ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

داستان – بتول دسمبر ۲۰۲۰

ایک نیم پختہ سڑک پر سے فوجی جیپ اپنی مناسب رفتار سے چلتی آ رہی تھی۔ ڈرائیور کے پہلو میں کیپٹن عاصم اسلم بلیک گوگلز آنکھوں پر لگائے اپنا بایاں بازو جیپ کی ونڈو میں ٹکائے اتنا با رعب اور مضبوط لگ رہا تھا کہ جیسے دشمن کو چیرنے پھاڑنے کے لیے ایک اشارے کا منتظر ہو۔سڑک پر جب کبھی کبھار کوئی بچہ یا بائیک پر جاتا ہؤا کوئی نوجوان یا شوخ و چنچل لڑکیاں پاک فوج کی محبت میں دور سے ہی اس کی جیپ دیکھ کر آرمی آرمی کا نعرہ لگاتیں، اس کے کندھے قرض کے بوجھ کو محسوس کرنے لگتے۔ اور جب وہ محبت سے اپنا ٹوٹا پھوٹا سلیوٹ پیش کرتے اس کا دل باغ باغ ہو جاتا۔ اس کے جوابی کڑک سلیوٹ پر جب خوشی کے نعرے لگتے تو اس کی روح تک سرشار ہو جاتی۔
بچوں کو تو وہ محبت سے ہاتھ ہلا کر جواب دیتا جبکہ نوجوانوں کو ہاتھ کا مکا بنا کر ہوا میں لہرا کر جواب دیتا اور لڑکیوں کو سر اور آنکھیں جھکا کر بس ہاتھ ان کی طرف بلند کر دیتا ۔
کاکول اکیڈمی میں ٹریننگ کے دوران بریگیڈیئر عباسی نے ایک خطاب کے دوران سمجھایا تھا۔
’’ یہ سلیوٹ لوگ تمہیں نہیں کرتے بلکہ اس خاکی وردی کو کرتے ہیں جو تم نے پہن رکھی ہے۔ اس لیے اس وردی کی لاج رکھنا تمہارا فرض ہے‘‘۔
خصوصاً خواتین کے ساتھ اچھا اور نرم رویہ رکھنے کی بار بار تاکید کی جاتی ہے۔الیکشن ڈیوٹی کے دوران ٹرینرز نے سمجھایا کہ خواتین اساتذہ کے ساتھ ڈیوٹی ہو گی لہٰذا ان کی عزت اور احترام میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے۔کاشنز(cautions )کے انداز میں دھمک کے ساتھ نہیں بولنا جیسا کہ تم سب سپاہی اور آفیسرز اپنے یونٹ میں بات کرتے ہو بلکہ نرم لہجے میں بات کرنی ہے کہ کہیں وہ سہم نہ جائیں۔اپنا اسلحہ جتنا ممکن ہو ان سے اوجھل رکھنا ہے۔
پھر اسے یاد آیا کہ الیکشن ڈیوٹی کے دوران ووٹ کے لیے آنے والی عوام، ڈیوٹی پر موجوداساتذہ کرام، کیا بچے ، کیا بوڑھے، کیا نوجوان سب بڑی محبت سے پیش آئے، ان کے لیے طرح طرح کے کھانے بنا کر لاتے تھے۔ ان کے لیے چارپائیاں بستر آرام دے کرسیاں بچھاتے ،ان کا جی چاہتا تھا کہ پوری طرح نچھاور ہو جائیں اپنی پاک فوج پر کہ جو کافی عرصہ کے بعد اپنے یونٹوں سے نکل کر اپنی عوام کے درمیان آئی ہے۔
’’صاحب ! میجرصاحب کو سلام نہیں کریں گے؟ ‘‘ ڈرائیور نے جیپ کی رفتار آہستہ کر دی تھی۔
وہ اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آیا ،چونک کراس نے دیکھا ، لادیاں کا سٹاپ آچکا تھا۔
’’ ہاں کیوں نہیں ؟ بشیر تمہیں تو پتا ہی ہے کہ میں میجر صاحب کو سلام کیے بغیر ان سے باتیں کیے بغیر کیسے جا سکتا ہوں‘‘۔
جیپ آہنی گیٹ کے باہر جاکر رکی ۔ چوکیدار سالوں سے میجر صاحب کے اس عاشق کو جانتا تھا۔ بھاگ کر گیٹ کھول دیا۔ کیپٹن عاصم پھرتی کیساتھ جیپ سے نیچے اترا گیٹ کے اندر داخل ہؤا ۔ صاف شفاف اینٹوں کی راہداری جیسے ابھی ابھی جھاڑو دیا ہو، پانی کا چھڑکاؤ کرنے سے مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو آرہی تھی۔دائیں سائیڈ والے لان میں دیوار کے ساتھ ساتھ دراز قد سرسبز سرواور وہی بوتل برش کے بہت سے درخت اور ان پر سرخ پھولوں کی آئی ہوئی بہار۔ واہ۔ یہ وہ واحد درخت ہیں جو اس کی میجر صاحب کے ساتھ بچپن کی محبت کے گواہ ہیں۔ورنہ باقی سب پھول پودے درخت تبدیل کر دیے گئے ہیں۔جدید فیشن کے ایروکیریا،گھی، پام ،کھجور پام ،الٹا شوق لگا دیے گئے ہیں۔ سبزہ آنکھوں کو طراوت بخشتا ہے۔لب سڑک ہونے کے باوجود آہنی گیٹ کے اندر آتے ہی پرسکون خاموشی انسان کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ ایک لمبی راہداری عبور کرنے کے بعد اس کے میجر صاحب کی آرام گاہ کا ڈیڑھ فٹ اونچا جنگلہ شروع ہو جاتا ہے کچھ قدم اور بڑھانے پر جنگلے کا چھوٹا سا گیٹ جیسے کسی کھلونا مکان کا دروازہ جو اس کے گھٹنوں تک آتا تھا کھول کر وہ اندر چلا گیا۔ سامنے دو قدم کی اونچائی پر سنگ مرمر کا چبوترا صاف دکھائی دے رہا تھا۔سب سے پہلے وہ کتبے پر لکھی عبارت پڑھتا۔
’’ نشان حیدر‘‘
’’میجر عزیز بھٹی شہید‘‘
’’6 ستمبر 1965‘‘
وہ میجر عزیز بھٹی کی آخری آرام گاہ پر فاتحہ نہیں پڑھتا تھا وہ تو اسے قبر بھی نہیں کہتا تھا ۔اس کی اپنی منطق تھی۔ وہ انہیں زندہ سمجھتا تھا اور ان سے باتیں کیا کرتا تھا۔ یونٹ میں ہونے والے واقعات، اپنے فوجی ساتھیوں کی باتیں،اپنی ڈیوٹی کے علاقے کی روداد، آفیسرز کے حکم نامے اور بہت کچھ۔
’’دیکھئے ناں میجر صاحب۔ بریگیڈیئر علی نے سیاچن محاذ کے لیے پھر سے میرا نام شامل نہیں کیا‘‘ اس نے سلام دعا کے بعد سنگ مر مر کے چبوترے کو مخاطب کر کے کہا۔
’’لیکن صہیب کو بھیج دیا محاذ پر ‘‘اس نے ماتھے پر تیوری چڑھا کر شکایت کے انداز میں بتایا۔
’’وہ مجھ سے زیادہ بہادر ہے کیا بتائیے ذرا…..فائرنگ کی ٹریننگ کے دوران پہلی گولی چلنے کے آواز پر اس کے کانوں میں خارش ہونے لگی تھی…..فاور اب چلا ہے سیاہ چن کی برفوں سے کھیلنے‘‘اس نے مسکراتے ہوئے چبوترے کی طرف دیکھا۔
’’ کیا ؟‘‘ وہ ہاتھ کو کان کے پاس لے جا کر ایسے کہتا جیسے میجر صاحب نے اس کی بات کا جواب دیا ہو۔
’’ہر بار آپ یہی کہتے ہیں کہ تمہاری باری بھی آئے گی۔ تمہارا محاذ بڑا سخت ہوگا۔ کب آئے گا وہ محاذ جس پر لڑ کر میں اپنا سب کچھ اپنے وطن پر نچھاور کروں گا‘‘ وہ معصوم بچوں کی طرح روٹھ جاتا۔
میجر صاحب کے ساتھ بہت سی باتیں کرکے ،اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر کے اپنی روح کو سرشار کر کے آئندہ جلد واپس آنے کا وعدہ کر کے وہ گھر کو روانہ ہؤا۔
٭٭٭
’’ عاصم تم نے اپنا شوق پورا کر لیا اب مجھے بھی اپنا شوق پورا کرنے دو‘‘ رات کے کھانے پر خوب محفل جمی تھی،چونکہ سب بھائی بہن اکٹھے تھے ماں نے دل کی بات کہہ دی۔
’’ہاں بھئی اب اگر تم اجازت دو تو ہم تمہارا فرض بھی پورا کر دیں ‘‘ والد نے عاصم کے بولنے سے پہلے ہی کہہ دیا۔
بہن بھائیوں نے بھی’’ ہا ں ہا ں‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔
عاصم موضع صبور کا رہائشی تھا۔ دو بڑے بھائی امجد اسلم ،عامر اسلم ،عاصم اسلم اور ایک بہن زارا سب سے چھوٹی۔زمیندار کھاتا پیتا گھرا نہ تھا ،بھائی شادی شدہ تھے اور بہن یونیورسٹی میں بی ایس آنرز کے دوسرے سال میں تھی۔سب اپنے اپنے کاروبار کرتے تھے عاصم کو بھی زمین داری سنبھالنے اور کوئی کاروبار کرنے کا مشورہ دیا گیا مگر اگر اسے آرمی کا جنون تھا۔ ’’لادیاں‘‘میجر عزیز بھٹی کا گاؤں صبور سے صرف پانچ منٹ کے فاصلے پر ہے۔عاصم کا بچپن لادیاں اور صبور کے درمیان گزرا۔ بچپن میں اکثر وہ اپنے دوستوں کے ساتھ دوڑتا بھاگتا مزار پر آ جاتا وہ یہاں پر کھیلتے کودتے ، 6ستمبر کی تقریب تو اس نے کبھی miss نہیں کی۔پھر جب نوعمری کو پہنچا تو شعور میں یہ بات بیٹھ گئی کہ میجر عزیز بھٹی وطن کا ہیرو ہے، جس نے 6ستمبر 1965 کو دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان قربان کر دی مگر دشمن کو بی آر بی نہر پار نہ کرنے دی۔اسے تب سے خود بھی ایک آرمی افسر بننے کا جنون تھا۔
’’کہاں گم ہو گئے ‘‘ بڑے بھائی نے چٹکی بجاتے ہوئے اس کو چونکا دیا۔
عاصم کا دل زور سے دھڑکا تھا ، دل کے کسی گوشے میں ایک البیلی سی صورت سما گئی۔ وہ جب بھی آتی ،مسکراتی آنکھیں اور خاموش لہجہ اس کو بتا دیتا کہ اس کے دل میں بھی کہیں عاصم کے لیے جگہ ہے ۔ مگر اظہار دونوں طرف سے نہیں ہؤا تھا۔
اس گد گداتے میٹھے سے احساس نے ابھی محبت کا معنی نہیں پایا تھا کہ وہ اپنے خاندان سمیت بیرون ملک چلی گئی۔ مگر عاصم نے اپنے دل کے گوشے میں اس احساس محبت کو کئی بار سنا تھا۔
’’ نہیں بھائی ایسا تو کچھ نہیں ‘‘ اس کے منہ پر خاموشی مگر دل چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا’’حمنہ حمنہ حمنہ ۔‘‘
’’چچا کی بیٹی حمنہ کیسی رہے گی ؟ ‘‘ ماں تو ہمیشہ جانتی ہوتی ہے۔
وہ دل میں آنے والے نام کو ماں کے منہ سے سن کر حیران رہ گیا ، دل کی دھڑکن پورے وجود میں سمائی ہوئی محسوس ہوئی۔
’’چچا چچی کا رحجان بھی تمہاری طرف ہے کئی بار فون پر تمہارے لیے اظہار پسندیدگی کر چکے ہیں‘‘ والد نے اطلاع کی۔
سب بہن بھائیوں اور والدین کی طرف سے ایک بار پھر ہاں ہاں کے نعرے بلند ہونے کے بعد اس نے حمنہ کے لیے اوکے کر دیا۔
دونوں گھرانوں کے درمیان دو چار فون کالز ہوئیں اور وہ احساس محبت منگنی کے رشتے میں تبدیل ہوگیا۔
٭٭٭
آکسفورڈ یونیورسٹی لندن کی دوسری منزل کے فرنشڈ کوریڈور کے جنگلے کے پاس کھڑی وہ دور کہیں سبزہ زاروں کی جانب نگاہ کیے اپنے خیالوں میں مگن تھی۔پاکستان میں عاصم کے ساتھ منگنی ہو جانے کے بعد حمنہ آج یونیورسٹی آئی تھی اور عجیب سرور کی سی کیفیت میں مبتلا تھی۔ پاکستان میں گزرے دن اور تایا کے گھر گزرا بچپن، عاصم کی خاموشی مگر اس میں پنہاں محبت …..اور پھر کتنا مشکل تھا پاکستان میں اس کو چھوڑ کر آنا !
ہاں یہ سچ ہے کہ وہ پاکستان کو چھوڑ آئی تھی لیکن عاصم کی یادیں ہمیشہ اس کے ساتھ تھیں۔
’’ان جنگلوں میں میری دوست کو پاکستان آرمی تو دکھائی نہیں دے رہی؟ ‘‘ سبین نے حمنہ کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے ماضی کے دریچوں سے نکالا۔
’’ اوہ نو …..میں تو تمہارا انتظار کر رہی تھی‘‘ حمنہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اچھا جناب آپ کا چہرہ تو کچھ اور بتا رہا ہے۔ خیر منگنی کی بہت مبارک ہو‘‘۔
’’خیر مبارک ‘‘۔
’’لیکن یار ! بہت عجیب بات ہے کہ تم نے پاکستان میں شادی کا ارادہ کیا ہے‘‘۔ سبین نے کہا۔
’’ ہاں تو ؟ ‘‘ حمنہ نے ناسمجھی میں کہا۔
’’میرا مطلب ہے کہ تم لندن دی گریٹ کو چھوڑ کر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں کیسے زندگی گزارو گی؟ سنا ہے وہاں پر بڑی گرد اور مٹی ہوتی ہے ، ٹوٹی سڑکیں، گاڑیاں کھلونوں کی طرح جھولے دیتی ہیں اور پھٹیچر گاڑیاں پھٹ پھٹ کرتی دھواں چھوڑتی ہیں‘‘۔ نادیہ نے خوف سے بڑی بڑی آنکھیں نکالتے ہوئے کہا
’’یہ تمہیں کس نے کہا کہ میں پاکستان میں زندگی گزاروں گی؟ ‘‘ حمنہ نے عالم پریشانی میں کہا ۔
’’تو کیا تم یہیں رہوں گی؟‘‘ سبین نے کہا۔
’’ ہاں of course ……‘‘ حمنہ نے آنکھیں پھیلاتے ہوئے کہا۔
’’اور تمہارا وہ سپاہی ؟‘‘
’’ وہ بھی یہیں پر سیٹل ہو جائیں گے‘‘ حمنہ نے فخر سے کہا
’’لیکن وہ تو تم نے بتایا تھا کہ آرمی کا دیوانہ ہے ‘‘۔
’’ہاں ہے دیوانہ ، مگر بہت کر لی آرمی کی جاب ،اب لندن میں سیٹل ہو جائے گا میں سمجھا لوں گی میرے والدین بھی بات کریں گے ظاہر ہے کہ میں وہاں کیسے رہ سکتی ہوں ‘‘ حمنہ نے وضاحت کی۔
’’کیا تم لوگوں نے اس کو اشارتاً بھی پہلے یہ بتا رکھا ہے کہ وہ یہاں آ کر تمہارے ساتھ سیٹل ہو گا؟‘‘سبین نے پوچھا۔
’’ام م نہیں ……مگر وہ مان جائے گا۔ آخر کون ہے جو لندن میں سیٹل ہونا پسند نہ کرے‘‘حمنہ کو یقین تھا۔
’’ خیر وہ یہاں آ بھی گیا تو اس کے اندر اپنی پاکستانی فرسودہ روایات کوٹ کوٹ کر بھری ہوں گی، تمہارے لیے یہاں بھی زندگی کچھ مشکل ہی ہو جائے گی‘‘سبین نے زہر خند لہجے میں کہا۔
’’ایسا کچھ نہیں ہونے والا ۔ میرے تایا کی فیملیbroad minded ہے ۔ تم اپنا بتاؤ تمہارا کیا ارادہ ہے‘‘ حمنہ نے اسے مطمئن کرتے ہوئے کہا۔
’’ وہی افہام……اسی لندن کا پروردہ ‘‘ نادیہ نے سرشاری کے عالم میں کہا۔
’’ ہاں تو ہماری نادیہ بھی کسی سے کم نہیں‘‘ حمنہ نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
نادیہ کی فیملی لاہور سے کئی سال پہلے لندن میں سیٹل ہو گئی تھی جبکہ افہام کی فیملی کا تعلق کراچی کے ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تھا۔ افہام اور نادیہ یونیورسٹی میں کلاس فیلوز تھے اور کافی قریب تھے۔ دو ماہ کے بعد ہی یونیورسٹی آف ہونے کے بعد افہام اور نادیہ نے شادی کرلی جبکہ حمنہ کی شادی کی تیاریوں کا سلسلہ جاری تھا کہ لندن سے چچا جان کی کال نے عاصم کے گھر میں کھلبلی مچا دی۔انہوں نے یہی مطالبہ کیا تھا کہ عاصم آرمی کی جاب چھوڑ کر لندن میں مستقل سیٹل ہو جائے اور یہ کہ ٹیلی فون کے ذریعے نکاح کر لیا جائے اور اس کے پیپرز بنوانے کے لیے لندن ایمبیسی میں دے دیے جائیں۔ گھر والے تو پہلے ہی عاصم کو کوئی کاروبار کروانا چاہتے تھے ،اس لیے ان کے نزدیک یہ مطالبہ جائز تھا ، اب عاصم اور گھر والوں کے مابین یہ بحث جاری تھی۔
٭٭٭
’’بیٹا آج کل کون ہے جو باہر ایک ترقی یافتہ ملک میں سیٹل نہ ہونا چاہےوہ تو ہر ایک کا خواب ہے لوگ تو اپنی جائیدادیں تک بیچ ڈالتے ہیں،اور تمہیں یہ سب کچھ اتنی آسانی سے مل رہا ہے تو اپنی ضد چھوڑ دو ‘‘ماں نے سمجھاتے ہوئے کہا،وہ آج دوپہر کے کھانے پر اکٹھے تھے،سب بہن بھائی بھی موجود تھے اور اس کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
’’ ماں آپ جانتی ہیں کہ آرمی میرا جنون ہے میں نے بڑی محنت سے یہ کیریئر اپنایا ہے ،اب یہ میں کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟‘‘عاصم نے کہا۔
’’ارشد صاحب کے بیٹے منیب نے بھی اڑھائی سال آرمی کی جاب کرنے کے بعد استعفیٰ دے دیا اور باہر چلا گیا۔اب وہاں سیٹ ہے بیوی بچوں کے ساتھ ‘‘ والد نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’ڈیڈی ساری چمکتی ہوئی چیزیں قیمتی نہیں ہوتیں،لوگ اکثر دھوکا کھا جاتے ہیں اور قیمتی چیزیں ظاہری چمک دمک کے بدلے گنوا دیتے ہیں۔ میں آرمی چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا اس کے لیے چاہے مجھے کوئی لندن کی بادشاہت ہی کیوں نہ آفر کر دے‘‘ عاصم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اور منیب یہ بھی کہتا تھا کہ آرمی میں بھی سفارش ہے ،بہت حد تک کرپشن بھی ہے، خرابیاں ہیں، ترقی صرف اس کی ہوتی ہے جو خوشامد کرے ‘‘۔ اب کے چھوٹے بھائی صاحب نے ذرا دھیرج سے کہا کہ عاصم کو غصہ نہ آئے۔
’’یوں تو پاکستان میں کوئی بھی ادارہ کرپشن سے پاک نہیں ہے۔ تو کیا اچھی سوچ کے لوگ ادارے چھوڑ کر گھروں میں بیٹھ جائیں ، میں یہ نہیں کہتا کہ پاک آرمی فرشتوں کی فوج ہے لیکن ہم ان خرابیوں کی وجہ سے کیا آرمی کو چھوڑ دیں گے یا اپنی ذات کی وجہ سے اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گے ؟‘‘ عاصم نے سوالیہ انداز سے بھائی صاحب کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’کتنے نوجوان شہید ہو گئے ہیں ، وزیر ستان ،بلوچستان، کشمیر اور سیاچن کے محاذ پر‘‘بھائی صاحب تو لاجواب ہوگئے مگر ماں کے دل کو کھٹکا لگا تھا۔
’’ارے امی جان! موت تو روڈ ایکسیڈنٹ سے ،اٹیک سے کسی بھی وجہ سے آ سکتی ہے، جو آرمی میں نہیں ہوتے ان کو موت نہیں آتی ؟‘‘ عاصم نے ماں کے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں البتہ عام بندہ مرے تو مردہ،اگر ہم مریں تو شہید‘‘ ۔ اس نے ماں کی ڈوبی ہوئی سسکیوں کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔
وہ آرمی کے حوالے سے بالکل یکسو تھا۔ اس کو قائل کرنا گھر والوں کے لیے مشکل ہو رہا تھا۔ پھر ترپ کا آخری پتہ پھینکا گیا۔
’’حمنہ کے ساتھ رشتہ ختم ہو سکتا ہے کیونکہ وہ پاکستان میں رہنے پر کسی صورت میں آمادہ نہیں ہوگی‘‘ والد نے سمجھایا۔
اب لاجواب ہونے کی باری اس کی تھی۔ اس نے خاموشی سے سب پر ایک اداس نگاہ ڈالی اور یہ کہہ کر اٹھ کر چلا گیا کہ اسے سوچنے کا وقت دیا جائے۔
ملا کی دوڑ مسجد تک…… وہ جیپ ڈرائیو کر کے میجر صاحب کے پاس پہنچ گیا۔
’’ کیا کروں آپ ہی بتائیں……یہ لوگ مجھ سے میرے جنوں کو چھیننا چاہتے ہیں‘‘۔
اس نے سفید چبوترے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کیا؟‘‘ اس نے ہاتھ کان کی طرف لے جاتے ہوئے کہا۔
’’ہمت کرو اور ڈٹ جاؤ……‘‘ ادھر سے آواز آئی۔
’’کیسے ہمت کروں ۔افسوس کہ گھر والوں کے ساتھ ساتھ وہ بھی……!‘‘ اس نے افسردہ آواز میں کہا۔
’’کہا تھا ناں…… کہ تمہارا محاذ بہت سخت ہوگا میرے شیر گھبرا نا بالکل نہیں‘‘ادھر سے آواز آئی۔
’’ہوں ں ں ‘‘ ایک دبی ہوئی سسکی سی نکلی بس۔
’’ committed لوگ زندگی میں کسی نہ کسی موڑ پر ضرور کامیاب ہو جاتے ہیں ‘‘ ادھر سے آواز آئی۔
اس کی آنکھوں میں چمک آگئی ۔جواب مل گیا ، خوشی خوشی واپس لوٹا،گھر والوں کو آخری فیصلہ سنا دیا کہ وہ آرمی چھوڑ کر باہر نہیں جائے گا۔اگر حمنہ کی فیملی کو یہ منظور ہے تو ٹھیک ورنہ وہ اپنا راستہ الگ کرلیں ۔
اپنی فیملی کو یہ شاک نما خبر دے کر وہ رات کو بستر پر لیٹا ہی تھا کہ ایک اور محاذ کی اطلاع آگئی۔
بریگیڈیئر علی کی کال تھی ۔اس کی چھٹی کینسل کر کے اس کو بلوچستان میں دہشتگردوں کے خلاف لڑنے کے لیے جانے والے سکواڈ میں شامل کیا گیا تھا۔ اس نے فوراً واپسی کی تیاری کی ۔گھر والوں کو اطلاع کی ،ماں سے دعائیں لیں۔اس کو منایا کیسے یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ والد نے بھینچ کر سینے سے لگایا اور بھائیوں نے بڑے دل سے الوداع کہا۔بہن کی آنکھوں میں آنے والے آنسو دیکھے بغیر اس کے سر پر ہاتھ رکھااور پہنچ گیا محاذ پر۔
محبت کے جو طواف بچپن سے لے کر اب تک اس نے لادیاں اور صبور کے درمیان کیے تھے ان کا صلہ ملنے کا وقت آگیا تھا۔
٭٭٭
عاصم کے فیصلے کی اطلاع حمنہ اور اس کے گھر والوں کو دے دی گئی۔حمنہ کے والدین تو کچھ پریشان ہوگئے مگر حمنہ غصے سے پاگل ہو گئی۔اسے یقین نہ آیا کہ عاصم اسے آرمی کی خاطر ریجیکٹ کر سکتا ہے۔انگلش اور اردو میں ملی جلی خرافات کہنے کے بعد اس نے بھی رشتہ ختم کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔والدین نے کچھ تھوڑا بہت قائل کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان میں عاصم کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کر لے۔کیوں کہ وہ جانتے ہی تھے کے بہرحال عاصم ایک اچھا لڑکا تھا۔ مگر حمنہ پاکستان جیسے غریب اور گندے ملک میں جہاں گرمی اور حبس زدہ موسم کو برداشت کرنا ناممکن تھا ،رہنے پر آمادہ نہیں تھی۔
والدین نے پاکستان میں تایا کی فیملی کو حمنہ کے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔انہیں عاصم کے محاذ پر جانے کی خبر بھی پہنچ گئی جو حمنہ کو بھی پتہ چلی ۔
’’اب اس کی عقل ٹھکانے آئے گی۔لڑے جا کر دہشت گردوں کے ساتھ……جہاں چٹیل میدان ہیں ، سوکھی زمین ہے ،نہ پانی ملتا ہے نہ سایہ……‘‘ حمنہ نے تبصرہ کیا۔
دو ماہ گزر گئے عاصم کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں آئی۔ گھر والے عجیب پریشانی کے عالم میں تھے۔ہیڈ کوارٹر رابطہ کیا جاتا تو جواب آتا کہ سب خیریت ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں بتا سکتے۔ماں کا دل بہت اداس تھا تھا وہ کہتی تھیں کہ ایک دفعہ خود کال کرکے مجھے اپنی آواز تو سنا دے۔
’’ماں آرمی کے اپنے قوانین ہوتے ہیں.. ہمیں بس صبر سے انتظار کرنا چاہیے‘‘ بیٹے سمجھاتے مگر بے چین ماں کو کہاں قرار تھا , ہاتھ میں تسبیح لیے ہر وقت گھماتی رہتی تھیں۔
٭٭٭
بظاہر تو حمنہ انکار کرچکی تھی مگر پھر بھی دل کے کسی گوشے میں ایک موہوم سی امید تھی کہ عاصم کی کال آئے گی۔وہ محاذ کی سختیوں سے گھبرا جائے گا۔وہاں سے اس کو کال کرکے معافی مانگے گا کہ میرا فیصلہ یقینا غلط تھا اور اگر میں اس محاذ سے زندہ بچ کر آگیا تو آرمی چھوڑ دوں گا اور تمہاری خاطر تمہارے ساتھ باہر آکر سیٹل ہو جاؤں گا۔آخر کار وہ عاصم سے محبت کرتی تھی۔
چار ماہ گزر گئے عاصم کی کال تو نہ آئی مگر ایک دن نادیہ کی کال آئی اور وہ کافی گھبرائی ہوئی اور رو رہی تھی۔
’’کیا ہوا تمہیں اتنی پریشان کیوں ہو؟‘‘حمنہ نے پوچھا
’’وہ بالکل بدل گیا ہے۔ اس میں وہ پہلی سی بات ہی نہیں رہی‘‘ نادیہ نے تقریبا سسکتے ہوئے کہا۔
’’کک کک کون ……کون بدل گیا ہے کس کی بات کر رہی ہو؟ ‘‘ حمنہ نے نا سمجھی کے عالم میں کہا۔
’’افہام‘‘نادیہ نے جواب دیا۔
’’کیوں کیا ہوا اسے‘‘۔حمنہ نے پوچھا۔
’’ کچھ نہیں ۔ بس دل بھر گیا ہے اس کا۔ کئی گرل فرینڈ بھی بنا رکھی ہیں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا۔میں سمجھتی تھی کہ بس میں ہی اس کے دل کی رانی ہوںمگر وہ تو……شوہر بننے کے بعد اس کو تو جیسے مجھ سے دلچسپی ہی نہیں رہی ‘‘ نادیہ کہتے کہتے رک گئی۔
’’اور پھر میرے اعتراض کرنے پر الٹا اس نے مجھے بہت سنائیں،کہا کہ پاکستان کو چھوڑ آئی ہو لیکن تمہارے اندر وہی جہالت ہے ‘‘ نادیہ نے بے بسی سے کہا۔
’’ اور تمہیں پتا ہے میری حالت کا……لیکن مجال ہے جو اس کو آنے والے بچے کی ذرا بھی خوشی ہو الٹا مجھ سے ناراض ہوتا ہے کہ عین شباب کے عالم میں تم نے مجھے باپ بنا دیا۔ابھی تو میرے آزادی کے دن تھے ،ایسی بھی کیا جلدی تھی۔وہ اس بچے سے جان چھڑانا چاہتا ہے مگر میرا دل نہیں مانا۔ بس اسی وجہ سے اور زیادہ دور ہو گیا ہے‘‘۔نادیہ نے تقریباً روتے ہوئے کہا۔
’’پھر اب کیا ارادہ ہے تمہارا؟‘‘ حمنہ نے پوچھا۔
’’ابھی تک توگھسٹ رہی ہوں اس زندگی کے ساتھ لیکن اس کے ساتھ شاید زیادہ عرصہ نہ رہ سکوں‘‘ نادیہ نے بے بسی سے کہا۔
پھر نادیہ سے کافی باتیں کرنے اور اسے تسلی دینے کے بعد اس کا فون تو بند ہو گیا لیکن وہ بہت دیر پریشان رہی۔ میاں اور بیوی کے درمیان کھوکھلے رشتے ، مادر پدر آزاد زندگی ،کیا ایک آدمی کی کمٹ منٹ اتنی کمزور ہوتی ہے ۔ ایک نہیں تو دوسری ،دوسری نہیں تو تیسری……افہام کو تو بہت دعویٰ تھا اور نادیہ کو بہت ناز، مگر تھوڑے عرصے کی رفاقت میں سب ختم ہو گیا۔
اسے ایک committed آدمی کی تلاش تھی،لیکن شاید یہ لندن ’’The Great‘‘میں ممکن نہیں۔
’’آہ ! وہ لندن جہاں گرد اور مٹی نام کو نہیں، جہاں ترقی اور اعلیٰ سوسائٹی ہے مگر جس کے خوبصورت چہرے کے پیچھے انتہائی مکروہ شکل ہے‘‘اس نے تلخی سے سوچا۔
٭٭٭
آج عاصم کے گھر میں ایک کام والی ، عاصم کی ماں اور بہن موجود تھیں جبکہ والد اور بھائی کام پر تھے ، کام والی کام کاج میں مصروف تھی جبکہ زارا پڑھائی میں مصروف اور ماں مصلے پر بیٹھی تسبیح گھما رہی تھیں کہ دروازہ بجا ، بالکل ایسے ہیں جیسے عاصم بجاتا تھا۔
سب نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا۔
ماں کی انگلیاں تسبیح کے دانوں پر رک گئیں۔
بھاگ کر لرزتے ہاتھوں سے زارا نے دروازہ کھولا۔
سامنے عاصم کندھے پر بیگ ڈالے، بلیک گوگلز لگائے کھڑا مسکرا رہا تھا۔
پھر اس گھر میں خوشیاں لوٹ آئیں ، ماں نے کتنی ہی بلائیں لیں ۔
’’میرا بچہ کمزور ہو گیا ہے‘‘۔ ماں نے سر گود میں لے کر کہا۔
’’ہاں نا ں امی آپ پراٹھے کھلا کھلا کر کر صحت ٹھیک کر دینا ‘‘ عاصم نے کہا۔
رات کے کھانے پر سب اکٹھے تھے۔ عاصم بلوچستان کے محاذ کی روداد سنا رہا تھا بظاہر خوش مگر اس کی ہر بات ایک اداسی لیے ہوئے۔
’’تم کچھ پریشان دکھائی دیتے ہو‘‘بڑے بھائی صاحب نے محسوس کیا اور کہہ دیا۔
’’بس ان ساتھیوں کی یاد آرہی ہے جو محاذ پر میرے ساتھ تھے۔ کیسی جانفشانی سے انہوں نے دشمنوں کا مقابلہ کیا ۔ میں نے اپنے یونٹ کے 9 سپاہیوں کو شہید ہوتے دیکھا۔ اپنے کندھے پر 9 سپاہیوں کی شہادت کا بوجھ ہے ‘‘ عاصم نے اداسی سے کہا۔
کھاتے کھاتے سب کے ہاتھ رک گئے ۔ آنسوؤں کا گولا سا گلے میں پھنس گیا۔
’’کہنے کو 9 سپاہی،مگر 9 خاندان ۔ ماں وہ بھی تو کسی کے بیٹے تھے‘‘ عاصم نے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ ماں…… ان کا دروازہ بھی بجا ہوگا…… ؟‘‘ عاصم اتنا ہی کہہ سکا اور کھانے کہ میز سے اٹھ گیا۔
پھر عاصم کی خیریت سے واپسی کی اطلاع لندن بھی گئی۔ اس کی بہادری کے قصے بھی وہاں پہنچے۔ حمنہ کے والدین نے عاصم کی خیریت دریافت کرنے کی غرض سے کال کی ۔
کال عاصم کے ابو کے موبائل پر آئی۔ وہ اپنے بھائی سے بات کر رہے تھے کہ عاصم نہا دھو کر لاؤنج میں آیا اور ماں کے پاس بیٹھ کر چچا اور ابو کی باتیں سننے لگا ۔ ماں ناگواری سے انہیں دیکھ رہی تھیں کہ اتنی لمبی کال کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ظاہر ہے وہ ماں تھیں اور حمنہ کے انکار کی وجہ سے آزردہ تھیں ۔ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد انہوں نے مسکراتے ہوئے فون بند کر دیا۔
’’کچھ بتائیں گے کہ آپ کے بھائی صاحب نے کیاکہا اور یوں مسکرا مسکرا کر باتیں کرنے کی وجہ کیا ہے؟‘‘ عاصم کی ماں نے ذرا تلخ لہجے میں پوچھا۔
عاصم نے بھی والد کی طرف دیکھا۔
’’عاصم ! عامر کو فون کرو ،بازار سے آتے ہوئے پانچ کلو مٹھائی کا ٹوکرا لے آئے‘‘۔
’’مٹھائی ؟ مگر کیوں ؟‘‘ ماں نے پوچھا۔
’’ حمنہ ہماری بہو بن کر پاکستان جو آ رہی ہے‘‘ والد نے اطلاع کی۔
دل زور سے دھڑکا تھا۔ پورے وجود میں شہنائیاں سی بجی تھیں،چہرہ گلابی ہو گیا۔ زارا نے پیچھے سے آ کر عاصم کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔اس نے مسکرا کر اس کے ہاتھ تھام لیے۔
عاصم نے والد کے کہنے پر بھائی کو فون کر دیا اور خود باہر جانے کے لیے دروازے کی طرف بڑھا۔
’’تم کہاں جارہے ہو ‘‘ماں نے پوچھا۔
’’میجر صاحب سے ملنے‘‘ عاصم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’ شام سے پہلے نہیں لوٹے گا تمہارا لاڈلا۔ کیوں کہ حمنہ اور بلوچستان کے محاذ کی داستان بہت لمبی ہے‘‘۔ والد نے مسکراتے ہوئے عینک لگائی اور اخبار پکڑ لیا۔

٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x