اک آگ کا دریا تھا! آگ اور خون سے عبارت سچی داستانِ آزادی – بتول اگست ۲۰۲۲
ہماری نانی جان جنھیں ہم بڑی محبت اور دلار سے بڑی امی کہہ کر پکارتے تھے ، اسکول کی دو ماہ کی چھٹیاں گزارنے ان
ہماری نانی جان جنھیں ہم بڑی محبت اور دلار سے بڑی امی کہہ کر پکارتے تھے ، اسکول کی دو ماہ کی چھٹیاں گزارنے ان
گھڑی کی سوئیوں نے چند گھنٹے کی مسافت طے کی تھی! بارہ گھنٹے پہلے ہم جیل چورنگی اور شہید ملت روڈ کے سنگم پر واقع
عید کے لیےخریدی سلیم شاہی جوتیاں گھروں میں رکھی رہ گئی تھیں ،اور نرم و نفیس جوتیاں پہننے والوں کے آبلوں سے خون رس رہا
اب وہ دورگزر چکا ، جو کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا بچے پٹ کر بھی بالآخر کندن بن کر نکلتے تھے گزرے وقتوں
وہ آپ میں سے بہت سوں کے گھروں کے عقبی حصے کے گمنام سے گوشے میں ہے، گھٹنوں پر اس کا وہ سر دھرا ہے
والدین کی دنیا سے رخصتی کے بعد اولاد کے لیے سب سے بڑا خلا اورمحرومی دعا کا وہ در بند ہو جانا ہے جس کے
ادارہ بتول کے تحت شائع ہونے والی تمام تحریریں طبع زاد اور اورجنل ہوتی ہیں۔ ان کو کہیں بھی دوبارہ شائع یا شیئر کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ساتھ کتاب اور پبلشر/ رسالے کے متعلقہ شمارے اور لکھنے والے کے نام کا حوالہ واضح طور پر موجود ہو۔ حوالے کے بغیر یا کسی اور نام سے نقل کرنے کی صورت میں ادارے کو قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا۔
ادارہ بتول (ٹرسٹ) کے اغراض و مقاصد کتابوں ، کتابچوں اور رسالوں کی شکل میں تعلیمی و ادبی مواد کی طباعت، تدوین اور اشاعت ہیں تاکہ معاشرے میں علم کے ذریعےامن و سلامتی ، بامقصد زندگی کے شعوراورمثبت اقدار کا فروغ ہو
Designed and Developed by Pixelpk