ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

میرے نبیؐ، میرے نبیؐ – بتول اکتوبر ۲۰۲۱

میرے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے میرا رشتہ اسلام اور ایمان کا ہے۔ وہ میرے رسول ، خاتم النبیین،اور رحمت اللعالمین ہیں۔ میں ان کی ایک ادنیٰ امتی اور پیروکار ہوں۔ ان پر آخری نبی ہونے کی حیثیت سے ایمان کامل رکھتی ہوں، دوجہاں کے لیےان کی رحمت عام میں سے حصہ دار ہوں۔ خاص کرعورتوں کے لیے ان کی رحمت سے فیض یاب ہوتی ہوں۔
میں یقین کامل رکھتی ہوں کہ اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ سے تعلق کے بعد دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے میرے سارے تعلق، سارے رشتے، اور معاملات نبیؐ مہربان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ میرا اپنے نبیؐ الصادق الامین سے تعلق دنیا کی سرحدوں سے ماورا عالم برزخ اور پھر عالم آخرت تک وسیع ہے ۔میں قبر میں ان کے رسول ہونے کا اعتراف کروں گی ان شاء اللہ۔ میں روز قیامت ان کی امتی کی حیثیت سے پہچانی جاؤں گی۔ اور ان کے دستِ مبارک سے حوض کوثر پر جام کوثر حاصل کرنے اور پینے کی خواہش مند ہوں گی۔ اور ان کی شفاعت کی امیدوار بھی ہوں گی۔
نبی ؐ آخر الزماں میرے معلم و رہنما ہیں۔ میں وحی الٰہی کے علم کے حصول کے لیے ان کی کامل محتاج ہوں۔ میں ان کی روحانی شاگرد ہوں اور ہر لحظہ ان کی رہنمائی کی ضرورت مند ہوں ۔آپؐ امی لقب تھے اور دنیا میں آپؐ نے کسی استاد سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی بلکہ آپ کی تعلیم وتربیت خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی تھی۔
آپؐ امت کے لیے باپ کی طرح شفیق و مہربان ہیں، لہٰذا آپؐ کو مسلمانوں کی تکلیف حد سے زیادہ گراں گزرتی اور ان کی آسانی و بھلائی آپؐ کے لیے باعث راحت ہوتی تھی۔ بھلا ان جیسی مہربان ہستی بھی کوئی ہوسکتی ہے جو سجدوں اور دعاؤں میں قیامت تک آنے والی امت مسلمہ کے لیے’’امتی، امتی‘‘ پکار پکار کر ان کے لیے دعائیں کرتی رہے؟
اگر میں بالخصوص بحیثیت صنف نازک ان سے اپنے رشتے اور تعلقات کا جائزہ لوں تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ نبیؐ کریم سے میرے تعلق کی سرحدیں لامحدود ہیں۔ وہ میرے لیے میرے جان ومال اور دیگر ہر چیز، ہر تعلق، ہر رشتے سے بڑھ کر معزز و محترم ہیں۔ آپؐ نے امت کی خواتین کے لیے اللہ کے حکم سے بہت سی آسانیاں فرمائیں، حقوق نسواں کے علمبردار اور مہربان بن کر مجھے میرے حقوق و فرائض سے روشناس کروایا۔انہوں نے زمانہ جاہلیت سے جاری میری تذلیل کا سلسلہ روک کر عزت و فضیلت سے نوازا ہے۔ نیکی اور تقویٰ کی بنا پر مجھے مردوں کے برابر اجرو ثواب کی حقدار ہونے کی خوشخبری سنائی ہے۔ مجھے مرد کی زندگی میں بہت اہم حیثیت اور کردار کا حامل ٹھہرایاہے اور میرا مقام و مرتبہ نہایت بلند کر دیا ہے۔
بحیثیت ماں مجھے عظمت کے اوج ثریا تک پہنچا دیا ہے۔ جنت میرے قدموں تلے رکھ دی ہے۔ مجھے باپ سے تین گنا زیادہ مقام عطا ہؤا ہے۔ حمل کے کٹھن مراحل، حیات و ممات کی کشمکش میں مبتلا ہو کر بچوں کی پیدائش، رضاعت کے مشکل ومصروف دو برس، اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت …..یہ سب فطری ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے مجھے ایک ایک لمحے پر اجرکی خوش خبری دی گئی ہے۔ اس سے زیادہ کیا قدردانی ہوگی!
بحیثیت بیٹی مجھے بیٹے کے برابر حقوق دیے، والدین کو بیٹے اور بیٹی کے درمیان فرق کرنے سے منع کر دیا۔ دو بیٹیوں یا دو بہنوں کی پرورش کرنے والے باپ، بھائی کو جنت میں اپنی ہمسائیگی کی خوش خبری دی ہے۔ اپنی سگی بیٹیوں سے محبت اور ان کی عزت و تکریم کرکے والدین خصوصاً والد کو مجھ بیٹی کی پیدائش پر خوش ہونے اور مجھے رحمت سمجھنے کا عملی درس دیا ہے۔

بحیثیت بیوی مجھے بہترین متاع دنیا، آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور قرار دیا ہے۔شادی کے معاملے میں میری پسند و ناپسند اور مفاہمت کو مکمل اہمیت دی ہے۔میرے شوہر کے لیے مجھے بحیثیت بیوی اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانے کا ثواب رکھا۔ اس کی کمائی میں میرا حصہ رکھا لیکن اپنی کمائی کی میں خود مالکہ ہوں۔
’’عورت اور مرد ایک دوسرے کا لباس ہیں ‘‘ جیسا بے مثال فرمان قرآن مجید میں نازل فرمایاجس نے اپنے شوہر سے میرے رشتے کو تقدس دیا اور مجھے عزت واکرام کے گویا آسمان پر پہنچا دیا۔
’’عورتوں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو‘‘ کا فرمان شوہروں کی رہنمائی کے لیے جاری فرمایا ہے۔حجۃ الوداع کے تاریخی موقع پر فرمایا:
’’تم نے انہیں (عورتوں کو) اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور کلمے کے ذریعے حلال کیا ہے‘‘ (صحیح مسلم و سنن ابو داؤد)
اگر اسلام نے میرے شوہر کو طلاق کا حق دیا ہے تو مجھے بھی ازدواجی زندگی کا بوجھ اٹھا نہ پانے کی صورت میں خلع کا حق دیا ہے۔مجھے بیوہ ہونے کی صورت میں دوسری شادی کرنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ میرے ولی کو حکم دیا کہ وہ مجھے شادی کرنے سے نہ روکے بلکہ اس معاملے میں میری مدد کرےاور مجھے بھرپور سپورٹ کرے۔
نبیؐ مہربان کے لائے ہوئے دین نے بطور انسان میری گواہی کو معتبر بنایا۔مجھے وراثت میں حصہ دلوایا۔میرے قتل کی صورت میں میری دیت مقرر کی۔غرض میری صنف کو ان کی تمام حیثیتوں میں بہترین مقام دلایا ہے۔
بھلا میں ان نعمتوں کی شکر گزاری کیسے کر سکتی ہوں؟
میرے لیے اس شکرگزاری کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ میں نبیؐ کریم پرآنے والی کتاب کو ، اور اس کتاب پر ان کے عمل کے طریقے کو اپنی زندگی کا حصہ بناؤں،اور اس کلمے کی سربلندی میں اپنا کردار امانت داری سے ادا کروں۔ اللہ مجھے اس کی توفیق دے آمین۔
٭ ٭ ٭ ≠

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x