ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

دعاؤں کی چھاؤں – بتول دسمبر ۲۰۲۰

والدین کی دنیا سے رخصتی کے بعد اولاد کے لیے سب سے بڑا خلا اورمحرومی دعا کا وہ در بند ہو جانا ہے جس کے لیے (بعض روایات کے مطابق) حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدرنبی کی ہستی کو بھی کوہ طور پر خبردار کیا گیا کہ موسٰی اب ذرا سنبھل کر ،تمہاری ماں کا انتقال ہو گیا ہےجو سجدے میں دعا کرتی تھی کہ اے رب اگر موسیٰ سے بھول چوک میں غلطی ہو جائے تو معاف کر دینا !
میری ساس صاحبہ کو دنیا سے رخصت ہوئے ایک سال مکمل ہؤا ،لیکن ان کے ساتھ گزرا وقت ابھی کل کی بات لگتی ہے۔ مجھے سب سے زیادہ ان کی دعاؤں اور شام کے وقت دو گھنٹے کی ان کے ساتھ نشست کہیں، بیٹھک کہیں، محفل کہیں، یا زندگی اور تازگی سے بھرپور روبرو ملاقات جس میں ہم دونوں تازہ دم ہو جاتے تھے ،ان لمحوں کی شدت سے کمی آج بھی محسوس ہوتی ہے،اس دوران میں اپنی ہر مصروفیت چھوڑ دیتی تھی، موبائل آف کر دیتی تھی۔ دن بھر میں میرے لیے یہ ایک خصوصی وقت ہوتا تھا جس کی تیاری میں دو گھنٹے پہلے اپنے کام سمیٹ کر کرتی تھی ۔
اس بیٹھک کی مختصر روداد……دن بھر کے معمولات، حالات حاضرہ، روزانہ کے اخبار کی خبروں پر تبصرے ، خاندانی معاملات ،محلے اور خاندان میں کسی کی خوشی غمی کی خبریں، کھانوں کی ترکیبیں، مشورے، ان کے پرانے قصے، ان کی اپنے بچوں کے بچپن کی یادیں۔ الغرض کوئی موضوع ایسا نہیں تھا جو تبادلہ خیال کی گرفت میں نہ آتا ہو ۔ان کے تجربات کی روشنی میں ہم نے ہمیشہ رہنمائی پائی اور ان کی رائے کو ہمیشہ اہمیت دی یا اپنی بات پر قائل کرتے ہوئے باہم رضامندی سے چلے۔
ان کی ایک اہم خوبی کسی کی غمی ،بیماری یا انتقال کی خبر سن کر سب سے پہلے پہنچنا تھا اور آگے بڑھ کر تسلیاں دینا تھا ۔اگر وہ خود ناسازی طبیعت کی وجہ سے نہ جا پاتیں تو اشرف اور مجھے فورا ًبھیجتیں ۔اپنی خوبصورت آواز میں نعتیں سناتیں ۔میں کھانا بناتے ہوئے مسحور ہو جاتی ۔میں بلا تکلف ان سے مذاق بھی کر لیا کرتی لیکن ہمیشہ ادب ملحوظ خاطر رکھا ۔ان کا دلجو ئی کرنے کا انداز بھی بڑا تشفی بخش ہوتا تھا ۔اپنی کوئی تکلیف بتا کر ایسا معلوم ہوتاکہ انھوں نے الفاظ کا مرہم رکھ دیا ہو ۔ان کے ان الفاظ میں جادوئی اثر ہوتا تھا کہ تکلیف آدھی دور ہو جاتی لیکن وہ خود دوسروں کی تکلیف پر اس سے زیادہ پریشان اور فکر مند ہو جاتیں ۔
ان کے اپنے پڑوسیوں سے بہت اچھے تعلقات تھے، خواتین اور بچیوں کو کھانے پکانے سکھائے، کسی کے ہاں بچے کی پیدائش ہوتی تو اپنے ہاتھ سے سوئیٹر سیٹ بنا کر دیتیں۔،کوئی ضرورت کی چیز مانگ لیتا تو فورا دیتیں ۔خاندان کے چھوٹے بچوں ،اپنے بچوں کے بچوں سے بہت محبت کرتیں، ہر بچے نے ان کے جھولا جھلا کر سلانے کے مزے لیے، اور تھکنے کے باوجود وہ بچے کے سونے تک تھپکتی اور جھلاتی رہتیں ۔اس دوران نعتیں یا لوری ان کی زبان پر جاری ہوتیں ۔بچوں کی پسندیدہ چیز انھیں منگوا کر دیتیں ۔الغرض بچے آج بھی دادی کی قربت کو یاد کرتے ہیں ۔
جب وہ بیمار ہوگئیں تو ہسپتال جانے کے لیے سب سے زیادہ پریشان اس بات سے ہوتیں کہ اوپر کی منزل سے کرسی پر بٹھا کر بچے کیسے اتاریں گے ۔ بچوں کی تکلیف کے خیال سے پریشان ہو جاتیں ۔مجھے آج بھی ان کے جملے یاد ہیں جب وہ سیڑھیاں اتارتے بیٹے اشرف کو ہاتھ اٹھا کر دعا ئیں دیتیں کہ میں ایک ایک سیڑھی پر اشرف تمہیں دعا دیتی ہوںاور آج ان کے یہ الفاظ یاد آتے ہیں تو ان کی دعائیں جو ایک ڈھال تھیں ،ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔آخری ہاسپٹل وزٹ میں آدھی رات کا وقت تھا،مجھے ساتھ جانے سے انھوں نے منع کیا تھا لیکن میں خاموشی سے پیچھے بیٹھ گئی۔لیکن جیسے ہی نظر پڑی بہت ڈانٹا کہ نیند خراب کیوں کی ۔اپنی ذات کی فکر سے زیادہ دوسروں کی فکر رہتی تھی ۔اسی وقت کہنے لگیں میری وجہ سے سب بچے پریشان ہورہے ہیں ۔اشرف نے کہا اماں تم نے بھی تو ہمیں مشکلوں سے پالا ہے ہمارے لیے کتنی تکلیفیں اٹھائی ہیں ۔مجھے آج بھی ان کے الفاظ اپنے اردگرد گونجتے محسوس ہوتے ہیں ۔انھوں نے کہا ، بیٹا میں تو ماں تھی یہ تو میرا فرض تھا ۔ایک بار میں نے بھی کہا آپ کیوں یہ سوچتی ہیں، سب کے بچوں کی پیدائش میں آپ نے ماں اور بچوں کی خدمت کی ،سب کے ساتھ ہسپتالوں میں رہیں ……مجھے بھی یہی جواب دیا کہ یہ تو میرا فرض تھا ۔
الحمد للہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میرا میری ساس کاساتھ 20سال کا تھا، لیکن کبھی ان کے سامنے ان سے اونچی آواز میں بات نہیں کی، اس بات سے دل کو بہت سکون و اطمینان ملتا ہے کہ کبھی ان کے ساتھ گستاخی نہیں کی بلکہ کسی اختلاف کی صورت میںخاموشی اختیار کی۔ان کی دعاؤں کی برکات اور معجزات ہی تھے کہ میرے بڑے بیٹے کو انٹری ٹیسٹ کے لیے بھاری فیسیں دے کر کسی ادارے سے تیاری کرنے کی ضرورت نہ ہوئی۔اس نے ہاسپٹل کی پارکنگ میں گاڑی میں بیٹھ کر تیاری خود کی لیکن ٹیسٹ میں الحمد للہ معجزانہ طور پر پاس ہو گیا ۔
آج بھی ان کی قبر پر پانی چھڑکتے اور پھول چڑھاتے ہوئے بچوں کو ان کی مخصوص دعا کی آواز محسوس ہوتی ہے کہ ’’اللہ تمہیں کامیاب کرے ‘‘۔
یہ ساری باتیں میں بچوں کو یاد دلاتی ہوں کیوں کہ یہ یادیں دراصل ہمارا سرمایہ ہیں ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ:
’’ہم اپنا کل خود لکھتے ہیں اور اسے پڑھ کر ہماری اولاد ہمیں سناتی ہے‘‘۔
والدین کے سامنے عاجزی سے جھکے رہنا اور ان کی خدمت کرنا،ان کی دعائیں لینا اور پھر ان کے جانے کے بعد ان دعاؤں کو یاد کر کے دلی سکون حاصل کرنا ،یہی زندگی کا حاصل ہے۔
والدین کے رخصت ہونے کے بعد کوئی کہتا ہے میرا میکہ نہیں رہا، کوئی ان کی باتیں یاد کرتا ہے لیکن اس فانی دنیا کی جب ہر چیز فانی ہے تو ان سب کا غم وقت کے ساتھ دھل جائے گا۔ صرف یاد کرنے کے قابل وہ لازوال دعائیں ہیں جن سے اولاد محروم ہو جاتی ہےاور ایک دن احساس ہوتا ہے کہ یہ دعائیں تو اس کا کل اور مستقبل تھیںجو ہر آنے والے دن میں اس کا استقبال مسکرا کر کر رہی ہیں ۔

٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x