی پھریں گی ۔ ’’ بس یہ آخری عمر عزت سے اپنی چھت کے نیچے گزر جائے ‘‘۔ اب تو ہر لمحہ ان کے ہونٹوں پر یہ دعا تھی۔
وقت اپنی رفتار سے آگے بڑھ رہا تھا ۔ طلوع و غروب ہوتے شمس و قمر ، ہر روز دنیا کے باسیوں پر اپنی پاکیزہ روشنی کی کرنیں پھیلاتے اور حیرت و استعجاب سے ان کی سر گرمیاں دیکھتے ۔
’’ امی میں نے فلیٹ پسند کر لیا ہے میں چاہتا ہوں جلد ہی وہاں شفٹ ہو جائوں ۔ میرا اس مکان کا بھی سودا چل رہا ہے آپ خود بھی اس کاغذ پر سائن کر دیں اور ان تینوں کو بھی بلا کر کروالیں ‘‘۔ کامران نے ماں کے آگے ایک فارم رکھا تھا اور قلم ان کے ہاتھ میں دے کر بڑی آسانی سے دستخط کرنے کو کہہ دیا تھا ۔ ان کے اصرار اور استفسار پر اُس نے جواباً مختصراً بتا دیا تھا کہ اس گھر کو بیچ رہا ہے ۔ تب ساجدہ بیگم نے دکھے دل سے اپنے جگر گوشہ کو دیکھا تھا ۔ قلم ان کے ہاتھ سے لڑھک گیا تھا ۔ کامران نے بیزاری سے ماں کو دیکھا اور سر جھٹک کر نیچے گرا ہؤا پین اٹھا کر ان کے پاس رکھا اور پیر پٹختا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا ۔
ماں نے فون کر کے تینوں بیٹیوں کو بھی آنے اور دستخط کرنے کا کہہ دیا تھا ۔ رخشی تو تیار ہو گئی تھی لیکن نیلما ، اس کا شوہر اور زینیہ کا شوہر ، ابھی پس و پیش سے کام لے رہے تھے ۔ ’ واہ! اتنی بڑی ’’جائیداد‘‘ تمہارا بھائی اکیلا اکیلا ہضم کر جائے یہ میں کم از کم اپنی زندگی میں تو نہیں ہونے دوں گا ‘‘۔ یہ الفاظ نیلما کے شوہر کے تھے ۔
’’ کون جانے کس کی کتنی زندگی ہے ؟ ‘‘ یہ الفاظ سن کر نازیہ کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا اور سب نے ناگواری سے اس کی طرف دیکھا تھا ۔
٭……٭…٭
آہ!! کب کون سے الفاظ آسمانوںپر چلے جائیں اور اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہو جائیں ۔ پھر دنیا میں لوٹ کر اُسی شخص کے تعاقب میں لگ جائے ۔ یہ ہم کمتر ، بے بس کیا جانیں ۔ نہ جانے کون ، کس سے یہ کہہ رہا تھا ۔ وہ تو بس آنکھیں بند کیے آنسو بہا رہی تھی ۔ جن رشتوں سے دامن چھڑوانا چاہتی تھی آج یہی دامن تھامے ہوئے تھے جس مکان کے درو دیوار تنگ محسوس ہو رہے تھے اسی کی چھت اب پناہ گاہ بن چکا تھا ۔
’ ’ بہت بُرا ہؤا ، جوان جہاں موت ‘‘۔ارد گرد سر گوشیاں ابھر رہی تھیں ۔’’ اور وہ بھی ناگہانی ، خداکسی کو ایسا دکھ نہ دے ‘‘۔ کسی نے کلّے پیٹے۔
’’ نازیہ آئو کھانا کھا لو ‘‘۔ کسی نے اس کا ہاتھ تھاما تھا ۔ اُس نے تھامنے والے کو غور سے دیکھا انہی سے تو پیچھا چھڑوانا تھا اور یہی … ہاں خون کے رشتے ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ پکے اور سچے ۔ وہ بمشکل اٹھی ٹانگوں میں تو جیسے جان ہی نہیں تھی … کل … ہاں کل بڑا خوفناک دن تھا ۔ جس نے زندگی کے سارے رنگ نوچ لیے تھے ۔ کامران ، سڑک کے حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھا تھا ۔ گھر والوں کے لیے یہ حادثہ ایک نا قابل برداشت سانحہ تھا۔ امی تو سنتے ہی بے ہوش ہو گئی تھیں ۔ نازیہ بھی حواس کھو بیٹھی تھی ۔ بہنوں اور تینوں بہنوئیوں نے ہی کامران کی آخری رسومات انجام دی تھیں اور اسے اُس کے آخری گھر پہنچا دیا تھا ۔ وہ گھر جو اس کا اپنا تھا جس پر اس کے نام کا کتبہ لگا تھا ۔
٭…٭…٭
’’ امی نازیہ کے والدین اُسے اپنے گھر لے جانا چاہتے ہیں ‘‘۔ رخشی ماں کے پاس بیٹھی تھی ۔’’ا بھی اس کی عدت ختم ہونے میں کتنے دن رہ گئے ؟‘‘ امی نے کمزور آواز میں پوچھا۔بیٹے کو کھونے کے بعد ان کی یاد داشت بھی کھو رہی تھی۔
’’امی مہینے ، بیس دن رہ گئے ‘‘۔ چند لمحے خاموشی کی نظر ہو گئے ۔ امی کھڑکی سے باہر دور کہیں آسمانوں میں نہ جانے کیا دیکھ رہی تھیں ۔
’’ جس گھر کے خواب دیکھے تھے ، وہاں جانا تو نصیب نہ ہؤا میرے بچے کو … ‘‘ جس مسئلے کا فیصلہ ان سب سے نہ ہو رہا تھا ، قدرت نے بے رحمی سے خود ہی کر دیا تھا ۔

’’ میرا بھائی … رخشی سسکی۔
’’ شش…!!اُس کے لیے دعا کرو‘‘۔ امی تڑپ کر بولیں ۔ جیسے بھی تھا اور جو کچھ وہ کر رہا تھا اب تو وہ باب بند ہی ہو چکا تھا ۔ رخشی نے سر جھکا لیا تھا ۔ وہ آہستہ آہستہ ماں کی ٹانگیں بھی دبا رہی تھی ۔ ان تینوں بہنوں نے ماں اور بھاوج کی عدت کی وجہ سے دن باندھ لیے تھے ۔
’’ رخشی ! میں نازیہ کو اس گھر سے نہیں جانے دوں گی ۔ اس کے ماں باپ سے کہہ دو ، یہ گھر نازیہ اور اس کے بچوں کا بھی ہے ۔ کم از کم جب تک میں زندہ ہوں میرے بچے یہیں رہیں گے ‘‘۔ ساجدہ بیگم نے لرزتی آواز میں کہا اور رخشی نے سر ہلا دیا تھا ۔
نازیہ وہ بھی کوئی دور تو نہ تھی ۔ برابر ہی کمرے میں تو تھی ۔ کھڑکی سے آتی آوازوں نے اس کے دل کو جکڑ لیا تھا اور پھر آنسوئوں کا ایک سیل رواں تھا جو اس کی آنکھوں سے بہہ نکلا تھا۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x