ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بھول بجھولوں والے بوڑھے -بتول اپریل ۲۰۲۱

وہ آپ میں سے بہت سوں کے گھروں کے عقبی حصے کے گمنام سے گوشے میں ہے، گھٹنوں پر اس کا وہ سر دھرا ہے جس میں انمول اسباق محفوظ ہیں، مچلتے ار مانوں والا دل لیے وہ خاموش اور بیکار بیٹھا ہے!

ایک پرانی مثل ہے !
منگنی ہوئی کتاب سے گئے ! شادی ہوئی ماں باپ سے گئے! بچے ہوئے اپنے آپ سے گئے! گویا’’ ایک لال پالے، سارا جوبن گھالے‘‘ ۔
یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب ہماری تہذیب نے آج جیسی ترقی نہیں کی تھی جب دولہا میاں گھر میں وہ واحد شخص ہوتے تھے، جو خاندان کے دوسرے لوگوں کی موجودگی میں مہینوں اپنی دلہن سے بات چیت نہیں کرسکتے تھے اور شادی سے قبل لڑکے لڑکی کا ملنا تو درکنار ایک دوسرے کو دیکھنا بھی ایسا خیال کیا جاتا گویا آگ اور پھونس کا بیر ہے ۔ دو نسلوں میں خلیج کا مسئلہ اس وقت بھی موجود تھا۔ چھوٹوں اور بڑوں کے درمیان تال میل کی کمی ان دنوں بھی محسوس کی جاتی تھی لیکن بزرگوں کے تجربات اور دانائی پر مشتمل فیصلوں کو اہمیت نہ دینا بڑی بے ادبی تصور کی جاتی، ان سے بحث کرنے والے کو بری نگاہ سے دیکھا جاتا ۔
بزرگ کی حیثیت خاندان کے مربی کی تھی، بزرگ کنبے کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار رہتے، انصاف، برابری کا معاملہ کرنا ،اور کنبے کی ساکھ پر آنچ نہ آنے دینا اپنا فرض سمجھتے تھے، کسی کی ذرا سی تکلیف پر اس سے زیادہ بے چین ہو جاتے، کوئی ناگاہ مصیبت آ پڑتی تو بزرگوں سےلاکھ چھپانے کی کوشش کی جاتی لیکن ان کی غیر معمولی حسیات معاملے کو بھاپ لیتیں اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے جب تک مسئلہ حل نہ ہو جاتا ۔دوسروں کی خاطر دن کا چین اور راتوں کی نیندیں حرام کر لینے والے ان بزرگوں پر جب خود کوئی دکھ بیماری آ جاتی تو منہ سے بھاپ تک نہ نکالتے، اس ڈر سے کہ سارے گھر کا سکھ چین جاتا رہے گا، اور صبر کا دامن تھامے معمول کی زندگی سے جڑے رہنے کی کوشش کرتے ،اس یگانگت کےجہاں خوشگوار پہلو ہیں وہی ایک مسئلہ یہ کہ کمانے والے چند اور کھانے والوں کا کچھ شمار نہ تھا ایسے میں یہ بزرگ ہی ہوتے جو گھر کے ہر فرد کی ضروریات کا خیال رکھتے، کپڑے سلنے ہیں تو سب کے ایک ساتھ سلیں گے ،البتہ چھوٹے بچوں کی فرمائش کو خاص اہمیت دی جاتی کہ اس کا ننھا سا دل نہ ٹوٹ جائے۔
پرانے دنوں کی صبحیں بھی ان بزرگوں کے دم قدم سے پررونق اور آباد تھیں۔سویرے ہی سودے والے گلیوں میں آوازیں لگانے لگتے تو یہ بزرگ ان کی خیر خیریت دریافت کرتے اور بچوں کے لیے خشک میوے اور مٹھائیاں لیتے ۔صبح کا یہ وقت بچوں کی تربیت کے لیے بڑا سازگار تھا ۔مائیں بچوں کے منہ ہاتھ دھلا کر صاف کپڑے پہنا کر تیار کرتیں تو بچوں کے کانوں میں بڑے دل نشین انداز میں بزرگوں کی نصیحتیں رس گھولتیں۔
دانت میں منجن ،آنکھ میں اَنجن نت کر نت کر….. کان میں تنکا، ناک میں انگلی، مت کر مت کر۔
اب بچے سلام و آداب کے لیے بزرگوں کے سامنے پیش کیے جاتے۔ سر پر ہاتھ رکھ کر دوسرا ہاتھ خوب اونچا کر کے دعا دیتے۔
اتنا بڑا ہوجا کڑوے نیم سے بھی بڑا ہو جا!
پھر ان کی آنکھیں بند کروا کر ان کے ننھے ہاتھوں میں خشک میووں کی پڑیاں رکھ دیتے، انعام پا کر بچوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہتا ہے ، اچھلتے کودتے ماؤں کو دکھانے بھاگتے۔ یہ بزرگ لوگ صرف حکم اور نصیحتیں ہی نہیں کیا کرتے تھے، بچوں سے کھیلتے بھی خوب تھے ۔پیٹھ کے بل لیٹ کر گھٹنوں پر بٹھا کر’’ جوجو ‘‘کراناان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
جو جو کے پائی کے!
کانا کوٹ بلائی کے!
راستے میں ایک کوڑی پائی! کوڑی میں نے بھڑ بھونجے(چنے بھوننے والے )کو دی !
بھڑ بھونجے نے چنے دیے !
چنے میں نے گائے کو کھلائے! گائے نے مجھے دودھ دیا !
دودھ کی میں نے کھیر پکائی! کھیر میں نے مور کو چٹائی!
مور نے مجھے پنکھ دیا !
پنکھ میں نے راجہ کو دیا!
راجہ کو میں نے گھوڑی چڑھایا!
ہٹو ہٹو راجہ بیٹے کی سواری آ رہی ہے!
ایسے میں ان کا سانس پھولنے لگتا ،اور وہ دم بھر کوبچے کو پہلو میں لٹا کر اپنا سانس درست کرتے، ان ہی دادا دادی نانا نانی کے سامنے بچے کھیل کھیلتے اور لڑائی کے فیصلے لے کر ان ہی کے پاس آتے ،ایسے میں گڑولنوں کے سہارے چلنا سیکھنے والا کوئی بچہ اچانک گڑولنے سے گر پڑتا تو سب اس کی طرف دوڑتے ،دادا دادی لپک کر بچے کو گود میں اٹھاتے اور دوسرے ہاتھ سے زمین کو کوٹتے جاتےاور کہتے’’ بول اب گرائے گا؟‘‘ اور روتا ہوا بچہ ہنس پڑتا۔
بچوں کے غدود مضبوط بنانے کے لئے ان کے کانوں پر ہتھیلیاں رکھ کر اوپر اٹھایا جاتا اور کسی مشہور جگہ کا نام لے کر کہتے آؤ تمہیں لال قلعہ یا تاج محل دکھائیں!! لیجئے دن بھر کے دھندے سمٹے اور رات ہوئی ،لیکن بھلا اپنے دادا دادی کے لاڈلے بچے کہانی سنے بغیر سوئیں گے؟ ہر کسی کی کوشش ہے وہ ان کے پاس لیٹے، لیکن سب سے پہلے ان بچوں کو زبان کی ضربیں لگائی جائیں گی جن کی زبان ابھی صاف تلفظ ادا نہیں کر پاتیں۔
چھجو کے چھورےکی چھوری نے چھت پر چھپ سے چھچھوندر چھوڑی۔
کچھ اونٹ اونچا، کچھ پونچھ اونچی اس کےاونٹ کی ۔
چندو کے چاچا نے چندو کی چاچی کو چاندی کے چمچے سے چٹ پٹی چٹنی چٹائی۔
تب بچے جلدی جلدی ان کی فقروں کی ادائیگی کی کوشش میں اٹک جاتے اور محفل زعفران زار بن جاتی۔ دماغی ورزش کے لیے بھول بجھول یعنی پہیلیاں یا کسوٹی بجھوائی جاتی ۔
در میں دیوار میں گوشوں میں پلی ہے ،نام اس کا بوجھو پوشیدہ کلی ہے ،بچے چلا اٹھتے…..چھپکلی !!!!
راجہ ،رانی کی کہانی….. اتفاق میں برکت….. عقلمند ہاتھی….. ایک تھا کوّا ،چڑیا اور چڑےجیسی کہانیاں ہر روز دہرائی جاتیں جن میں بچوں کو راست روی، اتفاق و اتحاد، جرأت وبہادری، امانت و دیانت کا درس دیا جاتا۔
پھر دھیرے دھیرے رات اپنی مٹھی بند کر لیتی اور بچے میٹھی نیند کی وادی میں اترجاتے۔
یہ بزرگ اس وقت کے تربیتی ادارے،بچوں کے مزاج شناس تھے جن کی زندگی کا مقصد اپنی نسل کو اپنے سے بہتر زندگی گزارنے کے رنگ ڈھنگ سکھا نا تھا، بالآخر جس روز یہ بچے کوئی بڑا اعزاز یا مقام حاصل کر لیتے تو ان بزرگوں کی خوشی دیدنی ہوتی۔ بچے یہ تمغہ ان بزرگوں کے سینے پر سجا کر خود ان کی شفقت بھری گود میں سر رکھ دیتے۔بزرگ ان پر اشکوں کے موتی نچھاور کرتے کہ آج انہیں اپنی کھیتی لہلہاتی نظر آ رہی ہے۔
پرانے بزرگوں کے یہ قصے پڑھ کر شاید آپ کا جی بھی چاہے کہ یہ تربیتی ادارے ہمیں بھی میسر آ جائیں کچھ تو دلدر دور ہو ں ۔جن بچوں کے لئے رات دن خون پسینہ ایک کر کے دنیا جہاں کی نعمتیں ان کے آگے ڈھیر کر رہے ہیں یہ ایسے کیوں نہیں جیسے ہم چاہتے ہیں؟ فرمانبردار، ایمان دار، تہذیب و شائستگی ، بڑوں کا احترام چھوٹوں سے پیار کرنے والے کیوں نہیں ؟ہمارے بچے ہم سے بے نیاز اور لاتعلق کیوں ہیں ؟وہ تو ہمارے مقابلے میں موبائل کمپیوٹر،اور اپنی تفریحات اورایڈونچر کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔نہ مہمانوں کو سلام نہ بڑوں کی دعائیں لینے کا شوق!! ذرا ذرا سی بات پر….. اگر آپ نے میری بات نہ مانی تو…..کی دھمکی…..اور’’ بس میں نے کہہ دیا ہے،آگے کچھ نہیں سننا!‘‘ یہ تکلیف دہ لمحات آج کے والدین کی عمریں گھٹا اور صحتیں چاٹ رہے ہیں۔
لیکن آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ ان بزرگوں کا کچھ نام و نشان تو بتاؤ یہ آخر کہاں پائے جاتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ بزرگوں کی یہ باتیں میں کسی قدیم عجائب گھر سے چرا کر نہیں لائی۔ یہ سب باتیں درحقیقت میں نے اسی بوڑھے سے پوچھ کر لکھی ہیں جو آپ میں سے بہت سوں کے گھروں کے عقبی حصے کے گمنام سے گوشے میں ’’جو جو پائی کے‘‘ والے گھٹنے موڑے بیٹھا ہے اور ان گھٹنوں پر اس کا وہ سر دھرا ہے جس میں بھول بجھولوں ،کہانیوں ،ضرب المثلوں اور پہیلیوں کے انمول اسباق محفوظ ہیں، مچلتے ار مانوں والا دل لیے وہ خاموش اور بیکار بیٹھا ہے!
لیکن نہیں!! اس کے بارے میں پھر کبھی سوچنا’’ ابھی تو دیر ہو رہی ہے‘‘ آج بچوں کو بورڈنگ ہاؤس سے لینے جانا ہے نا….. آج تو ویک اینڈ ہے نا…..آج تو لمبی سیر کا دن ہے، دو دن بعد جب بچے واپس بورڈنگ چلے جائیں گے اور گھر میں سکون ہی سکون ہو گا….. تب پھر بات کریں گے سکون سے اس پر!

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
1 Comment
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
Nayyar Sultana
Nayyar Sultana
3 years ago

بہت خوبصورت تحریر، کمال منظر نگاریاور اچھوتا اختتام

1
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x