ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ماسی – بتول جون ۲۰۲۳

ازل سے اپنا تو ایک منظر
ابد بھی ایسا ہی ہو گا منظر
ازل یہی ہے ابدیہی ہے
ہمارا کوئی ازل نہیں ہے
ہمارا کوئی ابد نہیں ہے
سنا ہے صدیوں کی صدیوں پہلے
ہماری صبحیں اسی طرح تھیں
ہماری شامیں اسی طرح تھیں

محل ہمارے مقدروں میں لکھے ہوئے تھے
محل ہمارے مقدروں میں لکھے ہوئے ہیں
ہماری عمریں مگر گزاری ہیں دوسروں نے
ہماری خوشیاں مگر منائی ہیں دوسروں نے
محل سجے ہیں ہمارے ہاتھوں
کچن چلے ہیں ہمارے ہاتھوں
سبھی لباسوں کے داغ مٹتے ہیں اپنے دم سے
سبھی بزرگوں کے عیب چھپتے ہیں اپنے دم سے

ان انگلیوںسے ہی برتنوں کوچمک ملی ہے

ان انگلیوں سے ہی خواہشوں کو کھنک ملی ہے
نہ جانے کتنی بہکتی نظریں ہمارے آنچل سنبھالتے ہیں
نہ جانے کتنی ہی پیش رفتیں ہمارے اعصاب ٹالتے ہیں
ہماری نسلیں تو کتنی صدیوں سے یوں ہی جیتی ہیں
زخم سیتی ہیں، خون پیتی ہیں

نہایت ِکار جب بھی نکلیں برونِ درہم
تو پولی تھین کے فضول تھیلوں کے ساتھ کتنی
خبیث نظریں بھی جسم و جاں سے اتار کر ہم
گلی کے کچرے میں پھینکتی ہیں
ہماری مشکل ترین محنت
ہماری افضل ترین عبادت بھی بس یہی ہے
ہماری آئندہ نسل برتن لباس دھونا
تو سیکھتی ہے ہمارے ہاتھوں
مگر نگاہوں کی میل دھونا تو جان جاتی ہے
خود بخود ہی
ازل سے اپنا تو ایک منظر
ابد بھی ایسا ہی ہے یقیناً
٭٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x