ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

لباس پردہ پوشی ہے – بتول اکتوبر۲۰۲۲

حضرت ابنِ مسعودؓ روایت فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جنت میں نہیں داخل ہوگا ایسا شخص جس کے دل میں ذرہ بھر کبر ہے۔ ایک آدمی نے یہ سن کر کہا: کوئی انسان پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اور اس کا جوتا خوبصورت نظر آئے؟ آپؐنے فرمایا: اللہ رب العزت جمیل ہیں اور جمال کو پسند فرماتے ہیں، کبر تو یہ ہے کہ حق کو جان کر نہ مانا جائے اور لوگوں کی حق تلفی کی جائے۔(صحیح مسلم)
لباس کے بارے میں اسلام کیا رہنمائی دیتا ہے، یہ جاننے کے لیے ہمیں قرآن کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اے اولادِ آدم، ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصّوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہواور بہترین لباس تقوٰی کا لباس ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں‘‘۔ (الاعراف)
یہ تو طے ہے کہ لباس اللہ نے نازل کیا ہے یہ کوئی تدریجی عمل کا نتیجہ نہیں ہے،سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی سی پوشاک انسان کی بھی کیوں نہ بنا دی؟ظاہری سی بات ہے جانوروں سے ممیز کرنے کے لیے انسان کو لباس عطا کیا،کہ یہ عقل وشعور رکھنے والی مخلوق تھی اور حیا اس کا زیور تھا۔جانوروں کو جو پوشاک عطا کی گئی سردی ،گرمی سے تو وہ بھی بہت خوبی سے انہیں محفوظ رکھتی ہے اور ان کی خوبصورتی کا باعث بھی ہے لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایسی پوشاک عطا کرنے کی بجائے ’حیا‘ کو اس کا زیور بنا دیا،پھر جوں جوں انسان ربانی تعلیمات کو بھلاتا گیا گمراہی میں گرتا گیا اور فطری تقاضے ’حیا‘ کی حفاظت کرنے سے بھی قاصر ہو گیا۔حتی کہ اتنا بے شرم ہو گیا کہ لباس کا وزن اسے بوجھ لگنے لگا اور کہنے لگا کہ پردہ تو آنکھ کا ہوتا ہے.یقیناً یہ شیطانی بہکاوا ہے جس میں انسان آیا اور اس لیے آیا کہ اس نے رسولوں کی تعلیمات کو بھلا دیا یا کبھی درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔شیطان تو ازل سے لباس کا دشمن ہی رہا ہے خواہ جسم کو چھپانے کے لیے پہنا جائے خواہ شرم گاہ کی حفاظت کے لیے پہنا جائے بلکہ مؤخر الذکر لباس تو شیطان کے لیے نہایت اذیت کا باعث ہے۔آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک زوجین میں پھوٹ ڈلوانے اور نکاح کے ذریعے پہنے گئے لباس کو تار تار کروانا اس کا دل پسند مشغلہ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ (حدیث کے مفہوم کے مطابق، تفہیم القرآن،سورہ بقرہ آیت 102 کی تفہیم میں ذکر کی گئی ہے) ابلیس کے ایجنٹ جب اسے اپنی کارکردگی سے آگاہ کرتے ہیں کہ آج میں نے یہ کام کیا تو ابلیس سب سے زیادہ خوش اس ایجنٹ کی کارروائی پر ہوتا ہے جس نے دو میاں بیوی میں پھوٹ ڈلوائی ہو اور کہتا ہے کہ تو نے خوب کام کیا۔
انسان کے لیے لباس کے تین مقاصد ہیں برعکس حیوان کے۔
1 ستر پوشی
2 موسمی اثرات سے حفاظت
3 زینت
1- ستر پوشی۔ لباس باریک ہو یا چست،خدوخال کو نمایاں کرتا ہو تو بے کار ہے کارآمد لباس وہی ہے جو ستر پوش ہو،قابل شرم خدو خال کو چھپاتا ہو اور کوئی اس میں سے جھانک کر پردہ پوش حصوں سے لطف اندوز نہ ہونے پائے نیز خدو خال کی دلکشی اور جسمانی ہئیت کا ترجمان نہ ہو۔
2 -موسمی اثرات سے حفاظت۔اگر لباس گرم و سرد تھپیڑوں سے محفوظ نہیں رکھتا تو بے کار ہے۔اللہ تعالیٰ نے ایک ہی ماحول،آب و ہوا اور جغرافیائی حصے میں رہنے والے جانوروں کی پوشش ان کے طبعی خواص کی بناء پر مختلف رکھی ہے اس حکیم و خبیر کی کاریگری میں سبق لینے والوں کے لیے غوروفکر کی بہت نشانیاں ہیں
3 زینت۔لباس زینت کے لیے بھی ہوتا ہے جو لباس آپ کے وقار اور رتبے کا لحاظ کرنے والا نہ ہو،آپ کی دلکشی کا باعث نہ ہو،آپ کے لیے سود مند نہیں ہوتا۔
لباس کے تین مقاصد بیان کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولباس التقویٰ۔یعنی بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے گویا لباس ستر پوشی کر دے اور حس جمالیات کے لیے تسکین بخش ہو، یہ کافی نہیں۔کہ ستر پوشی تو حیوانات کی بھی کر دی گئی ہے اور جمالیات کے ذوق کو بھی تسلیم بخش دیتے ہیں۔دراصل اللہ تعالیٰ کو حضرت انسان سے،اپنے نائب سے کچھ اور بھی مطلوب ہےاور کیوں نہ مطلوب ہوتا جبکہ ہم عام سے انسان اپنے نائب سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ تفویض کردہ ذمہ داری کو بطریق احسن نبھائیں اور نگران کی نظر سے پورے معاملے کو دیکھے۔تو اللہ عزوجل بھی یہی چاہتا ہے ہم سے کہ جیسے وہ احکام دے رہا ہے،اس کا نائب علم کے ساتھ تقویٰ رکھتے ہوئے ذمہ داریوں کو ادا کرے۔انسان کا نائب ہونے کی حیثیت میں تو ہم معاملات کی سمجھ رکھتے ہوئے ذمہ داری سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔لیکن اللّٰہ کے نائب کی حیثیت سے جب ہم کام کرتے ہیں تو بحیثیت انسان ہم بہت سی چیزوں پر قدرت نہیں رکھتے،بہت سی چیزوں کی حکمت و مصلحت نہیں سمجھ سکتے،مخلوق کی ہر ضرورت اور تمام حالات و واقعات پر ہماری نظر نہیں ہوتی۔اس لیے تقویٰ کا دامن تھامے بغیر خدا کے خلیفہ ہونے کا حق ادا کرنا ممکن ہی نہیں۔لہٰذا جسم ڈھانپنے کے لیے لباس پہنیں یا نکاح کا لباس پہنیں، تقویٰ کا دامن نہ چھوڑیں۔جسم چھپانے کے لیے پہنے گئے لباس میں تقویٰ کے پہلو کو نظر انداز کیا جائے گا،درخو اعتناء سمجھا جائے گا یا تقویٰ کو بھلا دیا جائے گا تو اس کا نتیجہ شیطان کی کامیابی کی صورت میں نکلے گا اور وہ اپنا بے حیائی کا ایجنڈا پھیلانے میں کامیاب ہو جائے گا اور نکاح والے لباس میں تقویٰ کا دامن چھوڑا جائے گا تو ایک دوسرے کی حق تلفی تو ہو گی ہی ،شیطان کو بھی اپنی کارروائی کرنے کا سنہرا موقع مل جائے گا اور وہ زوجین میں تفریق کروانے کا کوئی حربہ نہ چھوڑے گا۔
بلاشبہ انسان کی فطرت لباس کی طالب ہے کیونکہ حیا اس کی گھٹی میں رکھ دی گئی ہے۔برہنگی یا نیم برہنگی اس کے لیے باعث ذلت ہے،اور فطرت کے اس مطالبے سے لباس نکاح بھی بدرجہ شامل ہے۔جب بھی اس فطرت کے خلاف انسان چلا،حیا کا جنازہ نکل گیا اور جب بھی انسان اس فطرت کو دبانے کی کوشش کرے گا،فساد برپا ہو گا۔اس لیے ساتر لباس پہنیں اور اپنے زوج کے لیے ساتر اور تقویٰ والا لباس ثابت ہوں۔
امام راغب اصفہانی ؒنے لباس کے لغوی معنیٰ بیان کرتے ہوئے بڑی عمدہ تشریح فرمائی ہے چنانچہ لکھتے ہیں کہ:
’’ہر وہ چیز جو انسان کی بری اور ناپسندیدہ چیز کو چھپا لے اسے لباس کہتے ہیں ۔شوہر اپنی بیوی اور بیوی اپنے شوہر کو بری چیزوں سے چھپا لیتی ہے،وہ ایک دوسرے کی پارسائی کی حفاظت کرتے ہیں اور پارسائی کے خلاف چیزوں سے ایک دوسرے کے لیے رکاوٹ ہوتے ہیں اس لیے انہیں ایک دوسرے کا لباس فرمایا ہے۔
ترجمہ کنزُ العِرفان:وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔(البقرہ)
لباس سے انسان کی زینت ہوتی ہے اسی اعتبار سے فرمایا ہے لِبَاسُ التَّقْوٰى ۔تقویٰ کا معنی ہے برے عقائد اور برے اعمال کو ترک کر دینا اور پاکیزہ سیرت اپنانا،جس طرح کپڑوں کا لباس انسان کو سردی،گرمی اور برسات کے موسموں کی شدت سے محفوظ رکھتا ہے اسی طرح تقویٰ کا لباس انسان کو اُخروی عذاب سے بچاتا ہے۔(مفردات امام راغب)
مولانا مودودی صاحب اس آیت کی تفہیم میں یوں رقمطراز ہیں کہ عرب لباس کو صرف زینت اور موسمی اثرات سے حفاظت کے لیے استعمال کرتے تھے،لیکن اس کی سب سے بنیادی غرض یعنی جسم کے قابل شرم حصوں کی پردہ پوشی ان کے نزدیک کچھ اہمیت نہ رکھتی تھی۔انھیں اپنے ستر دوسروں کے سامنے کھول دینے میں کوئی باک نہ تھا۔برہنہ منظر عام پر نہا لینا،راہ چلتے قضائے حاجت کے لیے بیٹھ جانا،ازار کھل جائے تو ستر کے بے پردہ ہو جانے کی پروا نہ کرنا ان کے شب وروز کے معمولات تھے۔پھر کیونکہ یہ عربوں کی ہی خصوصیت نہ تھی،دنیا کی اکثر قومیں اس بے حیائی میں مبتلا رہی ہیں اور آج تک ہیں اس لیے خطاب اہل عرب سے خاص نہیں ہے بلکہ عام ہے اور سارے بنی آدم کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ دیکھو،یہ شیطانی اغوا کی ایک کھلی ہوئی علامت تمھارے اندر موجود ہے،تم نے اپنے رب کی رہنمائی سے بے نیاز ہو کر اور رسولوں کی دعوت سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو شیطان کے حوالے کر دیا،اور اس نے تمھیں انسانی فطرت کے راستے سے ہٹا کر اسی بے حیائی میں مبتلا کر دیا جس میں وہ تمھارے پہلے ماں باپ کو مبتلا کرنا چاہتا تھا ۔ اس پر غور کرو تو یہ حقیقت کھل جائے گی تم پر کہ رسولوں کی رہنمائی کے بغیر تم اپنی فطرت کے ابتدائی مطالبات کو نہ سمجھ سکتے ہو اور نہ پورا کر سکتے ہو۔
ان آیات میں جو کچھ ارشاد ہؤا ہے اس سے چند اہم حقیقتیں نکھر کر سامنے آ جاتی ہیں۔
اوّل یہ کہ لباس انسان کے لیے مصنوعی چیز نہیں ہے بلکہ انسانی فطرت کا اہم مطالبہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم پر کوئی پوشش پیدائشی طور پر نہیں رکھی بلکہ حیا اور شرم کا مادہ اس کی فطرت میں ودیعت کر دیا۔پھر اس فطری شرم کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اس نے کوئی بنا بنایا لباس انسان کو نہیں دے دیا بلکہ اس کی فطرت پر لباس کا الہام کیا (انزلنا علیکم لباسا)، تا کہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر اپنی فطرت کے اس مطالبے کو سمجھے اور پھر اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ مواد سے کام لے کر اپنے لیے لباس فراہم کرے۔
دوم یہ کہ اس فطری الہام کی رو سے انسان کے لیے لباس کی اخلاقی ضرورت مقدم ہے یعنی یہ کہ وہ اپنی سواٰت کو ڈھانپے،اور اس کی طبعی ضرورت مؤخر ہے، یعنی یہ کہ اس کا لباس اس کے لیے ریش ہو( جسم کی آرائش اور موسمی اثرات سے بدن کی حفاظت کا ذریعہ)لیکن جب انسانوں نے شیطان کی رہنمائی قبول کی تو پھر معاملہ الٹ گیا۔اس نے اپنے ان شاگردوں کو اس غلط فہمی میں ڈال دیا کہ تمھارے لیے لباس کی بعینہٖ وہی ضرورت ہے جو حیوانات کے لیے ریش کی ضرورت ہے،رہا اس کا سواٰت یعنی چھپانے والی چیز ہونا تو یہ قطعاً کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
سوم یہ کہ انسان کے لیے لباس کا صرف ذریعہ ستر پوشی اور وسیلہ زینت و حفاظت ہونا ہی کافی نہیں ہے،بلکہ فی الحقیقت اس معاملے میں جس رہنمائی تک انسان کو پہنچنا چاہیے وہ یہ ہے کہ اس کا لباس تقویٰ کا لباس ہو،یعنی پوری طرح ساتر بھی ہو،زینت میں بھی حد سے بڑھا ہؤا اور حیثیت سے گرا ہوا نہ ہو،فخر و غرور اور تکبر کی کی شان لیے ہوئے بھی نہ ہو اور پھر ان ذہنی امراض کی نمائندگی بھی نہ کرتا ہو جن کی بناء پر مرد زنانہ پن اختیار کرتے ہیں اور عورتیں مردانہ پن کی نمائش کرنے لگتی ہیں،اور ایک قوم دوسری قوم کے مشابہ بننے کی کوشش میں خود اپنی ذلت کا زندہ اشتہار بن جاتی ہے۔لباس کے معاملے میں اس خیر مطلوب کو پہنچنا تو کسی طرح ان لوگوں کے بس میں ہے ہی نہیں جنہوں نے انبیاء پر ایمان لا کر اپنے آپ کو بالکل خدا کی رہنمائی کے حوالے نہیں کر دیا ہے۔جب وہ خدا کی رہنمائی تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں تو شیاطین ان کے سر پرست بنا دیے جاتے ہیں اور وہ ان کو کسی نہ کسی غلطی میں مبتلا کر کے ہی چھوڑتے ہیں۔
چہارم یہ کہ لباس کا معاملہ بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو دنیا میں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں اور حقیقت تک پہنچنے میں انسان کی مدد کرتی ہیں۔ سورہ بقرہ میں آتا ہے:
’’ وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے‘‘ ۔
جس طرح لباس اور جسم کا تعلق اور رشتہ ہے اسی طرح زوجین کا۔زوجین دراصل یک جان دو قالب کا نام ہے،ان کی تمام صفات ایک دوسرے کے سامنے ہوتی ہیں ایک دوسرے کے عیوب و نقائص کی پردہ پوشی ہی دراصل لباس کہ درست تفہیم ہے جس طرح لباس ناگوار چیزوں کی پردہ پوشی کرتا ہے اسی طرح زوجین کو بھی ایک دوسرے کا لباس یوں ہونا چاہیے کہ ایک دوسرے کی ناگوار صفات کو کسی کے سامنے نہ آنے دیں۔اسی طرح دوسرے کی خوبیوں کا معترف اور قدردان رہنا بھی لباس کو زینت بخشتا ہے۔سردو گرم حالات میں ایک دوسرے کا احساس، مضبوط سہارے کی طرح ہوتا ہے۔جس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک ماحول اور علاقے کے جانوروں کو مختلف پوشش عطا کی ہے بالکل ایسے ہی زوجین مختلف النوع خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں یہ فیصلہ انھیں خود کرنا ہوتا ہے کہ اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر انھیں ایک دوسرے کو حالات کے تھپیڑوں سے کیسے تحفظ فراہم کرنا ہے اور سردو گرم سے ایک دوسرے کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرنی ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ہم کن کن طریقوں سے لباس کے مقاصد کو نقصان پہنچا رہے ہیں،لباس کی افادیت ہم پر واضح کیوں نہیں ہوتی۔
ہم اپنے زوج کی عیب پوشی کرتے ہیں بلا تخصیص مرد و عورت۔ اکثر و بیشتر ہم ایسا لباس ثابت ہوتے ہیں جو اپنے زوج کے مقام و مرتبہ کی درست نمائندگی نہیں کرتا،بعض دفعہ ہم اس لباس کے مشابہ ہوتے ہیں جو حالات کی سختیوں میں مناسب تحفظ فراہم نہیں کرتا۔ ظاہری سی بات ہے جب ہم لباس کے مقاصد کو نقصان پہنچاتے ہیں تو اس کی افادیت بھی ہم پر عیاں نہیں ہوتی۔جب ہم اپنے زوج کے عیوب بیان کر رہے ہوتے ہیں تو یقیناً اس وقت ہم ایسے لباس کی مانند ہوتے ہیں جو ستر پوشی کے تقاضے پورے نہیں کر رہا ہوتا۔اس باریک لباس کی مانند جس میں سے بدن جھلکتا ہے ۔لباس کی افادیت ہمیں اس وقت معلوم ہو گی جب ہم کامل لباس کی حیثیت سے اپنی تربیت کر لیں گے۔
جب ہم اپنے زوج کی برائیاں بیان کر رہے ہوتے ہیں ،اس وقت ہم ایسے لباس کی مانند ہوتے ہیں جس میں جا بجا چھید یوں، اور چھدا ہؤا لباس کبھی بھی پسندیدہ نہیں ہوتا۔ ایسا لباس جو چبھن کا باعث ہو یا بھڑکیلا ہو، چند لمحے کے لیے تو آپ کی شخصیت کو نمایاں کر دیتا ہے لیکن باعث سکون نہیں ہوتا ،مستقل بنیادوں پر آپ ہمیشہ ایسے لباس کو ترجیح دیتے ہیں جو موسم کے مزاج کے عین مطابق، آرام دہ اور سکون بخش ہو۔ لہٰذا آپ کو بھی ایسا لباس بننا چاہیئے جو اپنے زوج کے لیے فرحت بخش ہو۔
اس سلسلے میں عموما دو قسم کے رویے مشاہدے میں آتے ہیں۔ایک وہ جن کا لباس ان کے لیے مشکلات پیدا کرے،تنگ ہو،چھبتا ہو،یہاں تک کے پہننا ناگوار ہو جائے اور ناقابل برداشت ہو جائے تو وہ ایک فیصلہ کرتے ہیں اور اسے مسترد کر دیتے ہیں،باوجود قیمتی ہونے کے اور طبیعت پر گراں گزرنے کے وہ اسے اپنے کپڑوں کی الماری سے نکال باہر کرتے ہیں۔پھر وہ افسردہ تو ضرور ہوتے ہیں اتنا بیش قیمت سوٹ ضائع جانے پر،لیکن پچھتاتے نہیں۔
ایک دوسری قسم کا رویہ بھی ہوتا ہے۔جب لباس بھڑکیلا ہونے کے سبب، بناوٹ کے سبب، یا کسی بھی وجہ سے پہننا ناگوار ہو جائے تو وہ اپنے اندر اتنی قوت فیصلہ نہیں پاتے کہ اسے مسترد کر دیں، سوٹ کی نفاست نیز بیش قیمت ہونے کا شعور انہیں مسترد کرنے کے فیصلہ سے باز رکھتا ہے اور پھر وہ باوجود ناگواری کے بعض خوش کن پہلوؤں کو ترجیح دیتے ہیں۔
تا ہم ایک تیسری قسم کا رویہ بھی دیکھنے میں آتا ہے یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کپڑے کے بڑھیا ہونے کا احساس رکھتے ہوئے اپنی شان بھی بڑھاتے رہتے ہیں،نفع بخش بھی سمجھتے ہیں لیکن مستقل،کپڑے کے غیر آرام دہ ہونے کی شکایت بھی کرتے رہتے ہیں۔ نہ مسترد کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں نہ خاموشی سے خوش کن پہلوؤں پر گزارا کرتے ہیں۔
باکل انہی رویوں کا مظاہرہ زوجین کرتے ہیں۔ایک وہ،جو ناگوار صورتحال میں علیحدگی کا فیصلہ کر کے بھی بہترین لباس ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے خاموشی سے الگ ہو جاتے ہیں ہیں، جو انہیں پریشان ضرور کرتا ہے لیکن پچھتاوے کا سبب نہیں بنتا۔دوسری قسم کے زوجین وہ ہوتے ہیں جو ساتھی کے لیےچھدا ہوا لباس ثابت نہیں ہوتے،یعنی ساتھی کی برائیاں جگہ جگہ بیان نہیں کرتے پھرتے۔اور ساتھی کی بعض اچھائیوں کو بعض ناگوار۔باتوں پر مقدم رکھتے ہیں۔
تیسری قسم کے زوجین وہ ہوتے ہیں جو اپنے ساتھی کے لیے چھدا ہؤا لباس ثابت ہوتے ہیں،نفع بخش پہلوؤں کی بنا پر تعلق بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں لیکن کم ظرفی کی بنا پر ساتھی کے کمزور پہلوؤں کو رگیدتے بھی رہتے ہیں۔یقیناً ایسے لباس پسندیدہ نہیں ہوتے۔
بہرحال اللہ ہمیں لباس کی ان تینوں صفات پر بہترین عمل کرنے والا بنائے جو لباس کا خاصہ ہیں۔ہمیں ایسا لباس بننے کی توفیق دے جو ہمسفر کی ستر پوشی کرنے والا ہو،حالات کی سختی و نرمی میں بہترین رفیق ہو،ساتھی کی خوبصورتی ورعنائی کو عیاں کرنے والا ہو،اس کے وقار اور مرتبے کا خیال رکھنے والا ہو، اور سب سے بڑھ کر تقویٰ والا لباس ہو۔آمین
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x