ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

غزل – بتول جون ۲۰۲۳

بس بہت ہو گیا اپنے دل میں ذرا الفتوں چاہتوں کو جگہ دیجیے
مدتوں سے جما نفرتوں کا غبار اپنے ذہن و نظر سے اڑا دیجیے
ظلمتِ شب سے شکوہ بجا آپ کا پھر بھی لازم ہے یہ روشنی کے لیے
ہو سکے اپنے خونِ جگر سے کوئی اک دیا راستے میں جلا دیجیے
مر چکے ہیں اگر دل تو غم کس لئے ان کو زندہ کریں حشر برپا کریں
صور اک پھونک دیں ہر طرف اور پھر ہر قدم پر قیامت اٹھا دیجیے
آپ بیشک نہیں راہبر مہرباں رہنما ہی سہی، راہ میں جو کئی
لے کے جائے جو منزل کی جانب مجھے ان میں وہ راستہ تو بتا دیجیے
دشمنوں کی نہ باتوں میں آپ آئیے شک نہیں کیجئے میرے اخلاص پر
میں نہیں بے وفا بے وفائی کروں پھر جو دل چاہے مجھ کو سزا دیجیے
منزلیں دور ہیں اور رستہ کٹھن ،کوئی تو لے مرے ہاتھ کو ہاتھ میں
سن کے میں نے بڑے عزم و امید سے کان میں اس کے جاکر کہا دیجیے
تھا مرے زیبِ تن ریشمی پیرہن ،تھے سبھی جو مرے دائیں بھی بائیں بھی
اب کڑے وقت میں کس سے جاکر کہوں مجھ کو ان دوستوں کا پتا دیجیے
اس کا وعدہ تھا جیسے فسانہ کوئی اور دعویٰ کہانی کا عنوان سا
آپ بھی زیرِ لب مسکراتے ہوئے اس کو امید کوئی دلا دیجیے
روشنی سے کہیں بڑھ کے تاریکیاں میری خستہ لباسی کی ہیں رازداں
آپ کو واسطہ ہے خدا کے لیے سارے جلتے دیوں کو بجھا دیجیے
یوں نہ ہو سرد پڑ جائیں جذبے سبھی اور احساس بھی برف بننے لگے
راکھ کے ڈھیر میں درد کے درک کی بجھتی چنگاریوں کو ہوا دیجیے
ہر جگہ ہو حبیبؔ آپ کا تذکرہ ہر کوئی ہو یہاں آپ کا ہمنوا
اپنی گفتار سے اپنے کردار سے سب کو دیوانہ ایسا بنا دیجیے

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x