ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

یتیم کے حقوق – بتول اپریل ۲۰۲۳

جس بچے کے سرسے باپ کا سایہ اٹھ جائے ٗ وہ شریعت کی اصطلاح میں ’’یتیم‘‘ ہے اور چونکہ یتیم کی حفاظت کرنے والا ٗ اس کی ضروریات پوری کرنے والا اور اسے کما کر کھلانے والا موجود نہیں ہوتا ٗ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے خاص حقوق قائم کر رکھے ہیں تاکہ اس کی زندگی میں جو محرومی آگئی ہے اس کی تلافی ہو سکے۔
کلام پاک اور احادیث نبویہؐ کی روشنی میں یتیم ایک ایسی ہستی ہے جس کی کفالت کرنے والے ٗ نگرانی کرنے والے اور اس سے حسن سلوک کرنے والے کو بے پناہ اجر کی بشارت دی گئی ہے۔ یتیم غریب بھی ہو سکتا ہے اور امیر بھی ٗ مگر دونوں طرح کے یتیموں کی نگرانی کرنے یا ان سے حسن سلوک کرنے کو بہت بڑا ثواب قرار دیا گیا ہے اور یتیم کے نگران کو خاص ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ اس کے بارے میں ایسا رویہ اختیار کرے جس میں یتیم کا فائدہ ہو۔
امیر یتیم کے نگران کی ایک تو یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس یتیم کی حفاظت کرے اور اس کے کاموں کا بندوست کرے اور دوسرے اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ یتیم کے مال کی بھی حفاظت کرے تاکہ اس کے بڑے ہونے تک وہ مال ختم ہی نہ ہو جائے۔ امیر یتیم کے نگران کو تنبیہہ فرمائی گئی ہے کہ وہ یتیم کے مال کو خیانت سے غصب نہ کرے۔ ورنہ وہ بہت بڑے عذاب کا مستحق ہو گا۔ اگر نگران خود صاحب حیثیت ہے تو اسے یتیم کے مال میں سے کچھ بھی نہیں لینا چاہیے۔ لیکن اگر وہ غریب محتاج ہے تو اسے شریعت کی طرف سے اجازت ہے کہ یتیم کی نگرانی کرنے کے عوض اس کے مال سے مناسب عوضانہ لے لے۔
یتیم کے ساتھ حسن سلوک کو اتنی بڑی نیکی سمجھا گیا ہے کہ بیوہ ماں اگر خود اپنے ٗ یتیم بچوں پر خرچ کرے اور ان سے حسن سلوک اور خیر خواہی کرے تو وہ بھی ثواب کی حقدار ہو گی۔ ذیل کی آیات و احادیث میں ان سب ہدایات کی توضیح فرما دی گئی ہے۔
یتیم کی کفالت اور اس سے حسن سلوک کی تاکید اور فضیلت
سورۃ النساء آیت ۱۲۷ میں فرمایا گیا ہے: ’’اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ یتیموں کے بارے میں انصاف پر قائم رہو۔
سورۃ الدھر ٗ آیات ۷ اور ۸ میں ابرار یعنی نیکو کاروں کی صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ’’ نذر پوری کرتے ہیں۔اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہو گی اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں‘‘۔
حضرت سہلؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔ اور آپؐ نے انگشت شہادت اور درمیان والی انگلی سے اشارہ کیا اور ان کے درمیان کچھ کشادگی رکھی۔ (بخاری)
چونکہ یہ دونوں انگلیاں ایک دوسرے کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اس لیے حضورؐ نے ان کے ساتھ اشارہ کرکے فرمایا کہ اس طرح میں اور یتیم کا کفیل بھی جنت میں ساتھ ساتھ ہوں گے۔ جنت میں حضورؐ کا ساتھ حاصل ہونا حد درجے اعزاز کی بات ہو گی اور یہ اعزاز اس شخص کو بھی حاصل ہو جائے گا جس نے زندگی میں کسی یتیم کی کفالت کی ہو گی۔
حضرت عبداللہؓ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے مسلمانوں میں سے کسی یتیم کو لے لیا اور اسے اپنے کھانے اور پینے میں شریک کر لیا ٗ اللہ تعالیٰ ضرور با لضرور اسے جنت میں داخل کرے گا ٗ سوائے اس کے کہ اس نے کوئی ایسا جرم کیا ہو جو ناقابل معافی ہو۔
حضرت ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا (اور) صرف خدا

کی خوشنودی حاصل کرنے ہی کے لیے پھیرا تو سر کے جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ پھرا ٗ ہر ہر بال کے بدلے اسے نیکیاں ملیں گی اور جس نے اپنے پاس رہنے والی کسی یتیم بچی یا یتیم بچے سے حسن سلوک کیا تو میں اور وہ جنت میں ان دو (انگلیوں) کی طرح (پاس پاس) ہوں گے اور آپؐ نے اپنی دو انگلیوں کو ملایا (کہ اس طرح پاس پاس)۔ (احمد ٗ ترمذی)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضورؐ میں اپنے دل کی سختی کی شکایت کی۔ حضورؐ نے (اسے دل کی سختی دور کرنے کا علاج یہ) بتایا کہ یتیم کے سر پر (شفقت سے) ہاتھ پھیرا کر اور مسکین کو کھانا کھلایا کر۔ (رواہ احمد)
ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کے اپنے میاں حضرت ابو سلمہؓ سے بچے تھے۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ اگر میں ابو سلمہؓ کے بچوں پر خرچ کروں تو کیا مجھے ثواب ملے گا۔ میں انہیں اس طرح (فقر کی حالت میں) چھوڑ نہیں سکتی کہ وہ میرے ہی بچے ہیں۔ (اس پر) حضورؐ نے فرمایا کہ ہاں ٗ جو کچھ تو ان پر خرچ کرے گی تجھے اس کا اجر ملے گا۔ (بخاری)
یتیم کے مال کی حفاظت
سورۃ النساء آیت ۱۰ میں فرمایا گیا ہے:
’’جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے‘‘۔
’’حدیث میں آیا ہے کہ جنگ احد کے بعد حضرت سعدؓ بن ربیع کی بیوی اپنی دو بچویں کو لیے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ ٗ یہ سعدؓ کی بچیاں ہیں جو آپؐ کے ساتھ احد میں شہید ہوئے ہیں۔ ان کے چچا نے پوری جائداد پر قبضہ کر لیا ہے اور ان کے لیے ایک حبہ تک نہیں چھوڑا ہے ٗ اب بھلا ان بچیوں سے کون نکاح کرے گا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں‘‘۔ (تفہیم القرآن ٗ جلد اول ٗ صفحہ ۳۲۵)
سورۃ النساء آیت ۲ میں ارشاد ہؤا ہے۔
’’یتیموں کے مال ان کو واپس دو ٗ اچھے مال کو برے مال سے نہ بدل لو اور ان کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھائو۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے‘‘۔
یہاں یتیم کے مال کے بارے میں تین حکم دیے گئے ہیں:
۱۔یتیم کو اس کا مال واپس دو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک یتیم نابالغ ہے اس کے مال کی حفاظت کرو اور اسے اس کے مفاد پر صرف کرو۔ پھر جب یتیم سن رشد کو پہنچ جائے تو دیانتداری سے اس کا مال اس کے حوالے کر دو۔
۲۔دوسرا حکم یہ ہے کہ اچھے مال کو برے مال سے نہ بدل لو۔ اس کی تشریح میں بتایا گیا ہے کہ اس کا ایک مفہوم تو یہ ہو سکتا ہے کہ حلال کی کمائی کے بجائے حرام خوری نہ کرنے لگو اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ یتیم کے اچھے مال کو خود لے کر اس کی جگہ برا مال نہ دو۔
۳۔تیسری ہدایت یہ دی گئی ہے کہ اس کے مال کو اپنے مال میں ملا کر نہ کھائو۔ اس کی ایک صورت تو اس طرح ہو سکتی ہے کہ یتیم کا مال اور اپنا مال ملا کر خرچ کیا جائے مگر خرچ اس طرح کیا جائے کہ اپنا مال کم خرچ ہو اور اس کا زیادہ ہو جائے اور اس طرح یتیم کا نقصان ہو ٗ یا پھر دوسری شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یتیم کے مال پر قبضہ کرکے اسے اپنے مال میں ملا لیا جائے اور اپنے صرف میں لایا جائے۔
یتیم کے مال میں خیانت کرنے کی ان سب شکلوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ایسا کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
سورۃ الانعام ٗ آیت ۱۵۲ میں فرمایا گیا ہے:
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سات ہلاک کر دینے والی چیزوں سے بچو۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ ٗ وہ کیا ہیں۔ آپؐ نے فرمایا:
۱۔خدا کے ساتھ شرک کرنا۔
۲۔اور جادو۔
۳۔اور اس جان کو قتل کرنا جسے خدا نے محترم قرار دیا ہو سوائے اس کے کہ اسے حق سے قتل کیا جائے۔

۴۔اور سود کھانا۔
۵۔اور یتیم کا مال کھانا۔
۶۔اور کافروں کے مقابلے میں جنگ کرتے ہوئے پیٹھ دکھانا۔
۷۔اور پاکدامن ٗ مومن ٗ بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگانا۔ (بخاری ٗ مسلم)
یہاں حضورؐ نے یتیم کا مال کھانے کو ان سات چیزوں میں شمار کیا ہے جو ہلاک کر دینے والی ہیں۔
یتیم سے بدسلوکی کرنے کی ممانعت
سورۃ الضحی آیت ۹ میں فرمایا گیا ہے:
’’لہٰذا یتیم پر سختی نہ کرو‘‘۔
سورۃ الماعون میں آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلانے والے شخص کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ
’’یتیم کو دھکے دیتا ہے‘‘۔
تفہیم القرآن جلد ششم میں اس کی تشریح کرتے ہوئے بیان ہؤا ہے:
یَدْعُّ الْیَتِیْمَکے کئی معنی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ یتیم کا حق مار کھاتا ہے اور اسے اس کے باپ کی چھوڑی ہوئی میراث سے بے دخل کرکے اسے دھکے مار کر نکال دیتا ہے۔ دوسرے یہ کہ یتیم اگر اس سے مدد مانگنے آتا ہے تو رحم کھانے کے بجائے اسے دھتکار دیتا ہے اور پھر بھی اگر وہ اپنی پریشان حالی کی بناء پر رحم کی امید لیے کھڑا رہے تو اسے دھکے دے کر دفع کر دیتا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ یتیم پر ظلم ڈھاتا ہے۔ مثلاً اس کے گھر میں اگر اس کا اپنا ہی کوئی رشتے دار یتیم ہو تو اس کے نصیب میں سارے گھر کی خدمت گاری کرنے اور بات بات پر جھڑکیاں اور ٹھوکریں کھانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ علاوہ بریں اس فقرے میں یہ معنی بھی پوشیدہ ہیں کہ اس شخص سے کبھی کبھار یہ ظالمانہ حرکت سرزد نہیں ہو جاتی بلکہ اس کی عادت اور اس کا مستقل رویہ یہی ہے۔ اسے یہ احساس ہی نہیں ہے کہ یہ کوئی برا کام ہے جو وہ کر رہا ہے بلکہ وہ بڑے اطمینان سے یہ روش اختیار کیے رکھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ یتیم ایک بے بس اور بے یار و مددگار مخلوق ہے۔ اس لیے کوئی ہرج نہیں اگر اس کا حق مار کھایا جائے یا اسے ظلم و ستم کا تختہ مشق بنا کر رکھا جائے یا وہ مدد مانگنے کے لیے آئے تو اسے دھتکار دیا جائے—– اس سلسلے میں میں ایک بڑا عجیب واقعہ قاضی ابو الحسن الماوردی نے اپنی کتاب ’’اعلام النبوۃ‘‘ میں لکھا ہے۔ ابوجہل ایک یتیم کا وصی تھا۔ وہ بچہ ایک روز اس حالت میں اس کے پاس آیا کہ اس کے بدن پر کپڑے تک نہ تھے اور اس نے التجا کی کہ اس کے باپ کے چھوڑے ہوئے مال میں سے وہ اسے کچھ دے دے۔ مگر اس ظالم نے اس کی طرف توجہ تک نہ کی اور وہ کھڑے کھڑے آخرکار مایوس ہو کر پلٹ گیا۔ قریش کے سرداروں نے ازراہ شرارت اس سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جاکر شکایت کرو ٗ وہ ابوجہل سے سفارش کرکے تجھے تیرا مال دلوا دیں گے ٗ بچہ بیچارہ ناواقف تھا کہ ابوجہل کا حضورؐ سے کیا تعلق ہے اور یہ بدبخت اسے کس غرض کے لیے یہ مشورہ دے رہے ہیں۔ وہ سیدھا حضورؐ کے پاس پہنچا اور اپنا حال آپؐ سے بیان کیا۔ آپؐ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر اپنے بدترین دشمن ابوجہل کے ہاں تشریف لے گئے۔ آپؐ کو دیکھ کر اس نے آپؐ کا استقبال کیا اور جب آپؐ نے فرمایا کہ اس بچے کا حق اسے دے دو تو وہ فوراً مان گیا اور اس کا مال لاکر اسے دے دیا۔ قریش کے سردار تاک میں لگے ہوئے تھے کہ دیکھیں ان دونوں کے درمیان کیا معاملہ پیش آتا ہے۔ وہ کسی مزے دار جھڑپ کی امید کر رہے تھے مگر جب انہوں نے یہ معاملہ دیکھا تو حیران ہو کر ابوجہل کے پاس آئے اور اسے طعنہ دیا کہ تم بھی اپنا دین چھوڑ گئے۔ اس نے کہا کہ خدا کی قسم ٗ میں نے اپنا دین نہیں چھوڑا۔ مگر مجھے ایسا محسوس ہؤا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دائیں اور بائیں ایک ایک حربہ ہے جو میرے اندر گھس جائے گا ٗ اگر میں نے ذرا بھی ان کی مرضی کے خلاف حرکت کی۔ اس واقعے سے نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں عرب کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور معزز قبیلے تک کے بڑے بڑے سرداروں کا یتیموں اور دوسرے بے یار و مددگار لوگوں کے ساتھ کیا سلوک تھا بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کس بلند اخلاق کے مالک تھے اور آپؐ کے اس اخلاق کا آپؐ کے بدترین دشمنوں تک پر کیا رعب

تھا‘‘۔
حضورؐ کی تعلیمات نے ان سخت مزاج لوگوں کی فطرت کو کیسے بدل دیا—- سیرۃ النبیؐ جلد ششم میں یتیموں کے حقوق بیان کرتے ہوئے سید سلیمان ندوی اس کی یوں وضاحت فرماتے ہیں:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تعلیمات نے عرب کی فطرت بدل دی وہی دل جو بیکسں اور ناتواں یتیموں کے لیے پتھر سے زیادہ سخت تھے ٗ موم سے زیادہ نرم ہو گئے۔ ہر صحابیؓ کا گھر ایک یتیم خانہ بن گیا۔ ایک ایک یتیم کے لطف و شفقت کے لیے کئی کئی ہاتھ آگے بڑھنے لگے اور ہر ایک اس کی پرورش و کفالت کے لیے اپنے آغوش محبت کو پیش کرنے لگے۔ بدر کے یتیموں کے مقابلے میں جگر گوشہ رسولؐ فاطمہ بتولؓ اپنے دعوے کو اٹھا لیتی ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ اپنے خاندان اور انصار وغیرہ کی یتیم لڑکیوں کو اپنے گھر لے جا کر دل و جان سے پالتی ہیں۔ حضرت عبداللہؓ بن عمرؓ صحابی کا یہ حال تھا کہ وہ کسی یتیم بچے کو ساتھ لیے بغیر کبھی کھانا نہیں کھاتے تھے۔
آج دنیا کے شہر شہر میں یتیم خانے قائم ہیں مگر اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی یہ بدقسمت مگر وہ اس نعمت سے آشنا تھا ٗ تو تاریخ کی زبان سے جواب نفی میں ملے گا۔ اسلام پہلا مذہب ہے جس نے اس مظلوم فرقے کی دادرسی کی ٗ عرب پہلی سر زمین ہے جہاں کسی یتیم خانے کی بنیاد پڑی اور اسلام کی حکومت دنیا کی پہلی حکومت ہے جس نے اس ذمہ داری کو محسوس کیا اور عرب ٗ مصر ٗ شام ٗ عراق ٗ ہندوستان جہاں جہاں مسلمانوں نے اپنی حکومتوں کی بنیادیں ڈالیں ٗ ساتھ ساتھ ان مظلوموں کے لیے بھی امن و چین کے گھر بنائے ٗ ان کے وظیفے مقرر کیے ٗ مکتب قائم کیے ٗ جائیدادیں وقف کیں اور دنیا میں ایک نئی انسٹی ٹیوشن کی طرح ڈالی اور اپنے قاضیوں کا یہ فرض قرار دیا کہ وہ ان یتیموں کے سرپرست بنیں جن کے والی اور سرپرست موجود نہ ہوں اور ان کی جائدادوں کی نگرانی ٗ ان کے معاملات کی دیکھ بھال اور ان کی شادی بیاہ کا بندوبست کریں‘‘۔
(جاری ہے )
٭…٭…٭

بیوہ کے حقوق
یتیم بچوں کے بعد سب سے زیادہ ناتواں اور شفقت و ہمدردی کا مستحق طبقہ بیوہ عورتوں کا ہے۔ وہ ان ساتھیوں سے محروم ہو چکی ہوتی ہیں جنہوں نے انہیں حفاظت بہم پہنچانی تھی ٗ ان کی ضروریات کو پورا کرنا تھا اور زندگی کی ہر نرمی سختی میں ان کی رفاقت کا حق ادا کرنا تھا۔ شوہر کی وفات بیوی کے لیے صرف جذباتی صدمہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے اس کی ضروریات بھی متاثر ہوتی ہیں اور عورت جو انسان ہونے کے باعث روح اور مادے کا مرکب ہے۔ شوہر سے محروم ہو جانے کے باعث جذباتی اور مادی دونوں اقسام کے اندوہ اور اندیشوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ ایسے حالات بھی عام دیکھے جا سکتے ہیں جہاں میاں بیوی کے تعلقات خوشگوار نہیں تھے اور زندگی بے اتفاقی میں کٹ رہی تھی مگر جب شوہر قضائے الٰہی سے وفات پا گیا تو بیوی غم و الم سے چور ہو گئی ٗ کیونکہ اس انسان کے اس کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے نکل جانے کے بعد اسے پتہ چلا کہ اس کے مخصوص معیار پر پورا نہ اترنے کے باوجود اس کے شوہر نے اس کی اور اس کے بچوں کی کتنی ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی تھیں… غرضکہ شوہر کی وفات بیوی کے لیے ایک بہت بڑا جذباتی اور مادی غم ہے اور جو عورت اس غم کے چنگل میں پھنس جائے معاشرے کا فرض ہے کہ اس کے غم و الم کو کم کرنے اور اسے احساس محرومی سے بچانے کے لیے جو کچھ بھی کر سکتا ہے کرے۔
اسلام نے بیوہ کو جو حقوق عطا کیے ہیں ان کی وضاحت کرنے سے پہلے یہ بیان کر دینا مفید ہو گا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مختلف اقوام میں بیوہ عورت سے کیسی بدسلوکی روا رکھی جاتی تھی۔ سید سلیمان ندویؒ نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا ہے ٗ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ
’’یہودیوں میں بیوہ عورت ایک بھائی کے مرنے کے بعد دوسرے بھائی کی ملک ہو جاتی تھی۔ وہ جس طرح چاہتا تھا ٗ اس کے ساتھ معاملہ کر سکتا تھا… عیسائیوں کے ہاں یہ جبری قانون تو جاتا رہا مگر وہ کوئی دوسرا ایجابی پہلو بھی پیش نہ کر سکے… ہندوئوں میں شوہر کی وفات کے بعد بیوی کی زندگی کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی تھی ٗ اب اس کے لیے یہی مناسب تھا کہ اپنے شوہر کی چتا سے لپٹ کر بے موت مر جائے ٗ اور اگر وہ زندہ رہے بھی تو اس صورت میں کہ دنیا کی تمام آرائشوں اور لذتوں سے علیحدہ ہو کر ساری عمر سوگ میں گزار دے… عربوں میں رواج یہ تھا کہ بیوہ شوہر کے وارثوں کی ملکیت بن جاتی تھی اور وہ جو چاہتے اس کے ساتھ کر سکتے تھے۔ اس کو تکلیفیں دے دے کر اس سے مہر معاف کراتے تھے اور اس کو اپنی مرضی کے بغیر کہیں شادی نہیں کرنے دیتے تھے‘‘۔ (سیرۃ النبیؐ جلد ششم)
اسلام آیا تو جہاں اور بہت سے مظلوم طبقات کی دادرسی ہوئی وہاں بیوہ عورتوں کی بھی سنی گئی۔ اسلام نے بیوہ عورتوں کو جو حقوق دیے وہ مختصراً حسب ذیل ہیں:
نکاح ثانی
حقیقت یہ ہے کہ نکاح ثانی کی اجازت عورت کے لیے خدا کی ایک رحمت ہے اور اس کا ایک مفید حق ہے۔ لہٰذا یہ عجیب بات ہے کہ عورت ایک طرف تو اپنے حقوق کے لیے چیخ و پکار کرے اور دوسری طرف ایک ایسے حق کو جو خدا تعالیٰ نے اسے عطا فرمایا ہؤا ہے ٗ استعمال نہ کرنے پر مصر رہے۔ نکاح ثانی کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اس سے چھن گیا ہے وہ سب کچھ وہ دوبارہ حاصل کر لے۔ لہٰذا بیوہ کا اولین حق جو اسلام نے بربنائے رحمت اسے عطا فرمایا ہے یہی ہے کہ وہ بیوگی کی غم ناک اور ایک حد تک خطرناک فضا سے باہر نکل آئے اور دوبارہ سہاگنوں کی محفوظ اور بہت حد تک پرسکون اور آرام وہ زندگی کو اختیار کر لے۔ ہاں البتہ ٗ جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے۔ اگر اس کے پاس کوئی ایسا شرعی عذر ہے جس کے باعث وہ نکاح ثانی نہیں کرنا چاہتی اور اسے خطرہ ہے کہ نکاح ثانی سے اس کے یتیم بچوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچے گا اور اپنے طبعی میلان کی بناء پر اسے یقین ہے کہ وہ انشاء اللہ نیکی کی زندگی گزارے گی تو پھر اسے مجبور بھی

نہیں کیا گیا کہ وہ ضرور ہی نکاح ثانی کرے۔ پہلے نکاح ہی سے اس نے سنت کا اتباع تو کر ہی لیا ہے۔
رشتہ منتخب کرنے کا اختیار
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بیوہ اپنے نکاح کے معاملے میں کلی طور پر خود مختار ہے اور کوئی اسے اپنی رائے کا پابندی کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ نہ مرحوم شوہر کے رشتے دار اور نہ اس کے اپنے رشتہ دار کوئی بھی اسے مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ کسی خاص رشتے کو قبول کرے یا کسی خاص رشتے کو قبول نہ کرے۔ ولی کی اجازت جو علماء کے ایک گروہ کے نزدیک کنواری لڑکی کے لیے ضروری ہے ٗ بیوہ کے لیے ضروری نہیں ہے۔ بیوہ معروف طریقے سے اپنے لیے جو رشتہ مناسب سمجھے وہاں نکاح کر سکتی ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کنواری لڑکی کا نکاح نہ کیا جائے ٗ جب تک کہ اس سے اجازت نہ لی جائے اور بیوہ کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے حکم نہ لیا جائے… (بخاری)
یہاں لفظ ’’حکم‘‘ نکاح کے معاملے میں بیوہ کے اختیار کو پوری طرح واضح کیے دے رہا ہے۔
آرائش اور سنگھار کا حق
بیوہ عورت جب اپنی عدت چار مہینے اور دس دن گزار لے تو
اس کے بعد اس بات کا پورا پورا حق حاصل ہے کہ وہ شرعی حدود کے اندر آرائش و زیبائش سے کام لے۔ بیوہ کے بارے میں یہ سمجھنا کہ اب اسے بننے سنورے اور آرائش کرنے کا گویا کوئی حق ہی حاصل نہیں رہا ٗ جاہلانہ خیال ہے اور غیر اسلامی تہذیبوں کی دیکھا دیکھی اختیار کیا گیا ہے۔ بیوہ کو بھی اچھا کھانے ٗ اچھا پہننے اور خوش و خرم رہنے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا سہاگن کا یا ناکتخدا کو۔
بیوہ سے ہمدردی اور حسن سلوک کی فضیلت
اگر کوئی بیوہ نیک نیتی سے بیوگی ہی کی زندگی کو اپنے اور اپنے بچوں کے لیے مناسب سمجھتی ہے اور نکاح ثانی نہیں کرتی تو پھر خاوند کے بعد جس رشتے دار پر اس کی کفالت شرعاً لازم آتی ہو ٗ اس کا فرض ہے کہ اس کی کفالت کرے اور بیوہ خواتین سے حسن سلوک اور ہمدردی کرنا ٗ ان کے بگڑے کام بنانے کی سعی کرنا اور ان کی عزت کرنا ہر مسلمان کے لیے باعث اجر و ثواب ہے۔ صحیح بخاری میں عمر بن میمون کی ایک روایت بیان ہوئی ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ حضرت عمرؓ بن خطاب نے فرمایا کہ اگر خدا نے مجھے سلامت رکھا تو میں عراق کی بیوہ عورتوں کو اتنا خوش حال کر دوں گا کہ پھر میرے بعد وہ کبھی بھی کسی کی محتاج نہ ہوں گی۔ عمر بن میمون کہتے ہیں کہ اس واقعے کے چوتھے ہی دن حضرت عمر ؓ شہید کر دیے گئے! (بخاری)
زید بن اسلم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عمرؓ بن خطاب کے ساتھ بازار کی طرف گیا۔ وہاں حضرت عمرؓ کو ایک جوان عورت ملی اور کہنے لگی کہ اے امیر المومنین ٗ میرا شوہر مر گیا ہے اور چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ گیا ہے۔ خدا کی قسم ٗ ان کے پاس بکری کا ایک پایہ بھی پکانے کے لیے نہیں ہے۔ نہ ان کے پاس کوئی کھیتی ہے نہ دودھ والا جانور۔ مجھے خطرہ ہے کہ قحط انہیں ہلاک کر دے گا اور میں خفاف بن ایماء غفاریؓ کی بیٹی ہوں۔ میرا باپ (صلح) حدیبیہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا (یہ سن کر) حضرت عمرؓ اس کے پاس کھڑے ہو گئے اور آگے نہ گئے ٗ پھر فرمایا۔ ’’مرحبا ٗ تمہارا نسب تو میرے نسب سے ملتا ہؤا ہے‘‘۔ پھر آپ ایک طاقتور اونٹ کی طرف آئے ٗ جو گھر میں بندھا ہؤا تھا ٗ اور اس پر دوبوریاں رکھیں اور انہیں اناج سے بھر دیا اور ان کے درمیان نقدی اور کپڑے رکھ دیے ٗ پھر اس کی رسی عورت کے ہاتھ میں دے دی اور فرمایا کہ اسے لے جائو ٗ اس کے ختم ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو اس سے بہتر عطا کر دے گا (اس پر) ایک آدمی نے کہا کہ یا امیر المومنین۔ آپؓ نے تو اس عورت کو بہت دے دیا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: تیری ماں تجھے کھوئے ٗ خدا کی قسم ٗ میں نے اس کے باپ اور بھائی کو دیکھا کہ انہوں نے ایک مدت تک ایک قلعے کا محاصرہ کیے رکھا یہاں تک کہ اسے فتح کر لیا… (بخاری)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم

نے فرمایا کہ بیوہ اور مسکین کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا (ثواب ملنے کے لحاظ سے) اس شخص کی مانند ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہو یا (اس کی مانند ہے) جو رات بھر کھڑا عبادت کرتا ہو اور دن بھر روزہ رکھتا ہو۔ (بخاری)
٭…٭…٭

 

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x