ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

خاص مضمون – اہلِ فلسطین کی جدوجہد تاریخی تناظرمیں – افشاں نوید – ترتیب و ترمیم: صائمہ اسما

غزہ کی پٹی پر فلسطینیوں پر مظالم بڑھنے کی خبریں جب میڈیا پر موضوع بنتی ہیں تو نوجوان نسل کے ذہن میں سوال اٹھ سکتے ہیں کہ آخر فلسطین کا مسئلہ ہے کیا؟
فلسطین انبیا کی مقدس سرزمین ہے۔ توریت و انجیل میں جس نبیِ برحقؐ کے آنے کی خوش خبری تھی الحمدللہ اس نبی ؐکی امت میں ہونے کا شرف ہمیں حاصل ہے ۔جس مسجد اقصیٰ کے اطراف بمباری کی جاتی ہے، اس کی بے حرمتی کی کوششیں کی جاتی ہیں ،اسی مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کرکے ہمارے نبی پاک ؐ نے سترہ ماہ نماز ادا فرمائی تھی۔ اس مقامِ مبارک سے آپؐ معراج کے سفر پر تشریف لے گئے تھے جہاں آپؐ نے انبیا ؑ کی امامت فرمائی۔ یہ عالم اسلام کے تین مقدس مقامات میں سے ایک ہے۔
ہمارے چھوٹے سے گھر پر کوئی ناجائز قبضہ کر لے تو ہم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پہنچ جاتے ہیں۔ راتوں کی نیند اچاٹ ہو جاتی ہے۔
کیا اپنے اتنے مقدس مقام کو ہم خدا کے باغیوں، توہین رسالتؐ کرنے والوں، انبیا ؑ کو قتل کرنے والے اسرائیلیوں کے حوالے کر دیں؟
اگر نہیں اور یقیناً ہمارے دل کی گہرائی سے نکلے گا کہ ’’نہیں‘‘! تو پھر ہمیں مسئلۂ فلسطین کی تاریخ کو سنجیدگی سے سمجھنا ہو گا۔
آگہی پہلی ضرورت ہے
ہر خاص و عام جانتا ہے کہ میڈیا پر اس وقت یہودیوں کا قبضہ ہے۔ اس مقصد کے لیے یہودی دماغ پوری طرح چوکس اور ان کی کثیر سرمایہ کاری ہے۔ با خبر ذرائع کہتے ہیں کہ امریکا کا پریس بھی یہودی قبضے سے آزاد نہیں۔ یہودی سرمایے نے بڑی طاقتوں کو اپنا غلام بنایا ہؤا ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا اور معیشت ان کے کنٹرول میں ہے۔
جب بھی غزہ میں صورتِ حال بگڑتی ہے الزام فلسطینیوں پر لگایا جاتا ہے۔ حالانکہ نقصانات سے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ دونوں اطراف سے جانی اور مالی وسائل کے ضیاع میں کیا تناسب ہوتا ہے۔ کئی منزلہ بلڈنگیں آن کی آن میں زمین بوس کر دی جاتی ہیں۔ لوگ شرید سرد موسم میں کھلے آسمان تلے راتیں گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کتنی روح فرسا خبریں ہو سکتی ہیں جو ہم تک پہنچتی ہی نہیں۔ وہاں نیٹ بند کر دیا جاتا ہے ۔صحافیوں کے لیے وہ علاقے ممنوعہ قرار دے دیے جاتے ہیں۔
ہیکل سلیمانی
مسجد اقصیٰ کو اصل خطرہ یہ ہے کہ اس کو مسمار کرکے ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا یہودیوں کا مشن ہے۔ اس کے لیے کبھی تحقیقات کے نام پر نیچے کھدائی کی جاتی ہے ، کبھی مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے سے روکا جاتا ہے۔ بار بار یہودی گھس جاتے ہیں۔ کئی بار آگ لگانے کی کوششیں بھی کر چکے ہیں۔مسجد اقصیٰ عربوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ اور اس میں عربوں کی کوتاہی کو بہت دخل ہے۔ اسرائیل کا قیام یونہی عمل میں نہیں آگیا۔ یہودی مکر و فریب کی ایک تاریخ ہے ۔
عالمی صیہونیت
انیسویں صدی کے آخر میں یورپ نے حجاز، عراق، شام کے سلسلے میں جو سامراجی منصوبے بنائے تھے ان میں فرانس اور برطانیہ پیش پیش تھے۔ پوری یورپی دنیا میں اس وقت یہی دو ملک سپر پاور تھے۔ پھر روس، جرمنی، اور آخر میں امریکا بھی اس سامراجی منصوبے میں شامل ہو گیا۔عالم عرب کے سیاسی نقشے پر ان منصوبوں کے بڑے دور رس نتائج مرتب ہوئے۔
ان منصوبوں کی تکمیل میں عالمی صیہونیت کا بڑا اہم رول رہا ہے۔ اس نے یہودیوں سے ہمدردی انسانی بنیادوں پر کی؎۱ ۔ یورپی حکومتیں اپنے ہاں کے یہودیوں کو فراخ دلی اور مذہبی جذبےکے ساتھ فلسطین بھیجتی رہیں۔ فلسطین میں یہودیوں کو بسانے میں ہر طرح کے وسائل بہم پہنچائےگئے۔ پہلی جنگ عظیم (۱۸۔۱۹۱۴)کے بعد جب فلسطین خلافت عثمانیہ کے ہاتھوں سے نکل گیا تو ان مغربی حکومتوں نے اپنے قوفصل خانوں کی مدد سے فلسطین میں زمینیں خرید خرید کر یہودیوں کے حوالے کرنا شروع کر دیں۔
ترکوں کی تقسیم
ترکی یورپ کا ’’مردِ بیمار‘‘ کہلاتا تھا۔ اپنے سیاسی اور اقتصادی بحران کے باعث ترکی کو پہلی عالمی جنگ میں جرمنی کی مدد کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ یورپ کے مسیحی ممالک نے جو ترکوں کے ہاتھوں مسلسل شکست اور ذلت کا سامنا کر رہے تھے، ترکوں کے ماتحت ممالک میں بغاوت کرا کے اپنے قبضے کے امکانات پیدا کیے۔ انتقام لینے کے لیے خفیہ مذاکرات اور معاہدے کیے گئے۔ اگرچہ اس وقت عالمی صیہونی تنظیم کو کہیں استقرار حاصل نہیں تھا۔ اس کے رہنما جرمنی میں پھنسے ہوئے تھے۔ برطانیہ مختلف راستوں کے ذریعے شام اور عراق میں اپنے اثر و نفوذکو بحال کرنے کے لیے کوشاں تھا۔ اس نے عثمانی خلافت کے خلاف امیر حجاز شریف حسین بن علی سے گفتگو کی اور یہ وعدہ کیا کہ عثمانی سلطنت کو بے دخلی کے بعد جزیرہِ عرب ، شام اور عراق کے اکثر علاقے ان کی زیر قیادت مکمل خودمختاری حاصل کر لیں گے ۔ برطانیہ کی پالیسی مبہم تھی ۔ طے یہ پایا کہ فوری بغاوت کا اعلان کر دیا جائے۔ بقیہ معاملات جنگ کے بعد باہمی رضامندی سے طے پا جائیں گے۔ ۱۰جون ۱۹۱۶کو حجاز میں بغاوت کا اعلان کیا گیا۔ شریف حسین برطانیہ کا حلیف بن گیا۔
سائکس پیکو معاہدہ Sykes Picot agreement ۱۹۱۶ء میں ہؤاجس میں یہ طے پایا کہ عراق کا اکثر حصہ، شرقِ اردن اور فلسطین میں حیفا کا علاقہ برطانیہ کو ملے گا۔ لبنان اور شام فرانس کے حصے میں آئیں گے۔ فلسطین پر چونکہ متعدد یورپی سامراجیوں کی نظر تھی اس لیے مختلف دعوے داروں سے بچنے کے لیے یہ طے کیا گیا کہ اسے کسی ملک کو دینے کے بجائے بین الاقوامی نگرانی میں منتقل کر دیا جائے۔برطانیہ نے عالمی صیہونی تنظیم کے ساتھ خفیہ مذاکرات کیے۔ وہ دراصل امریکا میں یہودیوں کے اثر و رسوخ کو استعمال کرکے امریکا کو اپنی طرف سے جنگ میں شریک کرنا چاہتا تھا۔
صلیبی جنگ کا بھوت
پہلی جنگ عظیم کے خاتمے اور سلطنت عثمانیہ کے سقوط کے بعد برطانوی فوجیں عرب فوجوں کے تعاون سے ۱۱دسمبر۱۹۱۷ء کو القدس میں داخل ہو گئیں۔ برطانوی فوج کے سپہ سالار نے جشن مناتے ہوئے کہا کہ ’’آج صلیبی جنگوں کا خاتمہ ہو گیا۔ گویا فلسطین پر حملہ صلیبی جنگوں کی آخری کڑی تھا۔ یعنی یورپ کے ذہن میں صلیبی جنگوں کا جنون۸۰۰سال گزر جانے کے بعد بھی چھایا ہؤا ہے۔یاد رہے نائن الیون کے وقت صدر بش کے منھ سے بھی یہی الفاظ غیر شعوری طور پر نکل گئے۔ یورپ پر صلیبی جنگ کے بھوت کا سایہ اب تک قائم ہے جب کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔
اعلانِ بالفور
۱۹۱۷ء میں عثمانی خلافت کے نمائندے کی طرف سے شہر قدس جنرل النبی کے سپرد کیے جانے سے پہلے برطانیہ کے وزیر خارجہ بالفور Balfourنے برطانوی حکومت کی طرف سے صیہونی تنظیم کے نمائندے لارڈ رونچیلڈ کے لیے ایک سیاسی بیان جاری کیا جو ’’اعلان بالفور‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ’’شاہِ معظم (His majesty)کی حکومت پوری ذمے داری کے ساتھ سرزمین فلسطین میں یہودی مملکت کے قیام پر غور کر رہی ہے۔ اور اس مقصد کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی‘‘۔ واضح رہے کہ اس وقت فلسطین برطانیہ کے زیر نگیں نہیں تھا۔
برطانیہ کا قبضہ
چنانچہ ستمبر۱۹۱۸ء میں برطانوی فوجیں شمالی فلسطین پر قابض ہو گئیں۔ اکتوبر ۱۹۱۸ء تک انھوں نے شرق اردن، شام اور لبنان پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس وقت برطانیہ نے عملاً سرزمین فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنا شروع کر دیا۔ اور برطانیہ فرانس کو اس بات پر راضی کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ سایکس پیکو معاہدے میں فلسطین کو بین الاقوامی نگرانی میں دینے کی جو بات طے ہوئی تھی وہ اس سے دستبردار ہو جائے۔
۱۰جنوری ۱۹۲۰ء کو فلسطین کو برطانوی مینڈیٹ میں دے دیا گیا۔ستمبر ۱۹۲۲ء میں لیگ آف نیشنز نے بھی اس کی توثیق کر دی۔
برطانیہ کا کردار،فلسطینیوں سے تفریق کا آغاز
بالفور وعدے کو پورا کرنے کے لیے برطانیہ نے فلسطین پر اپنے تیس سالہ دورِ اقتدار میں فلسطین میں یہودیوں کی آمد کے لیے سارے دروازے کھولے رکھے اور نقل مکانی کرنے والے یہودیوں کو ہر ممکن حمایت اور تعاون فراہم کیا جس کے نتیجے میں یہودیوں کی تعداد جو ۱۹۱۵ء میں آٹھ فیصد یعنی ۵۵ہزار تھی وہ ۱۹۴۸ء تک ۳۱فیصد یعنی ۶۵۰ہزار ہو گئی۔ برطانیہ نے اپنے دورِ اقتدار میں فلسطینیوں کے لیے بہت برا کیا۔ نہ صرف معاش کے حصول میں رکاوٹیں ڈالیں بلکہ سازشوں کے ذریعے ان کو آپس میں لڑا کر ان کی ہوا اکھاڑ دی۔ اکثر ہائی کمشنر یہودی تھے جن کو سازش کے تحت بے انتہا اختیارات دیے گئے۔
فلسطین کے انقلاب عظیم (۱۹۳۹۔۱۹۳۶) کے بعد برطانیہ نے پیل کمیشن قائم کر دیا جس نے فلسطین کو یہودی اور عرب دو ریاستوں میں تقسیم کر نے اور شہر قدس اور حیفا کو برطانوی مینڈیٹ کے تحت قائم رکھنے کی سفارش کی، لیکن یہودیوں اور عربوں دونوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا۔
یہودی پروپیگنڈا اور امریکی حمایت
یہودیوں نے دوسری عالمی جنگ سے خوب فائدہ اٹھایا۔ جرمنی کے واقعات کو پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا کہ ان کے لیے دنیا میں کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ اس کا واحد حل فلسطین میں ان کے لیے قومی وطن کا قیام ہے۔ انھوں نے مظلومیت کی چادر اوڑھ کر ایک طرف عیسائیوں کو جذباتی طور پہ بلیک میل کیا تو دوسری طرف امریکا کو اپنے حق میں کرنے کے لیے کوششیں تیز کر دیں۔ ۱۹۴۲ء میں بالٹی مور معاہدے کے بعد اپنا رخ وائٹ ہاؤس کی طرف کر لیا اور برطانیہ کے ساتھ مئی ۱۹۳۹ءکے معاہدے کو کالعدم کرتے ہوئے امریکا کی دونوں بڑی پارٹیوں کی حمایت حاصل کر لی۔چنانچہ ۳۱ اگست ۱۹۴۵ء کو امریکی صدر ٹرومین نے برطانیہ کے وزیراعظم اٹلی سے مطالبہ کیا کہ ایک لاکھ یہودی فلسطین بھیجے جائیں۔
یہودی نقل مکانی اور زمینیں ہتھیانا
اس وقت کے برطانوی وزیرخارجہ نے ۱۴ نومبر ۱۹۴۵ء کو ایک بیان جاری کیا جس میں مسئلہ ِفلسطین کے حل کے لیے ایک اینگلو امریکن کمیٹی کی تشکیل اور اس کی سفارشات کے نفاذ کی دعوت دی گئی۔ اس کمیٹی نے ۱۹۴۶ء میں فلسطینی اراضی کی منتقلی اور یہودیوں کے ہاتھ ان کی فروخت کرنے کی آزادی دے کر ایک لاکھ یہودیوں کی فلسطین میں آبادکاری کی سفارش کی۔ یوں ۱۹۴۵۔ ۱۹۴۳میں ۹۲ ہزار یہودی مختلف ملکوں سے نقل مکانی کرکے فلسطین میں بس گئے۔ اس کے بعد ۱۹۴۸۔۱۹۴۶میں ۶۱ ہزار یہودی مختلف ملکوں سے نقل مکانی کرکے فلسطین میں بس گئے اور ۲۷۰ ہزار ایکڑ زمین حاصل کرکے ۷۳ نئی کالونیاں بنا لیں۔
صیہونی ملک کا قیام
برطانیہ نے جو عرب یہود جھگڑا کامیابی سے ڈلوا دیا تھا اسے ۴ اپریل۱۹۴۷ء کو اقوامِ متحدہ میں پہنچا کر خود گلوخلاصی کر لی۔اب مئی ۱۹۴۷ء میں جنرل اسمبلی نےفلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے ایک کمیٹی UNSCOP تشکیل دے دی۔اس کمیٹی کی ۳۱ اگست کی رپورٹ کی سفارشات ذرا ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ فلسطین سے برطانوی مینڈیٹ کو ختم کر دیا جائے۔
۲۔ فلسطین کو عرب اور یہود دو ریاستوں میں تقسیم کرکے شہر القدس UNکی تحویل میں دے دیا جائے۔
یہ صورتحال دیکھ کر عالم عرب نے صدفر کانفرنس (۶ستمبر۱۹۴۷ء) اورعالیہ کانفرنس اکتوبر ۱۹۴۷ء میں تقسیم کے اس منصوبےکی مخالفت کی۔نیزافرادی قوت اور اسلحے سے فلسطین کی مدد اور فوجی پیش بندی تیز کرنے کا فیصلہ کیا۔مگر صیہونی منصوبے پر پیش قدمی جاری رہی یہاں تک کہ اقوامِ متحدہ کی سیاہ ترین قرارداد نمبر ۱۸۱، ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جاری کر دی جس کے پس پشت امریکی دباؤاور روس کی زبردست حمایت تھی۔ دو تہائی اکثریت سے یہ قرارداد منظور ہوگئی جس میں فلسطین کو دو مستقل ریاستوںمیں تقسیم کرنے کی بات تھی؎۲ ۔اس غیر انسانی فیصلے کی وجہ سے اسرائیلیوں کو فلسطین کا ۵۵ فیصد حصہ مل گیا جبکہ اس سے پہلے وہ۱۱ فیصد سے زیادہ کے مالک نہ تھے۔ قوموں کی تاریخ میں یہ ہے اقوامِ متحدہ کا انصاف!
یہ فیصلہ نہ صرف عربوں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک بم دھماکا تھا۔ تمام عالم اسلام میں زبردست مظاہرے ہوئے لیکن سب سفارتی کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔۱۴مئی۱۹۴۸ءکا سیاہ دن تھا جب برطانیہ کی مسلح افواج فلسطین سے نکلیں اوریہودی مملکت کی قومی کونسل نے تل ابیب میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔جبکہ فلسطینیوں نے اکتوبر ۱۹۴۸ء کی غزہ کانفرنس میں بچے کھچے فلسطین کی عمومی حکومت کا اعلان کیا۔
کارواں کا احساسِ زیاں
وہ عرب ممالک جن کے پاس طاقت بھی تھی اور فوج بھی وہ کچھ نہ کر سکے۔ انھوں نے بجائے یہودیوں سے ٹکر لینے کے عرب مجاہدین کی پیش قدمی روکنے کا کام کیا۔ جنگ بندی کرا دی گئی اور یہودی قبضے کو قانونی حیثیت حاصل ہو گئی۔ بلکہ الحاج امین حسینی کو مصری فوج کے دباؤ پر غزہ چھوڑنا پڑا۔ اخوان المسلمین کے جنگ میں شریک مجاہدوں کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں۔ فلسطینی عوام کو خونریز مظالم کا سامنا کرنا پڑاجس میں سب سے مشہور ۹ اپریل ۱۹۴۸ء کا ’’دیریاسین‘‘ میں فلسطینیوں کا قتل عام ہے جس میں ۲۵۸ فلسطینی شہید ہوئے اور۶۰ فیصد فلسطینیوں کوہجرت کرکے یہودی بستیوں میں پناہ لینا پڑی۔ ۳۰ ہزار لوگ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں پناہ گزیں ہوئے۔
فلسطین کی تاریخ میں یاد رہے گا کہ ۱۹۵۲ء میں مصر میں جمال عبدالناصر کی حکومت کے دوران انقلاب اسی بنیاد پر ہؤا کہ فلسطین میں ہمیں لڑنے نہیں دیا گیا جبکہ فلسطین کی آزادی ہمارا پہلا ہدف تھا۔
جنگ سویزکینال
۱۹۵۵ میں مصر نےنہر سویزکو قومی تحویل میں لے لیا۔ اس پر مغربی دنیا کا یہ ردعمل ہؤا کہ برطانیہ ، فرانس اور اسرائیل نے اگلے سال مصر پرحملہ کر دیا۔ حملہ ناکام یوں ہؤا کہ امریکا اور سوویت یونین نے اس کی تائید نہیں کی اور اسی سال برطانیہ اور فرانس کی افواج کا مصر سے انخلا ہو گیا اور جنگ سویز اختتام کو پہنچی۔ اس سامراجی حملے کے بعد برطانیہ کا موقف کھل کر اسرائیل کے حق میں ہو گیا جو امریکی غلامی کا مظہر تھا۔ برطانیہ کی یہ تائید ۱۹۶۷ء تک جاری رہی۔
عرب اسرائیل جنگیں
جون ۱۹۶۷ء میں مصر نے آبنائے تیران اور خلیج عقبہ کی ناکہ بندی کر دی اور اسرائیلی جہازوں کی پروازیں منسوخ کر دیں۔ یو این کے فوجی حفاظتی دستے کو مصر نے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ لیکن ۵ جون کی صبح اسرائیلی ہوائی فوج نے مصر، اردن اور شام کے ہوائی اڈوں کو میزائل سے تباہ کر دیا۔ ۶ دن میں حالات پلٹا کھا گئے اور صیہونیوں نے فلسطین کے بقیہ حصے (مغربی پٹی کے ۵۸۷۸ کلومیٹر، غزہ پٹی کے ۳۶۳ کلومیٹر، صحرائے سینا کے دوہزارکلومیٹر اور شام کے جولان پہاڑی علاقے کے ۱۱۵۰ کلومیٹر رقبے پر قبضہ کر لیا۔
اس کے بعد فلسطینیوں نے سرفروشانہ اور فدائیانہ کارروائیاں شروع کر دیں اور دشمن کو جانی مالی نقصان پہنچایا۔ لیکن اردنی اور فلسطینی دستوں کے درمیان ہونے والے ٹکراؤ نے فلسطینی مزاحمتی تحریک کو نقصان پہنچایا اور ان کی طاقت توڑنے کے ساتھ عرب ملکوں نے فلسطینیوں کے لیے مشکلات پیدا کیں۔
اس دوران مسلمانوں کے درمیان ہونے والی ۸۰ ۱۹تا ۱۹۸۸ء کی عراق ایران جنگ نے فلسطین کے مسئلے کے حل پر برا اثر ڈالا۔ ۱۹۸۲۔ ۱۹۷۷ میں مصر کے جنگ بندی کے معاہدے میں شامل ہونے کی وجہ سے عالم عرب اور مصر کے درمیان ٹکراؤکی صورت حال پیدا ہو گئی ۔ ایک طرف اسرائیل کو سپرپاور کی مکمل حمایت حاصل تھی جبکہ فلسطین کی مزاحمتی تحریکیں عرب ملکوں کے آپس میں گتھم گتھا ہونے کے باعث تنہا ہو گئیں۔
دوسری عرب اسرائیل جنگ کا آغاز اکتوبر ۱۹۷۳کو ہؤا جس میں صیہونیوں کے خلاف مصر کو بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ شام و مصر دونوں شریک رہے۔ مصریوں نے نہر سویز کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا اور سینا تک پہنچ گئے۔ لیکن مصر کے صدر انور سادات نے اس جنگ کو مصری مفاد کی خاطر استعمال کیا۔انور سادات نے نومبر ۱۹۷۷ء میں اسرائیل کا دورہ کیا اور کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر۱۹۷۸ء میں دستخط کیے، جس کی رو سے مصر کی اسرائیل سے مصالحت ہو گئی۔ مصر نے جزیرہ نما سینا کو واپس لے لیا۔ اس طرح آزادیِ فلسطین کا ایک فعال رکن مصر غداری کر گیا جس سے اسرائیل کے خلاف مستقبل میں کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی کے امکانات جاتے رہے۔
۱۹۷۹ء میں افغانستان پر روس کے قبضے کے بعد عالم اسلام کی توجہ فلسطین سے ہٹ کر افغانستان کی جانب مبذول ہو گئی۔ اس جہاد میں افغانستا کوعالم عرب کے متعدد خلیجی ملکوں کی سپورٹ حاصل تھی۔ یوںفلسطین تنہا رہ گیا۔
عرب ملکوں کا رویہ
عرب ملکوں میں جن غیرت مند مسلمانوں نے قضیۂ فلسطین کی مدد کی کوشش کی وہ زیر عتاب آگئے۔ مصر میں اخوانیوں کو جو فلسطینیوں کے مددگار اور ساتھی تھے ان کو پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔دوسری طرف اسرائیل سامراجی طاقتوں کی مدد سے اور عربوں کے ساتھ خفیہ معاہدوں کے ذریعے فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے کے لیے اپنی طاقت بڑھاتا رہا۔ مسلمانوں کا افتراق فلسطین کی تاریخ کا ہی نہیں امت مسلمہ کی تاریخ کا بھی سب سے بڑا المیہ رہا ہے۔
انتفاضہ تحریک ؎۳
یہ بھی تاریخی دن ہے۔ ۹ دسمبر ۱۹۸۷ء کو انتفاضہ تحریک شروع ہوئی اور ۱۹۹۳ء تک یہ تحریک پوری طاقت کے ساتھ سرگرم رہی۔ انتفاضہ کے ساتھ ہی ’’حماس ‘‘ کا قیام عمل میں آیا؎۴۔حماس نے شیخ احمد یاسین کی قیادت میں بہت زیادہ عوامی مقبولیت حاصل کی۔ اس وقت بھی تنہا حماس ہی اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کر رہی ہے۔الفتح جو مزاحمت کے لیے قائم ہوئی تھی وہ معاہدے کرکے اسرائیل کی معاون ہو گئی۔ اکثر عرب حکومتوں کی تائید اسی کو حاصل ہے،یعنی عرب ممالک قبلۂ اول کی جنگ میں اسرائیل کے پشت پناہ ہیں۔ حماس سرفروش مجاہدین کا گروہ القدس کے محاذ پر کھڑا عالم اسلام کو پکار رہا ہے ۔
۱۹۸۰ء کے آخر اور ۱۹۹۰کے ابتدا میں عرب اور بین الاقوامی دنیا میں ایسی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں جس سے نقصان مسلمانوں کو پہنچا۔ ۲ اگست ۱۹۹۰ء میں کویت پر عراق حملے سے عرب قوت پامال ہوئی۔اس خلیجی جنگ کے نتائج فلسطینیوں کے حق میں بہت مضر ثابت ہوئے۔ عالم عرب ہی اگر متحد ہوتا تو فلسطین کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔
۱۹۹۱ء کی خلیجی جنگ کے بعد امریکا سوویت یونین کے زوال کےساتھ ہی دنیا کی بڑی قوت بن کر سامنے آیا۔ فلسطین میں یہودیوں کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا۔ بالآخر اکتوبر ۱۹۹۱ء میں میڈریڈ کی عرب اسرائیل کانفرنس میں امریکا عرب ممالک کو شریک کرانے میں کامیاب ہو گیا جس کے بعد براہِ راست عرب اسرائیل مذاکرات کا آغاز ہؤا۔
اوسلو معاہدہ
اس کے تقریباً دو سال کے بعد فریقین کے درمیان اوسلو معاہد ے کا اعلان کیا گیا اور ۱۳ ستمبر۱۹۹۳ء میں امریکی صدر بل کلنٹن، یاسر عرفا ت اور اسحٰق رابین کی موجودگی میں اس معاہدے پر سرکاری طور پر دستخط ہوئے۔ فلسطینیوں کی جانب سے محمود عباس اور اسرائیل کی جانب سے اسرائیلی وزیرخارجہ شمعون پیرز نے دستخط کیے۔ روس اور امریکا کے وزرائے خارجہ نے بھی دستخط کیے۔ اس کے بعد بھی جو معاہدے ہوئے ان میں بنیادی طور پر صیہونی مفادات کا خیال رکھا گیا۔ وہ فلسطینی حکومت جو اوسلو معاہدے کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی وہ مسائل کے حتمی فیصلے تک پہنچنے میں ناکام رہی کیونکہ معاہدہ ہی بدنیتی پر مبنی تھا۔
اسرائیل کی جنگوں کی حقیقت
اسرائیل کا قیام یوں ممکن ہؤا کہ اس کو کچھ طاقت ور ملکوں نے گود میں لے کر عربوں کے ہاتھ پیر باندھ کر ان کے کاندھے پر بٹھا دیااور اس کے بعد سے اب تک اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ۱۹۴۸ء میں جب اسرائیل کا قیام عمل میں آیا اس وقت یہودیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ فلسطین برطانیہ کے قبضے میں تھا۔ اسی وقت اس نے طے کر لیا تھا کہ اسرائیل کا قیام یہاں ہو گا تاکہ عربوں پر کنٹرول رہے۔ برطانیہ کی پالیسی رہی ہے کہ جہاں سے اس کو جانا پڑا وہاں وہ کوئی فتنہ چھوڑ گیا۔ اگر ہم اسرائیلی جنگوں کی کامیابی کی تاریخ دیکھیں تو اسرائیل کو کامیابی وہیں ہوئی جہاں اس کے مقابل نے کمزوری دکھائی۔ ۱۹۴۸ء کی جنگ کے بارے میں ایک انگریز مورخ نے لکھا ہے کہ ’’اسرائیل کی کوئی فوجی طاقت نہیں تھی۔ چار پانچ عرب ممالک اس کے مقابلے پر تھے۔ لیکن یہ مقابلہ ظاہری تھا۔ عرب فوجوں کو لڑنے کا حکم نہیں تھا۔ جب کچھ مجاہدین آگے بڑھے اور اسرائیل کے لیے خطرہ بن گئےتو فوجیوں کو حکم دیا کہ ان مجاہدین کو واپس بھیجا جائے اور وہ حکم عدولی کریں تو شوٹ کر دیا جائے‘‘۔
۱۹۶۷ء کی جنگ تو محض دھوکا ہی دھوکا تھی۔ حکمرانوں نے ہی نہیں فوج نے دھوکا دیا۔ کیونکہ جنرل برطانیہ، فرانس یا یورپ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کو مجبور کر دیا گیا۔سید ابوالحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں۔ ’’۱۹۶۷کی جنگ میں عرب اور مصری فوجوں کے ساتھ کس طرح مذاق کیا گیا۔ مصری فوجیں جزیرہ نمائے سینا کو پار کر رہی تھیں۔ اتنے میں اسرائیل کے ہوائی جہاز آتے ہیں اور مصر کے ہوائی اڈوں کو تباہ کرکے چلے جاتے ہیں کیونکہ انھیں اس کی فکر نہیں تھی کہ اپنے ہوائی اڈوں کی حفاظت کا اہتمام کرتے۔ ۶ دن کے اندرحالات یکسر بدل گئے۔ انھوں نے فلسطین کے بقیہ حصے مغربی پٹی کے ۵۸۷۸کلومیٹر ، غزہ پٹی کے ۳۶۳کلومیٹر، صحرائے سینا کےدو ہزارکلومیٹر اور شام کے جولان پہاڑی علاقے کے ۱۱۵۰کلومیٹر رقبے پر بھی قبضہ کر لیا۔ ۳۳۰ہزار فلسطینی ملک بدر ہوئے اور آزادیِ فلسطین کے لیے عمومی تحریکات وجود میں آئیں۔
یہی مصری فوج ۱۹۷۳ء میں بارلیف لائن کو پار کرکے اسرائیل کے اندر داخل ہو گئی۔ تب اسرائیل نے امریکا سے فریاد کی کہ ہم کوبچائیے، ہم تباہ ہو گئے۔ چنانچہ جہاں مصری فوج تھی وہاں امریکا نے اپنی فوج اتاری۔ اور اسرائیل کی حفاظت کی۔یہی مصری فوج جو ۱۹۶۷ء میں شکست سے دوچار ہوئی تھی اسی شکست خوردہ فوج نے ۱۰رمضان کو اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور نہر سوئز کو پار کر لیا۔ مصری فوج نے نہ صرف اسرائیل کی دفاعی لائن کو پار کیا بلکہ ان کے ملک کے اندر داخل ہو گئی۔
۲۰۰۹ء میں غزہ میں جو جنگ ہوئی اسرائیل نے کہا تھا کہ ’’ہم فیصلہ کن جنگ لڑ رہے ہیں ہم فتح تک جمے رہیں گے‘‘، لیکن اسرائیل کو پیچھے ہٹنا پڑا اور وہ علاقہ آج تک محفوظ ہے۔اسرائیل نے اس کا محاصرہ کر رکھا ہے، پانی بند کر دیتے ہیں، ضروریات زندگی کی رسد مشکل بنا دیتے ہیں۔لیکن فلسطینی قوم اپنے جذبۂ ایمانی سے ان کا مقابلہ کر رہی ہے۔ اسرائیل اپنے مکر کے باوجود آج بھی ناقابل تسخیر نہیں ہےکیونکہ صیہونی مجاہدین کی قوتِ ایمانی سے ڈرتے ہیں۔
مسلم امہ کی حالت
مذکورہ بالا تاریخی حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل کے قیام میں مغربی سامراج کے ساتھ عربوں کے اختلافات کا بھی برابر کا حصہ ہے۔ عرب ریاستوں کی بے نیازی اور فلسطین کی جہادی تحریکوں کو وسائل بہم نہ پہنچانا ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ مصر نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد خود کو اسرائیل کا دوست ثابت کیا۔ عالم اسلام کے دوسرے ممالک اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ ترکی کے تعلقات بھی، سقوطِ عثمانیہ کے بعد عربوں کے ساتھ عدم تعاون ہی کے رہے۔ اس کے مقابلے میں وہ اسرائیل سے قریب رہا۔ موجودہ حکومت ترکیہ جو اسلام پسند ہے وہ عربوں سے ہمدردی رکھتی ہے مگر نیٹو کے ممبر ہونے اور یورپین کمیونٹی میں داخل ہونے کی کوشش کی وجہ سے اہم رول ادا نہیں کرپا رہی ہے۔
ایک طرف فلسطین ۵۷ اسلامی ملکوں کی مطلوبہ حمایت سے محروم ہے دوسری طرف یورپی دنیا سر تا پا اسرائیل کی حمایتی ہے۔ اس کا مظاہرہ ۱۹۱۷ سے شروع ہؤا اور آج تک بھی جاری ہے۔۲۰۰۹ء میں غزہ پر اسرائیلی ناکہ بندی اور فضائی حملوں کے دوران بعض عرب ملکوں نے بھی حماس کی مخالفت کی، اسرائیل کے ساتھ خفیہ گٹھ جوڑ کیے۔نومبر۱۹۹۴ء میں صدر بل کلنٹن نے اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا۔’’تمھارا زوال ہمارا زوال ہے۔ امریکا اب بھی تمھارے ساتھ ہے اور آئندہ بھی رہے گا‘‘۔
مذکورہ حقائق بتاتے ہیں کہ اسرائیل کے مٹھی بھر یہودیوں کو دنیا کی بڑی طاقتوں کی آشیرباد حاصل ہے۔ اسرائیل کے پاس دنیا کا جدید ترین اسلحہ اور حفاظتی نظام موجود ہے۔ اس کے باوجود فلسطین کی آزادی کی تنظیموں نے گھٹنے نہیں ٹیکےاور ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا خواب پورا نہیں ہونے دیا۔ فلسطین کی تاریخ ایک عظیم جدوجہد کی تاریخ ہے۔
حماس کا آپریشن طوفان الاقصیٰ
حماس نے مسئلہ ِفلسطین پھر زندہ کرکے اسرائیل کا تکبر خاک میں ملا دیاہے۔ دنیانے ٹیکنالوجی پر ایمان کی برتری کا زندہ مشاہدہ کیا۔
حقیقت اس کے سوا کیا ہے کہ یہودیوں نے امریکا اور اتحادیوں کی مدد سے فلسطینیوں کو غلام بنا رکھا ہے۔ مسلم حکمران خاموش تماشائی، ان کی افواج ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر۔ دوسری طرف اسلام دشمن اسرائیل کی حمایت میں متحد ہیں۔اس مرتبہ حماس نے مسئلہِ فلسطین کو زندہ ہی نہیں کیا بلکہ پوری دنیا کو ورطہِ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ نصف صدی سے محاصرے میں قید فلسطینی دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ جو قوم مرنے کا فیصلہ کر لیتی ہے وہ تاریخ میں امر ہو جاتی ہے اور موت اس سے کوسوں دور بھاگتی ہے۔
کیا ہم تصور کر سکتے ہیں کہ پتھروں اور غلیلوں سے لڑنے والے دنیا کی طاقتور ترین فوج کے حامل ایک ایسے ملک سے لڑ سکتے ہیں جس کی اپنی دنیا کی مضبوط ترین فضائیہ اور مسلح ڈرون ہیں، آئرن ڈوم سسٹم ہے جو راکٹوں اور میزائلوں کو فضا میں ہی تباہ کر دیتا ہے، اور ملک کا وزیراعظم دنیا کو پکارے کہ ’’ہماری مدد کو آؤہم حملوں کی زد میں ہیں‘‘۔ظاہر ہے یہ جی دار فیصلے کرنے سے پہلے وہ خود کو مٹا دینے کا عزم کر چکے ہیں۔
اسرائیل جواب میں ننگی جارحیت پر اتر آیاہے۔ فلسطین کے اسپتال مردہ خانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ شہدا کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے۔ غزہ میں آگ اور خون کا کھیل ہے۔ فلسطینیوں کا خونِ ناحق رائیگاں نہیں جائے گا۔ حماس نے بڑی جانی اور مالی قربانی دے کر دنیا کو ایک بار پھر یہ یاددہانی کرا دی ہے کہ مسئلۂ فلسطین حل ہوئے بغیر دنیا کا امن قائم نہیں ہو سکتا۔فلسطینی مزاحمتی تحریک ہمیشہ امت کے تن مردہ میں روح دوڑانے کا کام کرتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم قبلہِ اول کے ان پاس داروں کے مقروض ہیں۔فلسطین کے جاں باز ساری دنیا کے مقہور و مظلوم لوگوں کو اپنے دشمن کے خلاف سر اٹھانے کی ہمت عطا کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر امت کو زندگی کا پیغام دیا ہے۔ پینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس وقت بین الاقوامی طاقتیں دو گروپوں میں تقسیم ہونے جا رہی ہیں۔ روس اس وقت امریکا کی سائیڈ نہیں لے رہا۔حماس کی موجودہ مزاحمت اور حملے نے ایک طرف اسرائیلی طاقت کے بت کو پاش پاش کیا ہے تو دوسری طرف مسلم حکمرانوں کے دوغلے پن، ان کی منافقت اور بے حمیتی کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ مسلم ممالک کے فوجی بیڑے، جہاز، میزائل یہاں تک کہ ایٹم بم بھی فلسطینی تحریک مزاحمت کے لیے امید کی کرن نہیں ہیں جبکہ امریکا، جرمنی اور برطانیہ اپنی فوجیں وہاں اتار رہے ہیں۔
طوفان الاقصیٰ نے خود کو دنیا کی قوموں کی واحد ترجمان کا دعویٰ کرنے والی اقوامِ متحدہ کے منافقانہ کردار کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ جو جانوروں تک کے حقوق کے دن منانے کا اعلان کرتے ہیں، کہاں ہیں انسانی حقوق کے وہ چیمپئن؟ اسرائیل جنگی جنون میں غزہ کے اسپتالوں ، بھری آبادیوں اور نقل مکانی کرتے لوگوں پر میزائل برسا کر ہزاروں زندگیوں کے چراغ گل کر چکا ہے۔ اسرائیل کی ننگی جارحیت پر انسانی حقوق کا راگ الاپنے والے کہاں ہیں؟
ایمان بہ مقابلہ ٹیکنالوجی کے معرکے میں دنیا کے سامنے ایک بار پھر چودہ سو برس پرانی تاریخ دہرائی جارہی ہے کہ ایمان کی قوت مادی وسائل پر بھاری ہے۔
٭ ٭ ٭

؎۱ :عالمی صیہونیت دراصل یہودیوں کےاندرایک ملحد گروہ کا نہایت منظم شیطانی منصوبہ ہےجس کا ایک قومی تحریک کی شکل میں آغاز۱۸۹۷ میں ہؤا۔اس منصوبے کا مقصد یہودیوں کے نام پہ شیطانی مقاصد کی تکمیل ہے جو اب راز نہیں رہا۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں مذہبی اور باشعوریہودیوں کی ایک کثیر تعداد صیہونیت اور قیام اسرائیل کی مخالفت کرتی ہے۔دراصل صیہونیت پورے مشرق وسطیٰ پر غاصبانہ تسلط کا ایک استعماری منصوبہ ہے جو یہودیوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ عیسائیوں کا بھی ایک بااثر گروہ ان کے ساتھ ملا ہوا ہے جو کرسچین زائیونسٹ کہلاتا ہے۔اس منصوبے کا آغاز ہولوکاسٹ سے بہے پہلے ہو چکا تھا مگرآج کی دنیا کے سامنے یہ ہولوکاسٹ کی مظلومیت بتا کرناجائزملک اسرائیل کے لیے ہمدردی لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ (ص۔ا)

ٳ ؎۲:یہ قرارداد ۲۶ نومبر کو پیش ہونا تھی مگر صیہونی دباؤ کے باعث اس کو تین دن کےلیے مؤخر کردیا گیا اور اس دوران ممبر ممالک کو شدید دباؤ،امداد بند کرنے اور دیگر نتائج کی دھمکیاں اور ترغیبات کا سامنا کرنا پڑا تاکہ وہ قرارداد کے حق میں ووٹ دیں۔حقائق کے مطابق ووٹنگ ۲۶ کو ہوتی تو کبھی قرارداد منظور نہ ہوسکتی۔ (ص۔ا)

؎۳ : انتفاضہ کا مطلب جدوجہد یا بغاوت ہے۔ شدید ظلم اور ناانصافی کے نتیجے میں فلسطینی عوام نے ردعمل شروع کیا۔پہلے انتفاضہ میں پتھروں سے مقابلہ کیا اور دوسرے انتفاضہ میں راکٹوں سے حملے بھی کیے۔(ص۔ا)
؎۴: یہ فلسطینیوں کی مزاحمت کی تحریک ہےجو فلسطینی کاز کے لیے مخلص ہےاسی لیے اس کواکثریت فلسطینی عوام کی حمایت حاصل ہے۔اس کے جنگجو گروپ کا نام القسام بریگیڈ ہے۔ ۲۰۰۶کے انتخابات میں حماس نے الفتح پارٹی کے مقابلے میں بھاری اکثریت سے حکومت جیت لی مگر اسرائیل اور اس کے پشت پناہ امریکہ اور یورپ سے یہ برداشت نہ ہؤا اور اسے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا گیا۔ مغربی کنارے میں اس کی حکومت الٹ دی گئی اوراہلِ غزہ پرحماس کی حمایت کی پاداش میں شدید معاشی پابندیاں عائد کردی گئیں۔(ص۔ا)

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x