ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

قولِ نبیؐ – فواحش کی ممانعت – سید محمود حسن

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ سے زیادہ کوئی غیرت کھانے والا نہیں ہے اس بنا پر اُس نے فواحش (بے حیائی کی باتوں) کو حرام کیا ہے چاہے وہ کھلی ہوں یا چھپی۔ اور اللہ کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جس کو اپنی تعریف سب سے زیادہ پسند ہو۔ اس بنا پر اُس نے اپنی تعریف کی ہے۔‘‘(مسلم)
’’اللہ تعالیٰ کے غیرت کھانے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اس نے بے حیائی کی باتوں کو حرام قرار دیا ہے اور اپنے بندوں کو اس سے روکا ہے۔ بے حیائی کی باتوں (فواحش)کا اطلاق اگرچہ :
۱۔ زبان درازی
۲۔ طعن و تشنیع
۳۔ عریانی
۴۔ عمل قومِ لوط
۵۔ سوتیلی ماں سے نکاح
۶۔بدکاری کے جھوٹے الزام
۷۔ بخل اور کنجوسی
پر ہوتا ہے لیکن یہ زیادہ تر ’’زنا‘‘ کے مفہوم میں مستعمل ہے۔ جو شخص علانیہ بدکاری کرتا ہے یا چھپ کر زنا کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی غیرت کو چیلنج کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جو شخص ان برائیوں کا ارتکاب کرتا ہے جو ’’فواحش‘‘ کی تعریف میں آتی ہیں وہ رب ذوالجلال کی غیرت کو للکارتا ہے اور اپنے آپ کو اس سزا کا مستحق بناتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایسے بے ہودہ مجرم کے لیے تیار کررکھی ہیں۔
’’بے حیائی کی کھلی باتوں‘‘ سے مراد وہ گناہ ہیں جو علانیہ کیے جائیں اور’’بے حیائی کی چھپی باتوں‘‘ کا اطلاق صرف ان گناہوں پر ہوتا ہے جو چھپ کر کیے جائیں اور لوگوں کے علم میں نہ آسکیں۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ تعالیٰ کی غیرت صرف بے حیائی کی باتوں سے روکنے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا اطلاق ہر اس بات یا کام پر ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کی غیرت یہ ہے کہ مؤمن اس چیز کے قریب نہ پھٹکے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔‘‘ (بخاری، مسلم)
اللہ تعالیٰ اس بات کو سب سے زیادہ پسند کرتا ہے کہ بندے اس کی تعریف کریں۔ ’’بندے اللہ کی تعریف کریں‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اس کی اطاعت کریں اور اس کی طرف ان باتوں کو منسوب نہ کریں جو اس کی شانِ اُلوہیت کے منافی ہوں۔ بلکہ ایسی بُری باتوں سے اس کو پاک قرار دیں اس کی بے شمار نعمتوں کا اعتراف کریں اور شکر کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنی نگاہِ کرم سے ان بندوں کو محروم نہیں کرتا جو اس کی تعریف کرتے ہیں بلکہ انہیں بہترین جزا دیتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت! اللہ سے زیادہ کوئی غیور نہیں ہے اس بات پر کہ اس کا بندہ یا بندی زنا کرے۔(بخاری ، مسلم)
زنا سے روکنے والا اورا س سے نفرت کرنے والا اللہ سے زیادہ کوئی نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مرد یا عورت کے زنا میں مبتلا ہونے کو اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ نفرت اور بغض کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس پر سنگین سزا دے گا۔ زنا کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی شدید نفرت کو للکارا جائے۔
آیت لعان (سورۃ النور ۶) کے نزول کے وقت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا۔
(ا) جو عورت ناجائز بچے کو اپنے خاندان میں داخل کرے (بدکاری کے حمل کو شوہر کے کھاتے میں ڈالے)اللہ کے دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اللہ تعالیٰ اسے کبھی بھی اپنی جنت میں داخل نہ کرے گا۔
(۲) جو شخص اپنے بیٹے کے نسب سے انکار کر دے حالانکہ وہ اسے دیکھ رہا ہے (اور اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ اس کے نطفہ سے ہے) اللہ اُسے اپنی رحمت سے دور کر دے گا اور (قیامت کے دن) اسے ساری مخلوق کے سامنے رسوا اور ذلیل کرے گا۔‘‘ (مشکوٰۃ)
۱۔ بدکاری کے حمل کو اپنے شوہر کے کھاتہ میں ڈالنے والی عورت دین سے بہت دور ہو جاتی ہے اور اللہ کی نگاہ رحمت سے بھی محروم ہوتی ہے اس بنا پر کہ :
الف۔ اس نے زنا جیسا بڑا گناہ کیا اور
ب۔ ناجائز حمل کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچے کو ایک ایسے شخص کا بیٹا باور کرایا جو فی الواقع اس کا باپ نہیں ہے اگرچہ قانون کی نگاہ میں یہ بچہ اپنے اس غیر حقیقی والد کا بیٹا قرار پائے گا۔ اس کی تعلیم و تربیت اور ضروریات زندگی کی کفالت کا بوجھ اس کے غیر حقیقی باپ پر ہو گا اور اس کی وفات کے بعد اس کے ترکہ کا وارث بھی قرار پائے گا اسی طرح وہ شخص بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی سزا کا مستحق ہو سکتا ہے جس کی بے حیائی کے باعث کسی دوسرے شخص کی بیوی حاملہ ہو کر بچہ جنتی ہے یہ ایک ایسے بچے کی پیدائش کا سبب بنا ہے جس کی کوئی ذمہ داری اس پر نہیں ہے۔
۲۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک بے رحم اور سنگدل آدمی ہی اپنے بیٹے کے نسب سے انکار کر سکتا ہے اس سے لازم آتا ہے کہ وہ اپنے لڑکے کے ان تمام حقوق کے ادا کرنے سے انکار کر دے جو باپ ہونے کی حیثیت سے اس پر عائد ہوتے ہیں۔
اس گناہ کی سزا یہ ہے اور ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس باپ کو اپنی رحمت او رمہربانی سے محروم کر دے گا جیسا کہ اس نے دنیا میں اپنے بیٹے کو اپنی شفقت اور محبت سے محروم کر رکھا تھا اور حشر کے میدان میں اگلے پچھلے سب لوگوں کے سامنے اسے رسوا اور ذلیل کرے گا جیسا کہ اس نے اپنے بیٹے کے نسب سے انکار کرکے اپنے عہد کے لوگوں کے سامنے ماں ، بیٹے کو رسوا اور بدنام کیا تھا کیونکہ اس کی غلط روش کی وجہ سے عام لوگ اس کی بیوی کو بدچلن اور اس کے بیٹے کو حرامی سمجھتے تھے۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین آدمیوں سے نہ تو بات کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ان پر نگاہِ کرم ڈالے گا۔ اور ان کے لیے دردناک سزا ہے۔
(۱) بوڑھا زانی۔
(۲) بہت جھوٹا حکمران
(۳) تکبر کرنے والا مفلس‘‘ ۔(مسلم)
۱۔زنا کرنا، جھوٹ بولنا اور تکبر کرنا بڑے سخت گناہ ہیں لیکن ضرورت کے بغیر ان میں سے کسی گناہ میں مبتلا ہو جانا اس کی سنگینی اور شدت کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔
اگر بوڑھا آدمی عقل و شعور کی پختگی، زندگی بھر کے تجربات اور اعصاب کی کمزوری کے باوجود زنا کرتا ہے تو وہ خدا کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔
۲۔ جھوٹ بولنا گناہ ہے لیکن عام آدمی کے جھوٹ کے مقابلہ میں حکمران کی غلط بیانی اور جھوٹ کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے وہ ملک کی بہت بڑی اکثریت کو غلط فہمی میں ڈال سکتا ہے۔ ایسا مکار اور عیار شخص اللہ کی نگاہ میں سخت مغضوب ہو گا جس نے جھوٹ بول بول کر اپنے ملک کے سادہ لوح عوام کو دھوکہ اور فریب میں مبتلا کرنے کی کوشش کی تھی۔
۳۔ کسی شخص کے صاحب مال ہونے کے معنی یہ تو نہیں ہیں کہ وہ اپنی دولت پر اترائے اور گھمنڈ کرے لیکن کم ظرف مالدار اپنی برتری اور بڑائی پر یقین رکھتے ہیں مسکینوں اورناداروں کو حقیر جانتے ہیں۔ اس بنا پراگر وہ تکبر میں مبتلا ہو جائیں تو بظاہر اس کا سبب موجود ہے ۔ لیکن کسی غریب اور کثیر العیال آدمی کا دنیا کے مال و متاع سے محروم ہونے کے باوجود تکبر کرنا ، کسی سبب اور محرک کے بغیر بہت ہی غیر معقول ہے اس طرح کے مجرموں کو قیامت کے دن یہ سزا ملے گی کہ :
٭ اللہ تعالیٰ ان سے محبت اور رحمت سے بات نہ کرے گا بلکہ غضب آلود لب و لہجہ میں ان سے خطاب کیا جائے گا۔
٭ ان کو گناہوں سے پاک کرکے جنت میں داخل ہونے کا مستحق نہ بنایا جائے گا ۔
٭ رحیم و کریم خدا کی نگاہ کرم کا دریا جوش میں ہو گا لیکن یہ افراد اس سے محروم ہوں گے۔
٭ ان سنگین جرموں کی حوصلہ شکن سزا کا اعلان کرکے انہیں دوزخ کی آگ میں پھینک دیا جائے گا تاکہ یہ بدبخت اپنی بدعملی اور سیاہ کاری کا مزہ چکھیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک طویل خواب کی روداد سناتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت جبریل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام کے ساتھ) ایک ایسی عمارت پر آئے جو تنور کے مانند تھی۔ اس میں ملی جلی آوازوں کا بہت شور تھا۔ ہم نے اس میں جھانکا تو پتہ چلا کہ اس میں ننگے مرد اور ننگی عورتیں ہیں۔ اس عمارت کی نچلی سطح سے آگ کے شعلے اٹھ اٹھ کر انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتے تھے اور وہ جب بھی ان شعلوں کی زد میں آتے تو بہت زور سے چیختے چلاتے اور شور مچاتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (یہ منظر دیکھ کر) میں نے ان سے پوچھا یہ کون ہیں؟
انہوں نے جواب دیا کہ آپ ؐ نے تنور نما عمارت میں جن ننگے مردوں اور عورتوں کو دیکھا ہے وہ زنا اور بدکاری کے جرم میں مبتلا تھے۔ (بخاری)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ
’’اس تنور نما عمارت کا بالائی حصہ تنگ تھا اور اس کے نچلے حصہ میں جو کہ بہت وسیع اور کشادہ تھا آگ جوش مار رہی تھی ۔ (اس میں ننگے مردوں اور عورتوں کا ہجوم تھا) جب وہ ان سے ذرا قریب ہوتی تو وہ لوگ اس حد تک بلند ی پر آجاتے کہ ان کا اس سے باہر نکلنے کا امکان پیدا ہو جاتا لیکن جوں ہی آگ کا جوش ذرا کم ہوتا وہ پھر آگ میں لوٹ آتے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجنائز)
اس سے معلوم ہؤا کہ عالم برزخ میں بدکار عورتوں اور مردوںکو آگ کی ایک تنور نما عمارت میں بند کر دیا جاتا ہے جب آگ جوش مارتی ہے اور اس کے شعلے ان کا تعاقب کرتے ہیں تو وہ چیخنے چلاتے اور دھاڑیں مارتے ہوئے حوالات کے بالائی دروازے تک پہنچ جاتے ہیں اور جب وہ ذرا دھیمی ہوتی ہے تو یہ اس کی نچلی سطح میں لوٹ جاتے ہیں۔ عذاب کا یہ سلسلہ حشر اجساد تک برقرار رہے گا ۔
’’ـحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! (صلی اللہ علیہ وسلم) کون سا گناہ زیادہ بڑا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: یہ کہ تو کسی کو اللہ کا مدمقابل اور ہمسر بنائے حالانکہ تجھے اللہ نے پیدا کیا ہے:میں نے عرض کیا پھر کون سا گناہ سب سے بڑا ہے۔ آپ نے فرمایا یہ کہ تو اپنے بیٹے کو قتل کرے اس اندیشہ سے کہ وہ تیرے ساتھ کھانا کھائے گا میں نے عرض کیا (اس کے بعد) پھر کون سا گناہ زیادہ بڑا ہے؟ آپؐ نے فرمایا یہ کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے۔‘‘ (بخاری)
۱۔کسی کو اللہ تعالیٰ کا مدمقابل اور ہمسر بنانے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے دعائیں مانگی جائیں، اس کی بندگی کی جائے، اس کے سامنے نذریں پیش کی جائیں۔ مصیبت دور کرنے اور حاجت روائی کے لیے اسے پکارا جائے حالانکہ ساری کائنات کا خالق، مالک، رازق اور حاکم صرف اللہ تعالیٰ ہے کسی کو اللہ تعالیٰ کا ہمسر بنانا اس کی ذات ، صفات، حقوق اور اختیارات میں شریک ماننا ایک ایسا سنگین جرم ہے جس کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا اور مجرم کو ہمیشہ کے لیے دوزخ میں پھینک دے گا چاہے وہ حج کرے، روزے رکھے اور روزانہ پانچ وقتوں کی نماز ادا کرتا رہے۔
۲۔ مفلسی کے اندیشہ سے اپنے بچے کو قتل کرنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شاید کسی انسان کو ناحق قتل کرنا چھوٹا اور معمولی گناہ ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں کسی انسان کو بھی ناحق قتل کرنا حرام ہے اور بہت بڑا جرم ہے۔
لیکن جو شخص افلاس کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل کرتا ہے وہ ود وجوہ کی بنا پر نہایت سنگین مجرم ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ اس کے رویہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید اسے اللہ تعالیٰ کے رازق ہونے پر یقین نہیں ہے۔ دوسری یہ ہے کہ اپنے ہی لخت جگر کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین کرنا انتہا درجہ کی سنگدلی اور درندگی ہے۔ اس لیے شرک کے بعد اسے سب سے بڑا گناہ قرار دیاگیا ہے جاہلیت کے زمانہ میں تنگدستی اور ناداری کے خوف سے لوگ اپنے بچوں کو قتل کر دیتے تھے جو شخص تنگدستی کے خوف سے اپنے بچے کو قتل کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی شانِ رزاقی پر بے اعتمادی کا اعلان کرتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
تم اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے۔‘‘
رزق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے وہ اپنی خاص حکمت اور مصلحت کے تحت اپنی خلق کے ایک ایک فرد کا رزق مقرر کرتا ہے اور پھر اسے اس کا حصہ عطا فرماتا ہے۔ ایک کثیر العیال آدمی خوشحال اور دولت مند ہو سکتا ہے اور ایک قلیل العیال شخص نادار اور مفلس ہو سکتا ہے۔
۳۔ پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنا شرک اور قتل اولاد کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے مسلمان کو مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنے پڑوسی کی عزت و آبرو کا نگہبان ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص اس کے پڑوسی کی آبرو کو میلی آنکھ سے دیکھے تو یہ اس کی آنکھ ہی پھوڑ دے لیکن اگر وہ خود ہی اس کی آبرو کا دشمن بن جائے تو وہ نہ صرف یہ کہ گناہ گار ہے بلکہ حسب ذیل وجوہ کی بنا پر بہت بڑا گناہ گار ہے۔
اس نے اس اعتماد کو سخت مجروح کیا ہے جو پڑوسی نے اس پر کیا تھا۔ پڑوسی کے گھر میں اپنی آمدورفت اور کثرتِ میل جول سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بھائی کی بیوی کو بہلا پھسلا کر یا خود اس کی دعوتِ گناہ کو قبول کرکے خیانت کی ہے۔
اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنے کو دوسری دس عورتوں سے زناکرنے سے بھی زیادہ سنگین قرار دیا ہے۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی عورت کو فریب دے کر اس کے شوہر سے دور کر دیا یا غلام کو دھوکا دے کر اس کے آقا کے خلاف بھڑکایا وہ ہمارے پیروکاروں میں سے نہیں ہے۔‘‘ (ابودائود)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے بے زاری کا اعلان کیا ہے جو کسی عورت کے تعلقات اس کے شوہر سے خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں مثلاً:
(۱) کسی عورت کے ذہن اور اخلاق میں ایسی خرابی پیدا کردینا جس کے نتیجہ میں اس کا شوہر اسے طلاق دینے پر مجبور ہو جائے۔
(۲) شوہر کی واقعی غلطیوں یا فرضی برائیوں کے افسانے سنا سنا کر بیوی کو اس حد تک متنفر کر دینا کہ وہ شوہر سے طلاق لینے یا خودکشی کرنے یا میکے جا کر بیٹھنے کا اقدام کر ڈالے۔
(۳) سازش کرکے ایک ایسا منصوبہ تیار کرنا کہ بیوی اپنے شوہر کے ساتھ ازدواجی زندگی بسر کرنے سے قطعاً انکار کر دے۔
(۴) کسی عورت کے سامنے اجنبی مرد کے شباب، حسن یا اس کی خوشحالی کا ایسا نقشہ کھینچنا کہ وہ عورت اپنے شوہر کو چھوڑ کر اس اجنبی مرد کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کر لے۔
(۵) کسی عورت کو دولت، خوشحالی یا شادی کا جھانسہ دے کر اغوا کرنا غرضیکہ کسی عورت کو بہلا پھسلا کر اس کے شوہر سے متنفر کرنا، جدا کرنا اور بسے بسائے گھر کو ویران کرنا بڑا سخت گناہ ہے۔اسی طرح وہ شخص بھی یقینا ًمجرم ہے جو شوہر کو بیوی سے متنفر کرنے کی کوشش کرے تاکہ وہ اسے طلاق دے کر کسی اور لڑکی سے شادی کر لے ۔
کسی نوکر یا خادم کو اس کے سردار کے خلاف اکسانا اور غلط فہمی میں مبتلا کرکے نوکری یا خدمت گزاری سے دستبردار کرا دینا بھی جائز نہیں ہے۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ بدکار آدمی زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا اور چور سرقہ کرتے وقت مؤمن نہیں ہوتا اور شرابی شراب پیتے وقت مؤمن نہیں ہوتا۔‘‘ (مسلم)
مؤمنِ کامل زنا نہیں کرتا ۔کسی شخص کے زانی ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کا ایمان بہت کمزور اور ناقص ہے۔ اسی طرح اس شخص کے ایمان میں بھی نقص اور کمزوری پائی جاتی ہے جو شراب پینے یا چوری کرنے سے دستبردارنہیں ہوتا۔
زناخاندانی زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیتا ہے، اس سے معاشرے میں فساد، بدامنی اور بے اطمینانی کے جراثیم پرورش پاتے ہیں اس کے علاوہ زنا پسند لوگوں کے دل سے غیرت و حمیت کا جذبہ کافور ہو جاتا ہے اور ایمان کا نور بھی ان سے سلب ہو جاتا ہے۔٭

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا :
’’ تم میں سے بہتر وہ ہے ، جو اپنے گھر والوں کے لئے بہتر ہے ،اور میں اپنے گھر والوں کے لئے بہتر ہوں۔‘‘(ترمذی)

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x